علمِ لدنی اور اس کے حصول کے لیے درکار صفات

سوال نمبر 364

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں علم کے عنوان کے تحت صفحہ نمبر 110 اور 111 پر قرآنی آیات کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو وحی کی، وحی موقت (جو وقتاً فوقتاً آتی ہے) کے علاوہ ایک اور علم بھی عطاء کیا ہوتا ہے جس کو صوفیاء کی اصطلاح ميں علمِ لدنی کہا جاتا ہے اور یہ علم طبعی ذرائع کے بغیر اللہ تعالیٰ انسان کو کسی بھی وقت دفعتًا دیتے ہيں۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ علم طبعی ذرائع کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ کون سی صفات ہیں جو ایک انسان کو اس علم کا اہل بنا سکتی ہیں اور کیا ان کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہیے یا نہيں؟

جواب:

اصل میں علم کے لغوی معنی جاننے کے ہیں مگر ہر فن کے تعلق سے جاننے کی نوعیت اور معلومات کی حیثیت مختلف ہوتی ہے۔ انبیاء علیہ السلام کے تعلق سے اس کا جب استعمال ہوتا ہے تو اس سے طبعاً خدا تعالیٰ کی توحید، ذات و صفات، دین و شریعت کے احکام اور اخلاقی تعلیمات مراد ہوں گی جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید پر استدلال کر کے اپنے باپ سے فرماتے ہیں ﴿يٰۤـاَبَتِ اِنِّىۡ قَدۡ جَآءَنِىۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ يَاۡتِكَ (مریم: 43) ”اے میرے باپ میرے پاس علم کا وہ حصہ ہے جو تیرے پاس نہیں آیا“ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں ہے ﴿وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً (الکہف: 65)ہم نے اپنے پاس سے اس کو علم سکھایا“ خدا کے پاس تو ہر چیز ہے پھر اپنے پاس سے علم سکھانے کا مفہوم کیا ہے؟ ہر وہ شئی جو انسان کی ذاتی محنت، کوشش، جدو جہد وغیرہ معمولی ذرائع کے بغیر حاصل ہوتی ہے وہ منجانب اللہ کہی جاتی ہے۔ اسی طرح خدا کے پاس سے علم عطا ہونے کے معنی اس علم کے ملنے کے ہیں جو انسان کو اس کے طبعی ذرائع علم و استدلال اور تلاش و تحقیق کے بغیر خود بخود عطا ہو، یہی خدا داد علم ہے اور اسی لئے صوفیاء کی اصطلاح میں اس کو علم لدنی یعنی پاس والا علم کہا جاتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی نسبت ہے ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُوْدَ وَ سُلَيْمَانَ عِلْمًا (النمل: 15) ”اور بے شک ہم نے داؤد اور سلیمان کو وہی علم دیا“ اور اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی آغاز نبوت کے موقع پر ہے ﴿وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ (یوسف: 6) ”اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھ کو نواز دے گا اور تجھ کو باتوں کی حقیقت کی تاویل سکھائے گا اور تجھ پر اپنا انعام پورا کرے گا۔“

اصل میں جو انسان اللہ کا بندہ بن جائے تو اللہ جل شانہ اس کو اپنا بنا لیتا ہے "مَنْ کَانَ لِلهِ کَانَ اللهُ لَهٗ" ”جو اللہ کا بن گیا اللہ اس کا ہو گیا“ اللہ پاک کے پاس مختلف خزانے ہیں، قوت کے خزانے بھی ہیں، علم کے خزانے بھی ہیں اور سمجھ کے خزانے بھی ہیں۔ ان خزانوں سے حاصل کرنے کا راستہ بندگی ہے چونکہ پیغمبروں کو پہلے سے یہ چیز حاصل ہوتی ہے چنانچہ ان کو اپنی طرف سے اللہ پاک یہ علوم عطا فرماتے رہتے ہیں۔ عام لوگوں کے اندر اگر کوئی شخص بندگی اختیار کر لے یعنی محض اللہ تعالیٰ کے حکم پر ہی عمل میں اپنی کامیابی سمجھے اور اپنی رائے کو surrender کر دے اور جو اللہ چاہے بس یہ بھی وہی چاہے۔ تو یہ surrender کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت ہی زیادہ مقبول ہے۔ جب ہم کہتے ہیں ﴿حَسْبُنَا اللهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران: 173) ﴿نِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال: 40) ہمارے لئے اللہ پاک کافی ہے جو بہترین کار ساز ہے بہترین آقا ہے اور بہترین مدد گار ہے۔ یعنی انسان جب اپنے آپ سے نظر اٹھا لیتا ہے اور اللہ پہ نظر پڑ جاتی ہے تو پھر وہ کچھ ہوتا ہے جو انسان کی سمجھ سے بالا ہے۔ اس میں صوفیاء کرام ایک بات فرماتے ہیں کہ حالت عروج میں انسان جب متوجہ اِلیَ اللہ ہو، مخلوق کی طرف متوجہ نہ ہو اور جب اللہ پاک کی صفات پر نظر ہوتی ہے اور اس کے ساتھ تعلق ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اس کے ساتھ گویا کہ tuned کر لیتا ہے، اور اللہ پاک کی صفات لا متناہی ہیں جس کی وجہ سے کچھ ایسے کام ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو انسان کے بس میں نہیں ہیں، انہی کو کرامات کہتے ہیں۔ یعنی الہام بھی ہے، کرامات بھی ہے۔ گویا کہ انسان جب اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ کے خزانے اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، ایسی صورت میں اس کے ہاتھ پر بڑے عجیب عجیب کام ہوتے ہیں لیکن جب اللہ پاک اس کا عروج قبول فرما کر اس کو نزول عطا فرما دیتے ہیں اور اس کا رخ موڑ کر مخلوق کی طرف کر دیتے ہیں اور مخلوق کے لئے چونکہ اللہ پاک نے اسباب بنائے ہیں تو اس کا بھی اسباب کی طرف رخ ہو جاتا ہے اور پھر وہ اسباب اختیار کرتا ہے، نتیجتاً وہ پھر ایک عام قسم کی زندگی عام لوگوں کی طرح گزارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام کے اوپر اعتراض ہوتا تھا کہ یہ کیسے نبی ہیں، یہ تو بازاروں میں پھرتے ہیں، شادی کرتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اس عام زندگی میں وہ مختلف ہوتے ہیں، ان میں عبدیت ہوتی ہے جبکہ لوگوں میں عبدیت نہیں ہوتی لہذا اللہ تعالیٰ عبدیت کے لحاظ سے اس کو درمیان میں ضرورت کے مطابق وہ چیزیں عطا فرماتے رہتے جن کی ضرورت ہوتی ہے۔

Germany میں عرب حضرات چونکہ ہمارے ساتھ ہوتے تھے تو ہجری سن کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ ان میں ایک صاحب بڑے جذباتی انداز میں کہہ رہے تھے کہ موسی علیہ السلام کی ہجرت کراماتی تھی اور آپ ﷺ کی ہجرت عادی طریقے سے تھی یعنی وہ اپنی research بتا رہے تھے۔ جب انہوں نے بات مکمل کر لی تو میں نے ہاتھ اٹھا دیا کہ میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: بالکل فرمائیں۔ میں نے کہا کہ معجزہ بلا ضرورت نہیں آتا جب اس کی ضرورت ہوتی ہے تب آتا ہے۔ موسی علیہ السلام بھی ایک عادی طریقہ سے باہر نکلے تھے، رات کے اندھیرے میں نکلے تھے، اپنے لوگوں کو اکٹھا کر کے چپکے سے نکلے تھے، یہی عادی طریقہ ہے، ایسا ہی ہوتا ہے۔ عام لوگ بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ لیکن سامنے پانی آنے کی وجہ سے جس وقت راستہ بند ہو گیا تو عام لوگ ڈر گئے، انہوں نے کہا اب تو ہم پھنس گئے اور موسی علیہ السلام اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اللہ میرے ساتھ ہے۔ اللہ جل شانہ نے ان کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو پانی پہ مارو، عصا کو پانی پہ مارا تو اس میں راستے بن گئے۔ یہ معجزہ آ گیا لیکن جس وقت معجزہ کی ضرورت پڑی تب آیا۔ بالکل ایسے ہی آپ ﷺ کے ساتھ ہوا، آپ ﷺ نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چار پائی پہ اس وقت لٹایا جب کہ سب لوگ شہید کرنے کے ارادے آئے تھے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی غلط فہمی میں شہید کر سکتے تھے۔ اور باہر نکلتے وقت اللہ کے حکم سے مٹھی بھر کر جو پھینکی تھی ﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللهَ رَمٰى (النفال: 17) تو وہ تمام کافروں کی آنکھوں پہنچ گئی تھی۔ اب اس کی ضرورت تھی چونکہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا تو اللہ پاک نے یہ راستہ بنا دیا۔ عربی نے فوراً کہا: عِندَکَ حَقٌ یَا شَیخ اور پھر سراقہ کا واقعہ اور مختلف واقعات یعنی معجزات والے واقعات سنانے لگے۔ تو ایسے لوگ جو نزول والے ہوتے ہیں ان کے ساتھ معاملہ مختلف ہوتا ہے اور جو عروج والے ہوتے ہیں ان کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔

حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ حالت عروج میں تھے اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ حالت نزول میں تھے۔ ایک جگہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کشتی کے انتظار میں کھڑے تھے، حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ آئے اور کہا آپ کو اللہ پاک پر بھروسہ نہیں ہے؟ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو علم نہیں ہے؟ دونوں نے اپنا اپنا حال بیان کر دیا۔ تو حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ با قاعدہ آرام سے پانی کے اوپر چل پڑے اور پار نکل گئے اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت تک انتظار میں کھڑے رہے جب تک کشتی نہیں آئی۔ جب کشتی آئی تو اس میں بیٹھ کر پار نکل گئے۔ بس یہی عروج اور نزول کا فرق ہوتا ہے۔ بہر حال علم لدنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے اور یہ اس کے لئے مادی ذرائع نہیں ہوتے یہ آناً فاناً ملتا ہے اور موقع پر ملتا ہے، جس وقت اللہ چاہے اس وقت عطا فرما دیتے ہیں۔ جیسے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں بنایا اس کے لئے اللہ پاک نے اسباب والا راستہ بنا دیا اور ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (بنی اسرائیل: 85) روح تو اللہ کا امر ہے۔ اور فرشتے اپنے امر سے بنائے، اس کے لئے تخلیق کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ جتنے فرشتے اللہ پاک بنانا چاہے اسی وقت بنا لیتا ہے۔ چنانچہ ہمیں علم لدنی کا انکار نہیں کرنا چاہیے البتہ سنت عادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کو اسباب میں چھپا دیتے ہیں، لہذا عام لوگ ان اسباب کو دیکھتے ہیں وہ اس قدرت کو نہیں دیکھتے اور حیران ہو جاتے ہیں۔ یہ جتنے لوگ ان کرامات کے منکر ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بھئی ہم کہتے ہیں یہ انسان کا کیا ہوا ہے ہی نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ تو سب کچھ کر سکتا ہے، ہمیں تو اس بات سے کوئی پریشانی نہیں ہے، پریشانی ان کو ہے جو کہتے ہیں کہ اسباب سے ہوتا ہے اور کرامات تو اسباب سے نہیں ہوتیں، لہٰذا فیل ہو جاتے ہیں، پریشان ہو جاتے ہیں اور انکار کر دیتے ہیں۔ ایسا عام طور پہ نہیں ہوتا جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں لیکن کرامت میں دو اور دو پندرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ معاملہ ہی مختلف ہے۔

ایک بزرگ کے پاس ایک عورت اپنے بیٹے کو لائی کہ یہ مادر زاد اندھا ہے آپ اس کے اوپر ہاتھ پھیریں تاکہ اس کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں وہ حالتِ توحید میں بیٹھے ہوئی تھے انہوں نے کہا: میں کیا موسی یا عیسی ہوں کہ میں اس کو صحیح کروں گا۔ وہ عورت روتی ہوئی چلی گئی کہ میرا کام نہیں ہوا۔ اُدھر سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ موسی کون عیسی کون یہ تو میں کرتا ہوں۔ ان بزرگ کو اس بات سے اتنا زیادہ shock لگا کہ اس عورت کی طرف دوڑے اور کہتے جاتے تھے عیسی کون موسی کون یہ تو میں کرتا ہوں، عیسی کون موسی کون یہ تو میں کرتا ہوں۔ اس کی آنکھوں پہ ہاتھ پھیرا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ اب شاگرد حیران ہو گئے کہ ہمارے حضرت کو کیا ہوا؟ یہ کون سا کلمہ ہے کہ عیسی کون موسی کون یہ تو میں کرتا ہوں۔ جس وقت حالتِ افاقہ میں آ گئے تو کسی نے پوچھا کہ یہ کیا فرما رہے تھے؟ انہوں نے کہا: کیا کہہ رہا تھا؟ عرض کیا: آپ کہہ رہے تھے عیسی کون موسی کون یہ تو میں کرتا ہوں۔ فرمایا: اوہو غلطی ہو گئی یہ تو میں الہام کو مزے میں سنا رہا تھا، کہنے والے تو اللہ ہیں کہ عیسی کون موسی کون یہ تو میں کرتا ہوں اور وہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے۔ تو اگر ”اَنَا الحَق“ کی تشریح ہم یہ کر لیں تو بات سمجھ آ جائے گی کہ کہنے والے اللہ ہیں اور زبان حضرت حسین ابن منصور کی استعمال ہو گئی حالانکہ وہ خود یہ نہیں کہہ رہے تھے۔ بس یہی چیزیں ہوتی ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں۔ اللہ پاک ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن