نقلی دلائل کی تشریح میں عقلی اصولوں کا استعمال

سوال نمبر 332

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

جیسا کہ کل آپ نے عقلی اور نقلی دلائل کے بارے میں تفصیل بیان فرمائی، اس بارے میں ایک سوال ہے کہ بعض اوقات نقلی دلائل کی تشریح کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس میں عقل کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے تو نقلی دلائل کی تشریح کے لئے کون سا اصول ہو گا آیا اس کے لئے بھی نقل قطعی و ظنی اور عقل قطعی و ظنی کا آپس میں تقابل کیا جائے گا؟

جواب:

عقل کی بات قطعی ہے جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ اس کے ذریعہ سے ہم کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ عقلی چیزوں کا بھی analysis کر سکتے ہیں، نقلی چیزوں کا بھی analysis کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ہے جس میں کوئی شخص کہتا ہے کہ فلاں کو میں نے یہ چیز دی تھی کہ اسی تاریخ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس شخص کے پیدا ہونے میں اور دوسرے شخص کے پیدا ہونے میں دو سو سال کا فرق تھا۔ تو کیا آپ اس کو مانیں گے؟ اب یہ عقلی بات ہے لیکن نقلی بات کی analysis کر رہی ہے کیونکہ جب تک کوئی پیدا نہیں ہوا اس کے ساتھ دوسرا کیسے مل سکتا ہے؟ آپ کہیں گے: یہ غلطی ہوئی ہے کیونکہ آپس میں چیزیں مل نہیں رہیں۔

اسی طریقے سے احادیث شریفہ جو ساری نقلی ہیں ان کی تحقیق میں درایت کا استعمال کیا جاتا ہے کہ آیا یہ چیز ممکن بھی تھی یا نہیں؟ کچھ چیزیں اللہ پاک نے نقلی طور پر بتائی ہیں کہ یہ ایسی ہیں لیکن ان کی مزید تشریح عقلی طور پر ہوتی ہے۔ جو بدیہی بات ہے اس کو عقلی طور پر آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ مثلاً نقلی طور پر ہمیں یہ معلوم ہے کہ جس وقت شفق غائب ہو جاتا ہے یا افق پر صبح صادق چھا جاتی ہے اس وقت فجر کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ یہ نقلی بات ہے۔ اب ہم مشاہدات سے معلوم کرتے ہیں، گھڑی سے معلوم کر لیتے ہیں، پھر ہم پوری سائنس کی جو calculation ہے، ریاضی کی spherical trigonometry ہے کہ اس وقت پر کون سا درجہ تھا؟ یعنی سورج کتنے درجے زیرِ افق تھا؟ اس درجے کی بنیاد پر mark کر کے ہم calculation کریں اور اس سے نمازوں کے اوقات کا حساب کر لیں، تو یہ ساری چیزیں عقلی ہیں۔ لیکن ان کی بنیاد نقلی چیز ہے جس کے ذریعہ ہم اس کو متعدی کر لیتے ہیں یعنی اور چیزوں پر بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ چنانچہ جو بدیہی باتیں ہیں، جو مستند باتیں ہیں، جو مانی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری نمازوں کے اوقات کا test ہم کیسے کرتے ہیں؟ مشاہدہ ہی سے کرتے ہیں۔ مشاہدہ نقلی چیز ہے۔ تو نقلی چیز سے ہم نے اپنی عقلی چیز کی تصدیق یا تکذیب کر لی، اگرچہ ہم نے عقلی چیز سے نقلی چیز کی جو بنیاد ہے اس کی بنیاد پر حسابات کئے لیکن پھر اس کی تصدیق کس چیز سے کی ہے؟ نقلی چیز سے کی کہ آیا وہ وہی آ رہا ہے یا نہیں آ رہا؟

ہمارے جو لوگ یہ اصول نہیں جانتے کہ ہر چیز کے لئے نقلی دلیل بنیاد ہوتی ہے پھر عقلی دلیل اس کی تشریح کرتی ہے اور اس میں اس کو استعمال کر لیتی ہے تو جتنی نقلی دلیل نے اجازت دی ہوتی ہے اتنا ہی عقلی دلیل استعمال ہو سکتی ہے۔ اب نمازوں کے اوقات کے اندر تو یہ بتایا گیا ہے کہ ﴿اِنَّ الصَّلٰـوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا (النساء: 103) یعنی وقت کے حساب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو فرض کر دیا ہے۔ اس میں وقت بنیاد ہے، آپ جس طریقے سے بھی اس کا حساب کریں یا جس طریقے سے بھی معلوم کریں، نشانیوں سے معلوم کر لیں یا حساب سے معلوم کر لیں ان نشانیوں کے مطابق۔ جب وقت آپ کے پاس آ جائے گا تو آپ اس کے اوپر عمل کر سکتے ہیں اور اگر آپ نے نماز پڑھ لی اور بعد میں آپ کو calculation سے پتا چلا کہ وقت ختم ہو گیا تھا تو آپ کو دہرانی پڑے گی کیونکہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔ تو نقلی دلیل ہمارے پاس وقت کے لحاظ سے فرض ہونا ہے۔ ہم نے حسابات کئے، ہم اس کے حساب سے دیکھتے ہیں کہ آیا وہ وقت تھا یا نہیں تھا؟ تو اس کے حساب سے ہم فیصلہ کر لیتے ہیں۔

ایک دفعہ ایک جگہ مغرب کی اذان وقت سے ایک منٹ پہلے ہو گئی، وہاں لوگ اعتکاف بیٹھے تھے۔ ہم نے بہت precise calculation کی اسی جگہ کے لئے کہ آیا اس میں کوئی chance ہے کہ اس سے پہلے ہو چکا ہو، precise calculation میں صرف چند سیکنڈ کا فرق تھا، اس کے ذریعے سے بچ گئے ورنہ سب کا اعتکاف خراب ہو جاتا۔ یہ عقلی چیز کے ذریعے سے نقلی چیز کی تشریح اور اس کا حساب ہے اور پھر اس کے بعد نقلی چیز کے ذریعے سے ہم اس کی تشریح analysis کرتے ہیں کہ آیا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ نمازوں کے اوقات میں تو یہ فارمولا ہے لیکن چاند کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔

چاند کے بارے میں فرمایا "صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَ اَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ" (بخاری، حدیث نمبر: 1810) ”چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر افطار کرو“۔ وہاں observation کی بات ہے یعنی وہاں پر حساب نہیں چلے گا۔ حساب سے آپ اُس کا اندازہ کر سکتے ہیں لیکن اصل check ”دیکھنا“ ہے۔ مثال کے طور حساب کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ چاند بالکل موجود ہے اور بادل بھی ہیں، اگر بادل نہ ہوتے تو چاند نظر آ جاتا۔ لیکن جب تک نظر نہیں آیا آپ رمضان یا عید نہیں کر سکتے حالانکہ آپ کا حساب بتا رہا ہے کہ بالکل چاند موجود ہے۔ یہاں دو باتوں کا ہمیں پابند کیا گیا ہے نمبر ایک چاند انتیسویں کو نظر آ گیا تو اگلی یکم ہے۔ نہیں دیکھ سکے تو یہ unlimited اجازت نہیں ہے۔ بس صرف ایک دن کا روزہ ہے، ایک دن کے بعد پھر یکم شروع ہو گی۔ کیونکہ چاند یا انتیس کا ہوتا ہے یا تیس کا ہوتا ہے، یہ بھی ایک نقلی دلیل ہے۔ اگر انتیس نہیں ہے تو تیس کا تو ہے ہی، لہذا یکم اس سے ایک دن بعد آئے گی تو یہ نہیں ہو سکتا کہ unlimited ہو جائے کہ جب چاند نظر نہیں آیا تو میں نے روزہ ہی نہیں رکھنا، ایسی بات نہیں ہے۔ ایک دن کے بعد پھر آپ کو رکھنا ہی ہو گا۔ تو خبر نے یا دلیل نے ہمیں جس طرح پابند کیا ہوتا ہے ہم عقل کو اسی طرح استعمال کریں گے۔ عقل، نقل کی تشریح کر سکتی ہے لیکن عقل آزاد نہیں ہے بلکہ نقل کی پابند ہے۔ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کر سکتا ہے لیکن سپریم کورٹ آئین کا پابند ہے، غیر آئینی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اسی طریقے سے یہ اللہ کا قانون ہے ویسے اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا وہ علیحدہ بات ہے لیکن اللہ کے قانون کو ہم change نہیں کر سکتے بلکہ اسی پر عمل کرنا پڑے گا۔ اس کے پیغمبر نے جو خبر دی ہے اسی پہ عمل کرنا پڑے گا۔ ”میرے خیال میں“ والی باتیں اس میں نہیں آتیں۔ ہمارے فقہا اپنی عقل کو انتہائی درجے کی احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے تھے لیکن پھر بھی کہتے تھے: وَاللہُ اَعلَمُ بِالصَّوَابِ کہ اللہ کو پتا ہے حقیقت حال کیا ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ دادا اور بھائی کے درمیان میراث تقسیم کرنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر کسی کو جہنم کے اندرونی حصہ میں جانا ہے تو وہ دادا اور بھائی کے درمیان میراث تقسیم کرے یعنی اتنی خطرناک بات ہے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو جائے۔ تو اتنا بے دھڑک نہیں چلنا چاہیے کہ ”جو میرے خیال میں آ جائے تو میں نے کرنا ہے“ دیکھو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا فرما رہے ہیں جو عقل اور علم دونوں کے پہاڑ تھے۔ چنانچہ عقل کو ذرا لگام دینا پڑے گی لیکن استعمال بھی کرنا پڑے گی۔ جانور کو جب آپ استعمال کرتے ہیں تو کیا بے لگام استعمال کرتے ہیں؟ اسی طرح آپ گاڑی کو استعمال کر رہے ہیں اور steering پر بیٹھ جاتے ہیں accelerator بھی دباتے ہیں، لیکن brake ساتھ موجود ہے accident سے بچنے کے لئے brake کا استعمال ضروری ہے۔ اسی طریقے سے ہم لوگ عقل کو ضرور استعمال کریں گے نقل کی تشریح کے لئے بھی کریں، لیکن بے لگام نہیں بلکہ اس کے لئے لگام ضروری ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن