متشابہات اور غیر منقول روایات کی تفصیل میں جانے کا حکم

سوال نمبر 333

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَم النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تو آپ ﷺ کی وہ باتیں تھیں جو میں نے آپ تک پہنچا دیں ان کے علاوہ کچھ اور باتیں ہیں، اگر وہ میں ظاہر کر دوں تو میری گردن ناپی جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان سے یہ بات ہمیں ملتی ہے کہ کچھ باتیں آپ ﷺ کی ایسی تھیں جن کو صرف صحابہ کرام ہی سمجھ سکتے تھے اس لئے وہ آگے امت کو منتقل نہیں ہوئیں۔ کیا اس قسم کی روایات کی تفصیل میں جانے سے منع کیا گیا ہے؟ جس طرح قرآن پاک کے متشابہات کی تفصیل میں جانے سے منع کیا گیا ہے؟

جواب:

اصل میں حقائق، حقائق ہوتے ہیں ان کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا لیکن حقائق کی سمجھ ہر شخص کو اپنی استعداد کے مطابق ہوتی ہے اور ساری چیزیں سب لوگوں کے لئے ضروری نہیں ہوا کرتیں۔ مثلاً کچھ باتیں ایسی ہیں جو صرف بالغ لوگ آپس میں کر سکتے ہیں۔ نا بالغ جب بیٹھے ہوتے ہیں تو ان کو یا نکال دیا جاتا ہے یا ان کے سامنے وہ باتیں نہیں کی جاتیں۔ اب وہ باتیں سچی ہوتی ہیں، غلط نہیں ہوتیں لیکن ان کے لئے مناسب نہیں ہوتیں۔ اسی طریقے سے کچھ حقائق ایسے ہیں جو اللہ پاک صرف ان کے اہل تک پہنچاتے ہیں اور جو ان کے اہل نہیں ہیں ان سے ان باتوں کو مخفی رکھا جاتا ہے۔ لیکن جن چیزوں کے کرنے کا حکم ہے ان میں سے کوئی چیز مخفی نہیں رکھی گئی، شریعت بالکل واضح ہے۔ کرنے کی باتیں جب ظاہر ہیں تو ہمیں ان باتوں کی تلاش کیوں ہے جن کا ہم سے پوچھا نہیں جائے گا؟ مثال کے طور پر موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام اپنی پیغمبری شان سے شریعت کے مطابق ہر چیز کو سوچتے تھے اور خضر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو کرنا ہوتا تھا وہ کرتے تھے۔ عام قاعدہ وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کا تھا البتہ خضر علیہ السلام والا special case تھا۔ خضر علیہ السلام کی کوئی چیز بھی اگر سمجھ نہ آئے تو اللہ پاک ان سے نہیں پوچھے گا کیونکہ اللہ پاک نے اس کو ظاہر نہیں فرمایا لیکن کیا اس کی حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے؟ موجود تو ہے اور جو موجود ہے اس سے انکار نہیں لیکن کیا میرے لئے اس کا جاننا ضروری ہے؟

ایک doctor اپنی ڈاکٹری کی بہت ساری تفصیلات جانتا ہے اور دوسرا آدمی engineer ہے وہ Engineering کی بہت ساری باتیں جانتا ہے جو doctor نہیں جانتا۔ کیا doctor اس بات پر افسوس کر سکتا ہے کہ Engineering کی باتیں میں کیوں نہیں جانتا؟ اور engineer اس بات پر افسوس کر سکتا ہے کہ میں ڈاکٹری کی باتیں کیوں نہیں جانتا؟ اگر doctor ،engineer سے کہہ دے کہ doctor صاحب آپ مجھے سمجھا دیں کہ آپ کو کیا باتیں معلوم ہیں وہ کہے گا: آپ کو میں دو منٹوں میں کیسے سمجھا دوں؟ یہ تو پورا ایک علم ہے اس کے لئے پورا وقت لگانا پڑے گا۔ اسی طرح doctor اگر engineer سے کہہ دے تو وہ اس کو یہی بات کہہ سکتا ہے۔ یہ تقسیم کار ہے جن کو جو جو چیز دی گئی ہے ان سے اس کے بارے میں پوچھا بھی جائے گا اور جن کو نہیں دی گئی تو ان سے پوچھا بھی نہیں جائے گا۔

شہادت کے قانون پر جب ضیاء الحق کے دور میں فیصلہ ہو گیا تو ایک عورت نے مجھ سے شکایت کے لہجے میں پوچھا کہ عورت کی گواہی آدھی کیوں ہے؟ میں نے کہا: بی بی جن کی گواہی پوری ہے کیا وہ گواہی دینے کے لئے تیار ہیں؟ تم خواہ مخواہ درمیان میں خود کو شامل کرنا چاہتی ہو! لوگ گواہی خود اپنی مرضی سے نہیں دیتے بلکہ اس سے بھاگتے ہیں۔ جہاں آپ کی گواہی کی ضرورت ہے وہاں آپ کی گواہی پوری ہے۔ بس وہ پھر خاموش ہو گئی۔ یہ صرف شیطان کے شوشے ہوتے ہیں جو وہ چھوڑتا ہے تاکہ لوگوں کو disturb کرے لہذا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو باتیں ملی تھیں وہ کیا تھیں؟ نہ ہمیں ان کی خبر کی ضرورت ہے، نہ ان کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے، نہ ہمیں ان کے بارے میں فکر کرنی چاہیے۔ البتہ مانتے ہیں ایسی چیزیں تھیں جو ان کو دی گئیں کیونکہ وہ صحابی ہیں اور "اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عُدُولٌ" صحابہ سارے کے سارے ثقہ ہیں۔ یعنی عادل ہیں۔ چنانچہ ان سے یہ توقع نہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہو گا اور جو باتیں انہوں نے نہیں بتائیں ہم اس کے مکلف ہی نہیں ہیں۔ ہمیں صرف اور صرف وہ باتیں جاننی چاہئیں جو ہمارے لئے عمل کے لئے ضروری ہیں یا ایمان لانے کے لئے یا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں یا اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہیں بس یہی کافی ہے، اس سے زیادہ ہمیں کچھ ضرورت نہیں۔ جیسے فضائل کا علم ہے پھر مسائل کا علم ہے پھر اپنا تزکیہ ہے ان تین چیزوں کے اندر ہم اپنی زندگی کھپا دیں، لگا دیں تو بس کام ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ باقی دنیاوی کام ہر ایک کا اپنا اپنا ہے وہ اس کو شریعت کے طریقے کے مطابق جائز طریقے سے کرے۔ اللہ جل شانہ ہمیں سچ بات اور حق بات کو ماننے کی اور وہ کام کرنے کی جس کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن