فاسق و فاجر کے ذریعے دین کا کام ہونے کی حکمت

سوال نمبر 329

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

آپ ﷺ نے فرمایا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی فاسق و فاجر سے بھی دین کا کام لے لیتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ جب کوئی دین کا کام کرتا ہے تو وہ کیسے اپنے آپ کو فاسق و فاجر سمجھ سکتا ہے، اور باقی لوگ اس کو کیسے فاسق و فاجر سمجھ سکتے ہیں؟

جواب:

در اصل آپ ایک چیز کو بھول رہے ہیں: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (البخاری، حديث نمبر: 1) ”تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے“ لہذا اجر تو نیت کے مطابق ہی ملتا ہے۔ اب ایک آدمی دنیا کے لیے کوئی کام کر رہا ہو اور اللہ تعالیٰ کو وہ دین کے لیے مقصود ہو تو اس کو اس کام کا ثواب ملے نہیں ملے گا کیونکہ ظاہر ہے وہ دنیا کے لیے کر رہا ہے، لیکن لوگوں کو اس کا فائدہ ہو جائے گا۔ آج مثال کے طور پر حج پر پابندی ہے تو ایک آدمی اپنی شہرت اور نیک نامی کے لیے کہے کہ بھئی میں حج سے پابندی ہٹاتا ہوں تو ظاہر ہے اس کی شہرت اور نیک نامی تو ہو جائے گی لیکن اس کو اس کا ثواب نہیں ملے گا، ہاں لوگوں کے لیے فائدہ ہو جائے گا کیونکہ ان کے لیے حج کا راستہ آسان ہو گیا۔ اسی طرح کوئی مسجد بنانا یا کوئی راستہ بنانا یا کوئی ایسا کام جو دینداروں کی ضرورت ہو یا دین کے لیے وہ چاہیے ہو، اس کو اگر کوئی صحیح طریقے اور اچھی نیت سے کر لے تو اس کو اجر ملے گا اور وہ فاسق فاجر نہیں ہو گا بلکہ دیندار ہو گا۔ لیکن ایک شخص صرف نیک نامی اور مشہوری کے لیے کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اس کو اجر نہیں ملے گا۔

مثال کے طور پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ پر بیان کے لیے invited تھے۔ وہاں پر جو مخالفین تھے انہوں نے بد معاشوں کو اکٹھا کیا ہوا تھا، انہوں نے جاتے ہی حضرت کے ہاتھ میں ایک chit تھما دی۔ اس chit پہ لکھا تھا کہ مولوی! تُو حرامی ہے اور تو کافر ہے۔ اور یہ بھی لکھا تھا کہ تو اپنی پگڑی ذرا سنبھال کے رکھ۔ یعنی اس بات کو ذہن میں رکھ کر بیان کرنا کہ تیرا کیا حشر ہونے والا ہے۔ حضرت نے سب سے پہلے وہ chit لوگوں کے سامنے سنا دی کہ دیکھو یہ باتیں اس پر لکھی ہیں۔ پھر فرمایا کہ میں پہلے سوال کا جواب دے دیتا ہوں کہ اگر والدین کے نکاح کے گواہ موجود ہوں اور بچہ اگر ان کے ہاں پیدا ہو تو وہ انہی کا ہوتا ہے، یہ بات حدیث شریف موجود ہے۔ میرے والدین کے نکاح کے گواہ فلاں گاؤں میں موجود ہیں لہذا میں شریعت کی رو سے حرامی نہیں ہوں۔ اگر کوئی خود سے کہنا چاہے تو بے شک کہتا رہے، وہ علیحدہ بات ہے، البتہ شریعت مجھے حرامی نہیں کہتی۔ کتنا polite جواب دے دیا۔ دوسرا جواب یہ دیا کہ تم کہتے ہو کہ میں کافر ہوں، تو پہلے میں جو بھی تھا وہ تھا لیکن اب میں کلمہ پڑھتا ہوں: "أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ" اب تو کافر نہیں رہا نا؟ دو points ختم ہو گئے۔ تیسرے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے مجھے بلایا تھا اس لیے میں آیا، خود سے میں نہیں آیا۔ اگر آپ میرا بیان نہیں سننا چاہتے تو میں بیان نہیں کرتا۔ یہ کہہ کر آپ اٹھ کے جانے لگے تو ان بد معاشوں میں جو سب سے بڑا بد معاش تھا، وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ مولوی! تیری بات میں سچائی نظر آ رہی ہے، میں یہاں کھڑا ہوں، دیکھتا ہوں کہ کون تجھے کچھ کہتا ہے، آپ پورا بیان کر لیں۔ حضرت نے وہی دو ڈھائی گھنٹے والا بیان کیا۔ اب بتاؤ یہ کس کام کے لیے آیا تھا اور کیا کر کے گیا۔

اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے، اللہ پاک یہ کر سکتا ہے اور اللہ پاک کرتا بھی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے جتنے بھی بڑے بڑے اولیاء اللہ تھے، وہ اس بات سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں یہ والی بات ہماری تو نہیں ہے کہ فاسق فاجر سے دین کا کام لیا جا رہا ہے اور ہم لوگ خود مفت میں مارے جائیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ڈرتے ڈرتے کام کرتے رہنا چاہیے اور کام کرتے کرتے ڈرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اس کے لیے اللہ پاک راستہ بنا دیتا ہے۔ ﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ…﴾ (الطلاق: 2) ”جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، اللہ پاک اس کے لیے راستہ نکال لیتا ہے“۔ اس لیے انسان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے، اللہ پاک کی ناراضگی سے ڈرتے رہنا چاہیے اور حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق کام کرتے رہنا چاہیے۔ یہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ