عقلی مباحث کے فتنہ سے بچنے کا طریقہ

سوال نمبر 331

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کی جلد چہارم میں "اخلاقی معلموں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتیاز" کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ اخلاقی معلمین کی دو جماعتیں ہیں: ایک وہ جنہوں نے اپنی تعلیم کی بنیاد کسی مذہب پر رکھی ہے جیسے انبیاء کرام اور دوسرے مذہبوں کے بانی۔ دوسرے وہ جنہوں نے اپنے فلسفہ، حکمت اور عقل اور دانائی کی بنیاد پر اپنی عمارت کھڑی کی۔ پہلے گروہ کی تعلیم سے لوگ عمل کی طرف آئے جبکہ دوسرے گروہ کی تعلیم میں عمل کا درجہ صفر ہے۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو کہ صرف عقلی مباحث کرتے ہیں لیکن عمل اُن کا صفر ہوتا ہے۔ اور چونکہ اُن کی باتیں کافی دلچسپ ہوتی ہیں اس وجہ سے بہت سے لوگ ان سے متاثر ہو کر صرف بہت اونچی اونچی باتوں کو ہی اصل سمجھ کر عمل کو چھوڑ دیتے ہیں اور بعض اوقات لوگ انجانے میں بھی اس قسم کے لوگوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس قسم کے لوگوں سے بچنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟

جواب:

ما شاء اللہ حضرت نے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے، عقل اور نقل یہ دو چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ عقل میں انسان اپنی معلومات، اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنے تصور سے کام لیتا ہے اور نقل میں جن کی بات ہوتی ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے عبقات میں اس پر کافی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ علم کے sources کیا کیا ہیں۔ ان میں انہوں نے بتایا ہے کہ ایک source عقل ہے، دوسرا source نقل ہے اور تیسرا source کشف ہے۔ کشف اگر صحیح ہے تو نقل کی ایک صورت ہے لیکن اتنا مستند نہیں ہے البتہ زیادہ ہے، پھیلا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو نقل مستند ہے یعنی قرآن، اُس وحی کا سلسلہ تو چونکہ بند ہو چکا ہے، اس میں سے مزید نہیں آ سکتا۔ بلکہ جو آیا ہوا ہے اسی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن کشف کا دائرہ کھلا ہے، وہ چل رہا ہے، حالات کے مطابق اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کی اور اولیا اللہ کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ یہ تین چیزیں ہیں ان کی تفصیل حضرت نے دی ہے کہ ہر ایک کے merits اور demerits کیا ہیں۔ merits۔ demerits سے مراد یہ نہیں ہے کہ "نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ" نقصانات کیا ہیں۔ آپ مشکلات کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ جو نقل ہے اس کو سمجھنے کے لئے جن ذرائع کی ضرورت ہے ان کو ہمیں استعمال کرنا ہوتا ہے پھر ہمیں وہ نقل سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اور عقل کے اپنے ذرائع ہیں، اس کے ذریعے سے انسان اپنی باتوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اور کشف من جانب اللہ ہوتا ہے، جس کو بھی اللہ پاک چاہتے ہیں عطا فرما دیتے ہیں۔ البتہ بعض مشقوں سے اس کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

اب یہ تین چیزیں ہو گئیں تو ان میں معیار کون سی چیز بن سکتی ہے۔ تو معیار اصل میں نقل ہی ہے، کیونکہ ہماری عقل available معلومات پر depend کرتی ہے اور ہر شخص کی جو available معلومات ہیں، وہ بہت تھوڑی ہیں۔ مثلاً میں اس دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا، مجھے نہیں پتہ کہ اس کے پیچھے کیا ہے۔ اس چھت کے اوپر نہیں دیکھ سکتا، اس زمین کے نیچے اس وقت کیا ہے، مجھے نہیں معلوم۔ اگر اس کونے میں سے کوئی سانپ میری طرف آ رہا ہے، مجھے نہیں پتہ۔ ایک سیکنڈ کے بعد کیا ہو گا، مجھے نہیں پتہ۔ اور میرے دماغ کی حالت کس وقت کیا ہو گی، یہ مجھے نہیں پتا۔ اس وجہ سے یہ کافی limited ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیزوں کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے، لہذا نقل کو بھی سمجھنے کے لئے اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ اس کے استعمال کا طریقہ بھی نقل ہی بتائے گی۔ اس کے مطابق ہی ہو گا تو پھر یہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی بہت ہی زیادہ اخلاص کے ساتھ اور بہت زیادہ سوچ کر ایک model بنا لیتا ہے کہ یہ کام ایسے کرنا چاہیے، چند سالوں کے بعد اس کو پتہ چلتا ہے کہ اس میں تو یہ limitations ہیں، اس میں تو یہ کمی ہے، اس میں تو یہ خرابی ہے۔ پھر وہ لوگ خود ہی اس کو بدلتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پورے حالات کا جائزہ نہیں لے سکتے، تمام چیزوں کا ان کو پتہ نہیں لگتا۔ اور نقل اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ تو ساری چیزوں کو جانتا ہے، اس کے لئے ماضی، حال اور مستقبل ایک ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ لہذا وہ جب ہمارے لئے کوئی چیز بھیج رہا ہے تو وہ انتہائی صحیح اور مستند ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان بڑا خوبصورت فیصلہ کیا ہے۔ حضرت نے عقل کے استعمال کے اوپر زور بھی دیا ہے اور اس کی limitations بھی بتائی ہیں، کیونکہ اس صدی میں اس کی ضرورت تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک عقلی دلیل ہوتی ہے اور ایک نقلی دلیل ہوتی ہے، اگر نقلی دلیل بھی قطعی ہو اور عقلی دلیل بھی قطعی ہو تو ان میں اختلاف ممکن نہیں ہے، یہ ہمیشہ ایک ہی ہوں گی۔ اگر نقلی دلیل ظنی ہو اور عقلی دلیل بھی ظنی ہو تو ان دونوں میں ترجیح نقلی دلیل کو ہو گی۔ اگر نقلی دلیل قطعی ہو اور عقلی دلیل ظنی ہو تو اس میں ترجیح بدرجہ اولٰی نقلی دلیل کو ہو گی۔ اور اگر عقلی دلیل قطعی ہو اور نقلی دلیل ظنی ہو تو اس میں عقلی دلیل کو ترجیح ہو گی اور اسی کو درایۃ کہتے ہیں۔ درایۃ با قاعدہ ہماری فقہ کا ایک source ہے جس کے ذریعے سے ہم جانتے ہیں۔ گویا کہ ان چار صورتوں میں سے ایک میں عقل کا استعمال مسلّم ہے۔ پس اگر کسی کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔

مثال کے طور پر رؤیت ہلال کے مسئلہ میں شہادت نقلی دلیل ہے اور چاند کا پیدا ہونا عقلی دلیل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نقلی دلیل یہ ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ افطار کرو۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ پیدا ہو تو روزہ رکھو پیدا نہ ہو تو نہ رکھو۔ اس کا مطلب ہے کہ دیکھنا لازم ہوا تو چونکہ شہادت اس کے لیے نقلی طور پر ذریعہ ہے تو شہادت لینا بھی لازم ہو گیا۔ یہ جو شہادت لینے کی بات ہے، اس میں نقلی دلیل قطعی ہے اور عقلی دلیل ظنی ہے اس وجہ سے ہم نقلی دلیل کو ہی لیں گے۔ لیکن شہادت کا دینا اگرچہ نقلی دلیل ہے لیکن خود جس نے شہادت دی ہے، یعنی جو شہادت دینے والا ہے، وہ نقلی نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک فرد ہے۔ وہ غلط بھی ہو سکتا ہے صحیح بھی ہو سکتا ہے اس لیے وہ ظنی ہے۔ لہذا اگر چاند ابھی پیدا ہی نہیں ہوا اور سو شہادتیں آ جائیں کہ ہم نے چاند دیکھ لیا تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی کیونکہ یہاں عقلی دلیل قطعی ہے۔ کیونکہ چاند کا پیدا ہونا یہ مسلّم امر ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ یعنی جو لوگ سائنس اور ان تمام چیزوں کو جانتے ہیں، ان میں چاہے وہ کسی بھی ملک کے ہوں، مثال کے طور پر روس و امریکہ، انڈیا پاکستان اور سعودیہ عرب و اسرائیل وغیرہ کا اختلاف نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمام ملکوں کا اس معاملے میں آپس میں اتفاق ہے کیونکہ یہ ایک کائناتی واقعہ ہے، اس پر کسی آنکھ وغیرہ کا اثر نہیں ہے۔ یہاں سے بات پتا چلی کہ اسی طریقے سے ہم اپنے فیصلے کر سکتے ہیں۔ یعنی ہم عقل کو بالکل ختم بھی نہیں سمجھتے لیکن نقل کے مقابلے میں عقل کی بنیاد کمزور ہے۔ لہذا اگر ہماری عقل کی کسی بات کی نقل بھی تائید کر رہی ہو تو سبحان اللہ! بالکل ٹھیک ہے، لیکن اگر یہ چیز نہیں ہو گی تو ہم اس بات کو نہیں مانیں گے، ہم نقلی بات کو مانیں گے۔ جو بات شریعت میں آئی ہے ہم اس کو مانیں گے، ہم اپنی عقل کے گھوڑے اس میں نہیں دوڑائیں گے۔ ہاں البتہ فقہاء نے جو کام کیا ہے، انہوں نے قرآن اور سنت کو سمجھنے کے لئے عقل کو استعمال تو کیا لیکن عمل قرآن و سنت پر کیا۔

یہ بات جو میں نے بتائی ہے، یہ بھی عقل کے ذریعے سے ہی آئی ہے، یعنی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جو analysis کیا ہے، تو یہ عقل کے ذریعے سے ہی کیا ہے۔ لہذا اس طریقے سے عقل کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن نقل کی روشنی میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، ہادی اللہ تعالیٰ ہیں، عقل نہیں ہے۔ عقل کو استعمال کرنا ہوتا ہے لیکن ہدایت اللہ کی طرف سے آتی ہے جیسے قرآن پاک میں ہے کہ ﴿ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرۃ: 2) تو جو اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لئے اس میں ہدایت موجود ہوتی ہے۔ لہذا اپنے آپ کو متقین بنایا جائے تو پھر قرآن و سنت سے ہدایت لی جا سکتی ہے۔

جن لوگوں کا ذکر ہے کہ وہ لوگ عقلی باتوں میں مزہ لیتے ہیں، ان کے بارے میں تو قرآن پاک میں بھی ہم نے تھوڑی دیر پہلے پڑھ لیا کہ جب اللہ کی بات کی جاتی ہے اور اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل بجھ جاتے ہیں اور جس وقت کوئی دوسری باتیں شروع ہو جاتی ہیں تو ان کے دل کھل اٹھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے ساتھ ان کا تعلق نہیں ہے۔ اور جن کا اللہ کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا، وہ اللہ کی باتوں کے اوپر غور نہیں کرتے، وہ اللہ کی باتوں سے خوش نہیں ہوتے اور اللہ کی باتوں پر عمل بھی نہیں کرتے۔ وہ صرف اور صرف اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے عقل کے گھوڑے دوڑا رہے ہوتے ہیں اور حاضرین سے جیسے شعراء داد وصول کرتے ہیں، وہ بھی داد وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ شعرا کے اشعار بے تکے ہوتے ہیں جیسے:

؂ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

یہ سب کیا چیز ہے؟ اس میں کیا فائدہ ہے؟ کوئی فائدہ نہیں، لیکن لوگ داد دیتے رہتے ہیں کہ واہ واہ، واہ واہ، کیا بات ہے۔ اور اسی داد کے لئے شاعر حضرات دن رات شاعری کرتے ہیں کہ ہمیں لوگ واہ واہ کہیں۔ اسی طرح اس قسم کے عقلا بھی واہ واہ ہی کی تلاش میں ہوتے ہیں، ان کے لئے بھی واہ واہ کی جاتی ہے۔ آپ کبھی ذرا ان کی تقریر سنیں، کیا وہ مشاعرے کی طرح نہیں ہوتی؟ بالکل اسی کی طرح ہوتی ہے کہ بس واہ واہ، واہ واہ۔

بھئی! واہ واہ سے کچھ بھی نہیں بنے گا حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ بہت زبردست مقرر تھے، ایک دفعہ فرمانے لگے کہ بخاری جیل میں ہوتا ہے تو کہتے ہیں: آہ بخاری آہ، آہ بخاری آہ۔ اور جس وقت بخاری بول رہا ہوتا ہے تو کہتے ہیں واہ بخاری واہ، واہ بخاری واہ، تمہاری اس آہ اور واہ نے بخاری کو کر دیا تباہ۔ مطلب واہ واہ سے کیا بنتا ہے؟ اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اس واہ واہ کے چکر سے نکالے اور ہمیں اصل محبت یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت نصیب فرمائے۔ اس کے لئے تو آپ ﷺ نے بھی دعا کی ہے: "اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ الْعَمَلَ الَّذِيْ یُبَلِّغُنِيْ حُبَّکَ" (سنن الترمذي، حديث نمبر: 3490) اسی دعا پر میں اپنی اس بات کو پورا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی محبت اور اپنا تعلق نصیب فرمائے اور اپنی بھیجی ہوئی شریعت پر ہمیں سو فیصد عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو قبول بھی فرمائے اور ایسا قبول فرمائے کہ پھر رد نہ ہو۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ