نیک عمل اور اخلاص کا تعلق ضمیر سے

سوال نمبر 349

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ کے حصہ ششم میں اسلام میں اخلاق کا فلسفہ کے عنوان کے تحت صفحہ نمبر 304 پر ارشاد فرماتے ہیں: کتنا ہی نیک کام ہم اللہ کا حکم سمجھ کر انجام دیں لیکن اگر ہمارا اندرونی احساس اور ضمیر اس کو نیک نہیں سمجھتا اور ہماری عقل اس کے خلاف ہم کو راہ سمجھاتی ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ابھی تک اس کے اللہ کا حکم ہونے پر ہمارا یقین پُختہ نہیں ہوا جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ ایمان اور روحانی تکمیل کا نقص ہے۔ اگر کوئی کسی کام کو محض اللہ کا حکم سمجھ کر کر رہا ہے اور اپنے اندرونی احساس یعنی ضمیر اور عقل کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اُس کی نظر محض اللہ تعالیٰ کے حکم کے اوپر عمل کرنا ہو تو کیا ایسا شخص زیادہ کامل اخلاص والا نہیں ہو گا کیونکہ وہ اپنے اندرونی محرکات کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کر رہا ہے۔

جواب:

حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے۔ آپ ﷺ نے جنگِ موتہ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سپہ سالار بنایا۔ تین سپہ سالار بنائے اور فرمایا اگر یہ شہید ہو جائے تو پھر یہ ہو گا، اگر یہ شہید ہو جائے تو پھر یہ ہو گا، اگر یہ تو پھر یہ ہو گا، اس کے بعد لوگ خود ہی فیصلہ کرکے اپنا سپہ سالار چن لیں۔ سب ساتھی کہہ رہے تھے کہ یہ حضرات شہید ہونے والے ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا دیا تھا۔

جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی بہادری سے لڑے، تو جس وقت ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا تو دوسرے ہاتھ سے جھنڈا پکڑ لیا پھر دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو جھنڈا سینے کے ساتھ لگا کے اٹھا لیا، اس کے بعد برچھی سے شہید کر دئیے گئے۔ ان کا جسم مبارک کافروں کے ہاتھ نہیں آیا بلکہ فرشتوں نے اٹھا لیا تھا۔ اس لئے ان کو جعفر طیار کہتے ہیں یعنی پرندے کی طرح اڑ رہے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مالدار صحابی تھے، ان کی تین بیویاں تھیں اور مال بھی بہت تھا، غلام بھی بہت تھے، کیونکہ ان کو اندازہ تو تھا کہ اب میں نے شہید ہونا ہے تو ان کو ذرا تامل ہوا، ذرا اٹھنے میں، آگے جانے میں تو ان کو فوراً احساس ہو گیا اور خود سے فرمایا: عبد اللہ تو اس وجہ سے رک رہا ہے کہ تیری بیویاں ہیں؟ ساری بیویوں کو طلاق۔ کیا اس لئے رک رہا ہے کہ تیری زمینیں ہیں؟ سب زمینیں وقف۔ کیا اس لئے رک رہا ہے کہ تیرے غلام ہیں؟ سارے غلام آزاد۔ سب چیزوں سے فارغ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ بعد میں کسی نے ان دونوں کو خواب میں دیکھا تو جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تخت بالکل سیدھا تھا اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تخت ایک طرف سے تھوڑا سا ٹیڑھا تھا۔ صحابہ کرام نے یہ خواب آپ ﷺ کو سنایا، آپ ﷺ نے فرمایا: بس یہی فرق ہے۔ کیونکہ جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتدا ہی سے without any resistance کر دیا گویا کہ وہ عقلاً، نفساً، قلباً غالب تھے، تینوں کے لحاظ سے وہ آگے چلے گئے اور اللہ پاک نے شہادت نصیب فرمائی۔ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نفساً والا مسئلہ ذرا ہو گیا تھا اگرچہ عقلاً اس پہ قابو پا لیا اور شہید ہو گئے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: بس اتنی کسر تھی۔ اس سے پتا چلا کہ جو لوگ کاملین ہوتے ہیں ان کا بالکل by default معاملہ ہوتا ہے کہ اس میں ذرا بھر بھی دوسری چیز نہیں ہوتی، وہ یقیناً آگے ہے۔ (لیکن کسی صحابی کے بارے میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کامل نہیں تھے بلکہ وہ سب کامل تھے کوئی ولی کسی ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا لیکن چونکہ وہ بعد والی امت کے لئے نمونہ تھے اس لئے اللہ پاک نے ان سے کچھ ایسے واقعات صادر فرمائے) اور resistance کا اگرچہ اجر ہے، مثال کے طور پر آپ ﷺ نے تلاوت کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو صحیح رواں تلاوت کرتے ہیں آسانی سے، وہ فرشتوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور جو اٹک اٹک کے پڑھتے ہیں ان کو دوگنا اجر ہو گا۔ یعنی کاملین کی بات الگ ہے البتہ نقص کی موجودگی تو ہے، اس پہ قابو پانا ہے۔ چنانچہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنی ان تمام چیزوں کو دور کر لیں نقائص پر قابو پانے میں۔ مثلاً ایک شخص کی تربیت نہیں ہوئی اس کو غصہ آیا اس نے غصے کو control کرنے کے اس formula پہ عمل کر لیا کہ پانی پی لیا یا جگہ بدل لی تو اس طرح اس کا غصہ control ہو گیا۔ دوسرے آدمی کو غصے آیا تو اس نے خود کو کہا: تیرا کام یہاں نہیں ہے، بیٹھ جا آرام سے۔ یعنی اس کو اپنے Area سے باہر نہیں نکلنے دیتا۔ کون کامل ہے؟ تو کاملین established ہوتے ہیں۔

اخیار بھی یہی کام کرتے ہیں جو ابرار کرتے ہیں لیکن ابرار ان سے افضل ہیں یا نہیں؟ کیونکہ انہوں نے اپنی تربیت کی ہوتی ہے۔ اخیار کی تربیت نہیں ہو چکی ہوتی لیکن وہ اپنے نفس کے ساتھ لڑ رہے ہوتے ہیں، گویا کہ جب تک تربیت نہیں ہوئی اس وقت تک لڑتے رہیں گے، یہ due ہے۔ دنیا کی مثال دیتا ہوں کہ ایک لڑکا ہے وہ سارا کچھ پڑھ چکا ہے اور جیسے ہی اس سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو وہ فوراً جواب دیتا ہے اور دوسرا لڑکا سارا کچھ پڑھا ہوا نہیں ہے لیکن جو اس سے پوچھا جاتا ہے اسی particular area کو study کر کے آپ کو جواب دیتا ہے۔ بتائیں کون عالم ہے؟ ان ساری باتوں کا conclusion یہ ہے کہ ہمیں اپنی تربیت مکمل کرنی چاہیے تاکہ کسی جگہ سے کوئی defect باقی نہ رہے۔ البتہ وقت پہ فیصلے تو پھر بھی ٹھیک کرنے ہیں، شریعت تو اپنی جگہ پر ہے شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی، کامل کے لئے بھی وہی شریعت ہے اور غیر کامل کے لئے بھی وہی شریعت ہے۔ عمل تو اس کو بھی کرنا ہے اور اِس کو بھی کرنا ہے۔ لیکن شریعت پر عمل کرنے کے لئے جتنی قلب کی صفائی کی ضرورت ہے، جتنا نفس کو قابو کرنے کی ضرورت ہے، جتنا عقل کو سمجھانے کی ضرورت ہے وہ ساری چیزیں مکمل ہو چکی ہوں تو پھر کمال ہے اور ایسے شخص کو کامل کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بنائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن