اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کی سیرت میں یہ واقعات تو ہمیں ملتے ہیں کہ آپ ﷺ بچوں پر شفقت فرماتے تھے بچوں پر گزرتے تھے تو ان کو سلام کرتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھاتے تھے، کسی بچے کو دائیں ہاتھ سے کھانے کا فرمایا۔ لیکن آج کل جیسے بچے ضدی ہوتے ہیں یا والدین کی بات نہیں مانتے، یہ بات ہمیں سیرت میں نہیں ملتی کہ آپ ﷺ سے کسی صحابی نے اپنے بچے کی ضدی ہونے یا بات نہ ماننے کی شکایت کی ہو اور آپ ﷺ نے اس مسئلے کا حل بیان فرمایا ہو۔ کیا اس قسم کے مسائل صحابہ کو پیش نہیں آتے تھے جو کہ آج کل والدین کو بچوں کے سلسلے میں پیش آتے ہیں یا آئے تھے لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی اس وجہ سے سیرت کی کتابوں میں یہ مسائل نہیں ہیں۔ آج کل اس قسم کے مسائل کا حل ہم سیرت طیبہ کی روشنی میں کیسے ڈھونڈ سکتے ہیں؟
جواب:
اصل میں یہ واقعی ایک انتہائی مشکل سوال ہے لیکن اس کے لئے ہمیں کچھ بنیاد بنانی پڑے گی۔ ایک ہوتی ہے ظاہری تربیت، یعنی آپ کسی کو کچھ کہہ دیتے ہیں اور اس کے لئے کوئی ترتیب بناتے ہیں اور وہ اس کو مان لیتا ہے، وہ ایک نظام ہے۔ اور ایک ہوتا ہے کہ اس کے لئے ایک باطنی ترتیب پہلے سے بن چکی ہو۔ مثال کے طور پر کسی کا رزق حلال ہے تو اس کی اولاد مخلتف ہو گی۔ اور جب اپنی والدہ کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ کیا کرتی تھی؟ ذکر کرتی تھی یا گانے گاتی تھی۔ ظاہر ہے اس کا اثر ہو گا۔ بعد میں چونکہ سوال اٹھیں گے تو اس لئے اس کے اندر میں کچھ عرض کرتا ہوں کہ initial condition ہماری سائنس میں ہوتی ہے اور دوسرا boundary condition ہوتی ہے۔ initial condition جیسے رزقِ حلال کا ہونا اور دورانِ حمل والدہ کی احتیاط۔ اس سے بچے کی صلاحیت اور استعداد set ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد boundary conditions کا مسئلہ آتا ہے جس میں اپنے گھر کا ماحول، باہر کا ماحول، جو وہ پڑھ رہا ہے اس کا، جو دیکھ رہا ہے ہے اس کا، جو سن رہا ہے اس کا۔ اب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی میں یہ دو conditions بڑی زبردست set تھیں، ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ boundary conditions میں ان کے اپنے گھر کا ماحول کیسا ہوتا تھا؟ مثال کے طور پر ایک آدمی cigarette پیتا ہے اور اس کا بچہ اس کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اپنے بچے کو cigarette پینے سے روک سکتا ہے؟ کہہ تو سکتا ہے اور کہتا بھی ہے کیونکہ اس کو اس کے نقصانات کا پتا ہوتا ہے لیکن کیا بچے پہ اثر ہوتا ہے؟ اگر کسی نے اپنے بچے کے سامنے جھوٹ بولا تو کیا اس کو جھوٹ بولنے سے منع کر سکتا ہے؟ اگر کسی نے اپنے بچے کے سامنے کوئی حرام چیز استعمال کی یا دھوکہ دیا تو کیا وہ بچہ کو اس سے منع کر سکتا ہے؟ یہ ہمارے گھر کی boundary conditions ہیں۔ پھر اسکول کی boundary conditions ہیں، محلہ کی boundary conditions ہیں، پھر موبائل کی boundary conditions ہیں، یہ سب ملا کے صحابہ جیسے حالات بن سکتے ہیں؟ صحابہ کی زندگی تو بڑی پاک زندگی تھی یعنی ابتدا میں بھی اور بعد میں بھی، ماحول کے لحاظ سے بھی، اس لئے ان کو اس قسم کے عوارض پیش نہیں آتے تھے۔ اگر ہم آج صحابہ کرام کی زندگیوں سے سبق لے لیں اور ابتداء میں رزق حلال کمائیں اور بچوں کو وہی کھلائیں یا ہم خود وہی کھائیں تو نطفے کی صورت میں وہی حلال genetic چیز جائے گی۔ پھر اس کے بعد اپنے گھر کے ماحول کو بہتر بنائیں، آپس میں گالی گلوچ، جھوٹ بولنا، غلط بات کرنا، غیبت کرنا، یہ ساری باتیں ہم اپنے بچوں کے سامنے نہ کریں۔ نتیجہ کیا ہو گا؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے بچے پھر یہی سیکھیں گے۔ اس طریقے سے جو بات ہوتی ہے وہ بہت زیادہ موثر ہوتی ہے لیکن ہم لوگ پنکھے کو پروں سے پکڑ کے بند کرنا چاہتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا، اس کے بٹن سے اس کو آف کرنا پڑتا ہے پھر کام ہوتا ہے۔ اُس وقت اِس قسم کی صورتحال نہیں تھی کیونکہ جو initial conditions تھیں وہ بہترین set ہوتی تھیں اور اس کے بعد جو boundary conditions ہیں وہ بھی ان کی صحیح ہوتی تھیں، اکا دکا، ادھر ادھر سے اگر کوئی چیز آ جاتی تو اس کو cover کرنا آسان ہو جاتا تھا۔
عجیب و غریب دور تھا، حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بچے ہیں اور عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں کہ تم ہمارے غلام ہو اس وقت غلامی کا تصور تو تھا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما روتے ہوئے اپنے والد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاتے ہیں کہ انہوں نے مجھے غلام کہا ہے۔ فرمایا: اچھا ایسا کہا ہے پھر تو ان سے لکھوا لو کہ تم ہمارے غلام ہو۔ وہ حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس لکھوانے چلے گئے لیکن انہوں نے ان کی بات نہیں مانی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما چونکہ بچے تھے تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاکر ان سے شکایت کی کہ انہوں نے کہا ہے کہ تم ہمارے غلام ہو لیکن اب لکھ کے نہیں دیتے، یہ تو ہمارے لئے بہت بڑی سند ہو جائے گی کہ ہمیں اپنا غلام مان لیں۔ یہ ماحول تھا۔ اب کہاں وہ ماحول اور کہاں یہ ماحول، بہت زیادہ فرق ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ اگر تھوڑا سا پیچھے کی طرف دیکھیں اور ذرا حالات کو جاننے کی کوشش کریں کہ کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں، وہ تبدیلیاں جس راستے سے آئی ہوئی ہیں ہم تھوڑا سا انہی راستوں سے ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر لیں تو نتیجہ ان شاء اللہ اچھا آئے گا۔ آخر امام مہدی علیہم السلام نے بھی تو آنا ہے، ان کے لئے بھی تو حالات ہوں گے۔ اولیاء اللہ بھی تو ابھی آ رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اولیاء اللہ نہیں ہیں۔ سارا روحانی نظام ما شاء اللہ موجود ہے بس صرف یہ بات ہے کہ ہم اس میں ہیں یا نہیں؟ ہم اپنے آپ کو کہاں set کر سکتے ہیں؟ کیسے set کر سکتے ہیں؟ اس کے لئے ہماری کوشش ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب فرما دیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن