اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال:
آج کل جس طرح گمراہ لوگ مختلف ذرائع استعمال کر کے دین کے نام پر گمراہی پھیلا رہے ہیں اور دین کے مسلمہ اصولوں کے بارے میں مختلف طریقوں سے شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ کیا آپ ﷺ کے دور میں یا قرون اولیٰ میں بھی دین کے مسلمہ اصولوں کے اندر اس قسم کے شکوک پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی تھیں؟ اگر آپ ﷺ کے دور میں یا قرون اولیٰ میں ایسا ہوا ہے تو اس وقت ان فتنہ گروں سے نمٹنے کے لئے آپ ﷺ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا طریقہ اختیار کیا تھا؟ اگرچہ زمانے کے اختلاف کی وجہ سے دور حاضر کے مطابق طریقے اپنانے ہوں گے، لیکن اس سوال کرنے سے مقصد یہ ہے کہ بنیادی اصول سمجھ میں آجائے۔
جواب:
انسان کی پیدائش کے وقت اس کے ساتھ دو چیزیں اور بھی جنم لیتی ہیں، (1) نفسِ امارہ۔ (2) اس کا شیطان۔
شیطانوں کے سردار ابلیس نے انسانیت کو تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کیونکہ انسان کی وجہ سے اسے راندۂ درگاہ ہونا پڑا۔ اس کینے اور بغض کی وجہ سے وہ تب سے انسان کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور مختلف انداز میں انسان کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ انسان کے اپنے شیطان کی بڑے شیطان کے ساتھ ملی بھگت اور نفس کے رذائل کی وجہ سے گمراہی کی مختلف قسم کی صورتیں بنتی رہتی ہیں۔ شیطان آغاز سے ہی اس جدوجہد میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح حق کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں، اور اس کا یہ کام ہر دور میں مختلف طریقوں سے جاری رہا ہے۔ اور اہل حق اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے اس کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں کا تدارک بھی کرتے رہے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے زمانۂ مبارک میں کفار کی طرف سے دین حق اور اس کی دعوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششیں مختلف طریقوں سے ہوتی تھیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)۔ حضور ﷺ جس کو بھی دین حق کی دعوت دیتے تھے اسے قرآن کریم سنایا کرتے تھے۔ کفار مکہ میں ایک شخص نضر بن حارث بن کلدہ نامی ایک تاجر تھا جو اکثر تجارت کے سلسلے میں دوسرے ملکوں کا سفر کرتا تھا، وہ عجمی لوگوں کے قصے کہانیاں خرید کر لاتا تھا، اور لوگوں کو کہتا تھا محمد ( مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تمہیں عاد اورثمود کے واقعات سناتے ہیں اور میں تمہیں رستم ،اسفند یار اورایران کے شہنشاؤں کی کہانیاں سناتا ہوں ۔ اس کے بارے میں باقاعدہ قرآن پاک میں ذکر آیا ہے، سورۃ لقمان کی ابتدائی آیات کی تفاسیر میں یہ واقعہ مفصل مذکور ہے۔
(2)۔ مشرکین مکہ کا ایک طریقہ نبی ﷺ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرنا تھا۔ آپ ﷺ کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مشہور کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ یہ جادوگر ہے، کبھی مجنون کہتے، کبھی یہ الزام لگاتے کہ یہ بس بڑا بننا چاہتا ہے حالانکہ ہمارے درمیان کا ہی آدمی ہے۔(نعوذ باللہ من ذلک)
(3)۔ قرآن کریم کی کوئی آیت ، کوئی سورۃ یا کوئی حکم نازل ہوتا تو اس کا مذاق اڑاتے، اور طرح طرح سے اس پر تبصرے کرتے۔ کتبِ تفاسیر میں ایک واقعہ مذکور ہے۔جب یہ آیت نازل ہوئی
﴿إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعَامُ الْأَثِيمِ﴾ (الدخان: 43-44)
ترجمہ: ”یقین جانو کہ زقوم کا درخت، گناہ گار کا کھانا ہوگا“
تو لوگوں نے ابو جہل سے پوچھا کہ زقوم کیا ہے۔ اس نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی خطرناک چیز نہیں بلکہ کھجور کی طرح میٹھی چیز ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسے کسی نے کھانے کے لئے کھجور دی، جسے کھا کر اس کے پیٹ میں ایسا مروڑ اٹھا کہ وہ درد کے مارے بلبلا اٹھا۔
(4)۔ قریش مکہ لوگوں کو کہتے تھے کہ قرآن نہ سنو۔ یہ آدمی کے اوپر جادو کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی منقول ہے کہ طفیل دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بڑے اچھے شاعر تھے۔وہ جب مکہ آئے تو مشرکین مکہ سے سنا کہ یہاں ایک آدمی ہے جو کچھ ایسا کلام پڑھتا ہے کہ انسان کے دماغ پہ اثر ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے اپنے کانوں میں روئی رکھ لو۔ انہوں نے اپنے کانوں میں روئی رکھ لی۔ ایک بار آپ ﷺ کسی مجلس میں دعوت دے رہے تھے، یہ وہاں سے گزر رہے تھے ۔ انہوں نے سوچا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ شاعری کو بھی جانتا ہوں۔ جادو کے بارے میں بھی سمجھتا ہوں کہ جادو کیا ہوتا ہے۔ لوگوں کی باتوں پر اعتماد کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ایک بار خود سن لوں کہ آخر یہ کیسا کلام پڑھتے ہیں، اور کہتے کیا ہیں۔ انہوں نے اپنے کانوں سے روئی نکالی اور حضور ﷺ کی باتیں سننی شروع کیں۔ قرآن سنا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ہو گئے۔
اس قسم کے اور کئی طریقے تھے جن کے ذریعے کفار و مشرکین نبی ﷺ اور دین حق کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ دور حاضر میں باطل کی طرف سے یہ سب سرگرمیاں ہوتی ہیں، بس ان کا طریقہ اور ذرائع بدل گئے ہیں۔ آج کل زیادہ تر اس قسم کی کوششیں سوشل میڈیا پر ہوتی ہیں، پرنٹ میڈیا پر ایسے articles آتے ہیں۔ اس کے علاوہ گمراہ لوگ اپنی مجلسوں میں اس قسم کی باتیں بیان کرتے ہیں۔ انکار حدیث کا فتنہ، غیر مقلدیت کا فتنہ ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ہرزہ سرائی کا فتنہ اوراولیاء اللہ کے خلاف زبان درازی کا فتنہ یہ سب فتنے اسی قسم کی کوششوں کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ الغرض شیطان ہر اس ذریعہ میں شکوک و شبہات پیدا کرواتا ہے جہاں جہاں سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، ان کا ایمان مضبوط ہو سکتا ہے اور ان کے اخلاق درست ہو سکتے ہیں۔
شیطانی قوتوں کا دین حق کے بارے میں کنفیوژن پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ کسی اچھے گروپ میں موجود برے لوگوں کو نمایاں کر کے پورے گروپ کے بارے میں کنفیوژن پیدا کرتے ہیں اور ان کو بدنام کرتے ہیں۔ مثلاً صوفیاء اور علماء کی مثال لے لیں۔ علماء میں علماء سوء بھی ہیں علماء حق بھی ہیں۔ اب یہ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ علماء سوء کی باتوں کو سامنے لا کر انہیں علماء حق کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح صوفیائے سوء کی باتوں کو سامنے لا کر صوفیائے حق سے بدگمانی پیدا کی جاتی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔ گوجرانوالہ کا ایک پیر سائیں فوت ہوا تھا ۔ اسے باقاعدہ ڈھول تاشے اور بینڈ باجے کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے دفن کیا گیا۔ لوگ بھنگڑے اور دھمالیں ڈال رہے تھے۔ اب یہ آدمی بطور صوفی مشہور تھا۔ اگر اس کی بنیاد پر صحیح صوفیوں کے خلاف دلیل بنائی جائے تو یہ غلط بات ہوگی۔ لیکن آج کل اسی طریقے کو ایک بہت بڑے ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے تدارک کے لئے ہمیں لوگوں کو یہ بات سمجھانی پڑے گی کہ ضروری نہیں کہ کسی گروپ میں سارے لوگ ہی ٹھیک ہوں۔ ہاں آپ کو اہل حق کی علامات معلوم ہونی چاہئیں۔ آپ ان کو پہچان لیں۔ ٹھیک کو ٹھیک کہیں، غلط کو غلط کہیں۔اور ہمیں یہ بات liberal اور rational انداز میں لوگوں کو سمجھانی ہوگی۔ لڑائی کے انداز سے اجتناب کرنا ہوگا۔ اس بات کو یوں کہنا ہوگا کہ دیکھیں، یہ بات مسلم ہے کہ دکاندار سارے ٹھیک نہیں ہیں، استاد سارے ٹھیک نہیں ہیں، ڈاکٹر سارے ٹھیک نہیں ہیں۔ ہر طبقہ میں اچھے بھی ہیں برے بھی ہیں۔ اسی طرح صوفیاء میں اچھے بھی ہیں ،برے بھی ہیں، علماء میں اچھے لوگ بھی ہیں، برے بھی ہیں۔ہمیں بروں کی وجہ سے اچھوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔
شیطانی قوتوں کی طرف سے کنفیوژن پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی علمی بات میں سے کوئی جزئیہ نکال لیتے ہیں اور اس کے ذریعہ confusion پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً قادیانیوں کا طریقہ واردات یہی ہے، اصل اور واضح بات کو چھوڑ کر باریکیوں میں جا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، ظلی و بروزی اور اس قسم کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، جنہیں سمجھنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں سے کہنا چاہیے کہ ہم لوگ ظاہری دین کے اوپر عمل کر رہے ہیں جو بالکل موٹی موٹی باتیں ہیں۔ اس کے اوپر بات کرو۔ گہری باتیں علماء کی ہیں۔ یا تو پورا علم حاصل کرو یا پھر ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ موٹی موٹی باتوں کے اوپر بات کرو۔ اپنے بنیادی تصورات ٹھیک کرو۔ یہ گہری باتیں علما کے لئے چھوڑ دو۔ جو جتنا جانتا ہے اس کے حساب سے اسے سمجھایا جائے۔ اسے گہری باتوں کی طرف نہ لایا جائے کیونکہ بغیر علم حاصل کیے گہری باتیں سمجھ نہیں آئیں گی، نتیجتاً پریشانی اور کفیوژن ہی پیدا ہوگی۔
دور حاضر میں اس قسم کے جو مسائل پیش آ رہے ہیں ۔ان کا علاج حکمت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ لوگوں میں آخرت کا ڈر پیدا کرنا چاہیے، کیونکہ جب کوئی صرف دنیا کو سامنے رکھ کر آخرت کو بھول جاتا ہے، تو پھر اس قسم کی باتیں زیادہ جلدی قبول کرتا ہے۔ اکابرین کے پر اثروعظ کی مثالیں مشہور ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا وعظ ایسا پر اثر ہوتا تھا کہ لوگوں کے جنازے نکلتے تھے ۔ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ کی تاثیر تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ان کا طریقہ یہی ہوتا تھا کہ آخرت کی یاد دلاتے تھے، آخرت کا استحضار کراتے تھے۔ اللہ کا خوف پیدا کرتے تھے۔ ہمیں بھی یہی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ان کے ساتھ الجھیں، ہمیں وہ کام کرنا چاہیے جو نبی ﷺ کرتے تھے کہ آپ کے پاس جو لوگ آتے تھے آپ ﷺ ان کو قرآن کی آیتیں سناتے تھے۔ ان کے ساتھ بحث مباحثہ کی بجائے قرآن سناتے تھے اور قرآن اپنا اثر کر جاتا۔
قرآن کا زیادہ تر حصہ تبشیر وانذار پر مشتمل ہے۔ اچھے لوگوں کے لئے کیا ہو گا اور برے لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا ۔مسلسل یہی مضمون چلا آ رہا ہے۔ قرآن پاک میں آخرت کی باتیں ہوتی ہیں۔ انجام کار کے لحاظ سے باتیں ہوتی ہیں۔ یہی باتیں ہم لوگوں کو زیادہ تر کرنا چاہییں تاکہ لوگوں کے دلوں میں اللہ جل شانہ کی عظمت پیدا ہو۔ آخرت کا ڈر پیدا ہو۔ اس کے لئے تیاری کا جذبہ پیدا ہو۔ اس بات کی سمجھ آئے کہ جنت کیا ہے اور دوزخ کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان چیزوں کے ذریعے ہم لوگوں سے بات کریں بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ بحثوں میں پڑ یں۔ بحثوں سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان کے level کی بات ہی نہیں ہوتی۔ جب ہم ان کے ساتھ قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کے انداز میں بات کریں گے تو ان شاء اللہ العزیز ان کا دل نرم ہو گا۔اور جب وہ سمجھنے کے لئے تیار ہوں گے تب آپ ان کو بات سمجھا سکیں گے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔