استاد اور شاگرد کے تعلق کی رہنمائی

سوال نمبر 335

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی






اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

آپ ﷺ کی سیرت کا وہ پہلو جو کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے بطور ایک معلم کا تھا، اس کا ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بحیثیت ایک استاد کے آپ ﷺ کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ایک ایسا تعلق تھا کہ صحابہ کرام بھوک پیاس گرمی سردی غرض ہر قسم کی تکلیف کو خوشی سے قبول کر کے آپ ﷺ سے دین کا علم حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوتے تھے۔ اس سے ہمیں ایک استاد اور شاگرد کے آپس کے تعلق کے بارے میں کس قسم راہنمائی ملتی ہے؟

جواب:

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ پاک نے مجھے معلم بنا کر بھیجا ہے لہذا معلم کے طور پر آپ ﷺ نے بہترین طریقے سے حاضرین صحابہ کو تعلیم دی اور باقی آنے والی امت کے لئے تعلیم چھوڑی ہے۔ طلبہ یا جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو کس طرح تعلیم دی جائے؟ ظاہر ہے اس میں بہترین طریقہ وہی ہو گا جو آپ ﷺ نے استعمال فرمایا ہے۔ آپ ﷺ انتہائی شفقت کے ساتھ جو سمجھ میں آنے والی عوامی مثالیں ہوتی تھیں ان کے ذریعے سے تعلیم فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی وہ تو براہ راست پوری پہنچا دیتے تھے جیسا کہ آپ ﷺ کے پاس آئی ہوتی تھی ایک کام تو یہ تھا، اس کے لئے خاص صحابۂ کرام کاتبین وحی تھے جو اس کو لکھ لیتے تھے اور دوسرے کچھ صحابہ کرام اس کو یاد کر لیتے تھے۔ تو ایک تو قرآن پاک کی تلاوت کی تعلیم تھی ﴿یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ (آل عمران: 164) اور دوسرا کتاب کے سمجھانے کی تعلیم تھی چونکہ وہ عرب تھے لہذا عربی کے لحاظ سے وہ قرآن کو جانتے تھے کیونکہ قرآن بھی آسان کر کے اتارا گیا تھا، اس میں عرفی عربی کے مطابق الفاظ استعمال ہوئے تھے یعنی جو عربی ان دنوں بولی اور سمجھی جاتی تھی اس میں قرآن اتارا گیا لہذا ان کے لئے اس کو سمجھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا اِلَّا ما شاء اللہ اگر کوئی دور دراز علاقوں سے آئے ہوں جن کی زبان عربی نہیں ہوتی تھی یا علاقوں کے لحاظ سے کچھ مسائل ہوتے تھے تو وہ ممکن تھا لیکن وہ قرآن کے الفاظ کو عمومی طور پر سمجھتے تھے۔ لیکن قرآن کی تعلیم سے مراد یہ کہ اس کا جو اصل مطلب ہوتا تھا وہ آپ ﷺ سمجھا دیتے تھے جس کو ہم عرفی طور پر تفسیر کہتے ہیں یا تشریح کہتے ہیں۔ جب لوگ پوچھتے تھے تو اس وقت آپ ﷺ اس کی تشریح فرماتے تھے، ہر چیز کے بارے میں وہ نہیں پوچھتے تھے کیونکہ وہ چیز پہلے سے ان کو سمجھ آئی ہوتی تھی چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ نے جو تفسیر کی ہے تو اس میں ان چیزوں کا بھی استعمال ہے جو کہ آپ ﷺ سے سنا ہے اور ان کا بھی استعمال ہے جو خود انہوں نے سمجھا ہے۔ مثلاً ”کلالہ“ کے لفظ کی آپ ﷺ نے تشریح نہیں کی بلکہ فرمایا کہ تمہارے لئے یہ آیت کافی ہے۔ بعد میں اس کے بارے میں صحابہ کرام اپنی research کرتے تھے۔ جیسے مشورہ ہو رہا تھا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری بھی اس میں ایک رائے ہے، اگر صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ یعنی صحابہ کرام میں بھی بات سمجھنے میں بعض دفعہ اختلاف ہوا کرتا تھا جس کو اجتہادی اختلاف کہتے ہیں اور وہ اختلاف نیچے اتر آیا اور پھر فقہا میں بھی وہ اختلاف موجود رہا اور ہم تک بھی اسی اختلاف کے ساتھ وہ چیزیں آئی ہوئی ہیں لہذا یہ ایک قدرتی عمل ہے، اس پہ تنگ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اختلاف کیوں ہے اور اس سے انسان کو عمل سے رکنا بھی نہیں چاہیے۔ اس میں ہم لوگوں کو اللہ پاک نے جس channel سے بھی ایک چیز پہنچائی ہے اس channel کو ہم لازم پکڑیں اور اس کے مطابق عمل کریں، جس کو ہم تقلید کہتے ہیں۔ اس ذریعہ سے ہم نفس کے شر سے بچ جائیں گے اور صحیح طریقہ کار ہمیں ان شاء اللہ سمجھ میں آ جائے گا۔ اس وقت اللہ جل شانہ نے جو آپ ﷺ کے دل پر اتارا جس کو ہم وحی غیر متلو کہتے ہیں یعنی حکمت کی دانائی کی بات اور جو امت کی امانت تھی وہ آپ ﷺ نے بہترین طریقے سے امت تک پہنچائی، مختلف طریقوں سے مثالیں دے دے کر اور مثالیں بھی عمومی یعنی اس وقت کے دور کے لحاظ سے۔ مثال کے طور پر ہم گاؤں میں لائبریری کی کتابوں کہ ذریعے سے کسی کو نہیں سمجھا سکتے کہ فلاں کتاب میں یہ ہے اور فلاں میں یہ ہے بلکہ ہم وہاں کی عام مثالیں دیں گے جیسے بیل اور ہل وغیرہ کی۔ جیسے آپ ﷺ جا رہے ہیں اور راستے میں ایک درخت کی ٹہنی پکڑ کر ہلائی اور پتے جھڑنے لگے اور پوچھا کہ یہ میں نے کیوں کیا؟ اس کے بعد ساری بات سمجھا دی۔ اب یہ ایک مثال کے ذریعہ سے سمجھایا اور پیغمبروں کو اللہ پاک مثالوں کے علم کا بہت بڑا حصہ دیتے ہیں کیونکہ پیغمبر اس وقت کے کم سے کم ذہن والے آدمی تک بھی بات کو پہنچا سکتا ہے یعنی اس لیول کی بات پہ آ سکتا ہے، یہ ان کا کمال ہوتا ہے کیونکہ ایک ہوتا ہے عروج جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نزول میں مخلوق کی طرف ہوتی ہے تو مخلوق کی طرف اللہ کے لئے اتنی زیادہ توجہ ہونی چاہیے کہ کم سے کم جو جاننے والا ہے وہ بھی مستفید ہو سکے، یہ آپ ﷺ کی بہت بڑی ایک خوبی تھی اور عام لوگ بھی آپ ﷺ کی بات کو اس طرح سمجھ لیتے تھے۔ البتہ کچھ باتیں ایسی تھیں جو خاص باتیں ہوتی تھیں وہ خاص لوگوں کو بتائیں۔ جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں یا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے فرمایا جو میرے دل میں اللہ نے ڈالا میں نے ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے دل میں ڈال دیا۔ اور میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے اسی طریقے سے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ اس کی زبان پہ حق بولتا ہے۔ گویا کہ آپ ﷺ نے حفظِ مراتب کا خیال رکھا۔ تو استادوں کے لئے یہ ایک موقع نکل آیا کہ استاد ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرنے کے پابند نہیں ہیں بلکہ جو زیادہ اہل ہیں ان کو زیادہ پہنچانا چاہے تو ٹھیک ہے ان کے لئے خصوصی بات بھی کر سکتے ہیں اور جو اتنی استعداد نہیں رکھتے ان کو عمومی level پر اتنا رکھے جتنا کہ وہ لے سکتے ہیں کیونکہ بعض گہری باتیں بعض لوگوں کے لئے مشکل ہوتی ہیں، ان کو سمجھ میں نہیں آتیں نتیجتاً اس میں ان کو نقصان ہو سکتا ہے، لہٰذا ان کو ان چیزوں سے آگاہ نہ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ مثال کے طور پر ایک شخص وہ تمام باتیں پوچھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے وہ چیزیں تو اللہ پاک نے اتنی آسان کی ہیں کہ وہ ہر ایک سمجھ سکتا ہے لہذا عمومی طور پر اس کا علم سب کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ لیکن کچھ خاص رازوں کو یا کچھ خاص باتوں کو سمجھنا جو کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے پوچھے گا بھی نہیں بلکہ جن کو وہ علم دیا گیا ہے ان سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ چنانچہ جن کو نہیں دیا گیا وہ اس کی فکر نہ کریں اور جن کو دیا گیا ہے وہ اس کو سنبھالیں اور اس کو ان کے اہل تک پہنچائیں۔ اس کام کا پھر اپنا انتظام ہے۔ آپ ﷺ کا رویہ مبارک اس قسم کے بعض صحابہ کے ساتھ ان معاملات میں مختلف ہوا کرتا تھا جیسے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بالکل مختلف طریقہ کار سے بات ہوتی تھی اور باقی حضرات کے ساتھ مختلف طریقے سے ہوتی تھی۔ نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰلِک ایسا نہیں تھا کہ آپ ﷺ کسی کو نہیں دینا چاہتے اور کسی کو دینا چاہتے ہیں بلکہ ان کی استعداد کے مطابق دیا۔ جیسے اللہ نے استعداد کی تشکیل کی ہوتی تھی اور نبی تو اللہ پاک کی بات پہ چلتا ہے اس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ پاک کی بات کو چلائے۔ تو جن کو اللہ نے استعداد دی ہے مثال کے طور ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اچھا engineer بننے کی استعداد ہے اور دوسرے کو اچھا ڈاکٹر بننے کی استعداد دی ہے اور کسی کو اچھا سائنس دان بننے کی استعداد دی ہے۔ اب میں اگر engineer کی استعداد والوں کو ڈاکٹر بنانا چاہوں تو کیسا ڈاکٹر بنے گا؟ ظاہر ہے ایک فضول قسم کا ڈاکٹر بنے گا اور جس میں ڈاکٹری کی استعداد ہے اس کو اگر engineer بنانا چاہوں تو engineer بھی صحیح نہیں بن سکے گا۔ اسی طریقے سے سائنس دان بھی ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ کا طریقہ کار ہوتا ہے جس میں اس کو اللہ پاک نے طبعی طور پہ ڈالا ہوتا ہے یعنی جیسا اللہ نے اس کو بنایا ہے۔ جیسے آگ کو اللہ نے بنایا ہے جلانے کے لئے، پانی کو بنایا ہے بجھانے کے لئے، اب پانی سے آپ یہ توقع کریں کہ وہ جلائے یہ پاگل پن ہو گا۔ اسی طریقے سے اللہ پاک نے جن کے اندر جو جو استعدادیں رکھی ہیں ان کی پہچان کرنا اساتذہ کی دوسری duty ہے۔ پھر ان کی استعدادوں کے مطابق ان کو وہ چیز پہنچانا۔ البتہ آپ ﷺ کی شفقت کا معاملہ جیسے کتابوں موجود ہے کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اتنا عرصہ آپ ﷺ کے ساتھ رہا لیکن مجھے کبھی سخت بات بھی نہیں کی۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ تادیب بھی ہوتی ہے جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوڑا بھی ثابت ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا "ما اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی" (ترمذی، حدیث نمبر: 2641).جس پر میں چلا ہوں اور جس پر میرے صحابہ چلے ہیں۔ صرف اپنے تک بات محدود نہیں رکھی۔ مطلب یہ ہے کہ تادیب کرنے کا اس کو اختیار ہو گا لیکن تادیب میں اپنے نفس کی بات نہیں لائے گا بلکہ اللہ کے لئے ہو گی اور اس کے فائدے کے لئے ہو گی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوڑا ضرور چلایا ہے لیکن جس وقت ان کو پتا چلتا کہ اس میں میں حق پر نہیں ہوں فوراً چھوڑ دیتے اور رونا شروع کر دیتے کیونکہ وہ نفس کے لئے نہیں تھا۔ ہم لوگ تھوڑا سا اس پر غور کریں اور آپ ﷺ کی زندگی کو لیں اور پھر آپ ﷺ کے صحابہ کرام کی زندگی کو لیں پھر اس میں مجموعی طور پر جو ہمیں ملتا ہے اس چیز کو ہم جذب کر لیں اور اس کے مطابق عمل کر لیں تو ہمیں بہترین استاد بھی ملیں گے صحابہ کرام میں اور ان کا طریقۂ کار بھی ملے گا۔ ہم ان سے سیکھیں کیوں کہ آپ ﷺ کے پاس تو جو لوگ آئے آپ ﷺ نے اس کے مطابق عمل فرمایا لیکن بعد میں مختلف قسم کے صحابہ کے پاس مختلف علاقوں کے لوگ، مختلف مزاجوں کے لوگ آئے، انہوں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہمارے پاس اس کا پورا ایک ذخیرہ موجود ہے ہم اس کو اسی طرح کر لیں تو ان شاء اللہ العزیز ہمیں راستہ ملے گا۔ لیکن یہ topic یہاں ختم نہیں ہوتا یہ بہت وسیع topic ہے اور مختصر وقت میں اس کو سمیٹا نہیں جا سکتا۔ میرے خیال میں اشارے کافی ہیں اور جو لوگ سمجھنا چاہتے ہوں گے وہ سمجھ جائیں گے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن