خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ جب کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو کسی کام کے لئے کسی علاقے میں بھیجتے تو فرماتے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت خوشخبریاں سنانا اور متنفر نہ کرنا اور دین میں آسانیاں پیدا کرنا اور مشکلات پیدا نہ کرنا۔ آپ ﷺ کی یہ سنت دعوت کے کام میں کیا رہنمائی دے رہی ہے کیونکہ ہمارا نفس تو ہر جگہ آسانی ڈھونڈتا ہے تو ہم نفس کو کون سی آسانی دے سکتے ہیں اور کون سی آسانی سے ہمیں اپنے نفس کو روکنا چاہیے؟
جواب:
اصل میں دین تبدیل نہیں ہوتا صرف اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوتا ہے اور اس کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔ ﴿اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دِینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیناً﴾ (المائدہ: 3) دین جب مکمل ہو گیا تو اس میں نہ ہم کمی کر سکتے ہیں نہ زیادتی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ سوچنا ہی نہیں چاہیے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی آسانی پیدا کر دیں گے۔ دین میں آسانیاں ہیں "اَلدِّیْنُ یُسْرٌ" دین میں آسانیاں ہیں۔ ان آسانیوں کو تلاش کر کے سامنے کرنا چاہیے، لوگوں کو پہلے ان کے بارے میں بتانا چاہیے، اس میں جو مشکلات ہیں وہ بعد میں خود ہی اٹھا لیں گے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنا حق پر جمنے کا بہت بڑا محرک ہے۔ آسانی کے ذریعے سے شکر پیدا ہوتا ہے اور شکر کے ذریعے سے جو اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے وہ ذریعہ ہے اس چیز کو حاصل کرنے کا۔ انسان اللہ پاک کا شکر کرے اور اللہ پاک کے قریب ہو جائے اپنی فکر کے لحاظ سے، اپنی سوچ کے لحاظ سے، اپنی محبت کے لحاظ سے۔ تو اس وقت خوشخبریاں سنانا اچھا ہوتا ہے، خوشخبریاں بہت ساری ہیں۔ مثلاً آپ ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ کیا میں تم کو ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو تمہیں پوری دنیا پر غالب کروا دے؟ سب لوگ خوش ہو گئے وہ تو چاہتے یہی تھے۔ انہوں نے کہا: جی بالکل بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ۔ تو لوگوں نے کہا: اسی پر تو ہمارا اختلاف ہے۔ تو کیا آپ ﷺ نے کلمہ تبدیل کر دیا؟ عنوان ایسا بنایا کہ اس سے attraction ہو۔
بہت عرصہ پہلے میں نے ایک article پڑھا تھا جس میں ”نَعَم“ کی strategy کو سمجھایا گیا تھا کہ آپ کا پہلا لفظ نعم ہونا چاہیے یعنی ”ہاں“۔ ”نہ“ کرنے سے توڑ ہوتا ہے۔ نعم سے آدمی قریب آتا ہے۔ تو نعم سے مراد یہ ہے کہ آپ پہلے وہ بات کریں جو اس کو پسند ہے اس کے بعد اس کو دین کی مزید باتیں بتائیں جس میں ساری باتیں آ جائیں گی لیکن وہ باتیں جو لوگوں کو پسند ہیں مثلاً اگر ہم دین پر چلیں گے تو ہمیں اللہ پاک اس دنیا میں اطمینان نصیب فرمائے گا۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے بالکل صحیح بات ہے ﴿أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ (الرعد: 28) اب اطمینان کون نہیں چاہتا؟ اطمینان تو ہر ایک چاہتا ہے۔ اگر ہم حلال کمائیں گے اور حرام سے بچیں گے تو اللہ پاک ہمارے رزق میں برکت عطا فرمائے گا۔ اس میں بھی جھوٹ نہیں ہے۔
اپنی طبیعت کی کجی بھی دور کرنی چاہیے مثلاً میں وضو کر رہا ہوں اور پاس ہی ایک شخص بیٹھا وضو کر رہا ہے لیکن وہ وضو ٹھیک نہیں کر رہا۔ تو ہم لوگوں کے سمجھانے کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی اس طرح وضو کرتا ہے؟ ابھی تک وضو کرنا بھی نہیں سیکھا؟ اس طرح کوئی پیر دھوتا ہے؟ یہ توڑنے والا طریقہ ہے، بھگانے والا طریقہ ہے۔ اس کے بجائے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ ایک بڑے میاں ان کے ساتھ وضو کر رہے تھے اور ٹھیک نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: حضرت جی! آپ ذرا مجھے وضو کرتے ہوئے دیکھیں، میں بچہ ہوں ممکن ہے میں ٹھیک وضو نہ کروں تو آپ ذرا مجھے سکھا دیں کہ میں صحیح وضو کیسے کروں؟ پھر بالکل ٹھیک وضو کیا۔ ان صاحب نے کہا: بیٹا آپ کا وضو ٹھیک ہے، میرا غلط ہے، آئندہ میں ٹھیک کیا کروں گا۔ اپنی کجی کو دور کرنے سے لوگوں کو آرام آئے گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اصول ایسے بنائے تھے کہ لوگوں کو اس میں راحت ہو اور ان پر پھر سختی سے عمل کرواتے تھے۔ لوگ کہتے: یہ سخت ہیں۔ وہ کہتے: میں سخت نہیں ہوں بلکہ میں اپنے آسان اصولوں پر سختی سے عمل کرواتا ہوں۔ مثال کے طور پر ٹریفک کے rules بہت آسان بنائے جائیں جن پر سب لوگوں عمل کر سکتے ہوں پھر ان پر سختی کے ساتھ عمل کرایا جائے تب ہی اس کا فائدہ ہو گا ورنہ فائدہ نہیں ہو گا۔ یہی وہ بات ہے کہ لوگوں کو خوشخبری سنانا اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے ان کو شوق پیدا ہو اور وہ مزید آگے بڑھیں۔ بالخصوص بچوں میں یہ طریقہ بہت زیادہ effective ہے کہ ان کو شاباش دے دو کہ شاباش آپ نے ہاتھ دھو لئے ما شاء اللہ سنت پہ عمل ہو گیا۔ کھانا شروع کرتے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ لیا تو واہ سبحان اللہ۔ دعا پڑھ لی تو آپ کو اتنا ثواب مل گیا۔ یہ خوشخبریاں ہیں۔ اسی طرح گاؤں کے لوگ جو بالکل نا سمجھ ہوتے ہیں ان کو بھی بچوں کی طرح handle کرنا ہوتا ہے، ان کو بھی اسی طریقے سے سمجھانا ہوتا ہے کہ وہ چل پڑیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ذرا دین کا علم سیکھیں اور اس سے استفادہ کریں اور وہ چیزیں ان لوگوں کے سامنے پہلے لائیں جن کی طرف ان کی طبیعت راغب ہو اور وہ پورے دین پر آنے کے لئے ذریعہ بن جائیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی طبیعت کی کجی کو دور کر کے اپنی دعوت کا طریقۂ کار درست کر لیں، اس کے اندر سختی جو ہماری طبیعت کی وجہ سے ہے اس کو ہم روک لیں اور جو نرمی والا سنت کا طریقہ ہے اس کو ہم اپنے اوپر لازم کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہمارے ساتھ ہو گی۔ لیکن اس کے لئے ہم نے دین کو تبدیل نہیں کرنا، جائز کو نا جائز نہیں کہنا اور نا جائز کو جائز نہیں کہنا۔ اگر کوئی مجھ سے دین کے اندر کسی غلط بات کا پوچھتا ہے اور وہ ابھی کچا آدمی ہے اور کہتا ہے کہ کیا یہ ٹھیک ہے؟ میں اس کی ہاں میں ہاں نہیں ملاؤں گا کہ وہ خوش ہو جائے بلکہ اس وقت میں خاموش ہو کر آسانی کے وقت موقع ڈھونڈ کر اس کو بہتر طریقے سے سمجھانا ہے کہ یہ بات میں نے اس طرح سنی ہے۔ اگر اس میں طلب ہو گی تو ان شاء اللہ وہ اس کو مان لے گا اور سمجھ جائے گا۔
ایک دفعہ ہم بہاولپور گئے تھے، ایک صاحب نے ہماری ناشتے پر دعوت کی تھی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ میری بیوی میرے پیسے استعمال نہیں کرتی۔ میں نے کہا: ایسا کیوں؟ کہتے ہیں کہ میں چونکہ تحصیل دار ریٹائر ہوا اور اپنے پیسے fixed deposit میں رکھے ہیں جس وجہ سے وہ کہتی ہے کہ یہ سود ہے۔ میں نے کہا: ہاں سود ہے لیکن میرے لئے ماں کا دودھ ہے۔ اس نے یہ بات کی اور میں حیران تھا کہ میں اس کے ساتھ کس طرح انداز سے بات کروں تاکہ اس کو بات سمجھ بھی آ جائے اور برا بھی نہ لگے۔ خیر جب اس نے اپنی بات ختم کی تو تھوڑا توقف کے بعد میں نے کہا: حضرت ایک بات عرض کروں؟ کہا: جی ہاں بالکل۔ میں نے کہا: میرا خیال ہے آپ کی بیوی حق پر ہے۔ اس نے کہا: کیسے بھئی کون ہے جو آج کل سود سے پاک رزق لے رہا ہے؟ ہر ایک چیز کے اندر سود گھسا ہوا ہے، اس بارے میں تو روایت بھی ہے کہ اس کا دھواں ہر جگہ پہنچ جائے گا۔ ہمیں تنخواہیں بینک سے نہیں مل رہیں؟ یہ بھی تو سود ہی ہے۔ یہ ان کی thesis تھی۔ میں نے کہا: حضرت اللہ پاک نے فرمایا ہے ﴿لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) کہ جو چیز تم کر نہیں سکتے اللہ پاک آپ کو اس کا ذمہ دار نہیں بناتا۔ چونکہ جو پورا system ہے political اور administration system اس کو ہم ایک دن میں change نہیں کر سکتے اور جو ہمارے بس سے باہر ہے اس کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا لیکن جو ہمارے بس میں ہے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مثلاً نوٹ کے اوپر تصویر کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا لیکن مجھے خود اپنی تصویر نہیں اتارنی۔ آپ کے system میں جو ہے اس کے وہ ذمہ دار ہیں جنہوں نے کیا ہوا ہے لیکن آپ اگر fixed deposit رکھتے ہیں یا آپ خود کسی کو سود دیتے ہیں یا خود کسی سے سود لیتے ہیں یہ آپ کا اپنا کام ہے اس میں آپ خود اپنے ارادے سے involve ہوں گے جس پر آپ کے ساتھ حساب ہو گا۔ اگر آپ current account میں رکھ لیں تو ٹھیک ہے ورنہ کسی اور کام میں invest کر لیں یا کسی طریقے سے استعمال کر لیں لیکن بہر حال fixed deposit میں رکھیں گے تو پھر آپ کی بیوی صحیح کہہ رہی ہے۔ اس طرح گپ شپ میں ان کو بات بتائی تو اس نے فوراً کہا کہ ما شاء اللہ شاہ صاحب آپ نے بالکل صحیح سمجھایا ہے، بات بالکل ایسے ہی ہے، میں اس کے بارے میں کچھ کروں گا۔
بات بھی ہو گئی لیکن میں نے ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی کہ بالکل ٹھیک ہے آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں یہ کہتا تو اپنے آپ کو بھی تباہ کر دیتا، سود اللہ کے ساتھ لڑائی ہے جس میں کسی کی مدد نہیں کی جا سکتی۔ بات اچھی بتانی ہے لیکن کسی طریقے سے بتانی ہے، لڑائی کے انداز میں نہیں بتانی بلکہ جوڑ کے انداز میں توڑ کے انداز میں نہیں۔ اگر اس طرح ہو جائے تو ان شاء اللہ اس پر عمل ہو جائے گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔