اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم صفحہ 30 پر بعثت کے لئے کسی قوم کا انتخاب کے عنوان سے فرماتے ہیں۔ کچھ اسباب ایسے ہیں جو بعثت کے ساتھ ضرور پائے جاتے ہيں اور اُمت پر اس رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی تمام قوموں سے جس قوم کی نسبت یہ جانتا ہے کہ اُس میں خدا کی اطاعت اور پرستش کی استعداد اور اس میں اللہ تعالیٰ کے فیضان اُٹھانے کی صلاحیت زیادہ ہے اس میں وہ رسول مبعوث ہوتا ہے اور چونکہ اس قوم کی اصلاح اس پیغمبر کی پیروی اور اتباع میں منحصر ہوتی ہے اس لئے بارگاہ الہی کا یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت سب پر واجب کی جائے۔ یہاں حضرت نے جو بات فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی بعث جس قوم میں ہوتی ہے اُس قوم کے اندر اللہ تعالیٰ نے ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہوتی ہے۔ انبیاء کرام کے ساتھ اُن کی قوم نے جس طرح کا طرز عمل اختیار کیا، آپ ﷺ کے ساتھ جس طرح مکہ مکرمہ کے لوگوں نے اختیار کیا وہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے جیسے اُس قوم میں حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہيں تھی لیکن حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فرما رہے ہیں وہ بالکل اُلٹ بات لگ رہی ہے اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
کچھ چیزیں جاننے اور کچھ چیزیں نہ جاننے کی وجہ سے یہ سوال کیا گیا ہے۔ جو جاننے کی چیز ہے وہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے، وہ آمنے سامنے آ گئی۔ نہ جاننے کی بات یہ ہے کہ عرب کی اس وقت کی وہ صلاحیت جو مخفی تھی اس کو نہیں جانا۔ ابو جہل میں بھی یہ صلاحیت تھی اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھی یہ صلاحیت تھی۔ اللہ پاک سے آپ ﷺ نے دونوں کو مانگا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ سے اسلام کو قوت دے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ بات قبول کر لی تو پتا چل گیا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اپنی اس وقتی نا سمجھی کی وجہ سے آپ ﷺ کو شہید کرنے کے لئے آ رہے تھے اس چیز کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ان میں رکھی تھی لیکن جب ہدایت قبول کر لی تو ان کی وہ تمام صلاحیتیں ایسے ابھر کے آئیں کہ دنیا والوں کو دور اندیشی کا مطلب سمجھ میں آ گیا کہ دور اندیشی کس چیز کو کہتے ہیں؟ تبھی تو ایک انگریز نے کہا ہے کہ اگر ایک عمر اور ہوتے تو ہم نہ ہوتے۔ اب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی statement سنو، فرماتے تھے: اے عمر تو وہ نہیں ہے کہ تجھے چچا کہتا تھا کہ تجھے اونٹ چرانے بھی نہیں آتے لیکن آج تو پورے ملک کو چلا رہا ہے۔ پتا چل گیا کہ جب تک وہ صلاحیتیں استعمال نہیں ہوئیں تو وہ بالکل منقبض تھیں لیکن جس وقت وہ چیز انہوں مان لی تو پورا ایک نظام کھل گیا۔ معلوم ہوا کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی چابی ہدایت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے لیکن جو چابی کے بعد کی چیزیں ہیں وہ پہلے سے بھی موجود ہوتی ہیں۔ جس میں جتنی زیادہ موجود ہوں گی اس کے حساب سے وہ کام ہو گا۔ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات کا مطلب یہی ہے کہ وہ چیزیں عربوں میں پہلے سے موجود تھیں کہ ان میں سے جو بھی ہدایت قبول کرے گا تو اس کی وہ تمام چیزیں اس کے بالکل مطابق استعمال ہو جائیں گی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں صدیقیت موجود تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں فاروقیت موجودہ تھی، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جود و سخا اور وفا موجود تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں شجاعت اور علم موجود تھا۔ اگر یہ ایمان نہ لاتے تو ضائع ہو جاتیں لیکن اللہ تعالیٰ کو تو پتا تھا کہ ان کے اندر یہ چیزیں موجود ہیں تو اللہ پاک نے ان کے پاس ہدایت بھیجی۔ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات کا مطلب یہی ہے کہ جس قوم میں کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے تو پہلے سے اس قوم کے بارے میں اللہ پاک کو پتا ہوتا ہے کہ ان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے، جو ان کی بات کو اٹھا سکتے ہیں کیوں کہ ﴿لاَ یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ: 286) یہ عام قانون ہے اللہ تعالیٰ کا سب کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر کسی چیز کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود بوجھ نہیں ڈالتے۔ تو جس سے جو مطالبہ ہوا اس کو پورا کرنے کی ان میں پوری صلاحیت موجود تھی۔ قوم عاد سے جو کہا گیا وہ بات قوم عاد کے اندر موجود تھی، قوم ثمود سے جو کہا گیا وہ بات ان کے اندر موجود تھی لیکن جنہوں نے نہیں مانا تو نہیں مانا اور جنہوں نے مان لیا تو کامیاب ہو گئے۔ قرآن شریف کے اندر موجود ہے کہ جن لوگوں نے مان لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ اور جنہوں نے نہیں مانا ان کے ساتھ کیا ہوا؟ مقصد یہ ہے کہ نبوت کا جو ثقل ہے اس کو اٹھانے کے لئے کوئی چیز موجود تو ہونی چاہیے۔ حضرت نے فرمایا ہے کہ جس قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اس کے اندر وہ چیز موجود تھی۔ عرب معاشرہ اصل میں جہل کے اندر مبتلا تھا اور جہل کی وجہ سے ان کو ان کے نفس نے قابو میں رکھا تھا کیونکہ ان کے پاس وہ چیز تھی نہیں نتیجتاً وہ اپنے نفس کے ذریعے سے تمام چیزوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ جس وقت ان کے پاس آسمانی ہدایت آ گئی اور انہوں نے اس کو قبول کر لیا تو ان کے سامنے ایک اور چیز بھی آ گئی جس کے ساتھ وہ compare کر سکتے تھے۔
جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حبشہ میں نجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جو خطبہ دیا تھا کہ ہم ایسے تھے اور ہم ویسے تھے، اتنے میں آپ ﷺ ہمارے درمیان آئے انہوں نے فرمایا کہ ایسا کرو اور ویسا کرو۔ گویا کہ انہوں نے گزشتہ اور موجودہ کا تقابل نجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں کر دیا۔ وہ تمام خرافات ایسی ہی تھیں جیسی حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتائیں لیکن پھر جب آپ ﷺ کے ذریعے سے ان کو ہدایت مل گئی جس کی وجہ سے ان کے اندر جو انقلاب آیا اور جو تبدیلی آئی وہ بھی دنیا نے دیکھ لی۔
آج کے دور میں بنی اسرائل جن کے اندر بڑی صلاحیت تھی، جن کو اللہ پاک نے چنا ہوا تھا، انہوں نے اپنی نفسانی خواہش کی بنیاد پر اور یہ سوچ کر کہ ہم بڑے ہیں اور ہم میں آخری نبی کیوں نہیں آیا اور ضد میں آ کر مقابلے کی صورت اختیار کر لی۔ چنانچہ ان کی genetic صلاحیتیں ختم تو نہیں ہوئیں بلکہ سب کی سب اس غلط بات کے لئے استعمال ہونی شروع ہو گئیں۔ اب وہ پوری دنیا کو نچا رہے ہیں یا نہیں؟ وہ اتنے سمجھدار ہیں، (لیکن ایمان لانے کے لئے صرف سمجھ کافی نہیں ہے) کہ سب لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور خود اپنے آپ کو اس گمراہی سے بچاتے ہیں۔ سب کو نفسانی خواہشات میں مبتلا کرتے ہیں اور خود اس سے بچتے ہیں۔ پوری دنیا کے اندر restaurants اور فحاشی کا اور دوسری چیزوں کا نظام چلا رہے ہیں لیکن خود اپنی عورتوں کو ایسا کچھ کرنے نہیں دے رہے۔ جیسے ”میرا جسم اور میری مرضی“ کس کی طرف سے آیا ہے؟ ان کی طرف سے آیا ہے۔ لیکن اپنی عورتوں کو یہ حق نہیں دے رہے، ان کو بہت دبا کے رکھا ہے۔ اسی طریقے سے junk food میں آپ کے بچوں کو لگا دیا لیکن خود ان کے بچوں کی جیبوں میں بادام، اخروٹ اور میوہ جات ہوتے ہیں وہ بچوں کو ٹافیاں نہیں کھلاتے۔ شیطان کی طرح جان بوجھ کر اب وه تمام صلاحتییں جو ان کو اللہ پاک نے دی تھیں خیر کے لئے، وہ اب شر کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
ان کی research کے مطابق پٹھان لوگ ان کا بارہواں گم شدہ قبیلہ ہے، ان کی پوری کوشش ہے کہ پٹھانوں کو اپنے ساتھ ملا لیں اور یہی پٹھان ان کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں کیونکہ ٹکر کے لوگ ہیں، برابر کے لوگ ہیں۔ اگر ان پٹھانوں کو ہدایت نہ ملے بالکل وہی بن جائیں گے۔ اور بنے ہوئے تھے، پورے ہندوستان کے اندر پٹھانوں نے سود پھیلایا ہوا تھا۔ سود سے تجارت کرتے تھے لیکن جب اللہ پاک نے ہدایت دی تو ان چیزوں سے بچ گئے پھر وہی پٹھان ہیں جو ان کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں ہمیں بالکل نظر آ رہی ہیں دونوں طرف کی۔ پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں کہ یہ خطہ کہیں اپنے اصل کی طرف نہ مڑ جائے اس لئے سب سے زیادہ KPK پر کام ہو رہا ہے، سب سے زیادہ ان کے ایجنٹ KPK میں کامیاب ہوئے تھے۔ اپنے ایجنٹوں کو سب سے پہلے ادھر پہنچایا اور NGOs کے ذریعے سے ان کی مدد کی۔ تو یہ ساری باتیں ہمیں دیکھنی چاہئیں، ہمیں جاننی چاہئیں، ہمیں سمجھنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن