دنیا کی نعمتوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈر اور اس سے حاصل ہونے والا سبق

سوال نمبر 363

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہميں دنیا سے کیا غرض؟ مجھ سے پہلے میرے بھائیوں نے جو جلیل القدر پیغمبر تھے اور اس دنیا ميں آئے اُنہوں نے مجھ سے زیادہ سختیاں برداشت کیں مگر صبر کیا اسی حال میں اپنے خدا سے جا ملے اور وہاں انہیں بلند مقامات سے نوازا گیا اور طرح طرح کی نعمتیں اُن کو عطا کی گئیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ مجھے اس دنیا میں فراخی دے دی جائے اور وہاں کی لا زوال نعمتوں میں کمی کی جائے۔ اس روایت سے آپ ﷺ نے اپنا ڈر ظاہر فرمایا کہ یہاں کی نعمتوں کی فراوانی سے آخرت کی نعمتوں ميں کمی نہ ہو جائے۔ اس روایت سے ہمیں کیا سبق مل رہا ہے؟

جواب:

اگر اللہ جل شانہ چاہتے تو لوگوں کو فراخ روزی دیتے لیکن لوگ سرکشی اختیار کر لیتے۔ یعنی فراخ روزی، سرکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ چونکہ ہر چیز کے اندر نفس کے لئے اپنی کشش ہے لہذا جتنی نعمتیں بڑھتی ہیں اتنی ان کی کشش زیادہ ہوتی ہے۔

حضرت خواجہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے ایک مجذوب کی تشکیل ہو گئی کہ ان کو راستہ دکھایا جائے۔ جیسے مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پیچھے شمس تبریز رحمۃ اللّٰہ علیہ کو لگا دیا تھا۔ وہ مجذوب آئے اور کبھی ایک دوائی کی بوتل کو دیکھتے ہیں کبھی دوسری بوتل کو۔ حضرت کافی با رعب تھے، انہوں نے پوچھا: یہ کیا کر رہے ہیں؟ ادھر ادھر دیکھتے ہو ہونقوں کی طرح، کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: میں سوچ رہا ہوں کہ اتنی دوائیوں میں تیری روح پھنسی ہوئی ہے، یہ نکلے گی کیسے؟ خواجہ صاحب نے کہا: جا اپنی فکر کر کہ تیری روح کیسے نکلے گی دوسروں کی فکر چھوڑ دے۔ انہوں نے کہا: میری روح ایسے نکلے گی اور ان کے سامنے لیٹ گئے سنت کے مطابق اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ دیا اور فوت ہو گئے۔ ایسا واقعہ کسی کے سامنے ہو جائے تو کیا کرے گا؟ ان پر دنیا کی اتنی زیادہ بے ثباتی کھل گئی کہ بس دکان کو تالا لگا دیا اور چلے گئے۔ پھر اللہ پاک نے شیخ سے ملا دیا اور اللہ پاک نے ان کو بہت نوازا اور جن کے بارے میں حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم تو عشق کے ایک کوچے کے اندر ہی پھرے ہیں لیکن حضرت فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ پورے شہر میں پھرے ہیں۔ تو جتنی چیزیں ہوتی ہیں اتنی ہی نفس کے ساتھ attachment ہوتی ہے۔

بعض خوش قسمت مالدار بھی ہوتے ہیں اور بد قسمت غریب بھی ہوتے ہیں۔ خوش قسمت مالداروں کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے لیکن پرواہ نہیں ہوتی خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرح۔ ایک ملنگ ان سے بیعت ہونے کے لئے آیا تو دیکھا کہ ان کے خیمے کے طنابیں بھی سونے کی ہیں۔ اس نے کہا کہ ”نہ آں مردے کہ دنیا دوست دارد“ وہ مرد نہیں ہے جو دنیا کو دوست رکھتا ہے۔ اور بیعت ہوئے بغیر واپس چلے گئے۔ چلتے چلتے تھک گئے اور آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے اور سو گئے۔ خواب دیکھتے ہیں کہ قیامت قائم ہے، اللہ جل شانہ ان کے اعمال تول رہے ہیں اور اعمال میں کمی ہے۔ فرمایا: جتنی نیکیوں کی کمی ہے کہیں سے لے آؤ ورنہ پھر راستہ دوسرا ہے۔ اب یہ ڈر کے مارے کبھی ایک سے مانگتے ہیں کبھی دوسرے سے، کوئی بھی نہیں دیتا، وہاں تو حالت ہی ایسی ہو گی۔ سب معذرت کر رہے ہیں کہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔ یہ راستے میں کھڑے ہیں کہ کوئی واقف مل جائے تو میں اس سے کچھ مانگوں۔ دیکھا خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے مریدوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ آرام سے جنت میں جا رہے ہیں۔ یہ بھی ان کے راستے میں کھڑے ہو گئے کہ شاید پہچان لیں۔ انہوں نے دور سے آواز دی کہ بھئی کس لئے کھڑے ہو حیران پریشان؟ انہوں نے کہا: کچھ نیکیوں کی کمی ہے۔ فرمایا: جو میں پہاڑوں جتنی نیکیاں لایا ہوں ان میں سے ضرورت کے مطابق جتنی مرضی لے لو۔ اور یہ جاگ گئے اور سوچا کہ یہ تو تنبیہ ہو گئی اور الٹے قدموں واپس پہنچ گئے۔ حضرت نے ان کو دیکھا تو مسکرا کر پوچھا:کس لئے آئے؟ عرض کی: جی بیعت ہونے کے لئے آیا ہوں۔ فرمایا: پہلے وہ شعر پڑھو جو یہاں سے جاتے ہوئے پڑھا تھا۔ کہا: حضرت چھوڑیں بس جاہلیت کے دور کی بات ہے۔ انہوں نے کہا: جب تک پڑھو گے نہیں بیعت نہیں کروں گا۔ تو اس نے کہا: ”نہ آں مرد کہ دنیا دوست دارد“ وہ مرد نہیں جو دنیا کو دوست رکھتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: اس کا دوسرا مصرعہ بھی آتا ہے یا صرف ایک ہی؟ انہوں نے کہا: دوسرے کا پتا نہیں ہے۔ فرمایا: دوسرا یہ ہے، ”اگر دارد برائے دوست دارد“ اگر رکھتا ہے تو اللہ کے لئے رکھتا ہے۔ پھر ان کو بیعت کیا۔ پھر انہوں نے کہا: آخر تجھے یہ وسوسہ کیوں آیا؟ انہوں نے کہا: اتنے مال میں اللہ کی طرف متوجہ ہونا تو بڑا مشکل ہے۔ فرمایا: پھر آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اگر آپ کو یہ چیز حاصل ہے اور مجھے حاصل نہیں تھی تو آخر فرق کیا ہے؟ انہوں نے کہا: دین کے کام کے لئے جہاں بھی نکلنا چاہو نکل سکتے ہو، آدمی پریشان نہیں ہوتا۔ فرمایا: اچھا اس وقت دین کا سب سے اچھا کام کونسا ہے؟ عرض کی: جہاد ہے۔ فرمایا: چلو چلتے ہیں۔ اپنی چادر لے لی اور ساتھ چل پڑے، راستے میں اس نے کہا: حضرت کچھ دیر رک جائیے میرا کشکول وہاں رہ گیا ہے وہ میں لے آؤں۔ فرمایا: میں تو ایسے ہی چل پڑا، میں نے تو کسی کو کہا بھی نہیں کہ میں جا رہا ہوں، کسی پر کچھ نہیں چھوڑا اور تو کشکول کی فکر کر رہا ہے اور واپس جا رہا ہے؟ اب بتاؤ دنیا دار کون ہے؟

یہ خوش قسمت مالدار ہوتے ہیں اور بد قسمت غریب وہ ہوتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہو اور طمع کر رہے ہوں، لوگوں میں ان کا دل پھنسا ہو کہ فلاں مجھے کچھ دے گا، فلاں مجھے کچھ دے گا۔ بجائے اللہ پاک سے مانگنے کے لوگوں سے مانگ رہا ہو، لوگوں پہ نظر ہو۔ اسی کو اِشراف نفس کہتے ہیں یعنی دل کا سوال۔ آپ زبان سے کچھ نہیں کہتے لیکن دل سے کہتے ہیں کہ یہ مجھے کچھ دے دے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس چیز کو ظاہر کرنے کے لئے عجیب عجیب مثالیں دی ہیں۔ فرمایا: دو آدمی جا رہے تھے، سامنے سے کتا آ رہا تھا۔ ایک نے اس کو کہا: السلام علیکم۔ دوسرے نے پوچھا: آپ نے کس کو سلام کیا؟ اس نے کہا: کتے کو۔ کہا: کتے کو سلام کیا جاتا ہے؟ اس نے جواب دیا: چونکہ جن کسی بھی رنگ میں آ سکتے ھیں، ممکن ہے یہ جن ہو اور اگر میں اس کو سلام کر لوں تو یہ مجھے شاید کچھ دے دے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: جب طمع ہوتی ہے تو آدمی یہاں تک جاتا ہے حالانکہ وہ بے وقوف نہیں جانتا تھا کہ اشرف جنات کتے وغیرہ کی صورت میں نہیں آتے بلکہ کسی اچھی صورت میں آتے ہیں۔ جو رذیل قسم کے جنات ہوتے ہیں وہ ایسی صورت میں آتے ہیں، تو طمع انسان کو یہاں تک گرا دیتی ہے۔ اس لئے ہر گز کسی سے طمع نہیں ہونی چاہیے کیونکہ کوئی مجھے کیا دے گا ؟ اور دینا بھی چاہے تو اگر اللہ نہیں چاہے گا تو نہیں دے سکتا اور اللہ چاہے گا تو اگر پوری دنیا نہ چاہے پھر بھی اللہ دے گا۔ کیونکہ اللہ کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

حضرت معاذ رضی اللّٰہ عنہ کو آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی: اے معاذ یاد رکھو اگر یہ ساری دنیا اس پر جمع ہو جائے کہ تجھے کچھ نفع پہنچائے اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو نہیں پہنچا سکتی اور اگر یہ سب اس پر جمع ہو جائیں کہ تجھ سے کوئی چیز روکنا چاہیں اور اللہ نہ روکنا چاہے تو نہیں روک سکتے۔ چنانچہ اپنے دلوں کے محور کو اللہ کا بنا دو یعنی اللہ ہی سے چاہو۔ جب ہم کہتے ہیں: ما شاء اللہ۔ مطلب کیا ہے؟ جو اللہ چاہے۔ جب نظر لگتی ہے تو اس کا توڑ دل سے ما شاء اللہ کہنا ہی ہے۔ تو جب آپ کی نظر اللہ پہ جائے گی تو نظر بھی نہیں لگے گی، جس کی نظر لگتی ہے اس کی نظر اللہ پہ نہیں ہوتی بلکہ بندے پہ ہوتی ہے، اس سے بچنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بات خیال میں رکھنی چاہیے کہ اللہ دے گا تو دے گا نہیں دے گا تو نہیں دے گا، ہم نے اللہ سے مانگنا ہے، اللہ پاک کی مرضی ہے، پھر تفویض کرو پھر یہ نہ کرو کہ دن گننے شروع کر دو کہ ابھی دیں گے، ابھی دیں گے۔ ﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللهِؕ اِنَّ اللهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ (غافر: 44) وہ تجھ سے زیادہ تجھے جانتا ہے جب وہ چاہے گا کہ تو سنبھالنے کے قابل ہو گیا تو دے دے گا ورنہ تو اگر اس کے ساتھ خراب ہو گا تو اس کا فضل یہ ہے کہ نہ دے کیونکہ خراب چیز تو کسی کو بھی اس کا چاہنے والا نہیں دیتا، ہاں اگر تو اس قابل ہو گیا اور اللہ پاک کا محبوب ہے تو پھر دے گا اور کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ یہ بہت بڑی بات ہے ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خراب کرتا ہے۔ ہمارے تونسوی رحمۃ اللّٰہ علیہ یا مہاروی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ تونسہ شریف میں چشتی سلسلے کے بزرگ ہیں۔ ان کے شیخ کے ہاں ایک خادم تھے، شیخ کے پاس لوگ آتے تو ان سے چیزیں وغیرہ مانگتے تھے۔ حضرت ان کو روکتے تھے کہ ایسا نہ کرو۔ ایک دفعہ کسی مہمان سے timepiece لے لیا، حضرت کو کچھ شرح صدر ہوا، ان سے پوچھا تو انہوں نے انکار کیا، اسی وقت timepiece میں کچھ alarm لگا ہوا تھا وہ بول پڑا۔ تو ان کو حضرت نے نکال دیا۔

یہ طمع کی وجہ سے خراب ہو گیا اگر طمع نہ کرتا تو حضرت کے فیوض و برکات اس کو ملتے رہتے لہذا یہ چیز بہت خطرناک ہے، کوئی دینا بھی چاہے تو نہیں لینا چاہیے، کیونکہ عادت خراب ہو جائے گی۔ شریف میزبان جو ہوتے ہیں وہ بچوں کو مہمان سے نہیں لینے دیتے کیونکہ بچوں کی عادت خراب ہو جاتی ہے۔ اگر اپنا فائدہ کوئی چاہتا ہے تو دوسروں پہ نظر نہ ہو کیونکہ یہ نفس کی خواہش ہے تو اس کی اصلاح کیسے ہو گی؟ اس کی اصلاح نفس کی مخالفت سے ہو گی۔ مجاہدہ کے اصول میں یہی بات ہے۔ نفس کی مخالفت یہی ہے کہ کوئی دینا بھی چاہے تو بھی نہ لے تاکہ مجاہدہ ہو اور مجاہدے سے پھر مشاہدے کی کیفیت آتی ہے ورنہ اگر لے لے گا تو بعد میں انسان یہی سوچے گا کہ ابھی دے دے گا، ابھی دے دے گا اور طمع چلتی رہے گی۔

ایک غریب آدمی تھا وہ افیمی تھا کچھ دنوں کے بعد دو روپے کا افیم لیتا تھا۔ وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوا۔ ایک دن آ کر حضرت کو دو روپیہ ھدیہ کئے، انہوں نے پوچھا: تو کہاں سے ھدیہ کر رہا ہے تیرے پاس کیا ہے؟ اس نے کہا: حضرت میں دو روپے کا افیم لیا کرتا تھا، اب میں نے توبہ کر لی۔ میں نے سوچا میرا نفس کہے گا کہ تو کتنا زبردست خوش نصیب ہے، اب تو نے توبہ کر لی اور دو روپے تیرے بچ گئے۔ میں نے کہا: تجھے خوش نہیں ہونے دوں گا میں اپنے شیخ کو دوں گا۔ نفس کی مخالفت یہی ہے، نفس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اگر کسی میں کوئی عادت بری ہے تو اس کی مخالفت ہو گی پھر اس کے بعد وہ ٹھیک ہو گی، مجاہدہ مخالفتِ نفس کو کہتے ہیں۔ اگر ہم اس کو اپنے پلے باندھ لیں اور دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر لیں تو بہت اچھی بات ہے۔

اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونا نفس کی موجودگی میں کافی مشکل کام ہے لیکن اگر اس مشکل کو حل کر لیا تو پھر اس کے اوپر جو ملتا ہے اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ لیکن کچھ تو کرنا پڑے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے، سب اس کی مخلوق ہے۔ ایک آدمی محنت کرتا ہے دوسرا نہیں کرتا تو آخر اللہ پاک دیکھ رہا ہے۔ جو محنت کرے گا تو اس کو کچھ نہ کچھ ملے گا اور زیادہ چیزوں کی طلب بھی نہیں ہونی چاہیے، اپنی ضروریات کو کم سے کم رکھنا چاہیے تاکہ اس کے لئے زیادہ تگ و دو نہ کرنی پڑے۔ مجھ سے اکثر لوگ مشورہ کرتے ہیں، میں کہتا ہوں: بھئی آمدنی بڑھانا تو کسی کے بس میں نہیں ہے وہ تو اللہ پاک جتنا چاہے گا دے گا لیکن خرچ کم کرنا انسان کے بس میں ہے، اس میں مکلف بنا دیا گیا ہے۔ یہ اگر آپ کم کر سکتے ہیں تو آپ کی زندگی سدھر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کا بھائی بڑا افسر ہے اور وہ خود تھوڑا بہت کما رہا ہے اور اس کا سلسلہ چل رہا ہے لیکن اب اگر اس کی بیوی یا اس کے بچے دیکھتے ہیں کہ ہمارا چچا بڑا مالدار ہے ہمیں ان کی طرح ہونا چاہیے جبکہ ان کے وسائل اتنے نہیں ہیں تو نتیجہ کیا ہو گا؟ یا کرپشن کرے گا یا گھل گھل کے مرے گا دونوں باتوں میں نقصان ہی ہے۔ لہذا اپنے آپ کو خود اپنے طور پہ isolate کر لو کہ بھئی میں جس کا بھی بھائی ہوں، جس کا بھی بیٹا ہوں، وہ ایک الگ بات ہے اور میرے اوپر ان کے حقوق ہیں، لیکن میرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، جتنا مجھے اللہ نے دیا ہے اس کے مطابق مجھ سے حساب ہو گا۔ تھوڑا دیا ہے تو تھوڑے کا حساب ہو گا، زیادہ دیا ہے تو زیادہ کا حساب ہو گا لہذا جو اللہ پاک میرے لئے پسند کرے وہی بہتر ہے۔ البتہ میں خود کوشش کروں گا کہ حلال کماؤں، خود بھی کھاؤں اور دوسروں کو بھی کھلاؤں لیکن وہ جتنا دیتا ہے اسی پر میں مطمئن ہو جاؤں اور اسی کے ساتھ میں سارے کام کروں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا تعلقِ خاص نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن