آذان کے دوران درود شریف اور دعا کی اہمیت

سوال نمبر 352

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت اذان ہو رہی ہو تو اس وقت مؤذن کے الفاظ کے ساتھ ساتھ الفاظ دہراتے رہو اور جب اذان ختم ہو جائے تو مجھ پر درود بھیجیں اور پھر دعا کریں۔ آج کل ایک طرف تو اذان سے پہلے درود شریف پڑھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف جو لوگ اذان سے پہلے درود شریف نہیں پڑھتے وہ مسنون طریقے سے بھی درود شریف اور دعا اذان کے بعد پڑھنے میں غفلت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اذان اور اذان کے بعد دعا کی اہمیت پر روشنی ڈالیں؟

جواب:

ہم تو حکم کے غلام ہیں ہم کیا روشنی ڈالیں گے؟ جیسے فرمایا گیا اسی طریقے سے کریں گے۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ جس وقت مؤذن، اذان کے الفاظ کہے تو جو سننے والے ہیں وہ اس کے الفاظ کو ساتھ ساتھ دہراتے جائیں اگر وہ کہتا ہے "اَللہُ اَکبَر اَللہُ اَکبَر" تو سننے والا بھی "اَللہُ اَکبَر اَللہُ اَکبَر" کہے، اگر وہ کہے "اَشہَدُ اَن لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" تو سننے والا بھی "اَشہَدُ اَن لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" کہے، اگر وہ کہے "اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّدَّا رَّسُولُ اللہ" تو سننے والا بھی "اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّدَّا رَّسُولُ اللہ" کہے۔ یہاں پر ایک نکتہ ہے، چونکہ آپ ﷺ کا نام جب آتا ہے تو درود شریف پڑھنے کا حکم ہے جو دوسری روایت میں ہے۔ بعض لوگ اس وقت صلی اللہ علیہ و سلم پڑھ لیتے ہیں، اپنے خیال میں وہ درود شریف والی حدیث پر عمل کرتے ہیں لیکن چونکہ لا علمی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں، چنانچہ ان کو نرمی سے سمجھانا چاہیے کہ اصل میں یہ دو حکم الگ الگ ہیں۔ ایک میں درود شریف پڑھنے کا حکم ہے کہ جس وقت آپ ﷺ کا نام مبارک آ جائے پہلی دفعہ کم از کم اس پر واجب ہے اگر دوبارہ آ جائے پھر مستحب ہے۔ لیکن مؤذن کے جواب میں سنت یہی ہے کہ وہی الفاظ دہرائے جائیں۔ چونکہ مسلم شریف کی روایت ہے، صحیح حدیث شریف ہے تو وہی الفاظ دہرانے چاہئیں، پہلے حکم پر عمل ہو گیا۔

اور ارشاد فرمایا: جب اذان پوری ہو جائے تو پھر سننے والا درود شریف پہلے پڑھے اس کے بعد اذان کے بعد کی دعا پڑھے گویا کہ دوسرے حکم پر عمل ہو گیا۔ اس طرح دونوں باتوں پہ عمل ہو جائے گا۔ یہ حدیث شریف ہمارے خیال میں لوگوں کو عام طور پہ معلوم نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اس پر عمل نہیں کر پا رہے بلکہ اتنی غلط فہمی ہے کہ جو پڑھ لے اس کو ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کر رہا ہے؟ حالانکہ حدیث شریف ہے۔

ایک دفعہ میں ایک جگہ بیان کے لئے گیا تھا۔ ایک بڑے میاں پاس بیٹھے ہوئے تھے تو اذان ہو رہی تھی۔ اذان جب پوری ہو گئی تو میں نے درود شریف پڑھا پھر اس کے بعد دعا پڑھی۔ میں نے جیسے ہی درود شریف پڑھا تو بڑے میاں نے "اَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَۃ" ایسے غصے سے کہا ناں کہ جیسے میں نے بہت غلط حرکت کی ہو۔ میں نے سوچا بیان میں نے کرنا ہی ہے لہذا میں اس میں بات سمجھا دوں گا، اس میں لڑنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں خاموش ہو گیا پھر جس وقت میں منبر پر بیٹھا تو میں نے کہا کہ اصل میں کچھ غلط فہمی ہے جس کو میں دور کرنا چاہتا ہوں۔ مسلم شریف کی حدیث شریف پر میں نے عمل کیا ہے اور مسلم شریف کی حدیث شریف میں تو ایسے ہی امر ہے کہ پہلے درود شریف پڑھتے ہیں اور اس کے بعد دعا۔ لیکن وہ کوئی ڈاڈھے آدمی تھے، کچھ اور باتوں پہ اعتراض کر رہے تھے جیسے ہمارے کام وغیرہ پر۔ تو میں نے جب دلائل دینا شروع کئے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ نہیں سنا۔ میں نے کہا: آپ کا سننا نہ سننا معیار نہیں ہے بلکہ معیار قرآن و سنت ہے۔ اگر قرآن و سنت میں ہے تو آپ جانیں یا نہ جانیں آپ کے جاننے نہ جاننے سے کیا ہوتا ہے؟ آپ کسی جاننے والے سے پوچھ لیں، یہی اس کا حل ہے۔ اس کے علاوہ اور میرے پاس کیا جواب تھا۔

کچھ حضرات اس طرح کی طبیعت کے ہوتے ہیں لیکن بہرحال شریعت، شریعت ہے وہ کسی خاص کے لئے نہیں ہے بلکہ سب کے لئے ہے۔ سب کو شریعت پر عمل کرنا چاہیے۔ جب قرآن و حدیث کی بات آ جائے تو بسر و چشم ہو جانا چاہیے۔ عربوں میں ہم نے یہ بات بہت اچھی دیکھی ہے کہ چاہے کوئی بھی نظریہ رکھتے ہوں لیکن اگر آپ قرآن و حدیث کی دلیل دیں تو فوراً surrender کر لیں گے۔ عِندَکَ حَقٌ یَا شَیْخ۔ بس بات ختم ہو جائے گی۔ لیکن ہمارے ہاں یہ چیز نہیں ہے ہمارے ہاں ”او جی آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن وہ“ اور سارا کچھ خراب کر دیتے ہیں۔ یہ لیکن ویکن کی بات نہیں ہے۔ جب بات شریعت کی آ گئی تو پھر اس کے بعد لیکن لیکن کی کیا ہوتا ہے؟ یا تو آپ تحقیق کر لیں کہ جو میں نے کہا ہے وہ واقعی شریعت ہے یا نہیں ہے؟ وہ ایک علیحدہ سوال ہے اور وہ آپ کا حق بھی ہے، سب کا حق ہے کہ معلوم کر لو۔ اس میں جاننے والوں سے پوچھا جائے گا۔ مثلاً مفتی سے پوچھا جائے گا۔

ہماری والدہ کا جنازہ تھا، جس وقت جنازہ پہنچ گیا تو وہاں کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ مکروہ وقت ہے۔ میں نے کہا: یہ جنازہ ہے اس کے احکامات الگ ہیں۔ بہرحال نماز تو ہم نے پڑھ لی کیونکہ وہ اس بات کا موقع نہیں تھا۔ شاید کچھ لوگوں کے ذہنوں میں سوال رہ گئے تو اگلے دن مجھ سے احمد نے کہا کہ ایک صاحب نے کہا تھا کہ انہوں نے مکروہ وقت میں جنازہ پڑھایا ہے۔ میں نے فوراً بنوری ٹاؤن کا فتویٰ ان کو دکھا دیا جو اس بارے میں تھا۔ کہتے ہیں: مجھے link بھجیں تاکہ میں بھی آگے بھیج دوں۔ میں نے اس کو link بھیج دیا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ اصل میں جنازہ اگر پہلے سے آ چکا ہو تو تاخیر اگر کی جائے گی تو پھر مکروہ وقت میں نہیں پڑھا جا سکتا۔ یعنی optional ہو گیا۔ لیکن اگر اسی وقت جنازہ آ گیا تو چاہے وہ مکروہ وقت بھی ہو تو بھی پڑھنا جائز ہے۔

کیونکہ جنازے میں تاخیر بھی مکروہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ تین چیزوں میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے جس میں ایک جنازہ ہے۔ انسان اول تو علم حاصل کر لے، اگر علم حاصل نہیں کرتا تو پھر علماء کے پیچھے پیچھے چلو، تیسری بات اس میں کوئی نہیں ہے۔

حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے دبنگ عالم تھے۔ ایک دفعہ اپنے اوپر گرمیوں میں ٹھنڈا پانی ڈال رہے تھے۔ دو آدمی ان کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے کہا: او فلانوں یہ نہ سمجھنا کہ میں سنت کے خلاف کوئی کام کر رہا ہوں، میں کوئی مسنون غسل نہیں کر رہا، میں صرف اپنے جسم کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے ایسا کر رہا ہوں، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔(جیسے air condition جو پانی سے چلتا ہے اس پہ اگر آپ پابندی لگا دیں کہ یہ پانی کا اسراف ہے)۔ پھر کہا: تم کہو گے کہ مولوی اپنے لئے باتیں بناتا ہے۔ ہاں ہم بناتے ہیں تم بھی مولوی بن جاؤ پھر تم بھی اپنے لئے باتیں بنانا۔

مقصد یہ ہے کہ وہ صرف لوگوں کا مزاج بتانا چاہتے تھے کہ لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ مولوی جب مسئلہ بتاتا ہے تو کہتے ہیں یہ اپنے لئے مسئلے بناتے ہیں۔ بھئی وہ بناتے نہیں بلکہ بتاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں: مولوی لوگوں کو کافر بناتے ہیں، بھئی کافر بناتے نہیں بلکہ بتاتے ہیں۔ اگر کوئی کافر ہو گا تو اس کو کافر ہی بتایا جائے گا۔ اگر اس نے کفر کیا ہے تو پھر اس کو کافر کہا جائے گا۔ ان معنوں میں ہمیں غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں اور شریعت کی بات کو ماننا چاہیے، اس کے لئے دل کو بڑا کھلا رکھنا چاہیے کیوں کہ دین پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوا ہے اور حضور ﷺ کے ذریعے سے آیا ہے۔ لہذا ہم صرف دو چیزوں کے پابند ہیں کہ اس بات کو قرآن پر پیش کر لیں یا سنت پر پیش کر لیں جو حکم ہو گا وہ معلوم ہو جائے گا، اس کے مطابق پھر اس پر عمل ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن