قبائل کی صلاحیتیں اور حفظِ مراتب کی اہمیت

سوال نمبر 336

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا: جو خاندان اور قبیلے جاہلیت کے زمانے میں بہتر شمار کئے جاتے ہیں وہی زمانۂ اسلام میں بھی بہتر ہوتے ہیں بشرطیکہ دین میں فقہ اور سمجھ بوجھ حاصل کر لیں (مسند احمد، حدیث نمبر: 245) اس حدیث شریف میں مختلف خاندانوں اور قبیلوں کی صلاحیتوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اور اسلام میں حفظِ مراتب کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے۔ اس کی ذرا وضاحت فرما دیں۔

جواب:

اللہ جل شانہٗ نے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتیں دی ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ ہمارا مشاہدہ ہے۔ بعض لوگ زیادہ ذہین ہوتے ہیں، بعض لوگ کم ذہین ہوتے ہیں، بعض لوگ بہت طاقتور ہوتے ہیں، بعض لوگ کم طاقتور ہوتے ہیں، بعض لوگ صحت مند ہوتے ہیں، بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں۔ اور ہر صلاحیت اور صفت کی اپنی مشکلات بھی ہوتی ہیں اور اپنے فائدے بھی ہوتے ہیں۔ جن کو مشکلات ہوتی ہیں اگر وہ اپنے آپ کو ان سے بچاٸیں اور ان کے فوائد حاصل کر لیں تو ان کو فائدہ ہو گا۔ کفر کی حالت میں جن کے اندر جو صلاحیت تھی وہ کفر کے لئے استعمال ہو رہی تھی تو کتنا نقصان ہو رہا تھا یعنی ان کے اپنے لئے پکڑ بن رہی تھی۔ جیسے فرعون بادشاه تھا جس کی وجہ سے اس کی بات چل رہی تھی لیکن اگر وہ مسلمان ہو جاتا تو پھر کیا ہوتا؟ نجاشی مسلمان ہو گیا تھا تو ساری رعایا کے مسلمان ہونے کا سارا فائدہ اس کو ملا یا نہیں ملا؟ وہ اس status پہ چلا گیا۔ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اس چیز کو اصل میں لوگ جانتے نہیں ہیں اس وجہ سے گڑبڑ کرتے ہیں) بڑی سخت مخالفت کی کیونکہ سردار تھے، جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے تو ان کا معاملہ الگ تھا وہ اپنی کفر کی سرداری کی وجہ سے مسلمانوں کے مقابلے میں تھے اور اس وقت وہ مبغوض تھے۔ لیکن جیسے ہی مسلمان ہو گئے تو status تبدیل ہو گیا اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو ان کے گھر میں بھی پناه لے تو ان کو بھی پناه ہے۔ تو ان کے اسلام سے پہلے کی چیزوں کی وجہ سے ایمان لانے کے بعد ان پر کچھ بھی گزشتہ برا عمل باقی نہیں رہا بلکہ وہ چیز ان کے فائدے میں چلی گئی کیونکہ ان میں صلاحیتیں تھیں اور ان کا مظاہرہ بھی ہوا۔ مقصد میرا یہ ہے کہ جو حضرات کفر کی حالت میں اچھی صلاحیتوں والے تھے اسلام کے بعد بھی اچھی صلاحیتوں والے ہوں گے۔ فرق یہ ہوا کہ پہلے وہ صلاحیتیں کفر کے لئے استعمال ہو رہی تھیں اب وہ اسلام کے لئے استعمال ہوئیں۔ تو بہترین ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر جرمن قوم مسلمان ہو جائے تو


They will be torchbearer of Islam


یعنی وہ بالکل اسلام کے علمبردار ہوں گے کیونکہ اس ملک میں کوئی ایسی صلاحیتیں ہیں جو کہ ان کو بہت اوپر چڑھا دیتی ہیں، محنت بہت کرتے ہیں۔ یورپ کا محاورہ ہے ان کے بارے میں کہ

Germans live for working and French work for living.

ان کا status ہے۔ پوری دنیا کو للکارا تھا یا نہیں؟

ابن رشد اور اس قسم کے جو حضرات تھے جن کا یورپ کے ملک اسپین سے تعلق تھا جب یہ مسلمان ہو گئے تو ان کی research کا انداز ہی بالکل الگ تھا، style ہی بالکل الگ تھا۔ وہاں کے لوگ جس طریقے سے research کرتے ہیں اگر وہ اسلام کے لئے استعمال ہو جائے تو بہت فائدہ ہو گا۔ بنی اسرائیل بڑی صلاحیتوں والے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو چنا ہوا تھا، بار بار قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے لیکن جس وقت کفر کی حالت میں چلے گئے تو اس وقت مبغوض ترین لوگ ہو گئے ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ﴾ (الفاتحۃ: 7) میں اسی طرف اشارہ ہے کیونکہ اتنی صلاحیتوں کے ساتھ انہوں نے کفر اختیار کیا اور وہ سب صلاحیتیں اب کفر کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔ سر سید احمد خان سید تھے لیکن بگڑ گئے تو پھر سارا بگاڑ لے آئے، اسی طرح جو لوگ اچھی صلاحیتوں والے ہوتے ہیں اگر وہ بگڑ جائیں تو بہت بگڑ جاتے ہیں۔ اور برے لوگ جو اچھی صلاحیتوں والے ہوتے ہیں وہ جس وقت واپس آئیں اور اچھے بن جائیں تو پھر بہت ہی اچھے بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہیے جو اللہ پاک نے ہمیں دی ہیں اور ان کو خیر کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ جیسے اگر کوئی شخص اچھا شاعر ہے تو اپنی شاعری کو دین کے لئے استعمال کرے، کوئی اچھا خطیب ہے تو اپنی خطابت دین کے لئے استعمال کرے، اگر کوئی اچھا سائنسدان ہے تو اپنی سائنسدانی دین کے لئے استعمال کر لے، اگر کوئی اچھا ڈاکٹر ہے تو اپنی ڈاکٹری دین کے لئے استعمال کرے، کوئی اچھا انجینئر ہے تو اپنی انجنئیری کو دین کے لئے استعمال کرے یعنی کسی پہ دروازہ بند نہیں ہے۔ صلاحیت کے ہونے نہ ہونے پہ کوئی پکڑ نہیں کیونکہ یہ تشکیل اللہ کی ہے لیکن جو صلاحیت آپ کے پاس ہے اس کا استعمال آپ کیسے کر رہے ہیں؟ اگر آپ دین کے لئے کر رہے ہیں، اللہ کے لئے کر رہے ہیں تو بہت اچھی بات ہے اور اگر آپ اس کو خرابی کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو بہت ہی نقصان پہنچا رہی ہے۔ چھری بہت تیز ہو تو جہاں پر اس کا استعمال صحیح ہو وہ بہت اچھا کرے گی جیسے قربانی کے وقت ہوتا ہے، کہتے ہیں: بہت تیز چھری ہو تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔ لیکن یہی تیز چھری اگر کسی مسلمان کو قتل کرنے کے لئے استعمال ہو جائے تو اس کے لئے اتنی ہی مصیبت ہے۔ چنانچہ اگر انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچان لے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کر لے تو یہ اس کی سعادت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی یہ سعادت نصیب فرمائے

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن