سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 510

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال 1:

السلام علیکم حضرت جی میں فلاں بہاولپور سے ہوں۔ آپ نے جو اذکار بتائے ہیں وہ الحمد للہ با قاعدگی سے کر رہی ہوں۔ لطیفۂ قلب روح اور سر پہ مراقبہ 10، 10 منٹ کرتی ہوں، لطیفۂ خفی پر 15 منٹ ہے۔ الحمد للہ، اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ابھی آپ ان چاروں پر 10، 10 منٹ کریں اور پانچواں جو لطیفۂ اخفیٰ ہے، اس کی جگہ آپ اگر website سے دیکھنا چاہیں تو آپ کو مل جائے گا کہ کہاں ہوتا ہے۔ لطیفۂ خفی اور لطیفۂ سر اور گلے کی جڑ، ان تینوں کے بالکل درمیان جو جگہ ہے اس کو لطیفۂ اخفیٰ کہتے ہیں۔ اس پر 15 منٹ کریں۔ باقی لطائف پر 10، 10 منٹ کریں

سوال 2:

کیا نیک خواہش کے جذبات کسی کے لئے دعا ہوتے ہیں؟ اگر بالفرض اسی لمحہ کی نیک خواہش میں اور سوچ میں اللہ سے استدعا کی فکر بھی ساتھ ہو پھر کیسا ہو گا؟

جواب:

خواہشات اور اچھے برے خیالات اثر انداز ہوتے ہیں، یہ بھی دعا ہی کی ایک شکل ہے۔ البتہ دعا کے اپنے فضائل ہیں جس میں انسان اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اور عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے الگ فوائد ہیں۔

سوال 3:

وظیفہ لینے کے ساتھ میں مجاہدہ بھول گئی تھی۔ اب یاد آیا کہ میرا مجاہدہ یہ تھا کہ آپس میں عورتوں کی بحث ہو اور اس کے بیچ نہ بولوں بعد میں فیصلہ کروں۔ آگے آپ میری رہنمائی کریں۔

جواب:

ابھی فی الحال اس کو جاری رکھیں، یہ بہت کام کا مراقبہ ہے۔ زیادہ باتوں سے بچنے کے لئے بہت اچھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے آپ voice call کر رہی ہیں، میرے لئے 12 سے لے کے 1 بجے تک کال سننا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے لئے mobile میرے سامنے ہونا چاہیے اور ضروری نہیں کہ میرے پاس اس وقت mobile ہو۔ مجھے ptcl پر بہت سارے فون آتے ہیں اور mobile اگر میرے پاس ہو بھی تو میں اس کو attend اس لئے نہیں کر سکتا کہ 2 فون بیک وقت attend نہیں ہو سکتے۔ اس لئے کسی کو تو چھوڑنا پڑے گا۔ اس میں confusion ہوتی ہے۔ لہٰذا mobile پر جو فون ہوتے ہیں میں ان کا جواب نہیں دیا کرتا، بالخصوص WhatsApp call کو تو بالکل نہیں اٹھاتا۔ البتہ foreign کے لوگوں کو بھی جب میں time دیتا ہوں تو اس پر اٹھاتا ہوں۔ کیونکہ ان کی مجبوری ہوتی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کی مجبوری نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے آپ مہربانی کر کے ptcl پہ call کر لیا کریں اور وقت کے اندر call کر لیا کریں۔

سوال 4:

السلام علیکم میرا نام فلاں ہے۔ میرا تعلق شانگلہ سے ہے۔ میرا ذکر 200 مرتبہ، 200 مرتبہ، 200 مرتبہ اور 100 مرتبہ تھا۔ یہ میں نے ایک مہینہ کر لیا ہے۔

جواب:

اب آپ 200 مرتبہ، 300 مرتبہ، 300 مرتبہ اور 100 مرتبہ ایک مہینے کے لئے کریں۔

سوال 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں فلاں سعودی عرب سے بات کر رہا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ اللہ آپ کی عمر میں برکت دے۔ میرا اصلاحی ذکر 200 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 مرتبہ "اِلَّا للہ"، 600 مرتبہ "اَللہُ اَللہ" اور 4500 مرتبہ "اَللہ اَللہ" جہر کے ساتھ 1 ماہ ہو چکا ہے۔ لیکن جہری مکمل طور پر ادا نہیں ہو سکا جس پر بہت شرمندگی ہے۔ آئندہ کے لئے ان شاء اللہ تعالیٰ مکمل کوشش کروں گا۔ فجر کی 5 نمازیں مجھ سے قضا ہوئی ہیں، وجہ: 3 دن بیماری بخار کی وجہ سے اور 2 دن رات کو کام سے تاخیر ہونے کی وجہ سے۔ حضرت والا آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

جب آپ صحت یاب ہو جائیں تو آپ اس کے حساب سے 21 روزے رکھ لیں۔ ویسے بھی شعبان برکت کا مہینہ ہے۔ اور فی الحال یہی ذکر آپ مستقل طور پر جاری رکھیں تا کہ آپ کو فائدہ ہو، اس میں ناغہ وغیرہ بالکل نہ کیا کریں۔

سوال 6:

السلام علیکم میں فلاں بہاولپور سے بات کر رہا ہوں۔ پہلا کلمہ 200، "اِلَّا للہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا ھُو" 200 مرتبہ، "حَق" 200 مرتبہ، اسمِ ذات 100 مرتبہ۔

جواب:

اب آپ 200 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" اور "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" ہے، یہ صرف اِلَّا ھُو نہیں ہے۔ یہ بھی 200 مرتبہ، "حَق" 200 مرتبہ اور اسمِ ذات 100 مرتبہ۔ یہ آپ دوبارہ صحیح طریقے سے کر لیں۔

سوال 7:

السلام علیکم حضرت رطب اللسان فی الذکر کے لئے کون سا ذکر مجھے کثرت سے کرنا چاہیے؟ جزاک اللہ خیراً۔

جواب:

ویسے تو آپ کوئی سا بھی ذکر کر سکتے ہیں البتہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہر وقت جو ذکر انسان کر سکتا ہے وہ درود شریف اور استغفار ہے۔ مغرب کے بعد آپ استغفار کر لیا کریں اور دوپہر کے بعد درود شریف اور صبح کے وقت "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ"

سوال 8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ یا حضرت شاہ صاحب،

May Allah preserve you بَارَكَ الله فِيْكُم! I am contacting you to update my ورد. I have been practicing for so long a regular old ورد,

500 time "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"

1000 time “حق اللہ”

1000 time "حَق" and

1000 time اللہ

200 time “حق ھُو” and 500 time “ھُو”.

جواب:

You should do now “ھُو” thousand time and the rest will be the same for now for one more month ان شاء اللہ.

سوال 9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی معمولات 1 ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں الحمد للہ۔ معمولات پورے ہو رہے ہیں مزید اس میں کوئی تبدیلی کرنی ہے۔ 200، 400، 600 اور مراقبۂ دل، روح 5 منٹ اور سر 15 منٹ ہو رہا ہے اور مراقبہ کے دوران کبھی کبھی مدہوشی سی ہو جاتی ہے۔ صبح کی نماز اکثر قضا ہو جاتی ہے اور زبان control میں نہیں ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

آپ تمام ذکر چھوڑ دیں اور فجر کی نماز کو آپ regular پڑھیں۔ فجر کی نماز کا قضا ہونا بہت خطرناک بات ہے۔ اگر یہ خطرے میں ہو تو آپ کو کوئی ذکر فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ جتنی نمازیں قضا ہو چکی ہیں ان کے لئے تین تین روزے رکھیں تاکہ آپ کا نفس اپنی جگہ پہ آ جائے۔ ہمارے ذکر اذکار سے فائدہ یہی عبدیت ہے۔ اگر عبدیت ہی ختم ہو جائے تو پھر اس کے بعد کیا فائدہ؟ اور زبان پہ control کا مطلب یہی ہے کہ جس وقت آپ کا بہت زیادہ بات کرنے کو جی چاہتا ہے اس وقت 10 منٹ خاموشی اختیار کر لیا کریں۔

سوال 10:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب میرا ذکر 200 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 600 مرتبہ "حَق" اور 1000 مرتبہ "اَللہ" اور 15 منٹ دل کا اللہ کا ذکر مکمل ہو گیا۔ حضرت شاہ صاحب میں اللہ کی معرفت کو محسوس کرنا چاہتا ہوں اور دل کے ذکر میں ابھی کوئی لطف نہیں آ رہا اور کوئی روحانی معاملات بھی زیادہ محسوس نہیں ہوتے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے ذکر میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو جاؤں۔ مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

کمال کی بات یہ ہے کہ آپ اتنے بے خبر ہیں کہ اپنا نام بھی نہیں لکھا۔ پہلے ہی سے آپ بے خبر ہیں تو اب میں آپ کو مزید کیسے بے خبر کروں؟ کبھی ایسے آدمی کو دیکھا ہے کہ جو کسی کو آواز دے رہا ہو اور اس کو جانتا نہ ہو، بس یوں ہی اس کے ساتھ بات چیت کرنا شروع کر دے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے اور آداب کے بالکل خلاف ہے۔ اگر طریقہ نہیں آتا تو آئندہ کے لئے مجھے نہ لکھا کریں۔ ایسے کام سے بار بار میں روکتا ہوں۔ جب کبھی آپ خط لکھیں یا text لکھیں تو اپنا نام ساتھ ضرور لکھا کریں۔ میرے سامنے آپ کے دو خط ہیں، ایک 20 دسمبر کا ہے اور ایک یہ موجودہ۔ دونوں میں آپ کا نام نہیں ہے۔ میں کیا جانوں آپ کون ہیں؟ لہٰذا آپ آئندہ کے لئے مجھے نہ لکھا کریں اور فوراً اس بات کا تدارک کریں۔ آپ نے اتنی بڑی چیز مانگی اور ایک چھوٹی چیز کی معرفت آپ کو حاصل نہیں ہے! بڑی چیز کو آپ کیسے مانگ سکتے ہیں؟ کم از کم اتنی معرفت آپ کو ہونی چاہیے کہ میں کسی کے ساتھ بات کروں تو پہلے اپنا تعارف کرواؤں۔ ایک صحابی رسول ﷺ نے آپ ﷺ کا دروازہ کھٹکھٹایا، آپ ﷺ نے پوچھا کون ہے؟ کہا: میں۔ آپ ﷺ نے اسی انداز میں کہا کہ میں میں کیا ہوتا ہے؟ نام بتاؤ کہ کون ہو۔ چنانچہ آئندہ کے لئے اس قسم کا text نہ لکھا کریں۔

سوال 11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی میرے مندرجہ ذیل اذکار کو تقریباً 30 دن ہو گئے ہیں۔ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا اللہ" 400 مرتبہ، "اَللہُ اَللہ" 600 مرتبہ اور "اَللہ اَللہ" 5500 مرتبہ۔ آگے ذکر کی کیا ترتیب رکھیں گے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب آپ باقی سارا کچھ کرنے کے بعد 5 منٹ کے لئے ذرا تصور کر لیں کہ آپ جو اللہ اللہ آپ 5500 مرتبہ کر رہے ہیں وہ آپ کے دل میں محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟

سوال 12:

السلام علیکم حضرت جی برونائی سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ میرا ذکر "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ اور "اَللہ" 1000 مرتبہ۔ 1 مہینہ مکمل ہو گیا ہے براہِ کرم ہدایت فرمائیں۔

جواب:

یہ سب ذکر کرنے کے بعد 5 منٹ کے لئے یہ سوچیں کہ اللہ اللہ آپ کے دل میں بھی اسی طرح ہو رہا ہے جس طریقے سے زبان سے آپ کر رہے ہیں۔ 1 مہینے کے لئے۔

سوال 13:

السلام علیکم میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ پچھلے ہفتے آپ نے میرا message پڑھ کے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ کس طرح کر رہا ہوں؟ میں یہ تصور کرتا ہوں کہ جس طرح ہم دیکھتے، سنتے ہیں۔ اس طرح اللہ بھی دیکھتا، سنتا ہے۔ لیکن اس کا دیکھنا، سننا مکمل ہے جبکہ میرا دیکھنا، سننا نا مکمل ہے اور واسطوں کا محتاج ہے۔ اللہ کی صفت کا فیض حضور ﷺ کے قلب پر اور پھر شیخ کے قلب پر اور میرے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ کیا آپ کو میرے اندر وہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی جو آنی چاہیے تھی؟ میں نے پچھلے ہفتے کا message بھی نیچے بھیج دیا ہے تاکہ آپ کو یاد آ جائے۔ پچھلے ہفتے کا message یہ تھا کہ آپ نے 4 مہینے پہلے کہا تھا کہ میں ہر مہینے پابندی کے ساتھ اپنے معاملات آپ کو بھیجوں۔ کیفیات: آخرت کے بارے میں بہت سنجیدگی ہے۔ ہر وقت اس طرف دھیان رہتا ہے۔ ذکر کی طرف رغبت ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں مراقبے کا ذکر بلا ناغہ پابندی سے کروں۔ گناہوں کی طرف رغبت کافی کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ خیال ضرور جاتا ہے لیکن فوراً ہٹا لیتا ہوں۔ Social media کو use کرتا ہوں لیکن صرف معلومات کے وسائل سے۔

جواب:

اصل میں مراقبۂ ثبوتیہ کے لحاظ سے جو change آتا ہے وہ ہر لطیفہ کا ایک خاص change ہوتا ہے۔ اگر میں آپ کو بتاؤں تو پھر سب لوگ اس کو جان لیں گے کہ یہ ایسے ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ سے میں خود سننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سا change ہے جو مراقبہ کی وجہ سے آپ میں آ گیا ہے؟ وہ مجھے آپ سوچ کے بتائیں۔ مراقبہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ یہی کر رہے ہیں لیکن اس کا ایک اثر ہونا چاہیے اور وہ اثر کیا ہے؟ اس کے بارے میں مجھے بتائیں۔

سوال 14:

محترم شاہ صاحب السلام علیکم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور آپ کی دعاؤں سے ہم سب خیریت سے ہیں۔ شاہ صاحب میرا ذکر "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا للہ" 400 مرتبہ، "اَللہُ اَللہ" 600 مرتبہ اور "اَللہ اَللہ" 3500 مرتبہ۔ الحمد للہ یہ ذکر کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں کبھی کبھی کچھ کمی رہ جاتی ہے، اس کی وجہ سستی تو نہیں ہوتی البتہ کوئی کام ایسا آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے مختصر کرنا پڑتا ہے۔ ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ میری رہنمائی فرمائیں۔ آپ کی دعاؤں کا طلب گار ہوں۔

جواب:

آپ کم از کم 1 مہینہ یہ ذکر ایسے کریں کہ اس میں آپ کو کسی بھی دن میں کمی نہ کرنی پڑے، پھر میں ان شاء اللہ آ گے اس کو بتاؤں گا۔

سوال 15:

السلام علیکم کار گزاری پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جہری اذکار: کلمہ نفی و اثبات 200، 400، 600 مرتبہ۔ حق 600 مرتبہ، 200 مرتبہ "اِلَّا ہُو"، 200 مرتبہ نفی و اثبات "اِلَّا ہُو"، 400 مرتبہ ’’ھُو‘‘، 600 مرتبہ "حَق"، 200 مرتبہ "حَق اللہ"، 200 مرتبہ اسمِ ذات خاموشی سے 5 منٹ مراقبہ فنائیت 15 منٹ اور اسمِ ذات 48000۔

جواب:

اس کے ساتھ جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ مجھے آپ بتا دیجئے گا۔

سوال 16:

السلام علیکم حضرت جی کچھ دنوں سے یہ خیال آ رہا ہے کہ آپ سے عرض کروں جیسے الحمد للہ دیگر سلسلے آپ کی شفقت سے چل رہے ہیں تو اگر ممکن ہو بچوں کے لئے کوئی تربیتی program کا آغاز فرمائیں جیسا کہ 2 منٹ کا مدرسہ ہے۔ ویسے ہی 2 منٹ کی نصیحت وغیرہ کسی بھی عنوان سے جو حضرت والا پسند فرمائیں۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ کچھ دن پہلے میں نے اپنی بچی کو نصیحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب آپ سے کوئی پوچھے کہ آپ کیا بنو گی تو آپ ان سے کہیں کہ میں اللہ کی ولیہ بنوں گی۔ وہ بہت خوش ہوئی و السلام۔

جواب:

ٹھیک ہے اس کو مشورے میں شامل کر لیں گے اور پھر جو صورت بنے گی تو وہ ان شاء اللہ عرض کر لیں گے۔

سوال 17:

السلام علیکم حضرت جی گزشتہ 2 ہفتے میں الحمد للہ کوئی نماز قضا نہیں ہوئی اور ذکر 200، 200، 200، 5000 مرتبہ ہو رہا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے۔

سوال 18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت میں فلاں بن فلاں ٹیکسلا سے بات کر رہا ہوں۔ میری ممانی جو کہ اسلام آباد میں ہیں انہوں نے ابتدائی ذکر بغیر کسی ناغہ کے مکمل کر لیا ہے۔ اس کے بعد کیا کرنا ہو گا۔

جواب:

اس کے بعد تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 100، 100 مرتبہ ان کو عمر بھر کے لئے کرنا ہے۔ نماز کے بعد والا ذکر بھی عمر بھر کے لئے ہے اور 10 منٹ کے لئے ان کو دل کا مراقبہ بتا دیجئے۔

سوال 19:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت اقدس مزاج بخیر ہوں گے۔ غرض یہ ہے کہ کبھی کبھار ذکر کے لئے جو وقت مقرر کیا ہوا ہے، مثلاً تہجد کا وقت۔ اس وقت آنکھ کھل نہ سکے پھر دن میں کسی بھی وقت معمول ادا کرتے ہیں، کیا اس کو ناغہ شمار کیا جاتا ہے یا نہیں؟

جواب:

چونکہ تہجد کا وقت رات کا وقت ہے اور رات میں جو وظیفہ رہ جائے تو فجر کے فوراً بعد اس کو کرنا چاہیے۔ مزید اس کو postpone نہ کیا کریں۔

سوال 20:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی دنیاوی اور دفتری کاموں میں تو بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کے کام کرتا ہوں، کسی کی غلطی پر seniors کی پوچھ گچھ اور بے عزتی اور سزا کا بھی ڈر لگا رہتا ہے اور اس بات سے بے چینی بھی رہتی ہے کہ کہیں کوئی کام غلط نہ ہو جائے۔ لیکن دینی کاموں کے معاملے میں یہ حال نہیں ہے۔ اللہ پاک کا خوف اس طرح نہیں ہے اور نہ گناہوں پہ ہی اللہ پاک کے عذاب کا اتنا ڈر دل میں ہوتا ہے۔ آخرت کے حساب کتاب کا بھی اتنا احساس نہیں ہوتا جیسا کہ ہونا چاہیے۔

جواب:

اتنا احساس آپ کو الحمد للہ ہو گیا کہ یہ احساس آپ کو نہیں ہے تو اس پر شکر کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مزید توفیق نصیب فرمائیں۔ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَ تَذَرُونَ الآخِرَةَ﴾ (القيامة: 20-21) ”ہرگز نہیں بلکہ جو فوری چیز ہے تم اس کو لیتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے اس کو چھوڑتے ہو“ تو یہ ہماری فطرت میں ہے۔ البتہ سلوک اس لئے طے کیا جاتا ہے تاکہ ہماری فطرت میں جو نا پسندیدہ چیز ہے وہ پسندیدہ چیز میں تبدیل ہو جائے۔ گویا کہ نا پسندیدہ چیز کو دبانا پڑتا ہے۔ چنانچہ آپ کو ہمت کر کے یہ کرنا پڑے گا۔ دنیا اپنی فکر آپ کو خود کروا دے گی اس کی فکر کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آخرت کے لئے آپ کو سوچنے کی ضرورت پڑے گی۔ جب بھی کوئی ایسا کام کریں تو یہ سوچا کریں کہ میں اللہ پاک کو کیا جواب دوں گا؟

سوال 21:

نمبر 1: تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبۂ ثبوتیہ 15 منٹ محسوس ہوتا ہے، لیکن دورانِ مراقبہ بہت تکلیف ہوتی ہے۔

جواب:

اب اس کو شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ دے دیں اور پہلے کی طرح تمام لطائف پر 10، 10 منٹ کا ذکر اور ان شاء اللہ اس کو اس تکلیف پر اجر ملے گا۔

نمبر 2: لطیفۂ قلب 20 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ محسوس ہوتا ہے لیکن بہت زور دیتا ہے اور غیر اختیاری طور پہ گریہ طاری ہو جاتا ہے۔

جواب:

اب لطیفۂ قلب 10 منٹ کر لیں اور لطیفۂ روح بھی 10 منٹ کر لیں اور لطیفۂ سر 15 منٹ کا بتا دیں۔

نمبر 3: تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ 15 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ تنزیہ اس کو 15 منٹ کا بتا دیجئے گا۔

نمبر 4: پہلے لطیفۂ قلب پر 15 منٹ تقریباً 2 ماہ کر لیا تو قلب پر ذکر محسوس ہونے لگا تھا، پھر روح پر بھی ساتھ 15 منٹ کر لیا، اب دونوں لطائف پر محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

فی الحال اسی کو جاری رکھیں ان شاء اللہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔

نمبر 5: 50 مرتبہ درود شریف اور 5 منٹ قلب پر نزولِ رحمت کا تصور، قلب پر ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ۔

جواب:

اب درود شریف 100 مرتبہ کر لیں اور 5 منٹ قلب پر نزولِ رحمت کا تصور جاری رکھیں۔

نمبر 6: لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 15 منٹ۔ سر پر محسوس ہوتا ہے قلب اور روح پر محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

سر پر جو محسوس ہوتا ہے وہ قلب و روح ہی سے آ رہا ہے۔ لہٰذا اس کو آپ لطیفۂ قلب و روح اور سر 10، 10 منٹ دیں اور لطیفۂ خفی 15 منٹ دیں۔

نمبر 7: ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا تھا اور پھر مزید ذکر جاری نہیں رکھا تھا۔ اب آگے ذکر مانگ رہی ہے۔

جواب:

ابتدائی وظیفے کے بعد جو پہلا ذکر ہے وہ ان کو بتا دیں کہ پورا ایک مہینہ کر کے بتائیں۔

سوال 22:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب الحمد للہ ذکر اور معمولات آپ کی برکت سے جاری ہیں، لیکن کچھ دنوں سے جو شوق اور جذبہ طبیعت میں موجود تھا اور دل کے مقام پر جو گرمائش اور سکون تھا وہ اب نا پید ہو گیا ہے۔ اب اعمال ایک routine کے طور پر ادا ہو رہے ہیں اور زور و کوشش کرنی پڑتی ہے اور اپنے نفس پر بد گمانی سی ہے کہ میرے نفس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔

جواب:

اپنے نفس کے ساتھ سوء ظن رکھنا اچھی بات ہے لیکن مایوسی بری بات ہے۔ بری بات کو ختم کر لیں اور اچھی بات کو جاری رکھیں۔ آپ نے پہلے جو ذکر کیا اس میں جو شوق و جذبہ طبیعت میں موجود تھا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا۔ ہم لوگ چونکہ اس کو سکون و شوق کے لئے تو نہیں کرتے بلکہ ہم اس کو اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے کرتے ہیں یعنی ذکر کی نیت ہوتی ہے کہ اللہ کی محبت پیدا ہو جائے۔ تو آپ اسی نیت سے اس کو جاری رکھیں۔ شوق اور جذبہ کی نیت کو درمیان سے خارج کر لیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت آپ کو حاصل ہو اور اعمال اور نفس قابو ہو جائیں یعنی شریعت پر آپ آسانی کے ساتھ عمل کر سکیں۔

سوال 23:

السلام علیکم حضرت جی جب آپ مراقبات کا طریقہ ساتھیوں کو فرماتے ہیں تو میں سب کے سوال سنتی رہتی ہوں اور ان کی تفصیل اپنے پاس audio save کرتی رہتی ہوں تاکہ جب کبھی آپ مجھے فرمائیں تو میں اپنی اصلاح کی نیت سے بار بار سن لوں تاکہ مراقبہ کے طریقے میں کوئی غلطی نہ کروں۔ اب اس مراقبہ میں پہلے ہی ہفتے سے ان آٹھ صفات کو ذہن میں رکھ کر، کر رہی ہوں ویسے ہی جیسے آپ نے فرمایا تھا۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھ کر یعنی اپنی صفات کے آئینے میں اللہ پاک کی صفات کا ادراک کرتے ہوئے کہ ہماری صفات اسباب کے بغیر نہیں ہیں۔

جواب:

مراقبہ کرنے کا طریقہ میں نے آپ کو بتایا ہے، لیکن اس کا اثر وہ ایک الگ چیز ہے۔ آپ نے مجھے اس کا اثر بتانا ہے مراقبہ نہیں بتانا۔

سوال 24:

جس French کو میں نے انگریزی میں جواب دیا تھا اس نے پشتو میں مجھے کہا ہے: له تاسو مننه ۔ میں بھی اس کو جواب دیتا ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ you have told me in پشتو. It means you understand پشتو. So should I talk to you in پشتو?

سوال 25:

السلام علیکم امراضِ نفس: اپنے اندر جب جھانکتا ہوں اور سچائی کے ساتھ اپنے نفس کا جائزہ لیتا ہوں تو حبِ باہ کو تو control کرنے کی 99 فیصد توفیق ہو جاتی ہے اور اس سلسلے میں آپ کی دعا کی برکت سے احتیاطی تدابیر پر قائم ہوں۔ اب تو اپنی سگی چھے سال کی بھانجی یا خاندان کی نا بالغ بچیوں کے سر پر ہاتھ بھی نہیں رکھتا۔

حبِ مال: اپنے اندر الحمد للہ فطرتی بچپن سے کبھی نہیں رہا بلکہ اوروں پر خرچ کرنے کی توفیق ہمیشہ سے رہی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات میرے پاس کل کے لئے کچھ بھی نہیں رہا مگر دل نے گوارا نہیں کیا کسی کی مدد یا کارِ خیر میں حصہ نہ لوں اور اس پر کبھی رنج بھی نہیں ہوا الحمد للہ۔ کبھی کسی اور کے پاس کوئی دینی و دنیاوی نعمت دیکھی تو اس پر حسرت نہیں ہوئی الحمد للہ اور نہ اس کا وسوسہ آیا، اللہ کریم ہمیشہ دست گیری فرمائے۔ اللہ کی قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کریم نے ہمیشہ اس کے بدلے میں اور زیادہ دیا ہے۔ لیکن جس مرض میں مبتلا ہوں وہ مجھ پر بالکل واضح ہے اور وہ حبِ جاہ ہے۔ جب بھی دیکھتا ہوں تو کوئی میرا عمل مجھے نظر نہیں آ تا کہ جو اس حبِ جاہ کے گند سے آلودہ نہ ہو بلکہ اس وقت جب آپ کو لکھ رہا ہوں تو اس میں بھی کوئی اخلاص نہیں ہے اور نفس اندر سے کہہ رہا ہے کہ اب تو شیخ خوش ہوں گے۔ مگر یہ مرض اس وقت سب سے زیادہ ہوتا ہے جب کوئی دینی تحقیق اور علوم یا دینوی Secular subjects کی discussion ہوتی ہے اور اس وقت کسی نہ کسی بہانے سے اپنے دینی علوم یا حافظہ یا کثرتِ معلومات کا اظہار کئے بغیر رہا نہیں جاتا اور اپنے آپ کو طفل تسلی دیتا ہوں کہ فلاں مولانا یا فلاں شخص کی بات غلط ہے اور حقیقت میں غلط ہوتی بھی ہے اور خیال آتا ہے کہ اگر تم نہیں کہو گے تو حق سامنے کیسے آئے گا؟ کل ذکر کے بعد جب آرام کے لئے لیٹا تو اپنے آپ کو جھنجھوڑا کہ اگر تیرا حافظہ اتنا ہی اچھا ہے تو تجھے قرآن کریم کے حفظ کی توفیق آج تک کبھی کیوں نہیں ہوئی؟ اس پر دل میں ندامت آئی اور توبہ کی توفیق ہوئی اور ساتھ یہ دعا بھی پڑھی: ﴿سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾ (البقرة: 32)۔

جواب:

شاید میں گزشتہ ہفتے بھی یہ بات کر چکا ہوں کہ تکبر اور خود داری اور اسی طرح تواضع اور تذلل یا احساسِ کمتری اور اسی طرح ریا اور تحدیثِ نعمت یہ اچھی باتیں اور بری باتیں آپس میں بالکل ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ﴾ (الرحمن:19-20) چنانچہ جب انسان کو فکر نہیں ہوتی تو وہ بری بات کی اچھی تاویل کرتا ہے۔ مثلاً تکبر کو خود داری سمجھتا ہے۔ اور جب فکر ہو جاتی ہے تو خود داری کو تکبر سمجھنے لگتا ہے۔ تو موت تک یہ بات چلتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ پاک نے آپ کو جو فکر نصیب فرمائی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور جس وقت آپ بات کریں تو یہ آیت پڑھ لیا کریں ﴿سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾ (البقرة: 32) اور بات ختم کرنے کے بعد استغفار کر لیا کریں، اس کے ذریعے سے مدد بھی ہو گی اور آپ کو یہی محسوس ہو گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہے۔ پھر اپنے آپ پر نظر نہیں جائے گی اور استغفار کرنے پر مزید اجر ملے گا۔

حبِ جاہ کا مرض سب سے اخیر میں نکلتا ہے، آسانی کے ساتھ یہ نہیں نکلتا۔ بہر حال جب فکر ساتھ ہوتی ہے کہ یہ مجھ میں ہے تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کی صفائی کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی صفائی فرماتے رہتے ہیں اور موقع پر اللہ پاک مدد بھی فرماتے ہیں۔ لہٰذا آپ کوئی علمی بات کرنے سے پہلے یہ پڑھ لیا کریں۔ ﴿سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾ (البقرة: 32)

علمائے کرام یہ باتیں کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ ان کو یاد نہیں ہوتا کہ میں کس لئے یہ بات کر رہا ہوں؟ جیسے "وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ" اور اسی طرح "وَ اللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب" یہ باتیں ایک حقیقت رکھتی ہیں یہ یوں ہی ہم زبان کے چٹخارے کے لئے نہیں کہتے لہذا ہمارے دل میں یہ گواہی موجود ہو کہ اللہ ہی حقیقتِ حال کو جانتا ہے۔ اس وجہ سے جتنے بڑے بڑے محققین و ائمہ و فقہا حضرات تھے وہ اپنی تحقیق پر عقلی طور پر مطمئن ہوتے تھے لیکن قلبی طور پہ نہیں ہوتے تھے۔ قلبی طور پر کہتے ہیں کہ ممکن ہے دوسرا ٹھیک ہو۔ چنانچہ اس پہ ڈرتے بھی تھے اور اس کو پیش بھی فرماتے تھے۔ اس وجہ سے وہ کبھی بھی اپنی بات پہ جزم نہیں کرتے تھے بلکہ بعض دفعہ تو یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میں تحقیق پیش کروں گا لیکن دوسروں کی بات پہ عمل ہو تو وہ زیادہ اچھا ہے تاکہ میں ذمہ دار نہ بنو۔ تو ہم لوگوں کو یہ باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ سبحان اللہ جب ہم کہتے ہیں تو اس میں اللہ پاک کی پاکی ہم بیان کرتے ہیں، وہ بھی اپنی گندگی کو سامنے رکھ کر بیان کرتے ہیں کہ یہ ہماری بات نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی پاکی ہے۔ الحمد للہ جب ہم کہتے ہیں تو ہمیں فوراً اپنے آپ سے نظر ہٹانی چاہیے اور اللہ پہ نظر ہونی چاہیے۔ اللہ اکبر جب ہم کہتے ہیں تو یہ حبِ جاہ کا مکمل توڑ ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ ہی کا سارا کام ہے اور "وَ مَا عَلَيْنا إَِّلا الْبَلَاغُ" میں صرف پہنچانے والا ہوں۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طریقے سے "وَ اللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب"۔

نام کے بعد عربی میں لکھتے ہیں "غُفِرَ لَہٗ" کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ اردو میں لکھا کرتے تھے۔ کیونکہ لوگوں کو پتا نہیں کس لئے لکھا جا رہا ہے؟ تو ہم ان چیزوں کے معانی اپنے ذہن میں رکھیں اور اس کے مطابق اپنے ذہن بنائیں اور اپنے قلب کے متعلق اس بات کا خیال رکھیں۔

سوال 26:

حضرت جی میرا 1 مہینے کا ذکر مکمل ہو گیا ہے، وہ 2, 3, 3, اور 1 تھا۔

جواب:

اب 2, 4, 4, 1 کر لیں۔

سوال 27:

حضرت جیسے انسان مختلف لوگوں میں بیٹھتا ہے۔ کسی سے سلسلہ بھی چل رہا ہو۔ کبھی خدا نخواستہ اگر شیخ کے بارے میں کوئی بندہ اعتراض کرتا ہے یا کوئی اور بات آ جاتی ہے جس کی وجہ سے گھبراہٹ بھی ہوتی ہے اور جو اعتقاد بنا ہو اس اعتقاد کو ٹھیس بھی پہنچاتی ہے تو اس وقت انسان کیا کرے؟

جواب:

میرے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مجھے کسی نے اس قسم کی باتیں کہیں اور کہنے والے بھی شیخ تھے۔ میں نے حضرت سے اس کو نقل کیا۔ حضرت نے فوراً فرمایا کہ پیغمبروں کے بارے میں بھی باتیں ہوئی ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں۔ اگر پیغمبروں پہ لوگوں نے اعتراض کیا ہے تو ہم کیا چیز ہیں؟ پھر فرمایا: ان سے پوچھ لیں کہ وہ کون سی باتیں ہیں؟ تاکہ میں ان کی اصلاح کر لوں۔ ظاہر ہے انہوں نے کچھ بتایا تو تھا نہیں تو اس پر میں خاموش ہو گیا۔ میں نے کہا کہ ایسی کوئی بات انہوں نے مجھے نہیں بتائی۔

اگر کوئی نقص بتائے تو اس کو note کر لیا کریں اور بتا دیا کریں، ظاہر ہے انسان کمزور ہے۔ انسان ہر وقت کا اصلاح کا محتاج ہے۔ اس سے فائدہ ہو جائے گا۔ اور اگر بلا وجہ کا اعتراض ہے تو پرواہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پیغمبروں کے بارے میں اور بڑے بڑے اولیا اللہ کے بارے میں اعتراض ہوئے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے شیخ تھے اور ان کے پیر بھائی مولانا عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں کچھ ایسے ہی comments بیان کئے جن کے حضرت نے جواب بھی دیئے ہیں۔

اصل میں معرفت اور حقائق میں 2 فرق ہیں۔ حقائق تبدیل نہیں ہوتے، حقیقت اپنی جگہ پہ ہوتی ہے، آپ پہ کھلے نہ کھلے لیکن حقیقت اپنی جگہ پہ ہوتی ہے۔ ممکن ہے کسی وقت آپ پہ نہ کھلے، کسی وقت آپ کے اوپر کھل جائے۔ جبکہ معرفت ہر ایک شخص کی اپنی ہے۔ مثال کے طور پر ایک چیز کو کوئی اس طرف سے دیکھ رہا ہے اور دوسرا اس طرف سے دیکھ رہا ہے تیسرا اُس طرف سے دیکھ رہا ہے۔ تینوں کو مختلف نظر آ رہی ہے۔ اسی طرح معرفت ہر ایک کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ جس میں لوگوں کی طبیعتوں کا فرق ہوتا ہے، مزاجوں کا فرق ہوتا ہے۔ حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہم سب کے بڑے تھے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ان کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟ میں نے کہا: ان کا خون گرم ہے میں اپنا خون ٹھنڈا رکھنا چاہتا ہوں۔ مزاج مزاج کی بات ہے۔ ان کا کام تحریکی تھا اور ہمارا کام تحقیقی ہے۔ تحقیقی کام کے لئے ٹھنڈا خون چاہیے اور تحریکی کام کے لئے گرم خون چاہیے۔ گویا کہ تشکیل کی بات ہے یا سمجھ کی بات ہے یا مزاج کی بات ہے۔ ان کو جو باتیں اچھی لگتی تھیں ضروری نہیں کہ ہمیں بھی ویسے ہی اچھی لگیں اور جو ہماری باتیں ہمیں اچھی لگتی ہیں وہ ضروری نہیں کہ ان کو بھی اچھی لگیں۔ اگر کوئی اس بنیاد پر کہتا ہے تو بالکل صحیح کہتا ہے، ہم اس کا انکار بھی نہیں کریں گے بلکہ ہم کہیں گے بالکل ٹھیک ہے، آپ صحیح کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے مزاج کے مطابق بات کرتے ہیں۔ البتہ ایک اجتہادی بات ہوتی ہے جس میں نقص نہیں ہوتا۔ اجتہادی بات میں تحقیق ہوتی ہے۔ تحقیق کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ہر طرف خیر ہی خیر ہے۔ دو خیریں ہیں یا ایک خیر ہے۔ لیکن جہاں تک واقعی نقص کی بات ہے تو وہ بتانی چاہیے کیونکہ اس سے انسان اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔

سوال 28:

ذہن میں کبھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ سے رابطہ کریں یا آپ سے پوچھیں تو فوراً اس کا کوئی جواب ذہن میں آ جاتا ہے۔ تو رابطہ کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے؟ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سوال یا رابطے کی صورت بنتی ہے تو اس کا متبادل ذہن میں آ جاتا ہے۔

جواب:

اصل میں یہ سلسلہ کی برکت ہے کیونکہ شیخ کی زبان پر سلسلہ ہی بولتا ہے۔ تو اگر وہ شیخ کی زبان پر آ سکتا ہے تو آپ کے ذہن میں بھی آ سکتا ہے۔ البتہ تحقیقی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ چونکہ یہ کشفی بات ہو گئی تو کشف میں غلطی بھی لگ سکتی ہے۔ چنانچہ تحقیق کرنے کے لئے کہ آیا وہ صحیح ہے یا نہیں ہے اس کو بتایا بھی جا سکتا ہے کہ یہ میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن اس کا یہ جواب ذہن میں آ گیا تو اس سے ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

سوال 29:

حضرت والا،

You mentioned just now that a مرید should tell his شیخ if someone has an objection regarding one’s شیخ. But won’t this cause شیخ hurt تکلیف if I do نقل of the objection.

جواب:

اصل میں تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب عناد کے ساتھ بات ہوتی ہے، جو معاند ہوتا ہے اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مجھ میں واقعی ایک نقص ہے، اگر کوئی بتاتا ہے تو وہ میرے ساتھ خیر کا معاملہ کر رہا ہے۔ لیکن اس کی غلطی یہ ہے کہ اس کو دوسرے کے سامنے بیان کر رہا ہے جبکہ دوسرے کے سامنے نہیں کرنا چاہیے بالخصوص میرے مرید کے سامنے بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا، مجھے براہِ راست لکھنا چاہیے تھا۔ یہ ان کی نیک نیتی پر محمول کیا جاتا۔ کیونکہ مرید کے سامنے بیان کرنا اصول کے خلاف ہے۔ دنیا میں انبیاء کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو بالکل کامل ہو، جس سے کوئی غلطی نہ ہو سکتی ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کی کوئی بات مرید کے سامنے اس انداز میں کرنا کہ اس سے مرید کا اعتقاد خراب ہو جائے، یہ تصوف کے نکتۂ نظر سے غلط ہے۔ تو اپنی اتنی بڑی غلطی کی فکر نہیں ہے۔ تو اگر واقعی وہ کوئی مخلص آدمی ہیں اور اسے سمجھانا چاہتے ہیں تو وہ اس کے لئے طریقہ یہ ہے کہ مرید سے پوچھ لیں کہ آپ کے شیخ کا telephone number کیا ہے اور کس وقت ان سے بات کی جا سکتی ہے؟ ان سے فون پہ بات کر کے کہہ دیں کہ میں نے یہ بات note کی ہے، میں آپ کے مرید کو نہیں بتانا چاہتا تھا۔ آپ کو اس لئے بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اگر اس کی اصلاح کرنا چاہیں تو کر لیں۔ بے تکلف کہہ دے۔ اس میں تکلف کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کو واقعی اس بات کا فائدہ ہو گا۔ لیکن مرید کو بتایا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کچھ اور مسئلہ ہے، اپنی کمزوری ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس قسم کی بات کر رہا ہے۔ چنانچہ ان کو اپنی بھی اصلاح کرنی چاہیے کہ بجائے اس کے مرید کو بتانے کے شیخ کو براہِ راست بتا دے۔ خط کے ذریعے سے بتا دے۔ آج کل text کرنا بہت آسان ہے۔ آرام سے بات پہنچ جاتی ہے اور پھر چونکہ اس مسئلے میں تحقیق کی بھی بات ہوتی ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ کو جو نقص نظر آ رہا ہے وہ آپ کی information کی کمی کی بنیاد پر ہو۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بھانجی تھی جو ذہن سے کمزور تھی۔ پاگل جیسی تھی۔ اس کی والدہ بیوہ تھی۔ حضرت نے ان کو اپنے ساتھ ایک کمرے میں رکھا ہوا تھا کیونکہ ان کا اس وقت کوئی اور نہیں تھا۔ اس کی والدہ نے اس کے لئے television رکھا ہوا تھا تاکہ گھر پہ رہے اور باہر نہ جائے۔ کیونکہ باہر جانے میں زیادہ نقصان ہوتا۔ گویا کہ اس نے کم نقصان گوارہ کیا اور زیادہ نقصان سے اس کو بچایا۔ اب اس کے اندر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس کا طریقہ کار تھا۔ حضرت ان کی اس condition کی وجہ سے ان کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، لیکن ذہن پر بہت تکلیف تھی۔ ایک تو بھانجی کی حالت کی وجہ سے اور دوسرا TV کی وجہ سے جو طبیعت کے خلاف والی بات تھی۔ اب حضرت کو اس کا اجر مل رہا ہوتا تھا یا نقصان ہو رہا تھا؟ اجر ہی مل رہا تھا۔ لیکن لوگ کہتے تھے کہ دیکھو حضرت کے گھر پر television کا اینٹینا ہے۔ بعض دفعہ انسان کو حقیقتِ حال معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی جرات ہوتی ہے حالانکہ معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ خود رابطہ کیا جائے، اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ یا تو وہ اپنی اصلاح کر لے گا یا پھر آپ کو جواب دے دے گا کہ اس وجہ سے ہے۔ دونوں باتوں میں خیر ہے اور دونوں صورتوں میں مسئلہ حل ہو جائے گا۔

سوال 30:

حضرت اگر ایک آدمی کا شیخ کے ساتھ رابطہ ہے اور اس کی اصلاح ہو رہی ہے۔ اس کو اس وقت کن کن چیزوں کی احتیاط کرنی چاہیے اور بچنا چاہیے؟ جب تک اس کا علاج چل رہا ہے۔

جواب:

اصل بات گناہ سے بچنا چاہیے، جس کی اصلاح نہیں ہوئی ہے اور جس کی اصلاح ہوئی ہے، دونوں کے لئے ضروری ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابھی میری اصلاح نہیں ہوئی تو میں گناہ کر سکتا ہوں۔ کوشش یہی ہو کہ بالکل گناہ نہ ہو۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے مکمل خلاصی تب ہو گی جب انسان اپنے نفس پہ قابو پا لے گا۔ ایک حقیقت کی بات ہے اور ’’کرنا چاہیے‘‘ کی بات ہے۔ مفتی صاحب کی اگر بات کریں تو وہ آپ کو یہی جواب دیں گے کہ کرنا چاہیے۔ البتہ آپ اپنے شیخ کے سامنے اپنے احوال رکھتے ہیں، وہ آپ کی ایک ایک چیز کاٹ رہا ہوتا ہے کہ اب یہ نہ کریں، اب وہ نہ کریں۔ وہ تدریج پہ عمل کر رہا ہوتا ہے۔ مفتی صاحبان تدریج پہ عمل نہیں کرتے بلکہ براہِ راست بتاتے ہیں کہ یہ کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور choice نہیں ہے۔ لیکن شیخ آپ کو تدریج کے ساتھ چلائے گا۔ مثال کے طور پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو آپ کے اندر عیوب ہیں وہ سارے مجھے لکھ کے بتائیں، پھر اس میں فرماتے کہ یہ چھوڑ دیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ باقی کریں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فوری فوری اس پر توجہ دیں، یعنی اس کو بالکل نہ کریں۔ بقیہ پہ general کوشش ہو۔

سوال 31:

حضرت شیخ سے تعلق کے زمانے میں خصوصی طور پہ اپنے آپ پر یہ پابندی لگائی جا سکتی ہے یا شیخ کی طرف سے پابندی ہو کہ ایسے لوگ جو شیخ کے متعلق کچھ باتیں ذہن میں ڈالنے والے ہوں، ان کے ساتھ بیٹھنا ہی نہیں چاہیے۔

جواب:

یہ تصوف کا بہت زبردست کلیہ ہے، اس کے بتانے کی ضرورت نہیں، کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ اس کو ”صحبتِ نا جنس سے بچنا“ کہتے ہیں۔ یعنی جس کے ساتھ بیٹھنے سے آپ کا شیخ کے ساتھ تعلق خراب ہوتا ہو، آپ کا اہلِ سنت و الجماعت کے ساتھ تعلق خراب ہوتا ہو۔ یعنی عقیدے میں فساد آتا ہو یا آپ کے اخلاق کے اوپر کوئی بات آتی ہو تو اس کو صحبتِ نا جنس کہتے ہیں۔ ان سے بچنا چاہیے۔

سوال 32:

بعض لوگ دوسروں اعتراض کرتے رہتے ہیں، اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جس سے غلطی نہ ہو رہی ہو۔ اصل میں تو فیصلہ مجموعی اعمال پر ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان سخت سیاسی اختلاف تھا۔ کسی نے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی بات کہی کہ وہ اس طرح کرتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: خدا کے بندے آپ کو صرف یہی چیزیں نظر آئیں؟ یہ نہیں دیکھا کہ 12 بجے وہ بخاری شریف کا درس بھی دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے ساتھ ان کا اختلاف تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ بھئی یہ بات مجھ سے نہ کرو کیونکہ ان کے اندر یہ خوبی ہے۔ چنانچہ واقعتاً اگر دیکھا جائے تو ہم لوگ تھوڑے سے shortsighted ہوتے ہیں اور ہم لوگ دوسروں پہ اعتراض کر کے اصل میں اپنے آپ کو expose کر رہے ہوتے ہیں کہ مجھ میں یہ خامی ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ