سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 508

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات ہوتے ہیں ان کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال:

نمبر 1:

تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ 15 منٹ،محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب ان کو صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ دے دیجئے اور تمام لطائف پر 10 منٹ کا مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ جاری رہے گا۔

نمبر 2:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ، 15 منٹ ہے۔

جواب:

اب مراقبہ صفات ثبوتیہ اور لطائف پر اتنا ہی ذکر جتنا پہلے تھا۔

نمبر 3:

لطیفۂ قلب 15 منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ان کو 15 منٹ اسی کو دوبارہ دیا جائے اور اس سے پہلے 1000 مرتبہ اللہ اللہ زبانی کر لیا کریں۔

نمبر 4:

لطیفۂ قلب 15 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ دیا جائے۔

نمبر 5:

اسمِ ذات کا لسانی ذکر 2000 مرتبہ ہے۔

جواب:

اب 2500 مرتبہ کر لیا جائے۔

نمبر 6:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 15 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب تین لطائف پر یعنی لطیفۂ قلب، روح اور سر پر 10، 10 منٹ اور لطیفۂ خفی پر 15 منٹ، ان کو دیا جائے۔

نمبر 7:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 15 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

تو ان تین لطائف پر 10 منٹ اور چوتھا لطیفۂ خفی، 15 منٹ کا ان کو دیا جائے۔

سوال 2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی، میرا حال یہ ہے کہ میں ایک مغلوب الحال اور مغلوب الغضب شخص ہوں اور غصے میں واہی تباہی بکنے لگتا ہوں اور اپنے اوپر قابو پانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن صبر نہیں ہو پاتا۔ پریشانی میں حواس باختہ ہو جاتا ہوں اور اپنے احساسِ کمتری اور غلط تربیت کی وجہ سے اپنے بچوں میں بھی احساسِ کمتری پیدا کر چکا ہوں اور سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں؟ سخت پریشانی ہے براہِ مہربانی اس سلسلے میں ہدایت جاری فرما دیں۔

جواب:

اصل میں غصہ آنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن غصہ control کرنا یہ اصل کام ہوتا ہے اور جتنا زیادہ کسی کو غصہ آتا ہے اور وہ اس کو control کرتا ہے اتنا زیادہ اس کو اجر ملے گا۔ control کرنے کا مطلب ہے کہ جتنا کرنا چاہیے اتنا کرے اس سے زیادہ نہ کرے۔ اس میں اگر مشکل ہو تو انسان اس جگہ کو چھوڑ دے یا اس شخص کو اگر چھوٹا ہے تو اپنے سے علیحدہ کر دے۔ کچھ دیر کے بعد غصہ خود بخود control ہو جاتا ہے۔ غصے کے دوران اگر کوئی ایسا عمل ہو جائے تو بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو مار دیا یا برا بھلا کہہ دیا۔ تو ایسے کسی کام سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کہ بعد میں اس پہ پچھتانا پڑے اس سے ہٹنا ضروری ہے۔ اس دوران کوئی کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے، پانی پیئے، الغرض اپنی حالت بدل لے اور اپنے آپ کو کسی اور چیز میں مصروف کر لے تاکہ غصے والی حالت ختم ہو جائے یعنی وقت اس پر گزر جائے۔

سوال 3:

آپ نے فرمایا کہ 100، 100 تک ٹھیک ہے؟

جواب:

100، 100 بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ آپ اگر کرنا چاہیں بالکل ابتدا میں تو دن بھر میں کافی time ہوتا ہے۔ کم از کم 1000، 1000 مرتبہ کر لیں کہ صبح سے لے کے دوپہر تک 1000 مرتبہ "لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ" اور دوپہر کے بعد 1000 مرتبہ درود شریف اور پھر مغرب کے بعد 1000 مرتبہ استغفار۔

سوال 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت آپ نے مجھے جو علاجی ذکر تلقین کیا تھا الحمد للہ شروع کئے ہوئے آج 20 دن ہو چکے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان 20 دنوں میں clinic میں مریض آنا تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ حضرت میں جب بھی ذکر کرتا ہوں میرے رزق میں پہلے سے زیادہ تنگی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ میں مسلسل ایک ہفتے تک نماز تسبیح پڑھتا ہوں اور ہفتہ بعد کام کاج بند ہو جاتا ہے۔ اس سے قبل بھی دو بار علاجی ذکر شروع کیا تو ایسے میں مریض آنے بند ہو گئے تھے۔

جواب:

آپ اس کے ساتھ اپنے تصور کو نہ ملائیں کیونکہ یہ تو غیر اختیاری چیزیں ہیں کیونکہ بندہ جس طرح گمان کرتا ہے اس کے ساتھ پھر ایسا ہونے لگتا ہے۔ آپ منزلِ جدید پڑھنا شروع کر دیں اور اللہ تعالیٰ سے اس سے پناہ مانگیں کہ آپ کا ذہن شیطان کسی ایسی طرف لے جائے کہ جس میں آپ کو بعد میں نقصان ہو۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔

سوال 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مستند سلاسلِ تصوف اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے ذریعے ہیں اور تمام مستند سلاسلِ تصوف میں اولیائے کاملین گزرے ہیں ابدال، قطب اور غوث وغیرہ بھی ان میں گزرے ہیں تو پھر یہ قول ہمارے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے اکابر سے جو منقول ہے کہ سلسلہ نقشبندیہ میں نہایت کو بدایت میں مندرج کیا گیا ہے۔ اس کا کیا مطلب لینا چاہیے؟ اور دورِ حاضر میں کچھ حضرات نے اس قول کو یوں کہنا شروع کر دیا ہے کہ باقی سلاسل کی جہاں سے انتہا سے وہاں سے ہماری ابتدا ہے۔

جواب:

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کسی بھی خوش فہمی سے بچائے۔ اپنے نفس کے اوپر بد گمانی کرنا سب سے بڑی سعادت کی بات ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے ساتھ ہم نقشبندی حضرات اپنے آپ کو منسوب سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ حضرت کے فیوض و برکات نصیب فرمائے۔ ان کا قول میں نقل کرتا ہوں، حضرت نے کسی وقت ایک رائے دے کر ارشاد فرمایا: میری بھی ایک رائے ہے اگر یہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میرے نفس کی طرف سے ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اور حضرت اگر کسی جانور کو دیکھتے تو کہتے: کیسے آرام سے سو رہا ہے کیونکہ ان سے اللہ پاک نہیں پوچھے گا لیکن اللہ پاک ہم سے پوچھے گا اور کبھی کہتے: کاش میں کوئی تنکا ہوتا جس کو کوئی جانور کھا لیتا۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جن کے ساتھ ہم منسوب ہیں وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص کے اوپر معرفت حرام ہے جو اپنے آپ کو کافر زنگی سے بھی بد تر نہیں سمجھتا اور پھر فرمایا: چہ جائیکہ اپنے آپ کو اولیاء سے بہتر سمجھنا! چنانچہ ہمارے بڑوں نے اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچایا ھے۔ البتہ آپ نے حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ مبارک جو نقل کیا ہے جس میں حضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے نہایت کو بدایت میں مندرج کر دیا، اس کا پھر کیا مطلب ہے؟ اس بارے میں میں اگر کچھ کہوں گا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے میں تشریح فرما چکے ہیں۔ مکتوب نمبر 287 میں بھی اور بھی کئی جگہوں پہ۔

اصل میں نقشبندی سلسلے سے پہلے جو سلاسل چل رہے تھے ابتدا میں ان میں شوق اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ وہ براہِ راست سلوک سے ابتدا کرواتے تھے۔ جیسے حضرت شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ مشھور ھے، اسی طرح اور دوسرے حضرات کا کہ وہ براہِ راست سلوک سے ابتدا کرواتے تھے اس کے بعد انتہا میں جذبِ وہبی ان کو عطا کیا جاتا تھا جس کو جذبِ منتہی کہتے ہیں۔ لیکن پھر لوگوں میں شوق کی کمی آ گئی تو حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے حالات کے پیشِ نظر اللہ پاک سے اس کا حل مانگا اور اللہ پاک نے حضرت کو یہ حل عطا فرمایا کہ جذبِ کسبی یا جذبِ مبتدی سے ابتدا کی جاۓ اور وہ ذکر اذکار کے ذریعے سے ہو جاتا ہے، جس کو فاعلات کہتے ہیں۔ ان فاعلات کے ذریعے سے انسان کے اندر اللہ پاک نے صلاحیتیں رکھی ہیں ان کو ابھارا جاتا ہے اور ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ تو اللہ پاک کا عاشق تھا- جس پہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی بات فرمائی ہے، جس سے تحریک پا کر انسان کو ایک جذب حاصل ہو جاتا ہے، اور اس شوق کی وجہ سے سلوک پر چلنا اور سلوک طے کرنا آسان ہو جاتا ہے، جذب کا اتنا ہی مقصد ہے۔ وہ چیز جو بعد میں وہبی طور پہ عطا کی جاتی تھی اس کو ابتدا میں کسبی طور پر حاصل کر لیا جاتا ہے۔ فرمایا: ہم نے انتہا کو ابتدا میں درج کر لیا یعنی انتہا میں جو کیفیت آنی تھی اس کو ابتدا میں حاصل کر لیا۔ حضرت نے فرمایا: اس کے لئے کچھ طریقے ہمارے مشائخ نے دریافت کر لئے جن کے ذریعے سے ایسا کرنا ممکن ہو گیا۔ چنانچہ یہ صرف اصلاح کے طریقۂ کار کا نظم ہے۔جو ہمارے دوسرے حضرات ہیں سلاسل کے، وہ سالک مجذوب ہوتے ہیں اور ہمارے نقشبندی حضرات، مجذوب سالک مجذوب ہوتے ہیں۔ یعنی پہلے جذبِ کسبی ہوتا ہے، اس کے بعد سلوک طے کرایا جاتا ہے، اس کے بعد جذب وہبی عطا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے عوام کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے جذب طاری کروایا جائے، اس کے بعد سلوک طے کروایا جائے، اس کے بعد جذب حاصل کیا جائے، تو اس میں ایک آسانی آ گئی۔ جہاں تک اللہ کے نزدیک مقامات کی بات ہے وہ اللہ پاک کو ہی پتا ہوتا ہے اس کا تو کسی کو علم نہیں ہوتا۔ یہ خوش فہمی والی بات ہوتی ہے کہ جب انسان اپنے اوپر نظر اچھی رکھ لیتا ہے کہ میں دوسروں سے اچھا ھوں، یہ بذاتِ خود تصوف کے مقصود کے خلاف ہے۔ لہٰذا ہمارے اکابر اس سے پاک تھے۔ لیکن آج کل چونکہ ہر چیز کے اندر بگاڑ آ چکا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا بگاڑ ہے کہ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر لیا ہے کہ ہم دوسروں سے افضل ہیں اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اپنے آپ پر افضلیت کا گمان کرنا بذاتِ خود بہت بڑے نقصان کی بات ہے اپنے نفس پر تو بد گمان ہونا چاہیے نہ کہ اپنے آپ کو آدمی افضل سمجھے، یہ عجب کی مثال ہے اور عجب تو ایک مرض ہے اس کو تو دور کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اس میں مبتلا ہے تو اسے صدق دل سے توبہ کرنی چاہیے اور بقول مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے آپ کو کافر فرنگ سے بھی بد تر سمجھنا چاہیے۔ البتہ اللہ پاک کسی کو قبول فرمائے تو اس کی مرضی ہے۔ پھر انسان کچھ بھی نہیں ہو تو پھر بھی اس کا بڑا مقام ہے۔ حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ خاک سب سے نیچے تھی لیکن جب اخیر میں سلوک کے ذریعے اس کے ساتھ انسان کا معاملہ ہو جاتا ہے تو یہ سب سے اونچی ہو جاتی ہے۔ عنصر خاک، تواضع اور اپنے آپ کو کم سمجھنے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ تو آگ والی بات ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں کہ آگ اوپر کی طرف ہوتی ہے، شیطان نے ترفع کیا تھا جس کی وجہ سے مردود بارگاہ ہوا ﴿أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ﴾ (ص: 76) یہ چیز بالکل غلط ہے۔ کیونکہ باقی سلاسل جس میں بڑے بڑے اولیاء گزرے ہیں جیسے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ قادری سلسلے میں اور چشتی سلسلے میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بہاؤ الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ اور آگے آتے ہیں تو ہمارے تقریباً دیوبند کے جو اکابرین ہیں وہ اس میں آ جاتے ہیں۔ کیا ہم ان کو اپنے آپ سےکم سمجھیں ؟ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اور سہروردی سلسلے میں ہمارے بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کے اور خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ پھر اس کے بعد پورا سلسلہ چلا آ رہا ہے جیسے ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ تو یہ بہت بڑی عجیب بات ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ جہاں سے دوسروں کی انتہا ہے وہاں سے ہماری ابتدا ہے۔ یہ صرف اور صرف ایک انتظامی بات ہے کہ پہلے جذب طاری کروا دیا جائے اس کے بعد سلوک طے کروا دیا جائے۔ یہ ایک طریقۂ کار ہے، مقامات نہیں ہیں۔ اور مقام رذیلے کی دفعیہ کو کہتے ہیں کہ جب رذیلہ دفع ہو جاتا ہے تو اس کا مقام نصیب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رذیلہ انسان کو اپنی جگہ سے ہٹاتا ہے اور جس وقت وہ ہٹ جاتا ہے انسان اپنی جگہ پہ آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حرص انسان کو اپنی جگہ سے ہٹاتا ہے، اگر حرص ختم ہو جائے تو مقامِ قناعت حاصل ہو جائے گا۔ اس طرح سستی انسان کو اپنی جگہ سے اور اپنی حیثیت سے ہٹاتی ہے لیکن جب اس کو دبا دیا جاتا ہے تو مقامِ ریاضت حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی طریقے سے جتنے بھی رذائل ہیں ان سے انسان متاثر ہوتا ہے، فجور واقع ہوتے ہیں اگر ان کو دبا دیا جائے تو مقامِ تقویٰ حاصل ہو جاتا ہے۔ الغرض مقامات کا مطلب رذائل کا دفعیہ ہے۔ اور ہم نے جو مقامات کا مطلب تقابل سمجھا ہوا ہے کہ میں بڑا ہوں، یہ بڑی عجیب بات ہے اور تصوف کی بنیاد کے خلاف ہے۔ تصوف میں ان چیزوں کو نہیں دیکھا جاتا، اپنے اوپر نظر نہیں کی جاتی۔ اگر اپنے اوپر نظر ہے تو فنائے نفس کس چیز کو کہتے ہیں؟ چنانچہ اپنے آپ کو انسان کم سمجھے اور دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا امید وار رہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھے "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي" (البخاری، حدیث نمبر: 7405) اور اپنے نفس پر ہمیشہ کے لئے انسان بد گمان رہے۔ اس طرح انسان کی حفاظت ہے ورنہ انسان خطرے میں ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔


سوال 6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی میں امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرے ذکر کی تفصیل یہ ہے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا للہ" 200 مرتبہ، "اَللہُ اَللہ" 200 مرتبہ، "اَللہ" 100 مرتبہ۔ 5 منٹ لطیفۂ قلب، 5 منٹ لطیفۂ روح، 5 منٹ لطیفۂ سر، 5 منٹ لطیفۂ خفی اور 5 منٹ لطیفۂ اخفیٰ اور کائنات کی ہر چیز اللہ کا ذکر کر رہی ہے اس کا سننا اور 15 منٹ تک مراقبہ شانِ جامع لطیفۂ اخفیٰ پر ہے۔

جواب:

اب آپ شانِ جامع کی جگہ 15 منٹ یہ تصور کر لیں کہ میرا ذرہ ذرہ ایک نور کے سمندر کے اندر فنا ہو رہا ہے یعنی آپ پاؤں سے شروع کر لیں کہ پاؤں فنا ہو رہے ہیں، پھر اس کے بعد گھٹنے فنا ہو رہے ہیں، پھر اس کے بعد جسم اور دوسرے اعضاء۔


سوال 7:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب میرا مراقبہ شانِ جامع کو آج 96 دن مکمل ہوئے۔ بیالیسویں دن بیماری کی وجہ سے ذکر رہ گیا تھا اس کے علاوہ کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ مجھے اس وقت یوں لگ رہا ہے جیسے میرے اندر کوئی خوبی ہی نہیں، ہر بات کا اہتمام غلط طریقے پر، فیصلے کا نتیجہ غلط، ہر کام میں نا کام۔ جس کام میں بھی شامل ہوں میرے لئے مصیبت کا سبب بن جاتا ہے، جب تک اللہ سے دعا نہ کروں۔ اور غلطی سے بھی اگر دعا رہ جائے تو مصیبت پکی ہے۔ مجھے شاید موقع محل کی مناسبت سے بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے ایک استخارے کی دعا کے طور پہ فرمایا تھا، وہ بھی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پتا نہیں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

آپ شانِ جامع کی جگہ اب یہ مراقبہ کر لیں کہ نور کا ایک سمندر ہے جس میں پاؤں سے لے کر سر تک میرا ذرہ ذرہ فنا ہو رہا ہے، 15 منٹ تک کے لئے یہ کریں۔ باقی چیزیں آپ کی وہی ہوں گی جو پہلے تھیں۔

سوال 8:

السلام علیکم حضرت جی اللہ پاک آپ کو عافیت سے منزل پہ پہنچائے۔

نمبر 1:

حضرت جی میں مندرجہ بالا audio کے بارے میں آپ کے جواب اور رہنمائی کا منتظر ہوں۔

نمبر 2:

مزید کار گزاری یہ ہے کہ پچھلے دو ہفتے کی نمازوں میں گزشتہ کل فجر کی نماز قضا ہوئی جس پر شدید قلق رہا اور صلوۃ التوبہ ادا کی اور روزوں کی نیت بھی کی ہے۔

جواب:

آئندہ کے لئے انتہائی احتیاط کریں اور قضا کس وجہ سے ہوئی ہے؟ اس کی آپ ذرا ٹوہ لگائیں اور اس کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے اس پر سوچیں اور مجھے بتا بھی دیں تاکہ یہ آپ کا تجربہ بن جائے۔ کیونکہ حادثے سے بچنے کا ڈھنگ آ جائے تو وہ تجربہ بن جاتا ہے۔ نقصان جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا لیکن اب اس سے فائدہ یہ اٹھایا جائے کہ آپ اس پر research کر لیں کہ قضا کیوں ہو گئی تھی؟ اور آئندہ اس قضا سے بچنے کے لئے کیا ترتیب ہو سکتی ہے؟ اس کے بارے میں مجھے report کریں۔ باقی بات پھر ہو گی۔

سوال 9:

السلام علیکم محترم شاہ صاحب آپ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق ذکر 200، 400، 400 اور 1000 دفعہ، ایک ماہ سے کچھ اوپر ہو گیا ہے۔ مزید ذکر عطا فرمائیں۔

جواب:

اب آپ 200، 400، 600 اور 1000 دفعہ یہ ذکر کریں۔

سوال 10:

السلام علیکم

My ذکر was ten minutes مراقبہ on قلب. I wanted to tell you that unfortunately I prayed قضا فجر probably for two weeks because I slept late. I fast for only three days out of six which you had given me for two قضا prayers due to some kidney issues. I also missed ذکر for a few days and during ذکر, whenever I try to focus I feel darkness under my eyelids as something has come in front of me and I lose my focus and open my eyes. During my previous ذکر, I saw I am sitting on the branch of a tree beside which there is a mountain and I am thinking that this is a shortcut way to reach somewhere. But suddenly I got scared of the thought that there is a snake of the color of the branch. Then this وسوسہ got so strong that the next scene, I saw myself on the grass ground getting away from the snake. Similarly, I saw some lizards biting me. Kindly tell me what to do? And also tell me how to remove the effects of these dreams? I will be grateful. I didn’t have the courage to say this on the phone as I wrote here.

جواب:

آپ منزل جدید پڑھ رہی ہیں یا نہیں؟ اس کے بارے میں پہلے مجھے بتائیں تاکہ میں مزید کچھ بات کر سکوں۔

سوال 11:

محترم شاہ صاحب السلام علیکم بعد از تسلیمات عرض ہے کہ آپ صاحبان کی جانب سے تجویز کردہ وظیفہ برائے اصلاح و تزکیۂ نفس 200، 400، 600 اور 100 اور ساتھ ہی عمر بھر روزانہ مسنون ذکر، بلا ناغہ کے تکمیل تک پہنچا ہے۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

باقی چیزیں اپنی جگہ پر ہی رہیں گی لیکن علاجی ذکر 200 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 600 دفعہ "حَق" اور 300 دفعہ "اَللہ"۔ ایک مہینے کے لئے۔

سوال 12:

السلام علیکم حضرت جی میں فلاں سوڈان سے بات کر رہا ہوں۔ آپ کا تلقین کیا ہوا ذکر 10 فروری تک تو با قاعدگی سے کیا۔ 200 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 دفعہ "اِلَّا للہ"، 600 دفعہ "اَللہُ اَللہ" اور 3000 دفعہ "اَللہ"۔ سرکاری اور نجی معاملات میں اتنا زیادہ مصروف ہو گیا کہ اس کے بعد چاہتے ہوئے بھی ذکر نہیں کر سکا۔ اب جا کر تھوڑی فراغت ہوئی ہے مگر وقت ابھی بھی کم مل رہا ہے۔ بیچ میں جو سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اس کی وجہ سے شدید پریشانی ہے۔ مزید رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

جواب:

اب فی الفور اپنا ذکر دوبارہ شروع کیجئے اور کچھ ایسی planning کر لیں کہ آپ کا ذکر بالکل miss نہ ہو۔ timings کی کچھ اس طرح arrangement کر لیں۔ خدا نخواستہ اگر کسی کو ٹی بی کی بیماری ہو جائے اور اس کو ڈاکٹر علاج بتا دے کہ اس کو روزانہ کرنا ہے ورنہ آپ لا علاج ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں جس طریقے سے وہ manage کرتا ہے جیسے دوائی کھانا حالانکہ اس کو اور بھی بہت کچھ کرنا ہے۔ اس کی طرح آپ manage اگر کر سکتے ہیں تو پھر مجھے بتا دیں اور آئندہ کے لئے پھر اس پر بات کروں گا۔

سوال 13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی بعد سلام پہلے آپ کی عمر دراز کے لئے دعا گو ہوں۔ مندرجہ ذیل طالبات کے اذکار کو ایک ماہ ہو گیا ہے۔

نمبر 1:

15 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب پر ذکر اور یہ دھیان کہ اللہ تعالیٰ میرے قلب کو رحمت کی نظر سے دیکھ رہا ہے، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب ان کو 10 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب پر اور 15 منٹ کے لئے لطیفۂ روح پر بتا دیں۔

نمبر 2:

مندرجہ بالا ذکر فلاں طالبات کا بھی ہے لیکن محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ان کو کہہ دیں کہ ایک مہینہ اور کر لیں۔

نمبر 3:

یہ بچی چھوٹی ہے اور ذکر 100، 100 مرتبہ درود شریف، تیسرا کلمہ اور استغفار ہے۔

جواب:

ابھی ان کو یہی دیں البتہ ان کو بتا دیں کہ 5 منٹ یہ تصور کریں اللہ تعالیٰ مجھے رحمت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

نمبر 4:

لطیفۂ قلب 10منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب 10 منٹ کے لئے اور لطیفۂ روح 15منٹ، اس کو بتا دیں۔

نمبر 5:

کھلی آنکھوں سے آدھا گھنٹہ لطیفۂ قلب پر ذکر محسوس کرنا، یہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ابھی آپ اس کو لطیفۂ قلب پر 15 منٹ اور لطیفۂ روح پر 15 منٹ بتا دیجئے بے شک کھلی آنکھوں سے کریں۔

نمبر 6:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 5 منٹ، قلب پر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

لطیفہ روح پر ابھی 10 منٹ کر لیں اور لطیفۂ قلب پر بھی 10 منٹ کر لیں۔

نمبر 7:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ صفات سلبیہ محسوس کرنا۔

جواب:

جو مراقبۂ صفات سلبیہ ہے اس کے بعد ان کو شانِ جامع کا بتا دیجئے گا۔

نمبر 8:

مندرجہ بالا ذکر ان کا بھی ہے لیکن محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ان کو پھر ایک مہینہ اور بتا دیں۔

نمبر 9:

تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور صفات سلبیہ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو پھر ایک مہینہ اور کر لیں۔

نمبر 10:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ 15 منٹ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ان کو بھی ایک مہینہ اور بتا دیں۔

سوال 14:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس مزاج بخیر ہوں گے۔ عرض یہ کہ ذکر ثوابی کے دوران اگر سوچ یا فکر ادھر اُدھر ہو جائے اور زبان پر استغفار یا درود شریف کا ورد جاری ہو تب بھی ثواب ملے گا؟ اس کی برکت سے آسانی ہو گی؟

جواب:

ثواب تو یقیناً ملے گا اس درجہ کا جس درجے کی توجہ آپ کی ہے۔ ایک شخص بالکل ہی متوجہ نہیں ہے لیکن الفاظ تو زبان پر ہیں۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جب اس کے ہونٹ میرے ذکر کے ساتھ تر ہوں تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اس میں تو کچھ اور نہیں کہا گیا۔ چونکہ اللہ کے ساتھ اچھا ہی گمان کرنا چاہیے، اس وجہ سے ہم یہی گمان کہیں گے کہ کم از کم ان کو اس کا فائدہ اتنا مل رہا ہے جتنا کہ ان کی توجہ ہے۔ لیکن چونکہ ایسے معاملات میں زیادہ بہتر کرنے کے لئے حریص ہونا چاہیے اس لئے توجہ کو improve کرنا چاہیے اور اس کے مختلف طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر چلتے پھرتے اگر کوئی کرتا ہے تو اس کی توجہ بہت کم ہو گی۔ اگر کوئی بیٹھ کر کرتا ہے تو اس کی توجہ زیادہ ہو گی۔ با وضو کرے گا تو اس کی توجہ اور زیادہ ہو گی۔ قبلہ رُخ بیٹھے گا تو اس کی توجہ اور زیادہ ہو گی۔ با قاعدہ ذکر سے پہلے تھوڑی سی کوشش کر لیں اور سوچیں کہ میں بہت اہم کام کرنے والا ہوں، اللہ کا نام لینے کے لئے میں بیٹھا ہوں اب میں کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچوں گا اس طرح اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرے اور پھر ذکر کرے، تو اس کی توجہ اور ہو گی۔ اس طرح بڑھتے بڑھتے آپ بہت آگے بھی جا سکتے ہیں۔ لیکن بہر حال بغیر توجہ کے ذکر کرنا بھی بے کار نہیں ہے اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے بلکہ فائدہ اس لئے ہے کیونکہ آپ کو آخری مقام پہلے دن تو نہیں مل سکتا۔ وہ آہستہ آہستہ ملے گا۔ تو جو ابتدائی stage ہے اگر اس کو آپ بے کار سمجھتے ہیں اور کرتے نہیں ہیں تو آخری stage پہ کیسے جائیں گے؟ جیسے پہلی سیڑھی پہ قدم رکھیں گے تو آہستہ آہستہ آپ آخری منزل پہ پہنچیں گے لیکن پہلی سیڑھی پہ قدم ہی نہیں رکھا اور کہتے ہیں جب تک میں آخری سیڑھی پہ نہ پہنچوں گا تو پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھوں گا، ظاہر ہے وہاں پہنچ ہی نہیں سکیں گے۔ چنانچہ آپ ہمت کریں، کوشش کریں ان شاء اللہ آہستہ آہستہ ترقی ہو گی۔

سوال 15:

السلام علیکم! I have been reciting

"لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" two hundred times,

"لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" two hundred times,

"حَق" six hundred times and مراقبہ of "اَللہُ اَللہ" on all five points. Besides, I have completed forty days of غضِ بصر lowering the gaze. After doing this مجاہدہ, I don’t have the urge to see worldly things and have containment of heart. Kindly advise next جزاک اللہ.

جواب:

ماشاء اللہ! Probably you have missed one thing and that is "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" two hundred times but "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو", it would have been four hundred times. Probably you have missed it. Anyhow, if you are doing so, you should complete it. You should do,

"لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" two hundred times,

"لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" four hundred times,

"حَق" six hundred times and مراقبہ of "اَللہُ اَللہ" and the rest the way you are already doing. But tell me about this first ان شاء اللہ.

سوال 16:

السلام علیکم ایک اشکال درپیش ہے آپ کا کہنا ہے کہ ذکر میں مختلف کیفیتیں مقصود نہیں ہیں لیکن جب انسان کو کسی سے عشق ہو تو ساتھ میں کیفیتیں بھی مقصود ہوتی ہیں کیونکہ جب محبوب کا نام لیا ہے تو دل کو دھڑکنا چاہیے، عشق خدا اور کیفیت میں کیا فرق ہے؟ کیسے پتا چلے گا کہ یہ عشق ہے یا شیطان کا دھوکہ ہے؟

جواب:

آپ نے اپنا چونکہ تعارف نہیں کرایا کہ آپ کون ہیں؟ لہٰذا مجھے جواب دینے میں مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ جواب سائل کی حالت کے مطابق ہوتا ہے۔ سوال برا نہیں ہے، سوال بڑا اچھا ہے لیکن آپ مہربانی کر کے اپنا مکمل تعارف دیجئے اس کے بعد پھر میں آپ سے بات کروں گا ان شاء اللہ۔

سوال 17:

اگر کسی دن ناغہ ہو جائے تو کیا وہ پورا کیا جا سکتا ہے؟ اگر اگلا ذکر لینے میں تاخیر ہو جائے تو جو ذکر کر رہے ہیں وہ جاری رکھیں جب تک اگلا ذکر نہیں مل جاتا یا 30 دن مکمل کر کے بند کر دیں؟

جواب:

اچھا عملی سوال ہے ماشاء اللہ۔ ناغہ ہو جائے تو اگر آپ صبح اٹھتے ہی اس کو کر لیں تو ان شاء اللہ یہ ہو جائے گا اور اس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہو گی کیونکہ دونوں کو اکٹھا نہیں کرنا۔ اور اگر آپ کے 30 دن مکمل ہو جائیں تو بند نہ کریں جب تک کہ رابطہ نہ ہو۔ رابطہ ہو جائے پھر اگلا بتا دیا جائے تو تبدیلی کر لیں ورنہ اسی کو جاری رکھیں۔

سوال 18:

میرے وظیفے کی مدت پوری ہوئی ہے پچھتر سو ہزار مرتبہ، اسمِ ذات دیا تھا اور مجاہدہ پرانا تھا کہ جب عورتیں آپس میں بحث کر رہی ہوں تو خاموشی سے سننا ہے اور بعد میں بتانا ہے کہ کیا فرق محسوس ہوا؟

جواب:

آپ نے جو لکھا ہے اس میں ذرا غور کر لیں، میں غلط سمجھ رہا ہوں یا آپ نے غلط لکھا ہے۔ اگر یہ 7500 ہے تو آپ اس کو 8000 کر لیں فی الحال۔

سوال 19:

میں نے فلاں کے ذریعے سے آپ سے بیان کی اجازت لی تھی۔ آپ نے مجھے اجازت دی تھی، 5 ماہ ہو گئے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں لوگوں کو سنتیں بتانا چاہتی ہوں جو group میں ہمیں بتائی جاتی ہیں۔

جواب:

اس سلسلے میں آپ جن کے ساتھ connected ہیں ان سے رابطہ رکھیں تاکہ طریقہ کار کے ساتھ ساری چیز آگے چلتی رہے۔

سوال 20:

جن لوگوں میں کافی تبدیلی آئی ہے رواج وغیرہ کی چیزوں میں اب ان کو سنت سکھانا چاہتی ہوں اگر آپ اجازت دیں۔

جواب:

میں نے عرض کیا ہے کہ group کے جو بڑے ہیں ان کے ساتھ آپ اس سلسلے میں بات کر لیں۔

سوال 21:

میں نبی کریم ﷺ کے لئے قرآن پاک ختم کر رہی ہوں جس کی آپ سے اجازت لی تھی۔ تو اب جو معمول کے مطابق تلاوت کرتی ہوں تو وہ بھی میں چاہتی ہوں کہ نبی کریم ﷺ کے لئے ہو جائے۔

جواب:

بالکل ٹھیک ہے اجازت ہے۔ نفلی کام آپ کے جتنے بھی ہوں بے شک پہلے کئے ہوں یا ابھی کئے ہیں، کسی کو بھی ایصالِ ثواب کرنے کی نیت آپ کر سکتی ہیں، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے اور ابھی آپ کے وظیفے کی جو مدت پوری ہوئی ہے تو اب 8000 مرتبہ اسمِ ذات کا ذکر کر لیا کریں اور مجاہدہ وہی برقرار رکھیں۔

سوال 22:

آپ نے کافی بیانات میں اپنے ذکر کی توجہ کو حاصل کرنے کے لئے جس سے یکسوئی ہو طریقۂ کار بتایا ہے کہ جب اللہ اللہ کا ذکر کریں تو کیا دھیان ہو؟ جب مراقبہ کریں تو کیا دھیان ہو؟ حضرت اس کی ذرا پھر سے وضاحت فرما دیں کہ وہ یک سوئی ابھی تک حاصل ہو نہیں پا رہی۔

جواب:

جو آج لذت دردِ نہاں کا جویا ہے

وہ پہلے سوز سے دل کو تو داغدار کرے

یعنی ساری چیزیں دفعتاً نہیں ملا کرتیں۔ کوشش جاری رہے، طریقۂ کار آپ کو سمجھ آ گیا ہے اب اس پہ آنا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو کوئی driving سکھا دے تو آپ سیکھ جائیں گے لیکن اب آپ کی practice سے اس میں improvement آتی جائے گی۔ جتنی آپ اس کی practice کرتے جائیں گے تو آپ کی driving کی skill بڑھتی جائے گی، آپ کے لاشعور میں وہ چیز بیٹھتی جائے گی۔ یعنی پہلے آپ کو شعوری طور پہ driving کو control کرنا ہوتا ہے لیکن جس وقت آپ کے ہاتھ، آپ کی نظر، آپ کے پاؤں کی گرفت سب کچھ synchronized ہو جائے اور لاشعوری طور پر وہی ہونے لگے جو کہ ہونا چاہیے تو driving پکی ہو جاتی ہے۔ ذکر میں بھی یہی بات ہے کہ ابتدا میں شعوری طور پہ کرنا ہوتا ہے۔ شعوری طور پر چونکہ انسان کا اپنا ارادہ ہوتا ہے اس ارادے کے لئے ذہن کی اپنی ایک battery استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا کچھ حصہ وہ لے رہی ہوتی ہے۔ تو جس کو مکمل یکسوئی کہتے ہیں وہ نہیں ہو پاتی۔ لیکن جیسے جیسے آپ کے لاشعور میں یہ چیز اترتی جائے گی تو وہ چیز کم ہوتی جائے گی، آپ کو پھر توجہ زیادہ محسوس ہو گی۔

سوال 23:

حضرت بعض و اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جنات مجھے تنگ کرتے ہیں یا کوئی جادو وغیرہ ہوا ہے اس کا کیا کروں؟

جواب:

ابھی اگر آپ منزل جدید نہیں پڑھ رہیں تو آپ پڑھنا شروع کر دیں، یہ انہی چیزوں کے لئے ہے کہ آپ کو ادھر اُدھر کی چیزیں تنگ نہ کریں۔ جیسا کہ اس میں طریقۂ کار بتایا گیا ہے مغرب کے بعد اس کو پڑھ لیا کریں تو ان شاء اللہ العزیز اس کے اثرات آپ کو محسوس ہوں گے۔

سوال 24:

منزل جدید پڑھنے کا مغرب کے بعد اگر معمول نہ بن سکے کسی وجہ سے، تو صبح کسی وقت پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:

مغرب کے بعد نہ ہو تو عشاء کے بعد کر لیں۔ عشاء کے بعد پوری رات ہے۔ جیسے میں مغرب کے بعد مصروف ہوتا ہوں بیان میں تو پھر میں عشاء کے بعد فوراً ہی کر لیتا ہوں تاکہ کسی وجہ سے رہ نہ جائے۔

سوال 25:

دن کو اگر پڑھا جائے یا صبح سویرے؟

جواب:

اس کے اثرات کم ہو جائیں گے، جو بتایا گیا ہے وہ مغرب کے بعد بتایا گیا ہے ورنہ عشاء کے بعد کر لیا جائے۔ اس میں اجازت والی بات ہوتی ہے۔ یہ بھی کچھ عملیات ہی کی ایک قسم ہے اگرچہ ہم عامل نہیں ہیں لیکن جیسے عملیات میں جگہ کا تعین، time کا تعین کرواتے ہیں۔ اس میں اور چیزیں تو نہیں ہیں لیکن time کا تعین کرواتے ہیں۔

سوال 26:

اس میں ان چیزوں کی با قاعدہ نیت کرنی چاہیے یا اس کو عام معمولات میں شامل کرنا چاہیے؟

جواب:

نیت کرنے میں اس چیز کی طرف توجہ بڑھتی ہے تو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي" (البخاری، حدیث نمبر: 7405) والی بات اس میں آ جاتی ہے کہ پھر اللہ پاک کی مدد ان چیزوں میں ہو جاتی ہے۔

سوال 27:

حضرت آپ نے فرمایا کہ نیت ہو اس میں جنات اور شیاطین کے شرور سے بچنے کی، کیا نفس کے شرور سے بچنے کی بھی نیت کی جا سکتی ہے؟

جواب:

بالکل آپ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جتنے فتنے نفس کی وجہ سے آ رہے ہیں ان سے بچنے میں آپ نیت کریں گے۔ بلکہ اس میں نفس کے شرور سے بچنے کی آیات کریمہ آتی ہیں یعنی اس سے متعلق آیات کریمہ ہیں کیونکہ منزل میں زیادہ تر قرآن ہی ہے۔ باقی تو کچھ دعائیں ہیں یا درود شریف ہیں۔

سوال 28:

حضرت جیسا کہ باقی گھر والے نہیں پڑھ رہے تو ان کا دھیان کر کے دم کر دیا جائے اور مرحومین کو بھی اگر ایصالِ ثواب کر دیا جائے؟

جواب:

مرحومین کے لئے ایصالِ ثواب نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ثواب کی نیت سے اس کو کر نہیں رہے۔ البتہ باقی گھر والوں کا دھیان کر کے دم کرنا تو اگر ان کے اوپر کوئی اثرات والا معاملہ نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ہے لیکن اگر ایسا ہے تو اگر آپ عامل نہیں ہیں تو ان کو خود کرنا پڑے گا، آپ مت کریں۔ کیونکہ آپ کے اوپر اس کا اثر rebound کر سکتا ہے۔ جس وقت انسان کوئی عمل کرتا ہے تو دوسری چیزیں جواب بھی دیتی اور وہ جواب سب سے پہلے عامل پہ جاتا ہے کیونکہ وہ جڑ کاٹنا چاہتا ہے۔ اگر آپ عامل نہیں ہیں اور اپنی حفاظت آپ نہیں کر سکتے تو آپ کے اوپر اگر اثر آئے گا تو کیا ہو گا؟ چنانچہ آپ ہمیشہ عاملوں کو کہتے ہوئے سنیں گے کہ کسی اور کو نہیں دم کرنا کیونکہ یہ پورا ایک system ہوتا ہے جو rebound کرتا ہے۔ ہمارے مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ تعویذ ہمارے پاس گھر میں پڑے ہوئے تھے۔ ہماری والدہ صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا نے اپنی طرف سے دینا شروع کر دئیے تو ان کو نقصان ہو گیا ۔ میں نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا ہے کہ دیا کریں؟ آپ نہ دیا کریں۔ اس میں حفاظت والی بات ہوتی ہے۔ ہمارے جو اذکار یا دوسری چیزیں ہیں وہ حفاظت کا ذریعہ بن جاتی ہیں اگر خود اپنے لئے کرے تو ٹھیک ہے۔ مثال کے طور پر جیسے آپ کر رہے ہیں اپنے تو اسی حفاظت ہی کے لئے کر رہے ہیں، تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کے اوپر آئے گا تو کیا آئے گا؟ بھئی پہلے سے آیا ہوا ہے۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں کہ د لوندو به څه لوانده سه لم دشی جو گیلے ہیں وہ مزید کیا گیلے ہوں گے؟ وہ پہلے سے آیا ہو گا تو اس وجہ سے آپ کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن آپ دوسرے کی ذمہ داری نہ لیں۔

سوال 29:

اگر پانی پر دم کر کے کسی کو دیا جائے تو؟

جواب:

بالکل وہی بات ہو گی یعنی اس کے لئے عامل بننا پڑے گا۔ میں عامل بننے سے بہت ڈرتا ہوں کیوں کہ مجھے پتا ہے کہ ایک مستقل جنگ ہے۔ ہمارے پاس whatsapp کے اوپر موجود ہے کہ بے چارے England میں ایک صاحب ہیں، وہ کسی زمانے میں عامل رہے تھے۔ اب ان کے اوپر رجعت کے جو مسائل ہیں تو وہ جنات ان کو چھوڑ نہیں رہے۔ یعنی یہ پوری ایک جنگ ہے۔ یہ تو غنڈے ہوتے ہیں، غنڈوں کے ساتھ لڑائی ہے۔ کوئی کرتا ہے راستے میں کسی غنڈے سے لڑائی یا کسی کو ان سے بچاتا ہے؟ بچانے کے لئے آپ کے پاس ایک مسلح جتھہ ہونا چاہیے، کوئی نظام ہونا چاہیے پھر آپ ان سے بھڑیں ورنہ اگر آپ کے پاس نہیں ہے تو خاموشی سے گزر جائیں کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ ان کے ساتھ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ جس طرح انسانوں کے غنڈوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں آپ اسی طرح ان غنڈوں سے بھی اپنے آپ کو بچانا پڑتا ہے یا پھر اپنا حفاظتی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ حفاظتی انتظام نہیں ہے تو پھر چھیڑنا نہیں چاہیے۔ وہ خود کرے چونکہ وہ تو بے چارہ پھنسا ہوا ہے، اس نے تو کرنا ہی ہے، اس نے تو بچنا ہی ہے، وہ تو اپنا دفاع ہی اس کے ذریعے سے کر رہا ہے۔

سوال 30:

اگر کوئی حالت emergency ہو جائے، گھر میں کوئی بچہ اس طرح ہو جائے یا کوئی اور مسئلہ ہو جائے؟

جواب:

اس کے لئے طریقۂ کار یہ ہے کہ اس کو آپ وہ جو ہماری آواز والے ہیں، وہ سنا دیجئے۔

بتایا یہی گیا ہے و اللہ اعلم مجھے زیادہ تفصیل معلوم نہیں کیونکہ میں خود عامل نہیں ہوں، مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا۔ لیکن عراق میں ایک صاحب تھے جن کو آپ ﷺ کی طرف سے فرمایا گیا کہ میری آواز میں اپنے کمرے میں لگا دو اور اس کو سن لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس سے ان کو فائدہ ہوا۔ میں اس system کو تو نہیں جانتا کہ اس سے فائدہ کیا ہوتا ہے؟ ایک اور نقشبندی سلسلہ کے بزرگ ہیں کراچی کے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں آپ کی آواز میں لوگوں کو سنوا سکوں کیونکہ لوگوں کو فائدہ ہوا ہے اس سے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جن کو اتنا اثر تھا کہ وہ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ ایسی صورت میں میں نے ان کو بتایا تو ان کو فائدہ ہوا۔ میں نے کہا: بالکل اجازت ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ پہلے ہو چکا تھا وہ جو عراق والا تھا۔ مجھے چونکہ اس کا علم ہو گیا تھا اس لئے میں نے اجازت دے دی۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں یہ میں صرف وہ چیزیں کہہ سکتا ہوں جن کا مجھے کسی طریقے سے علم ہو گیا ہے۔ باقی چونکہ میں عامل ہوں نہیں بلکہ عملیات سے بھاگنے والا ہوں اس وجہ سے میں مزید اس پہ بات بھی نہیں کر سکتا۔

سوال 31:

اس کی عملی صورت مختصراً بیان فرما دیں تو بہتر ہو گا۔

جواب:

اس کی عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ گھر میں گھر کے افراد اگر بیٹھے ہوں تو آپ کا پڑھا ہوا سن لیں تو ان شاء اللہ اس سے بھی افاقہ ہو گا اور اس سے فائدہ ہوتا ہے کم از کم۔ لیکن اگر وہ خود پڑھیں تو ان کو زیادہ فائدہ ہے۔ یہ بھی معذوری کی حالت میں ہے کہ وہ پڑھ نہ سکیں۔ عموماً خواتین کے ایام ہوتے ہیں تو ان کے لئے بھی ٹھیک ہے۔ لیکن جو پڑھ سکتے ہوں اور سستی کی وجہ سے نہیں پڑھتے تو محرومی ہو جاتی ہے۔ بلکہ بہت ساری عورتیں مجھے فون کرتی ہیں، ان کے شوہروں کا مسئلہ ہوتا ہے کاروبار میں یا کوئی اور بات ہوتی ہے۔ تو میں ان کے لئے کیا پڑھوں؟ میں کہتا ہوں کہ ان کو خود پڑھنا ہو گا، آپ ان کے لئے نہ پڑھیں۔ یعنی جب ان میں اتنی طلب ہی نہیں ہے تو ان کے لئے کیا ہو گا؟ دعائیں تو سارے بزرگ لوگوں کے لئے کر رہے ہیں؟ جتنے اللہ والے ہیں لوگوں کے لئے دعائیں کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے؟ لیکن اس کا فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

سوال 32:

جس پر اثر ہوتا ہے اس کا دل ہی نہیں کرتا کہ وہ کچھ پڑھے۔ جب اس کو کہا جائے گا تو وہ پڑھتا ہی نہیں ہے۔

جواب:

اس حالت میں وہی سنانے والی بات ہو گی جیسے میں نے عرض کیا کہ اگر مجبوری ہو واقعی تو پھر اس کے لئے سنا دیا جائے۔

سوال 33:

اگر اس پر بھی توجہ نہ دے۔ بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے۔

جواب:

توجہ تو وہ نہیں دے گا لیکن اس کا اثر ہو رہا ہو گا اس پہ۔ وہ تو بیچارہ مجبور ہو گا اس وقت لیکن اس کا ہو گا۔ اور دم کرنے والی جو بات ہے اس کے بارے میں، میں اس لئے نہیں کہتا کیونکہ میں عامل ہوں نہیں لیکن رجعت والی باتیں بہت زیادہ آئی ہیں میرے سامنے، خود عاملوں نے بتائی ہیں۔ میں اس کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ پھر وہ بہت تنگ کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا معاملہ ہو۔ مثال کے طور پر بعض غنڈے ایسے ہوتے ہیں جو میدان چھوڑ بھی دیتے ہیں لیکن کچھ چچڑ قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو بھڑ جاتے ہیں، اپنی انانیت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں رجعت بہت خطرناک ہوتی ہے کیونکہ ان کو اپنی عاقبت کی پرواہ بھی نہیں ہوتی وہ اپنی ساری طاقت استعمال کرتے ہیں۔ آپ کو پھر تمام چیزوں سے کٹ کے اتنا ہی زیادہ مقابلے میں effort کرنا پڑے گا جتنا کہ وہ کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس اتنا time ہو گا؟ میں ابھی ان کا whatsapp دکھا سکتا ہوں ان کے messages ہیں، کم از کم دو سال کے میں آپ کو دکھا سکتا ہوں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، یہ میدان ہی ایسا ہے۔ اس وجہ سے میں تو بالکل کانوں کا ہاتھ لگاتا ہوں۔ اس میدان میں جانے سے انسان کی یکسوئی تباہ ہو جاتی ہے کسی اور کام کا رہ ہی نہیں جاتا، اسی میں لگا رہتا ہے بیچارہ۔ تو پھر کسی proper عامل سے رابطہ کیا جائے، یہ ایک طریقہ کار ہو سکتا ہے، اس کے پاس حفاظت کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا جو عامل نہیں ہے اس کو اس میدان میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، general بات ہے۔ باقی تفصیلی یا special بات تو میں کر نہیں سکتا اس مسئلے میں۔

سوال 34:

عمومی طور پہ ہم کوئی وظیفہ وغیرہ کر رہے ہوتے ہیں، راہ چلتے ہوئے بھی کچھ اذکار پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں عموماً کچھ سنت والے اعمال آ جاتے ہیں جیسے اوپر چڑھتے ہوئے اَللہُ اَکبَر پڑھنا نیچے اترتے ہوئے سُبحَانَ اللہ پڑھنا۔ کیا اس وقت ان اذکار کو موقوف کر کے سنت عمل کیا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر تسبیحات پڑھ رہے ہوتے ہیں یا بعض اوقات کوئی تلاوت کر رہا ہوتا ہے؟

جواب:

تلاوت تو مستحب ہے، تو اس پر یہ بھی نہیں کہ آپ تلاوت continues کر لیں۔ مثال کے طور پر ایک پاؤ آپ نے کر لیا اور پھر آپ مسنون اعمال پہ آ گئے، اس کے بعد جب وہ ہو گئے پھر آپ نے بقیہ وہاں سے شروع کر لیا تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ آپ نے با قاعدہ اس کو اس طرح تو نہیں رکھا کیونکہ آپ چلتے چلتے پڑھ رہے ہیں تو اس کا جتنا اجر آپ کو مل رہا ہے وہ تو پھر بھی ملے گا۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ آپ نے کہہ دیا سُبحَانَ اللہ فجر کے وقت، پھر اَلحَمدُ لِلہ دوپہر کے وقت کہہ دیا، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ آپ نے عصر کو کہہ دیا، اللہُ اَکْبَر آپ نے رات کو کہہ دیا، ان چاروں کا اجر ملے گا یا نہیں؟ اور اس کو جب جوڑ کے پڑھیں گے تو اس کا اجر بھی آپ کو مل جائے گا۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ علاجی ذکر کر رہے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ کو ڈاکٹر کہہ دے کہ ایک گولی صبح، ایک دوپہر، ایک شام، تو آپ نے پھر ایسے ہی کھانی ہے۔ اگر تینوں اکٹھی کھا لیں گے تو نقصان ہو گا اور اگر 50 گولیاں اکٹھی کھانی ہیں کیڑوں والی اور آپ ان کو تقسیم کر کے کھا لیں تو کیڑے ختم نہیں ہوں گے اور فائدہ نہیں ہو گا۔ علاج میں اسی طرح ہی رہنا چاہیے جس طریقے سے بتایا جائے، اس میں کچھ گڑ بڑ نہیں کرنی چاہیے۔ اور ثوابی ذکر کسی بھی صورت کر سکتے ہیں، بالکل ٹھیک ہے۔ البتہ "سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيمِ" میں اگر آپ سُبْحَانَ اللہ علیحدہ کہیں وَ بِحَمْدِهٖ بھی علیحدہ کہیں تو یہ وہ کلمہ نہیں بنتا جس کی فضیلت جس طرح آئی ہے بلکہ اس کا اپنا علیحدہ علیحدہ ثواب ہو گا لیکن جب آپ اس کو اکٹھا پڑھیں گے تو وہی کلمہ بنے گا جس کی فضیلت آئی ہے۔ لیکن جو عام ذکر ہے جیسے ’’سُبحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، اَللہُ اَکبَر‘‘، استغفار، درود شریف یہ سب آپ علیحدہ علیحدہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِينَ