اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
مسجد نبوی کے قریب آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کے الگ الگ گھر تھے اور ان گھروں کے لئے عام طور پر حجرہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں حجرہ مردوں کی جگہ کو کہا جاتا ہے اور وہ عام طور پر بڑی جگہ ہوتی ہے۔ کیا وہ حجرے بھی اسی طرح تھے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کی یہ سنت کہ ہر زوجہ محترمہ کے لئے الگ گھر تھا تو آج کل اگر کسی مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو کیا اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر بیوی کو الگ گھر دے؟
جواب:
اصل میں کچھ باتیں عرف پر مبنی ہوتی ہیں اور کچھ باتیں حالات کے پیش نظر ہوتی ہیں۔ حجرہ کا لفظ جو وہاں کے لئے مستعمل تھا وہ وہاں ہی کے لئے تھا اور جو یہاں کے لئے مستعمل ہے وہ یہاں ہی کے لئے ہے۔ ہمارے ہاں حجرہ مردوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور عربوں کے ہاں حجرہ ایک محفوظ جگہ کو کہتے ہیں، لہذا اس لفظی نزاع میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ہمارے ہاں دو گاؤں ہیں جن کے درمیان دریا بہتا ہے، ایک گاؤں میں ”کمینہ“ کا لفظ خاکسار کے لئے استعمال ہوتا ہے اور دوسرے گاؤں میں ”کمینہ“ برے آدمی کو کہتے ہیں، جیسے اردو میں بھی برے آدمی کو کہتے ہیں۔ صرف ایک دریا درمیان میں بہتا ہے پھر بھی اتنا فرق ہے۔ تو وہ عرب ہیں اور یہاں عجم ہیں، ان میں بھی فرق ہو سکتا ہے۔ مثلاً عربی میں غریب کا لفظ اجنبی کے لئے ہوتا ہے اور ہمارے ہاں مفلس کے لئے استعمال ہوتا ہے، چنانچہ ایسی چیزوں میں ہم نہیں پڑیں گے کیونکہ یہ تو زبان کی بات ہے اور ضروری نہیں کہ ہر زبان کے لفظ کا معنی دوسری زبان میں بھی وہی ہو۔ البتہ جو آپ نے سوال کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی ازواجِ مطہرات کے لئے الگ الگ گھر رکھا تھا تو کیا ہم بھی اس طرح کر لیں؟
اگر دیکھا جائے تو وہ گھر بہت چھوٹے چھوٹے تھے یعنی ایک قسم کے کمرے کے برابر تھے تو اسی طرح الگ الگ کمرے جب آپ دے دیں گے تو یہ اسی طرح الگ الگ حجرے ہو جائیں گے۔ لہذا ان کے حجرات وہ چھوٹے چھوٹے گھر تھے، وہ ہمارے بڑے بڑے گھروں کی طرح نہیں تھے، یعنی وہ صرف سر چھپانے کی جگہ ہی ہوتی تھی۔ تو ہمیں آپس میں یہ چیز نہیں دیکھنی چاہیے بلکہ صرف privacy کو دیکھنا چاہیے کہ ہر زوجہ کو اپنی privacy دینی چاہیے، یعنی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں پر صرف وہ جو چاہیں تو کریں، کوئی اور ان کی مرضی کے خلاف نہ کرے۔ یعنی privacy ضروری ہے۔ مثال کے طور پر حویلی ہو جس میں مختلف چھوٹے چھوٹے گھر جیسے ہوتے ہیں جن کے اندر کمرے ہوا کرتے ہیں اور جس میں attach bath وغیرہ بھی ہوتا ہے تو یہ اپنا پورا گھر ہوتا ہے۔ تو اگر آپ نے کسی بیوی کو الگ گھر اس قسم کا دیا ہو جس میں attach bath بھی ہو، کمرہ بھی ہو تو وہ کافی ہے اور اس سے زیادہ دینے کی بات نہیں ہے، وہاں کے حالات تو ایسے تھے کہ اگر ان گھروں کو آپ دیکھیں تو شاید آپ کے اپنے کمرے بھی ان سے بڑے نظر آئیں گے کیونکہ آپ ﷺ جب سجدہ فرماتے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پیروں کو آگے کر لیتے تھے، یعنی اتنی جگہ بھی نہیں ہوتی تھی، تو پھر کہاں وہ گھر اور کہاں ہمارے گھر؟ اس میں تو بہت زیادہ فرق ہے۔ لہذا ہمیں اس کی بنیاد پر یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہر بیوی کو اپنا گھر لیکر دیں، کسی کے بس میں ہے تو ٹھیک ہے بالکل صحیح ہے لیکن اگر نہیں ہے تو الگ الگ کمرے دے دیں جن کے اندر ہر ممکن facilities ہوں، تو وہ کافی ہو جائے گا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو آپ ﷺ کی سنتوں کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَمَا عَلَيْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ