اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آپ حضرات کو علم ہو گا کہ ماہ شعبان کا آغاز ہو گیا ہے اور شعبان کی برکات اب شروع ہو چکی ہیں۔ آپ ﷺ اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے تھے اور عبادت کیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اس ماہ میں اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے حتی الوسع کوشش کریں اور گناہوں سے بچیں، بالخصوص 15 شعبان کی رات کو بہت محنت کرنی چاہیے۔
سوال نمبر1:
السلام علیکم۔ حضرت جی اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رکھے۔ حضرت جی مجھے درج ذیل معمولات کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے:
ذکر:
”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 500 مرتبہ۔
مراقبات:
لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ پر 5، 5 منٹ کا مراقبہ۔
اس کے علاوہ 15 منٹ کے لئے صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ جس میں یہ تصور کرنا تھا کہ اللہ سبحانہ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، وہاں سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔
حضرت جی آئندہ کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب:
یہ بات کئی مرتبہ واضح کی جا چکی ہے کہ مراقبۂ احدیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عام فیض کے آنے کا تصور کیا جاتا ہے، یعنی اس طرح تصور کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شان کے مطابق فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔ یہ مراقبۂ احدیت ہے۔ اس میں مطلق فیض کے آنے کا تصور کرتے ہیں، جبکہ باقی مراقبات جو مراقبۂ احدیت کے بعد دئیے جاتے ہیں ان میں خاص فیض کا تصور کرتے ہیں، جیسے صفات ثبوتیہ کا مراقبہ ہے۔ اس میں لطیفۂ روح پہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ثبوتیہ کے فیض کے آنے کا تصور کیا جاتا ہے۔ مثلاً ہم بھی دیکھ رہے ہیں اللہ بھی دیکھ رہے ہیں، لیکن اللہ کا دیکھنا اور ہے ہمارا دیکھنا اور ہے، اللہ کو دیکھنے کے لئے اسباب کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ ہمیں اسباب کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارا دیکھنا ناقص ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک حیّ و قیوم ہیں اور اللہ جل شانہ سنتے ہیں، اسی طرح دوسری صفات ثبوتیہ بھی ہیں۔ مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ میں ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ ان صفات کا فیض جیسا کہ اللہ کی شان ہے اس کے مطابق آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔
آپ نے نام مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ کا لیا ہے لیکن اس کا جو طریقہ بتایا ہے وہ طریقہ مراقبہ احدیت والا ہے، کیونکہ آپ نے مطلق فیض کے تصور کی بات کی ہے، صفات ثبوتیہ کے فیض کی بات نہیں کی۔ لہٰذا اس کی وضاحت اور تفصیل لکھ کر بھیجیں تاکہ میں اس بارے میں درست جواب دے سکوں۔
سوال نمبر2:
حضرت جی السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں پشاور سے آپ کی مریدنی بات کر رہی ہوں۔ میں گذشتہ 3 ماہ سے لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ تک صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ کر رہی ہوں۔ اس میں یہ تصور کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے صفاتِ ثبوتیہ کا فیض آ رہا ہے حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک پر، وہاں سے میرے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ اس مراقبہ سے پہلے 5، 5 منٹ پانچوں لطائف پر بھی مراقبہ کرتی ہوں اور اس سے پہلے زبان سے بھی ”اللہ، اللہ“ کا ذکر 100 مرتبہ کرتی ہوں۔ پہلے بہت کم محسوس ہوتا تھا یا شاید میں سمجھ نہیں پاتی تھی، لیکن اب الحمد للہ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے تمام جسم میں حرکت ہو رہی ہے، ہر طرف ذکر محسوس ہوتا ہے۔
میں نے پہلے دو تین مرتبہ آپ کو یہ میسج کیا تھا لیکن شاید مصروفیت کی وجہ سے آپ نے جواب نہیں دیا۔ میں نے بہت شدت سے انتظار کیا، اب بھی آپ کے جواب کا انتظار ہے۔
جواب:
جی آپ کی بات صحیح ہے، آپ کا میسج ملا تھا لیکن آپ اپنا پیغام کاغذ پر لکھ کر اس کی تصویر بھیجتی ہیں، اسے پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے، پوری بات سمجھ نہیں آتی۔ اس لئے ایک تو ذرا کھلا کھلا اور واضح کر کے لکھا کریں، دوسرا یہ کہ تصویر صاف بھیجا کریں، تاکہ میں آپ کا میسج پڑھ سکوں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر آپ اردو کی بورڈ(Keyboard) کا استعمال سیکھ لیں اور میسج اردو فونٹ میں لکھ کر بھیجا کریں۔ کیونکہ اگر مجھے آپ کی بات درست سمجھ نہیں آئے گی تو میں آپ کو درست جواب کیسے دے سکوں گا؟
آپ نے صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبے کی تفصیل مکمل نہیں بتائی۔ اس کی تفصیل بتا دیں اور جیسے میں نے آپ کو سمجھایا تھا اسی کے مطابق تفصیل بتائیں، تاکہ میں آپ کو اس کا جواب دے سکوں۔ اگر آپ کو سمجھ نہیں آئی تو پہلے صفات ثبوتیہ کے مراقبے کو اچھی طرح سمجھ لیں، اس کے بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم! بندے نے آپ کا نمبر آپ کی ویب سائٹ سے لیا تھا۔ ماشاء اللہ بہت ہی بہتر اور فائدہ مند ویب سائٹ ہے۔ اللہ پاک آپ کو اور آپ کے متعلقین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ بندے کا اصلاحی تعلق فلاں شیخ صاحب سے ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہ آپ کو اپنے شیخ سے بہت فائدہ پہنچائے۔ آپ ہماری ویب سائٹ کو دیکھ لیا کریں، یہ آپ سب حضرات کے لئے ہے۔ اس پر جو کچھ موجود ہے یہ ہمارے بزرگوں کی چیزیں ہیں، ہماری نہیں ہیں۔ اس میں آپ کو آپ کے فائدے کی چیزیں ملیں گی۔
سوال نمبر4:
حضرت جی یہاں مدرسے والے مجھے درس دینے کے لئے کہتے ہیں۔ میں کیا کروں؟ درس دوں یا نہ دوں۔ ترجمہ کی کلاس مجھے دے رہے ہیں، میں اس بارے میں کیا کروں؟
جواب:
آپ مجھے دوپہر 12 سے 1 بجے کے درمیان فون کر لیں تاکہ میں آپ سے معلومات حاصل کر سکوں، پھر ان شاء اللہ کچھ عرض کر سکوں گا۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم!
محترم شیخ صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔
مجھے روزانہ 5 منٹ کے لئے دل اور روح کا مراقبہ اور 15 منٹ لطیفۂ سر کا مراقبہ دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ 4000 مرتبہ ”اللہ“ کا ذکر بھی دیا گیا تھا۔ یہ معمولات کرتے ہوئے تقریباً 2 ماہ ہو گئے ہیں۔ دل اور روح کا ذکر محسوس ہوتا ہے لیکن سِرّ پر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے اور وہ بھی بہت تھوڑا محسوس ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ محسوس ہوتا ہے یا وہم ہے۔ مہربانی فرما کر بتا دیں آگے کیا کیا جائے؟
جواب:
ماشاء اللہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کو دونوں لطائف محسوس ہو رہے ہیں، ان شاء اللہ تیسرا بھی محسوس ہو گا۔ اصل بنیادی ذکر تو دل کا ہی ہے، اسی سے باقی سب چلتے ہیں۔ اگر دل کا ہو رہا ہے تو ان شاء اللہ باقی بھی ہو جائیں گے۔ آپ ایک مہینہ یہی معمولات مزید کریں اور جہاں پر ذکر کرنا ہے وہاں آپ انگوٹھا رکھ لیا کریں تاکہ آپ کو اچھی طرح محسوس ہو جائے۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم! اللہ پاک آپ کو ہر طرح کی صحت و عافیت میں رکھے۔ علاجی ذکر کرتے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو گیا ہے۔ سب لطائف پر 5 منٹ کا ذکر اور مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ 15 منٹ کا ملا ہوا تھا۔ لطائف کا ذکر ٹھیک محسوس ہوتا ہے۔ مراقبہ بھی ٹھیک محسوس ہوتا ہے۔ ایک بات کی طرف زیادہ توجہ محسوس ہو رہی ہے۔ بار بار یہ خیال آتا ہے کہ حقیقی علم صرف اللہ پاک کا علم ہے اور اصل ارادہ صرف اللہ پاک کا ارادہ ہے۔ پہلے صرف یہ ذہن میں آتا تھا کہ سب کچھ اللہ پاک ہی کر رہے ہیں اور ہر کام اس کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اب اس کے ساتھ ساتھ علم و ارادہ کی 2 صفات کی طرف بھی دھیان جاتا ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ الحمد للہ طبیعت میں بہتری آئی ہے، تھوڑا سا سکون بھی ہوا ہے۔ پہلے جو کام چھوڑنا پڑتا تھا، دل دکھتا تھا، لیکن اللہ پر بھروسہ ہوتا تھا کہ وہ بہتر ہی کرے گا، پھر دل میں آیا کہ ہسپتال جانا شروع کر دوں بے شک تنخواہ نہ ہو، لیکن اللہ پاک نے اتنی عزت دی ہے کہ اپنے جونئیرز کو سکھاتی ہوں۔ الحمد للہ اب خوش ہوں۔ اب بار بار یہی لگتا ہے کہ اللہ پاک کو اسی میں بہتری کا علم تھا اور ہم بھی ارادے کرتے ہیں لیکن اصل ارادہ اللہ پاک کا ہوتا ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اسی معمول کو جاری رکھیں اور صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبہ کی تفصیل بتا دیں کہ آپ کو کیسے محسوس ہوا ہے، تاکہ میں اس بارے میں کچھ عرض کر سکوں۔
سوال نمبر8:
Respected حضرت شاہ صاحب السلام علیکم, this is فلاں. I have finished 40 days تسبیح of third کلمہ. Please recommend what should I do next? Thank you so much and do دعا for me.
جزاک اللہ خیراً۔
جواب:
So now ان شاء اللہ you should start third کلمہ
100 times,
صلوٰۃ النبی
100 times,
and استغفار
100 time, forever daily. You will have to do it and beyond this you have to think for 10 minutes as if your heart is saying اللہ اللہ. In fact everything is saying اللہ اللہ because everything is ذاکر but you have to feel it. So for feeling it, you have to keep silent and concentrate upon this fact that your heart is also saying اللہ اللہ.
ان شاء اللہ. So, you should do this for 30 days, 10 minutes daily without any break.
سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I pray that you are well and I extend my heartfelt condolences on the loss of your respected mother. May اللہ سبحانہ تعالیٰ grant her جنت الفردوس آمین! Respected حضرت, I have been continuing with my completed اصلاحی ذکر so far every night beyond 30 days without missing a day
200 times “لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ”
400 times “لَا اِلٰہ اِلَّا ھُو”
600 times “حَق”
and 300 times “اللہ، اللہ” . Please inform me what ذکر I should do next? Also note that during last update you told me to do “اللہ، اللہ”.
400 times but I forgot this, I think, midway and did “اللہ”
300 times. Sorry about this جزاک اللہ خیر .
جواب:
So as I have told you earlier for doing “اللہ، اللہ”
400 times. So now you should do it for one month and the rest will be the same ان شاء اللہ, and after that you will write to me.
سوال نمبر10:
السلام علیکم حضرت جی! 10 منٹ قلب پر ذکر محسوس ہوتا ہے، 15 منٹ روح پر محسوس ہوتا ہے اور دعا کرتے ہوئے بھی ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اکثر دعا کرتے ہوئے بے خیالی میں ذکر کرنے لگتی ہوں۔ رات کو جب تک نیند نہیں آتی دعا مانگتی رہتی ہوں، ”اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ پڑھتی اور اللہ تعالیٰ سے اللہ کی قربت اور محبت مانگتی رہتی ہوں۔ حضرت جی مزید رہنمائی فرمائیں کہ دعا کیسے مانگوں اور ذکر کے سلسلے میں بھی آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ میں نے لاکھ مرتبہ درود شریف پڑھ لیا ہے اسے ہدیہ کر دیں۔
جواب:
ماشاء اللہ! اب آپ ذکر بڑھا لیں۔ قلب پر 10 منٹ، روح پر 10 منٹ اور سر پر بھی 10 منٹ ذکر کریں۔ سر کا تعین اس طرح کریں گے کہ دل سے اگر آپ چار انگل کے برابر اوپر گلے کی طرف ایک لائن کھینچیں پھر وہاں سے بائیں طرف 2 انگل کے برابر ایک لائن کھینچیں تو جس پوائنٹ پہ لائن ختم ہوگی یہ لطیفۂ سر کہلاتا ہے۔ اب 15 منٹ اس پر ذکر کریں اور قلب و روح پر 10، 10 منٹ ہی کریں۔ دعا اسی طرح مانگتی رہیں جس طرح آپ پہلے مانگ رہی ہیں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
Question:
Is it permissible for those on سلوک to do ذکر which you give generally for doing in free time that is “لَا اِلٰہ اِلَّا ”اللہ before noon درود شریف afternoon and استغفار in evening. In the beginning of سلوک, you have told to stop نفلی ذکر that is why I asked this question جزاک اللہ.
جواب:
So now you can start ان شاء اللہ and you can do this ذکر because it’s not علاجی ذکر, it is ثوابی ذکر. The one I stopped was علاجی ذکر. So now, you should continue it because it is forever. You can recite “لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ” till noon and after that you should start صلوٰۃ النبی and till sunset and after sunset do استغفار.
ان شاء اللہ this will give you too much.
سوال نمبر13:
السلام علیکم ،
فلاںfrom here. One month more of meditation has been completed. Meditation was 20 minutes لطیفۂ قلب and 20 minutes لطیفۂ روح in which ذکر of “اللہ، اللہ” has to be felt. I do feel ذکر for 45 minutes in both لطائف. Three days were skipped. Should I continue with this?
جواب:
Yes you should continue with this because you have to extend it that extant that you feel this ذکر in your قلب and روح for one hour 20 minutes.
سوال نمبر14:
السلام علیکم! میں برطانیہ سے بات کر رہا ہوں، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے 4 مہینے پہلے کہا تھا کہ میں ہر مہینے پابندی کے ساتھ اپنے معاملات آپ کو لکھ بھیجوں۔ اس وقت میرا یہ ذکر چل رہا ہے:
”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ۔ اس کے ساتھ 5، 5 منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا۔ 2 مہینے پہلے آپ نے ﴿فَعَّالٌ لِّما يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) کی جگہ صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ کرنے کی ہدایت فرمائی تھی جو لطیفۂ روح پر 15 منٹ کے لئے کرنا تھا۔ پچھلے مہینے آپ نے میری کیفیات سن کر تبصرہ فرمایا لیکن آگے کا نہیں بتایا، اس مہینے میں نے ذکر جاری رکھا جس کو اب تقریباً دو ڈھائی مہینے ہو گئے ہیں۔
کیفیات:
آخرت کے بارے میں بہت سنجیدگی ہے، ہر وقت اس طرف دھیان رہتا ہے، ذکر کی طرف رغبت ہے، کوشش کرتا ہوں کہ مراقبہ یا ذکر پابندی سے کروں ناغہ بالکل نہیں ہے۔ گناہوں کی طرف رغبت کافی کم ہو گئی ہے بالکل نہ ہونے کے برابر، ہاں خیال ضرور جاتا ہے لیکن فوراً فون بند کر دیتا ہوں۔ سوشل میڈیا استعمال کرتا ہوں لیکن صرف معلومات کے لئے۔ وساوس کبھی کم اور کبھی زیادہ آتے ہیں جو اللہ کے وجود کے بارے میں یا مسلک کے بارے میں ہوتے ہیں۔ دنیا کے کاموں میں ذہن الجھا رہتا ہے، دنیا کی الجھنوں سے جان چھڑوانے کا دل چاہتا ہے تاکہ ذکر کی طرف سکون سے دھیان رہے، لیکن دنیاوی ذمہ داری اور مصروفیات بڑھتی جا رہی ہیں اس لئے کبھی کبھی مایوسی بھی ہوتی ہے۔ UK چھوڑ کے پاکستان میں جاب کرنے کا ارادہ ہے لیکن کچھ اندیشوں کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ استخارہ میں بھی کچھ واضح اشارہ ابھی تک نہیں ملا۔ کیفیات اور بھی ہیں لیکن میسج لمبا ہو جائے گا۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو مزید ترقی نصیب فرمائے۔ ذکر میں بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ آپ کو ذکر کے ساتھ جو تعلق پیدا ہو گیا تو یہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے تعلق کی ایک سیڑھی ہے، اس کے ذریعے آپ کو تعلق مع اللہ نصیب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ (آمین)
اب آپ باقی اذکار ویسے ہی جاری رکھیں، ہاں صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبہ کی تفصیل بتائیں کہ آپ اس کو کس طرح کر رہے ہیں۔ تاکہ میں آپ کو مزید گائیڈ کر سکوں۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! امید ہے کہ حضرت اقدس کے مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ جب کسی مسئلے میں بندہ کو 100 فیصد حق پر ہونے کا یقین ہو پھر بھی فریقِ مخالف کی طرف سے اپنے متعلق کوئی غلط بات سنوں تو طبیعت پر غصہ طاری ہو جاتا ہے، لیکن نہ زبان پر کچھ لاتا ہوں اور نہ رویے میں تغیر لاتا ہوں۔ کہیں یہ تکبر اور خود رائی تو نہیں ہے؟ اگر ہے تو حضرت علاج ارشاد فرمائیں۔ والسلام۔
جواب:
بہت اچھا سوال کیا آپ نے۔ دھیان سے سمجھ لیں کہ تکبر کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ جس میں تکبر ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو متکبر نہیں سمجھتا۔ ہر اچھی صفت کے ساتھ اس سے ملتی جلتی ایک بری صفت بھی ہوتی ہے، بعض اوقات آدمی میں یہ اچھی صفت پائی جاتی ہے لیکن وہ دھوکہ کھا جاتا ہے اور اس اچھی صفت کو بری صفت سمجھ لیتا ہے۔ مثلاً تکبر اور خود داری دونوں ملتی جلتی صفات ہیں، مگر پہلی صفت مذموم ہے اور دوسری محمود۔ اسی طرح احساسِ کمتری اور تواضع، ریا اور تحدیث نعمت۔ یہ صفات ملتی جلتی ہیں لیکن پہلی صفت بری ہے اور دوسری اچھی ہے۔ یہ صفات ایک جیسی لگتی ہیں لیکن ایک جیسی ہوتی نہیں ہیں، کیونکہ ان کا route مختلف ہوتا ہے۔
متکبر اپنے تکبر کو خود داری سمجھتا ہے اور جو متکبر نہیں ہوتا وہ خود داری کو بھی تکبر سمجھتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ شیخ کی ضرورت اسی لیے ہوتی ہے کہ وہ ان دھوکوں سے بچا سکے۔ شیطان دھوکہ دینے میں بہت ہی ماہر ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمارا کھلا دشمن ہے، وہ اس قسم کے دھوکے دیتا ہے۔
ماشاء اللہ آپ میں تکبر نہیں ہے اور خود رائی بھی نہیں ہے۔ جس کو آپ حق سمجھتے ہیں اس پر انسان کو غیرت تو ہوتی ہے، اس کو غیرتِ حق کہتے ہیں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ کسی ایسی بات پہ رد عمل اپنے حال پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ مخاطب کے حال پر مبنی ہوتا ہے۔ کوئی بھی رد عمل کرنے سے پہلے آپ کو دیکھنا چاہیے کہ سامنے کون ہے۔ مثلاً جس پر آپ کو غصہ آیا ہے اگر وہ بچہ ہے تو اس کے ساتھ الگ طرح کا رد عمل ہوگا۔ اگر وہ عالم ہے تو اس کے ساتھ الگ طریقے کا رد عمل ہوگا۔ اگر وہ عورت ہے تو اس کے ساتھ مختلف طریقے سے بات ہو گی۔ وہ آپ کو اچھی طرح جانتا ہے تو اور طرح سے غصہ کا اظہار ہو گا اور اگر اجنبی ہے تو کوئی اور حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
ہر مخاطب کے لحاظ سے الگ رد عمل ہوتا ہے۔ اس میں حکمت کے پہلو کو سامنے رکھنا ہوتا ہے اور اپنے اندر کے غصہ کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ انسان اپنے اندر کے جذبات کو کنٹرول کرتا ہے اور اتنا ہی اظہار کرتا ہے جتنی ضرورت ہوتی ہے اور مخاطب کے حال کے مطابق حکمت عملی کے ساتھ اس طرح اظہار کرتا ہے جس سے اس کو فائدہ ہو اور اس کی اصلاح ہو۔ ہر ایک کو ایک جیسے طریقے سے نہیں سمجھانا ہوتا۔ مثلاً باپ کوئی غلطی کرے تو اسے آپ ایک الگ طریقے سے سمجھائیں گے، جبکہ ایک عام آدمی کو الگ طریقے سے سمجھائیں گے۔ دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ آپ ہر ایک کے لئے ایک طریقہ اختیار نہیں کر سکتے۔ طبیعت میں تغیر کا آجانا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کے بعد رد عمل کیسے ظاہر کرنا ہے اس پہ کنٹرول ہونا چاہیے۔ آپ کا رد عمل موقع و محل کے مطابق ہونا چاہیے۔ موقع شناسی، محل شناسی اور مردم شناسی یہ شخصیت کی تکمیل کے 3 بڑے ذریعے ہیں۔ ان کا خیال رکھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
نمبر 1:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ 15 منٹ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
مراقبہ صفات ثبوتیہ کی تفصیل بتا دیں پھر کوئی جواب دیا جا سکتا ہے۔
نمبر 2:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ روح پر ذکر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ان کو لطیفۂ روح پر 20 منٹ کا بتا دیں۔
نمبر 3:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب اس کو لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح 10، 10 منٹ اور لطیفۂ سر 15 منٹ کا بتا دیں۔
نمبر4:
لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو اب 15 منٹ کروا دیں۔
سوال نمبر17:
حضرت والا مرشدی السلام علیکم!
We are here in UK. The WhatsApp group for the notification of the protection with 313, this has to be and الحمد للہ updated by each responsible brother immediately to inform the completion of their time slot. It has been explained that this ورد is spiritual defense post and cannot be neglected. Last night a very sincere friend, who is very punctual in this ورد and ذکر ماشاء الله did not update his time slot, so I asked, but there was no reply. When I fell asleep at night I saw a dream in which حضرت والا you were in the army general and we are also with you and all of us are standing on a beach along the ocean. There is a huge wall, like a defense wall and you are fixing it. Many of the Mureeds and خدّام of حضرت والا, I recognize like شیخ فلاں and مولانا فلاں etc and everybody is in a specific place along the wall strengthening it. Then you command me to go and fix that part of the wall quickly because they will attack from the next. So, I run to you and from your feet take some wet sand and fill the bucket and then run to my post and began fixing the wall. Then you become like a giant and tell everyone that we must remain alert. The dream ended. Then this morning, the brother who did not update the group upon completing the ورد inform me that he was very sad and sorry but he fell asleep during his ورد because he did it lying in bed. I reminded him of the global impact of missing the ورد on سلسلہ and that in future he should complete the ورد standing up. الحمد للہ the brother is very شریف and غیرت مند person and I am hopful ان شاء اللہ that through حضرت والا برکات it will not happen again. But if حضرت والا can please highlight for us the importance of the ورد then it will be a direct blessed reminder ان شاء اللہ.
جواب:
اس موضوع پر کافی بات کر چکا ہوں۔ اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ بہت ہی خطرناک دور ہے اور اس خطرناک دور میں polarization شروع ہو چکی ہے یعنی اچھے لوگوں کے گرد اچھے لوگ جمع ہو رہے ہیں اور برے لوگوں کے گرد برے لوگ جمع ہو رہے ہیں اور درمیانے لوگ کم ہو رہے ہیں۔ دونوں انتہاؤں کی طرف سفر جاری ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی صالحین کے گروہ میں شامل ہونے سے رہ گیا تو لازماً وہ دوسری طرف شر والوں کی طرف چلا جائے گا۔ اس وجہ سے کسی اچھی طرف جانا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ اچھائی اور برائی دونوں کے modules بن رہے ہیں اور یہ modules آپس میں ملیں گے۔ مختلف جگہوں پہ جو دینی کام ہو رہے ہیں یہ سب آخر میں ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں گے اور الگ الگ جگہوں پر جو برے لوگ کام کر رہے ہیں وہ بھی آپس میں مل جائیں گے۔ بروں کی انتہا دجالیت ہے اور اچھوں کی انتہا امام مہدی علیہ السلام کی معیت ہے۔
شر والوں کے پاس دو قسم کے ہتھیار ہیں۔ ایک وہ ہتھیار جو ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، جیسے اسلحہ، ٹیکنالوجی اور میڈیا وغیرہ۔ دوسرے وہ ہتھیار جو بظاہر محسوس نہیں ہوتے، مخفی ہوتے ہیں جیسے جادو اور سفلی اعمال وغیرہ۔ اس وقت دجالی طاقتوں کے پاس یہ دونوں قسم کے ہتھیار بہت طاقتور قسم کے ہیں۔ اور وہ اپنے تمام ہتھیاروں کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ اچھے لوگوں کو خراب کیا جائے۔ بہت کوششیں ہو رہی ہیں جن کی تفصیلات بڑی طویل ہیں۔
اس لئے اچھے لوگوں کے پاس بھی دونوں قسم کے ہتھیار ہونے چاہئیں، دنیاوی ہتھیار اور ذرائع بھی موجود ہوں اور روحانی ہتھیار بھی موجود ہونے چاہئیں۔
ہمارے سلسلے کی حفاظت کا یہ ورد ہے:
”اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ“
الحمد للہ ہمارے سلسلے میں اس دعا کے لئے 24 گھنٹے کی تقسیمِ کار ہے، باقاعدہ ساتھی پڑھتے ہیں اور ہر گھنٹے میں پڑھتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی بھی رہ گیا تو یہ ایسا ہے جیسے سلسلہ کی حفاظتی دیواروں میں شگاف پڑ گیا اور اس کی طرف کوئی بھی چیز آ سکتی ہے۔ آپ کو خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس چیز سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ کسی بھی وقت اس کی نوبت آ سکتی ہے، شیطانی طاقتوں کی طرف سے حملہ ہو سکتا ہے اور اس خواب میں مجھے ڈیفنس لائن کے طور پہ دکھایا گیا ہے۔ ہمیں محتاط رہنا پڑے گا اور اس کے اندر کوئی سستی کی گنجائش نہیں ہے، کوئی بھی سستی کرے گا تو اس کا نقصان سب کو ہو گا۔ اس وجہ سے ہمیں بار بار اطلاع کرنی پڑتی ہے۔ اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ ایک صاحب نے سستی کی تو آپ کو اس کی اطلاع مل گئی۔ اللہ کا کرم ہے کہ اللہ پاک کی ہمارے سلسلہ کے اوپر رحمت کی نظر ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں مطلع فرماتے ہیں۔ اب ہمیں اختیاری طور پر اپنی حفاظت کا بندوبست مستقل طور پہ کرنا چاہیے اور اس میں ہمیں کوئی لمحہ ایسا نہیں چھوڑنا چاہیے جس میں ہماری حفاظتی دیوار میں کوئی شگاف ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر18:
حضرت والا Scotland تشریف لائے تھے تو ایک صاحب نے حضرت والا کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا تھا، ساتھ ہی سلسلہ میں بھی شامل ہوئے تھے۔ ان صاحب سے پھر رابطہ نہیں رہا۔ کل انہوں نے فون کیا کہ 2019 سے اب تک ان کا تیسرے کلمے کے ورد کا کبھی ناغہ نہیں ہوا اور ماشاء اللہ نماز میں بھی دوام حاصل ہے۔ بفضلہٖ تعالیٰ آگے کا حکم کیا ہے؟
جواب:
سبحان اللہ بڑی خوشی ہوئی۔ اب ان کو آگے کا بتا دیجئے کہ وہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار روزانہ سو سو دفعہ پڑھتے رہیں اور درج ذیل ذکر شروع کریں۔
”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 100 مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 100 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 100 مرتبہ۔
ان کا نمبر محفوظ کر لیں۔ ہمیں بھی ان کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے کیونکہ ان کا ہمارے اوپر حق ہے۔ اگر انہوں نے اتنی استقامت دکھائی ہے کہ اس میں کبھی ناغہ نہیں کیا تو یہ ماشاء اللہ بڑے قیمتی آدمی ہیں۔ ان کے ساتھ رابطہ رکھیں اور ان سے اپ ڈیٹ لیتے رہیں۔ اللہ جل شانہ ان کو بھی اور ہم سب کو بھی استقامت نصیب فرمائیں۔
سوال نمبر19:
Firstly, شیخ I don't know how to say this? Despite benefiting greatly from your presence and speeches, I find strange feeling of something. I can only describe it as تکبر in my heart based on my achievements. I hate this. I know I am nothing. I wish to be humble before my Lord and my شیخ. I have been reflecting on the stories you narrated about شیخ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ and شیخ گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ going to حاجی امداد اللہ مہاجر مکی that he had all fruits for which they knew the names. The story of the کتابی کیڑا that half of an عالم اصلاح in his doing بیعت. How would I? I don’t know what is stopping me? I am not even an عالم but I feel this barrier in my heart. Please help me with this. I do not want to be like الشَّیطَان,
”أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ“
In order to appreciate or I would love, if I could know more about you. What can I do about this? I have been able to complete my ذکر daily الحمد للہ.
جواب:
اس بات کا محسوس کرنا کہ مجھ میں تکبر ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے، کیونکہ اپنے نفس پر برا گمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور دوسروں کے ساتھ حسن ظن کا حکم دیا گیا ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ سوء ظن جتنا زیادہ ہو گا اتنی ہی ترقی زیادہ ہو گی۔ البتہ مایوسی کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ یہ معاملہ دو دھاری تلوار ہے کہ آپ اپنے ساتھ سوء ظن رکھیں۔ جو چیزیں اختیاری ہیں ان پہ کام کر کے اپنے آپ کو بہتر کریں۔ مثلاً آپ کسی جگہ کو صاف کرتے ہیں، صفائی کا معیار ہر ایک کا اپنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا معیار بہت سَرسَرا قسم کا ہوتا ہے، وہ بس موٹا موٹا کچرا اٹھا کر کہتے ہیں صفائی ہو گئی۔ جو زیادہ صفائی پسند اور نفیس مزاج ہوتے ہیں وہ کافی حد تک صفائی کر کے بھی کہتے ہیں کہ صفائی پوری نہیں ہوئی۔
اپنے ساتھ سوء ظن رکھنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ لیکن اس سوء ظن کو احساسِ کمتری اور مایوسی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
باقی آپ نے یہ کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر اچھائی کی طرف جانے سے کون سی چیز مجھے روک رہی ہے۔ آپ بتائیں ہمارے نفس کے اندر کون سی ایسی خوبی ہے جس کی بنا پر ہم اس سے توقع رکھیں کہ ہمیں یہ خیر کی طرف جانے دے گا؟ اس میں تو ہمت ہی کرنی ہوتی ہے۔ نفس کبھی خیر کی طرف نہیں جانے دیتا۔ نفس کبھی بھی پابندی برداشت نہیں کر سکتا اور اس لائن میں پابندی ہی سے فائدہ ہوتا ہے۔
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اپنے شیخ کے سامنے ایسے رہو جیسے غسال کے سامنے میت ہوتی ہے۔ یعنی اپنے آپ کو مکمل طور پر شیخ کے سامنے پیش کر دو تاکہ پوری اصلاح ہو اور ایسا تب ہو سکتا ہے جب انسان تمام لوگوں سے کٹ کٹا کے صرف اپنے شیخ کی طرف متوجہ ہو۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ بیعت کے بغیر ایسا سرنڈر بہت کم نصیب ہوتا ہے۔ جب تک انسان بیعت نہیں ہوتا اِدھر اُدھر دیکھتا رہتا ہے، کبھی ایک طرف، کبھی دوسری طرف، کبھی تیسری طرف۔ اس طرح اس کی توجہ بٹتی رہتی ہے، ایک جگہ مرکوز نہیں ہو پاتی، اسے یکسوئی حاصل نہیں ہو پاتی۔ اصلاح کے لئے جتنی توجہ درکار ہوتی ہے اتنی حاصل نہیں ہو پاتی۔ اتنی توجہ تب ہی ہو سکتی ہے جب کسی سے بیعت ہو۔ ہاں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بیعت ہونے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے کہ میری ان کے ساتھ مناسبت ہے یا نہیں اور وہ میرے لئے ٹھیک ہے یا نہیں۔ لیکن جب بیعت ہو جائے تو اس کے بعد پھر ماشاء اللہ اس کے لئے اچھا طریقہ استخارہ ہے۔ استخارہ کر کے اللہ تعالیٰ سے مشورہ کرے اور جو بات دل میں آئے اس کے مطابق کر لے۔ بیعت کے بغیر اصلاح واقعتاً بہت مشکل ہے۔
بیعت کے بغیر اصلاح کے لئے اخیار کا طریقہ موجود ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اس طریقہ پہ چل کر اپنی اصلاح کر لیں۔ اس میں اپنے نفس کے ساتھ مسلسل لڑائی ہوتی ہے۔ انسان کبھی اِدھر بھاگتا ہے کبھی اُدھر بھاگتا ہے۔ لیکن جب آپ نے بیعت کر لی تو آپ نے اپنے آپ کو ایک کے ساتھ باندھ لیا۔ اب وہاں سے کسی اور طرف بھاگنا آسان نہیں ہوگا۔
ہمیں اپنے نفس کو سیدھا کرنا ہے اسی کا ہمیں حکم ہے، لہٰذا اس کے لئے جو بھی تجرباتی طریقہ کام کا ہو وہ ہم اختیار کریں گے۔ بیعت کے ذریعے اصلاح کا نسبتاً آسان ہونا یہ ایک تجرباتی طریقہ ہے جو ہمیں بزرگوں نے بتایا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی بتایا ہے کہ اخیار کا طریقہ بھی ہے لیکن وہ مشکل ہے، دیرپا نہیں ہے۔ اس میں بعض دفعہ انسان مایوسی کی طرف چلا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ ابرار کا ہے کہ آدمی کسی شیخ سے بیعت ہو کر انہی کا ہو رہے، جب تک اصلاح نہ ہو تب تک اپنا تعلق مضبوطی سے ان کے ساتھ جاری رکھے۔ اس طریقے میں اتنی قوت ارادی استعمال کرنا ہوتی ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ رہے۔ پھر الحمد للہ شیخ اور سلسلہ کے فیوض و برکات ملتے رہتے ہیں۔
تیسرا طریقہ شطاریہ کا ہے جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، لیکن جن کو حاصل ہوتا ہے انہیں دن دگنی رات چگنی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ شطاریہ کا طریقہ یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ ایسی محبت ہو جاتی ہے جو اسے شیخ کی خوشی کے علاوہ ہر چیز سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس محبت کی وجہ سے ان کو خود ہی شوق ہوتا ہے کہ میں شیخ کی بات پہ عمل کروں۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کی ترقی بہت زیادہ تیز ہوتی ہے۔
بہرحال یہ ساری باتیں تجرباتی ہیں اگر کسی کو اس سے فائدہ ہوتا ہے تو وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سوال نمبر20:
حضرت یہ جو فنا فی الذات اور فنا فی الصفات کی بات چلی ہے اس میں آپ نے فرمایا کہ فنا فی الصفات میں عود کا خطرہ ہے اور فنا فی الذات میں عود کا خطرہ نہیں ہے۔ ذات میں فنا ہونا یا صفات میں فنا ہونا، کیا یہ انسان کے اختیار میں کہ ان دونوں سے جس میں چاہے فنا حاصل کرے؟
جواب:
اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔
جس کا ارادہ ہوتا ہے اس کو راستہ ملتا رہتا ہے۔
علامہ اقبال کا ایک شعر اسی مفہوم کا ہے لیکن شاید لوگ اس کو سمجھ نہ پائیں۔
قافلہ تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
انسان بہت ساری چیزوں کے ساتھ مشغول ہوتا ہے۔ کیا وہ اسی پہ اکتفا کر لے یا آگے بھی جائے!
حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ میں آپ نے بارہا یہ بات سنی ہو گی کہ اخروٹ اور منقیٰ پہ رکیں نہیں، بلکہ آگے جائیں۔ وہ یہی چیز ہے۔ اس سلوک کے راستے میں انسان بہت ساری کیفیات سے گزرتا ہے لیکن جس کے سامنے منزل اور مقصود واضح ہو، مضبوط ہمت کے ساتھ اس کو حاصل کرنا چاہتا ہو، اس سے کم کسی چیز پر تیار نہ ہو تو ایسے باہمتوں کو اللہ پاک توفیق دیتے رہتے ہیں اور وہ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ انسان اگر کسی ایک صفت میں فنا ہو تو وہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ دوسری صفت میں فنا ہو، پھر تیسری میں، پھر چوتھی میں، یوں صفات کے راستے سے آخرکار ایک دن فنا فی الذات ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر21:
انسان رطب اللسان بالذکر کیسے بن سکتا ہے؟
جواب:
میں نے اس کا طریقہ بتایا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اتنی کثرت کے ساتھ ذکر کرو کہ آپ کی نس نس میں ذکر پہنچ جائے اور آپ کا جسم خود اس ذکر کو پہچان کر آپ کو مجبور کرے کہ ذکر کریں۔
مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پشاور یونیورسٹی سے کچھ عرب حضرات آتے تھے۔ وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے حضرت کے کافی معتقد تھے اور حضرت کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ حضرت کے جسم سے اکثر ایک نعرہ اٹھتا تھا جو پہلے ”اللہ“ کا تھا پھر بعد میں ”اِلَّا اللہ“ کا ہو گیا، کیونکہ حضرت کی نسبت چشتی تھی، چشتیوں کا ”اِلَّا اللہ“ کا نعرہ کافی غالب ہوتا ہے۔ ایک بار وہ عرب حضرات آئے، مجلس میں بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت کا نعرہ نکلا ”اِلَّا اللہ“۔ یہ عرب حضرات کے لئے نئی بات تھی۔ ایک عرب نے پوچھا: مَا ھٰذَا یَا شِیْخ؟ حضرت نے ان کو جواب دیا: ”لَیْسَ فِیْ اِلاخْتِیَار“۔ یہ غیر اختیاری ہے۔
انہیں تو حضرت نے یہی فرمایا لیکن ان کے جانے کے بعد کچھ مزید تفصیل بتائی۔ فرمایا: احادیث شریف میں ایک دعا آتی ہے:
”اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ“ (مسند الفردوس: 605)
ترجمہ: ”اے اللہ میرے دل کے وساوس کو اپنی خشیت اور ذکر کا ذریعہ بنا دے“۔
خشیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کا ڈر حاصل ہو جائے اور ذکر سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی یاد آ جائے۔
یوں تو وساوس اللہ پاک سے دور کرنے کا سبب بنتے ہیں لیکن جن پہ اللہ پاک فضل فرمائے ان کے لیے یہی وساوس خشیت و قرب الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مثلاً آپ کے سامنے ایک بری چیز آ گئی جو آپ کو خراب کرنا چاہتی ہے اور آپ یکدم اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے کہ یا اللہ! میں اس سے بچنا چاہتا ہوں۔ تو دیکھیں اس خراب چیز نے آپ کو اللہ کے پاس پہنچا دیا۔
جب کوئی آدمی دائمی طور پر ذاکر ہو جاتا ہے، اس کا جسم ذکر کا اثر قبول کر چکا ہوتا ہے تو پھر جب بھی اس کے دل پہ کوئی وسوسہ آتا ہے تو اس کا جسم از خود ذکر شروع کر دیتا ہے۔
یہ بات مجھے ایک نقشبندی شیخ نے بھی سمجھائی تھی۔ فرمایا: کمال کی بات ہے لوگ اچھے ماحولوں میں محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لطائف جاری ہو گئے، جبکہ ہمارے برے ماحول میں جاری ہوتے ہیں۔
میں نے غور کیا تو ان کی بات بالکل صحیح تھی۔ لطائف برے ماحول میں جاری ہونے چاہئیں تاکہ وہ آپ کو اللہ کی طرف لائیں۔ اس کے لئے ابتدا میں کثرت ذکر کے ساتھ محنت کرنی ہوتی ہے۔ ذکر کی کثرت کا حکم قرآن پاک میں بھی دیا گیا ہے:
﴿اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَّسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَّأَصِيلًا﴾ (الأحزاب:41-42)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو“۔
کثرت کے ساتھ ذکر کرنے سے آپ کا دل، دماغ اور جسم ذکر کے ساتھ مانوس ہو جائے گا پھر جب آپ ذکر نہیں کریں گے تو آپ کا دل، دماغ اور جسم یہ خود آپ کو alarm کریں گے اور اس کے alarm کرنے کا طریقہ ایک چمک سی ہوتی ہے جو آپ کے جسم کو motivate کرتی ہے اور آپ ذکر شروع کر لیتے ہیں۔ جب انسان اس مقام پہ پہنچ جائے تو پھر وہ ذکر کے بغیر نہیں رہ سکتا، چاہے وہ قلبی ذکر ہو، چاہے زبانی ہو، چاہے کسی اور طرح کا ذکر ہو۔ پھر انسان حقیقی ذاکر بن جاتا ہے اور صرف اپنے لئے ذاکر نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے لئے بھی ذکر کی کنجی بن جاتا ہے۔ دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ دیکھ کر ذکر کرنا شروع کردیتے ہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ