آیت "قل انما انا بشر مثلکم" کا معنی اور بشری صفات میں فرق

سوال نمبر 354

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے فرمایا کہ اس کا اعلان کر دو ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ (الکہف: 110) یہاں پر آپ ﷺ کے بشر ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ بشری لحاظ سے آپ ﷺ باقی انسانوں کی طرح انسان ہیں لیکن بعض واقعات آپ ﷺ کی سیرت سے ایسے بھی ملتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بشری خصوصیات کے لحاظ سے بھی باقی لوگوں سے مختلف تھے۔ جیسے آپ ﷺ کو صوم وصال رکھتے دیکھ کر جب صحابہ کرام بھی آپ کی طرح کئی کئی دن تک مسلسل روزہ رکھتے تھے تو آپ ﷺ نے ان کو منع فرمایا کہ تم میں کون میری مثل ہے؟ میں رات گزارتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہيں لیکن دل نہیں سوتا اسی طرح جب آپ ﷺ نماز میں صفوں کو درست رکھنے کی تاکید کرتے تو فرماتے کہ میں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے ویسے ہی دیکھتا ہوں جیسے سامنے سے۔ ان تمام روایتوں میں جن صفات کا تذکرہ ہے وہ تمام صفات بشری صفات نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ﷺ بحیثیتِ بشر بھی تمام انسانوں سے مختلف ہیں تو پھر ﴿بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ کس معنی میں ہے؟

جواب:

اصل میں ایک غلط فہمی جو بعض لوگوں کو ہو جاتی ہے اور یہ غلط فہمی بعض دفعہ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ آپ ﷺ کا خصوصی وقار اور آپ ﷺ کا خصوصی مقام ان کے اوپر نہیں کھلتا، نتیجتاً ان کو عام لوگوں کی طرح سمجھنے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے جب عام لوگوں کی طرح کوئی کسی کو سمجھ لے تو پھر ان کے لئے اتنی تعظیم تو نہیں کر سکتا۔ قرآن پاک میں فرمایا ﴿وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج: 32) خانہ کعبہ پتھروں کا بنا ہوا ہے یا نہیں؟ پرنالہ سونے کا ہے لیکن ہے تو material۔ تو کیا خانہ کعبہ عام گھر کی طرح ہے؟ اگر کوئی کہے کہ خانہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا ہے تو کیا جھوٹ ہے؟ بالکل صحیح ہے۔ لیکن کیا خانہ کعبہ عام پتھروں کے گھر کی طرح ہے؟ ظاہر ہے اس طرح نہیں ہے۔ تو آپ ﷺ کے اعضاء مبارک انسانوں کی طرح تھے۔ آپ ﷺ کی بھی آنکھیں ایسی ہی تھیں، آپ ﷺکے کان بھی ایسے ہی تھے، آپ ﷺ کی زبان، آپ ﷺ کا دماغ مبارک، آپ ﷺ کا قلب مبارک، آپ ﷺ کے جسم کے باقی اعضاء ایک بشر کی طرح ہی تھے ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (الکهف: 110) اس پر بات پوری ہو گئی۔ کوئی درمیان والی بات نہیں رہی یہاں پر anatomy کے لحاظ سے، آپ ﷺ اور عام انسانوں کا معاملہ ایسا ہے۔

البتہ روحانیت جو آپ ﷺ کو عطا کی گئی تھی وہ باقی لوگوں کو عطا نہیں کی گئی کیونکہ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے روح اور جسم۔ جسم میں تو مثلیت ہے لیکن روح میں مثلیت نہیں ہے۔ بلکہ روح خاتم النبیین کی ہے جس کے بارے میں فرمایا کہ پوری عمارت بنی ہوئی تھی اس میں آخری اینٹ کی گنجایش تھی وہ آخری اینٹ میں ہوں یعنی خاتم النبیین ہیں۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے تھے:

ولی را ولی مے شناسد

نبی را نبی مے شناسد

خاتم النبیین را خدا مے شناسد

ولی کو ولی جانتا ہے اور نبی کو نبی جانتا ہے لیکن خاتم النبیین کی طرح اور کون ہے جو ان کو جانے؟ کیونکہ انسان اپنے لحاظ سے ہر ایک کو جانتا ہے لہذا جن کی سوچ محدود ہو وہ دوسرے کو بھی محدود سمجھتے ہیں۔ وہ یہی گمان کرتا ہے کہ باقی بھی ایسے ہی ہوں گے۔ تو روحانیت آپ ﷺ کی خاتم النبیین کی تھی اور یہ چیزیں روحانیت کی وجہ سے تھیں کیونکہ روحانیت جسم پر اثر کر جاتی ہے۔ آپ ﷺ کا تو بڑا مقام تھا، عام لوگوں میں بھی جب روحانیت ایک خاص level تک جاتی ہے تو ان کو کھانے پینے کی حاجت بھی بعض دفعہ نہیں رہتی، بہت کم ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اللہ پاک کھلاتے پلاتے ہیں۔ یعنی وہ چیز اگر عام لوگوں کے لئے ہے تو پھر ان کے لئے نہیں ہو گی؟ اور عام لوگوں کی بھی روحانیت اگر ترقی کر جائے تو ان پہ بہت سارے حقائق منکشف ہوتے ہیں، وہ حقائق ارد گرد کی چیزوں کے بھی ہوتے ہیں۔ تو کیا آپ ﷺ کے ساتھ یہ نہیں ہو سکتا تھا؟ بعض دفعہ ایک کام ہو رہا ہوتا ہے اور جس شخص پہ بات کھولی جاتی ہے وہ ادھر نہیں ہوتا لیکن اس کے دل پر وہ بات کھول دی جاتی ہے، یعنی دل کی آنکھوں سے وہ دیکھ لیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یعنی روحانیت بالکل جدا ہے۔ آپ ﷺ فرشتے کو دیکھتے تھے، کیا عام لوگ دیکھ سکتے ہیں؟ وہ تو اللہ پاک کا نظام تھا۔ اللہ پاک تو یہ فرماتے ہیں ﴿لَوْ أَنـزلْنَا هٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللهِ (الحشر: 21) اگر یہ قرآن ہم پہاڑ پر نازل کرتے تو پہاڑ اللہ کی خشیت سے بیٹھ جاتا۔ یعنی پہاڑ میں جو طاقت نہیں وہ آپ ﷺ کے دل میں ہے۔ ہمارے شیخ فرماتے تھے جب میں یہ آیت پڑھ رہا تھا تو میرے قلب پر وارد ہوا کہ قرآن میں نعت ہے۔ میں حیران ہو گیا میں نے سوچا کیسے نعت ہے؟ اس میں تو ساری اللہ کی صفات بیان کی گئی ہیں، حمد ہو سکتی ہے لیکن نعت کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر قلب پہ وارد ہوا کہ اس آیت کو نہیں پڑھ رہے ہو؟ ﴿لَوْ أَنـزلْنَا هٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللهِ (الحشر: 21) تو کس کا دل ہے جو اس کو اٹھا سکے؟ روحانیت آپ ﷺ کی بہت اونچی تھی، اصل میں آپ ﷺ اپنے مقام سے بہت نیچے آ کے بات کرتے تھے نزول کی وجہ سے۔ ورنہ آپ ﷺ کا جو عروج تھا اس کی تو کسی کو سمجھ بھی نہیں آ سکتی تھی۔ نزول کر کے آپ ﷺ نے عام لوگوں کو دین سکھلایا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے قصیدے میں کہا ہے کہ اگر آپ اپنے مقام پہ رہتے تو ہماری عورتوں کے ساتھ کیسے شادی کرتے؟

اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نظام بنایا ہوا ہے۔ جسمانیت میں ایک جیسے تھے لیکن روحانیت میں اختلاف اور فرق تھا۔ عام لوگوں میں جو اولیاء اللہ ہوتے ہیں ان کا دوسرے لوگوں سے فرق ہوتا ہے، تمام چیزوں میں وہ دوسری چیزوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ تو صحابہ کی بات ہو اور صحابہ سے آگے انبیاء کی بات ہو پھر انبیاء میں بھی آگے جا کر خاتم النبیین کی بات ہو تو کہاں تک بات پہنچتی ہے جو ہماری سمجھ میں بھی نہیں آ سکتی۔ تو بہرحال آپ ﷺ نے جو فرمایا سچ فرمایا۔ علمائے راسخین کے بارے میں قرآن پاک میں کیا فرمایا؟ ﴿آمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (آل عمران: 7) سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، علمائے راسخین یہی کہتے ہیں۔ بس اس پہ بات ختم کر لیتے ہیں details میں نہیں جاتے کیونکہ اللہ کی قدرت کامل ہے اور اس کا ہماری سمجھ میں آنا کامل نہیں ہے، ہم پورا نہیں سمجھ سکتے۔ تو جو نہیں سمجھ سکتے وہ یہ تو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ کرتا ہے۔ ﴿کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ (آل عمران: 7) تو جو کہا گیا جو سنا گیا بس مان لیا۔ صحابہ کرام میں یہ بات تھی کہ "اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا، سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا" اور چونکہ آپ ﷺ کے بارے میں ان کو یہ معلومات تھیں لہذا کہتے تھے: "فِدَاکَ اَبِی وَ اُمِّی یَارَسُولَ اللہ" ”یا رسول اللہ ﷺ ہمارے ماں باپ آپ کے اوپر قربان ہوں“۔ ہمیں صحابہ کے نقش قدم پہ چل کے آپ ﷺ کے لئے وہ سارا کچھ ماننا پڑے گا جو قرآن نے آپ ﷺ کے بارے میں کہا ہے اور جو آپ ﷺ نے خود اپنے بارے میں کہا ہے اس سے زیادہ ہم بات نہیں کرتے۔ ہماری زبانیں گنگ ہیں کیوں ہم کہاں اور آپ ﷺ کی ذات مبارک کہاں؟ آپ ﷺ کا مقام کہاں؟ ہم کیسے اس کے بارے میں کچھ بات کر سکتے ہیں؟ البتہ جو آپ ﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمایا اس میں کوئی شک نہیں، جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے بارے میں فرمایا اس میں کوئی شک نہیں۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی ہمارا طریقہ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس پر قائم رکھے (آمین) اور جو خیر ہے وہ ہمیں عطا فرمائے اور جو شر ہے اس سے ہمیں بچائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن