اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہو گا۔ (صحیح بخاری حدیث 1196) عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ ﷺ کی قبر مبارک اور منبر کے درمیان جو زمین ہے یہ جنت سے آئی ہے اور یہ اس وقت آئی تھی جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی تھی تو آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ تمہیں جہیز میں کیا دوں؟ انہوں نے عرض کیا کہ مجھے جنت کی زمین دے دیں تو اس وقت بطور معجزہ ایک زمین آ کر اس جگہ پڑ گئی اس وقت سے یہ جنت کی زمین اس دنیاوی زمین کے اوپر موجود ہے۔ بعض لوگ جو حج و عمرہ کے لئے جاتے ہیں اس زمین پر پاؤں رکھنے پر محسوس ہونے والی کچھ خاص کیفیات بھی بیان کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جنت کی زمین ہے جس کی وجہ سے اس پر پاؤں رکھنے سے خاص کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:
کم از کم اس بارے میں میرا مطالعہ نہیں ہے البتہ اس ٹکڑے کو ”ریاض الجنۃ“ کہتے ہیں اور یہ جنت کی زمین ہے اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ ریاض، باغ کو کہتے ہیں۔ اور جو مختلف اسطوانے ہیں یہ برکت کے لئے ہیں، اس میں سے اسطوانۂ عائشہ کی بہت ہی زیادہ فضیلت ہے۔ فرمایا کہ اگر لوگوں کو پتا چل جائے کہ یہاں کی نماز کتنی مقبول ہے اور کتنی فضیلت والی ہے تو لوگ آپس میں لڑیں گے اور ان کو اس کے لئے قرعہ ڈالنا پڑے گا۔ اور اب بھی لوگ انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ تو اگر قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو سکتی ہے تو وہ زمین کیوں نہیں ہو سکتی؟ البتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا والا جو واقعہ آپ نے بیان کیا یہ کم از کم میرے علم میں نہیں ہے، اس پہ تحقیق کرنی پڑے گی کہ آیا اس کی کوئی سند ہے یا نہیں؟
لوگوں کے درمیان تو بہت ساری باتیں مشہور ہوتی ہیں۔ ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بزرگی کے بارے میں بہت باتیں مشہور ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بہت ساری باتیں مشہور ہیں۔ اسی طرح اور بزرگوں کے بارے میں مشہور ہیں۔ اصل میں سند کا اعتبار ہوتا ہے، جو بات مستند نہ ہو اس کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس کو اس وقت تک نہیں بیان کرنا چاہیے جب تک اس کی تحقیق نہ کی جائے کیونکہ اگر کوئی تحقیق کے بغیر کوئی بات کسی کو بتائے گا تو وہ جھوٹا کہلایا جائے گا۔ چنانچہ ایسی چیزوں پہ گفت ہی نہیں ہو سکتی۔ البتہ صحیح بخاری کی حدیث شریف کا آپ نے حوالہ دیا ہے یہ بالکل صحیح ہے اور مستند ہے۔
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت النبی ﷺ جو کتاب ہے اس کی speciality یہ ہے کہ اس میں مستند روایات کو جمع کیا گیا ہے۔ باقی یہ ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی فضیلت میں بھی اس بات سے کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کی فضیلت میں دیگر روایات موجود ہیں صرف اسی روایت کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا یعنی جنت میں خواتین کی سردار ہوں گی۔ یہ اضافی بڑی بات ہے۔ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پورے خاندانِ اہل بیت کے بارے میں بہت سے مستند فضائل بیان فرمائے ہیں۔ اسی طریقے سے صحابہ کرام ان کی بہت قدر کرتے تھے، اپنی اپنی جگہ جتنی باتیں ثابت ہیں وہ ساری کی ساری درست ہیں اور ہمیں ان کو ماننا چاہیے لیکن خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ جیسے آپ ﷺ سے زیادہ محبوب ہستی ہمارے لئے کوئی نہیں ہے لیکن اگر ان کے ساتھ بھی کوئی جھوٹی فضیلت والی بات بنا دی جائے تو کیا ہمیں اسے ماننا چاہیے؟ کیونکہ آپ ﷺ پہ جھوٹ باندھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہم کہیں گے کہ جو آپ ﷺ کے لئے ثابت ہے بس وہی ہے حتیٰ کہ اللہ کے سارے نام اچھے اچھے ہیں لیکن جو نام ثابت نہ ہوں ہم ان کو نہیں لیتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ نام اگرچہ اچھا ہے لیکن چونکہ اللہ کے لئے ثابت نہیں ہے تو ہم اس کو نہیں لے سکتے۔ جیسے سخی کا لفظ ہے اسی طرح اور بہت ساری ایسی چیزیں ہیں۔
اصل میں اسناد کی بہت زیادہ ضرورت ہے جب تک سند نہ ہو تو بے شک وہ بات ٹھیک بھی ہو لیکن ہمیں معلوم نہ ہو تو ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جیسے اس وقت اسرائیلی واقعات کے بارے میں ہمارے علماء کرام کہتے ہیں "لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُکَذِّبُ" ”ہم نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں نہ اس کی تکذیب کرتے ہیں“ کیونکہ تصدیق کی بھی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور تکذیب کی بھی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کی کوئی روایات ہماری کسی خبر، قرآن اور حدیث سے ٹکرا رہی ہو تو ہم کہیں گے: یہ صحیح نہیں ہے۔ اور اگر ان کی کوئی بات ہمارے قرآن و حدیث سے مستند ہو یعنی اس میں بھی آئی ہو تو ہم کہتے ہیں: یہ بات ٹھیک ہے، جبکہ اصل میں ہم نے اپنے قرآن و حدیث کی بات ہی مانی۔ اسی طریقے سے جو بھی ایسی روایات ہیں جن کی سند نہ ہو ان سب کو ہم قرآن و حدیث پر پیش کریں گے اگر وہ اس کے مطابق ہوں گی تو ٹھیک ہے ورنہ ہم اس کے بارے میں خاموش ہو جائیں گے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے کیونکہ اس کے بارے میں نے ابھی تک نہ پڑھا ہے نہ سنا ہے۔
وَمَا عَلَيْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ