حدیث میں تصویر کی ممانعت اور موجودہ دور میں ویڈیو بیانات کی وضاحت

سوال نمبر 330

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ، أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک تکیہ بھرا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایسا ہو گیا جیسے نقشی تکیہ ہوتا ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کی یہ تو میں نے آپ کے لیے بنایا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا سکیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہوتی ہے۔ اور یہ کہ جو شخص بھی تصویر بنائے گا، قیامت کے دن اس پر اسے عذاب دیا جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ جس کی مورت تو نے بنائی ہے، اسے اب زندہ بھی کر کے دکھا۔ (البخاری، حدیث نمبر: 3224) اس حدیث شریف سے واضح ہو رہا ہے کہ تصویر بنانا حرام ہے، لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے علما بھی اپنے بیانات کی ویڈیوز بنواتے ہیں اور اس کو دین کی اشاعت کے لیے ایک مفید طریقہ سمجھتے ہیں۔ ہم جیسے عوام کو چونکہ سمجھ نہیں ہے، اس لیے جب ہم ایک طرف آپ ﷺ کی وہ حدیث شریف دیکھتے ہیں جس میں تصویر کی ممانعت آئی ہے اور دوسری طرف اہل علم حضرات کے ویڈیو بیانات دیکھتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے۔ کیونکہ حدیث شریف سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ اور ہے اور علماءِ کرام کے اس عمل سے کچھ اور بات ظاہر ہو رہی ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

میں سمجھتا ہوں یہ ایک انتہائی مشکل سوال ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر حضرات اگر کوئی بد پرہیزی کرنے لگیں اور ایک عام آدمی سے کوئی پوچھے کہ یہ ڈاکٹر حضرات جو بد پرہیزی کر رہے ہیں اس پر آپ کیا کہتے ہیں، تو اس کو جواب میں کیا کہنا چاہیے؟ وہ کیا کر سکتا ہے؟ اس کے لیے جواب دینا مشکل ہو گا کیونکہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ لیکن وہ چیز بالکل واضح ہے اور انہی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بد پرہیزی ہے لیکن اس کے با وجود وہ لوگ یہ کر رہے ہیں۔

میں آپ کو اس کا ایک واقعہ سناتا ہوں، بڑے عجیب واقعات اللہ پاک نے دماغ میں ڈال دیے ہیں۔ پشاور میں ایک ڈاکٹر تھے جو بڑے مشہور Medical specialist تھے۔ ان کا ایک patient تھا جس کو Heart problem تھا۔ وہ ان سے اپنا علاج کرا رہا تھا تو اس ڈاکٹر نے اس سے کہا کہ آپ پلیز smoking نہ کیا کریں کیونکہ smoking سے heart کا problem بڑھتا ہے۔ اس وقت ڈاکٹر خود cigarette پی رہا تھا۔ وہ آدمی تھوڑا سا Critical mind کا تھا، اس نے کہا ڈاکٹر صاحب! آپ خود تو cigarette پیتے ہیں۔ تو ڈاکٹر نے اس سے غصے سے کہا: "?I want to die with this, do you also" یعنی میں نے تو فیصلہ کیا ہوا ہے کہ میں اس کے لیے مر بھی جاؤں تو کوئی بات نہیں، تم اگر مرنا چاہتے ہو تو پھر میرے پاس علاج کے لیے کیوں آئے ہو؟ اب وہ ڈاکٹر کم از کم سچا تو تھا کہ اس نے یہ کہہ دیا کہ بات تو ظاہر ہے، غلط ہے۔ اور میں جو کر رہا ہوں میں غلط کر رہا ہوں۔

اس قسم کی بات بتا دینے سے پھر عام آدمی کا نقصان نہیں ہوتا۔ کیونکہ کم از کم اس نے اتنا تو بتا دیا کہ اس کی وجہ سے اگر میں مر بھی جاؤں تو بھی اس پہ فدا ہوں، میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ حدیث شریف بخاری شریف کی ہے اور ان علماء کرام سے ہی ہم نے سنا ہے کہ بخاری شریف "أَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللہِ" ہے۔ پھر اس میں جو ممنوع تصویریں ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں ان سے مراد گڑیاں ہیں۔ مطلب وہ تصاویر جو Three dimensional ہوتی ہیں، وہ مراد ہیں، یہ عام تصویریں مراد نہیں۔ تو دیکھیں یہاں پر تکیہ موجود ہے، کیا اس پر گڑیا بن سکتی ہے، جسے ممنوع قرار دیا گیا ہو؟ چنانچہ پتا چلا کہ Two dimensional تصویر مراد ہے۔ یعنی عام تصویر ممنوع ہے اور اس سے فرشتے نہیں آتے۔

اب اس طرف آتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے میں علما کو مسئلہ کیا ہے؟ جن حضرات نے digital تصویر کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، اگرچہ جو محققین علما اور صاحب فتویٰ لوگ ہیں اور جن کی پیروی مفتی بھی کرتے ہیں، ان میں سے اکثر ابھی بھی تصویر کو حرام سمھجتے ہیں۔ سوائے ایک دو اداروں کے، باقی سب اس کو حرام سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مجھے معلوم ہے اور اس کے اوپر ہمارے پاس articles بھی ہیں کہ یہ اس کو حرام سمجھتے ہیں۔ جنہوں نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے وہ conditional دیا ہے، اس طرح آزادانہ نہیں دیا۔ یعنی اگر کوئی شخص اس کو دین کے فروغ کے کام کے لیے استعمال کرنا چاہے، مثال کے طور پر کوئی عالم یا کوئی اور شخص دین کی کوئی بات سمجھا رہا ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ یہ انہوں نے اجازت دی ہے۔ حالانکہ صحیح بات عرض کرتا ہوں کہ اس مسئلے میں ان کے ساتھ علماء اختلاف کرتے ہیں۔ اور یہ بھی بہتان ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عرب علما زیادہ تر تصویر کی اجازت دیتے ہیں۔ عرب علما کی اکثر تعداد ابھی بھی تصویر کو حرام سمجھتے ہیں۔ باقی ان کے جو حکومتی لوگ ہیں وہ ظاہر ہے، وہی کرتے ہیں جو حکومت کہتی ہے۔

مجھے کراچی کے ایک عالم نے یہ بات سنائی کہ خانہ کعبہ کے پاس ایک camera لگا ہوا تھا جس سے وہ digital تصویریں بنوا رہے تھے۔ مطلب یہ کہ وہاں photography ہو رہی تھی۔ وہاں پر ایک شیخ موجود تھے، میں نے ان سے پوچھا: "یَا شَیْخُ! کَمْ ثَوَابًا فِيْ ھٰذَا الْأَمْرِ" ”اس میں کتنا ثواب ہے؟“ تو اس نے کہا: "مَا فِيْ ثَوَابٍ فِيْ ھٰذَا الْأَمْرِ" ”اس میں تو کوئی ثواب نہیں ہے“ یہ تو گناہ ہے۔ تو انہوں نے کہا: "اَلْإِثْمُ وَ عِنْدَ الْکَعْبَۃِ؟" یعنی گناہ اور بالکل خانہ کعبہ کے پاس؟ تو وہ لرز گیا، اس نے فوراً کہا: بھئی! کیمرے کو ہٹا دو، میں اس سے توبہ کرتا ہوں۔ گویا اس کو alarming ہو گئی۔ چنانچہ کسی چیز پر عمل کرنا اور بات ہے اور فتوی کے لحاظ سے اسے جائز کہنا اور بات ہے۔ جنہوں نے اس کے جواز کا کہا وہ بہت تھوڑے لوگ ہیں۔ حتیٰ کہ جنہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے ان کے والد بھی ان کے خلاف ہیں، وہ بھی تصویروں کو حرام کہتے ہیں۔

یہ وہی بات ہے جو میں عرض کرتا ہوں کہ تصویر کی انہوں نے صرف conditional اجازت دی تھی کہ کوئی دین کے کام کے لیے اس کو استعمال کرنا چاہے تو ٹھیک ہے۔ لیکن اب تو لوگوں نے اس سے ایسی عجیب چیز بنائی کہ اب Facebook پر اور دوسری جگہوں پہ وہ جیسے جاتے ہیں تو کہتے کہ میں فلاں جگہ پہ پہنچ گیا، میں فلاں چیز دے رہا ہوں، مجھے یہ مل رہا ہے، مجھے یہ مل رہا ہے وغیرہ۔ یہ سب دنیاوی چیزیں ہیں۔ بھئی مفتی صاحب! آپ کو دنیاوی چیزوں کے لیے تو تصویر کی اجازت نہیں دی گئی تھی، یہ تو آپ اپنی شہرت کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اپنی دنیاوی چیزوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی کہاں اجازت ہے؟ تو اب وہ حضرات بھی تھوڑا سا اس کو واپس کھینچ رہے ہیں لیکن واپس کھیچنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ بہر حال یہ ان کی علمی بات ہے اور اس کے بارے میں ان کی تحقیق ہے، اس پر ہم کچھ نہیں کہتے۔ ظاہر ہے علمی تحقیقات وہ کرتے رہیں گے ان کا علم ہے، علما آپس میں بات کرتے رہیں گے۔ لیکن عوام پہ جو اس کا اثر پڑ رہا ہے اس کے بارے میں تو ہم بات کر سکتے ہیں نا کہ اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ اس کو اس طرح استعمال کیا جائے۔ بہر حال، یہ بات تو طے ہے کہ کم از کم علماء کرام اور ہمارے نزدیک تصویر حرام ہے، چاہے وہ digital ہو، چاہے وہ non-digital ہو۔ اور جس جگہ یہ تصویریں ہوں گی، رحمت کے فرشتے ادھر نہیں آئیں گے۔ اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہیے۔

بھائی! اگر آپ کی تصویر آ گئی تو کیا ہو گیا؟ کونسی چیز آپ نے حاصل کر لی؟ شریعت میں فرحت کے لیے بہت ساری چیزیں موجود ہیں، انسان ان سے فرحت حاصل کر لے بجائے اس کے کہ نا جائز چیزوں سے حاصل کرے۔ تو ہمیں اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہیے اور علمی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ واقعہ ہے نا کہ دو بڑے بڑے مفتی تھے، آپس میں ذبیحہ پر بات کر رہے تھے۔ ایک صاحب مشینی ذبیحہ کے قائل تھے اور دوسرے اس کے قائل نہیں تھے۔ اخیر میں جو قائل نہیں تھے، انہوں نے دوسرے سے کہا کہ اچھا مجھے بتاؤ احتیاط کون سی بات میں ہے؟ اس پر انہوں نے اپنے نظریے یعنی مشینی ذبیحہ کے جواز سے رجوع کر لیا۔ تو اب اگر اسی پر ہی فیصلہ کیا جائے تو بتاؤ احتیاط تصویر استعمال کرنے میں ہے یا نا کرنے میں ہے؟

اور دوسری بات میں عرض کرتا ہوں کہ آپ لوگ جو کہتے ہیں کہ دین کی بات اس کے بغیر نہیں پہنچ سکتی تو کیا audio کے ذریعہ سے یہ بات نہیں پہنچ سکتی؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں، کچھ چیزوں کو سمجھانے کے لیے دکھانا پڑتا ہے تو جو جاندار چیزیں نہیں ہیں ان کو دکھانے کی اجازت ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں ہم یہ کیسے کریں گے تو آپ Powerpoint استعمال کر سکتے ہیں۔ یعنی Powerpoint پر جیسے presentation ہوتی ہے کہ آواز آ رہی ہو اور چیزیں سامنے آ رہی ہوں اور اس کے ذریعے سے آپ اس کو بتا رہے ہوں تو اس میں کون سی مشکل ہے؟ Powerpoint بنانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور اگر آپ ایک حرام سے بچنے کے لیے کوئی تکلیف اٹھاتے ہیں تو اس تکلیف پر آپ کو اضافی اجر ملے گا۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو ,Audio Powerpoint اور اس قسم کی چیزوں کو استعمال کر کے اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہیے۔ کیونکہ یہ کم از کم مشتبہ تو ہے نا۔ کیونکہ جس جس مسئلے میں ہمارے علماء کرام کا یعنی ایک ہی مکتبہ فکر کے علماء کا اختلاف ہو تو وہ مشتبہ ہوتا ہے۔ ایک تو ہوتا ہے کہ مسلکاً مختلف ہوں، حنفی اور شافعی کا فرق ہو یا اسی طرح کوئی اور مسلک ہو تو وہ ایک الگ بات ہے، لیکن یہاں تو ایک ہی مسلک کے لوگ ہیں۔ ایک ہی مسلک کے علما کرام کے درمیان جب کسی چیز پر اختلاف ہو جائے تو کم از کم وہ چیز مشتبہ تو ہو جاتی ہے۔ یعنی جو بات پہلے سے متفقہ چلی آ رہی ہے وہ تو ثابت ہے۔ اور جو بات متفقہ نہیں، جس میں اختلاف آ گیا تو وہ اختلافی بات مشتبہ ہو جاتی ہے۔

حدیث شریف میں یہ آتا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو مشتبہ امور سے بچا دیا تو اس نے اپنے دین کو بچا لیا۔ ہم اپنے آپ کو اور اپنے دین کو ان چیزوں سے بچے بغیر نہیں بچا سکتے۔ تو اپنے دین کو بچانے کے لیے ہم ایسی چیزوں سے بچیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کی ان تمام غلط کاموں سے جن کے غلط ہو نے کا امکان ہے، حفاظت فرمائے اور صاف ستھرے دین پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ