خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کے آخری بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بطن سے تھے بعض روایات میں ایک سال اور بعض روایات میں دو سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا تھا حضور ﷺ ان کی وفات پر بہت غمگین ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا "اِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْن" (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 10162) "اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر بہت غمزدہ ہیں" آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ آپ تو ہمیں رونے سے منع فرماتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: زبان کے رونے سے منع کرتا ہوں، آنکھ کا رونا تو فطری ہے، زبان کا رونا منع ہے یعنی شکوہ کرنا اور بین کرنا وغیرہ۔ لیکن جب آدمی غمگین ہو تو آنکھوں سے آنسو بہتے ہی ہیں۔ اس واقعے سے ہمیں کیا سبق مل رہا ہے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کی فوتگی پر ہمیں کس طرح کا عمل کرنا چاہیے نیز اس واقعے سے اختیاری و غیر اختیاری کاموں کے بارے میں کیا ہدایت مل رہی ہیں؟
جواب:
ہمارا پورا دین بالکل natural ہے یعنی اس میں natural چیزوں کا بڑا خیال رکھا گیا ہے، جیسے اگر کسی کو غم ہو تکلیف ہو تو یہ کہنا کہ اس کو غم نہیں ہے، تکلیف نہیں ہے تو یہ خلاف واقعہ ہو گا، غم تو ہوتا ہے۔ پھر غم سے دو قسم کی چیزیں آتی ہیں ایک یہ کہ انسان شکایت کرنا شروع کر دے، چیخنا شروع کردے یا بعض دفعہ نا فرمانی کرنے لگے، جیسے آج کل فوتگیوں پہ ہوتا ہے، یہ ایک بد قسمتی کی بات ہے۔ دوسرا یہ کہ اس غم کا حق ادا کریں اور حق یہ ہے کہ اس میں سنت کو زندہ کریں اور سنت طریقہ اپنائیں تو یہ غم اس کے لئے دگنے اجر کا باعث بن جائے گا، ایک تو صبر کرنے پر اجر ملے گا اور دوسرا اس سنت کو زندہ کرنے کا اجر ملے گا۔ تاہم عموماً غم میں کن چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے؟ اپنے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے، لوگوں کے رواج کا خیال رکھا جاتا ہے، یہی دو باتیں ہوتی ہیں، یہ ایک حقیقت ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ روتے ہیں ان کو غم نہیں ہوتا، غم ہوتا ہے، غم تو ان کو بھی ہوتا ہے جو روتے نہیں ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس غم کا اظہار کیسا ہے؟ اختیاری اظہار کیسا ہے اور غیر اختیاری بات کیسی ہے؟ لہذا اس حدیث شریف میں غم کا اقرار کیا گیا ہے: "اِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْن" کہ ہم تیرے فراق سے اے ابراہیم غم ناک ہیں اور ہمیں غم ہے، یہ حقیقت کا اقرار ہے لہذا یہ زبان سے بھی کہنے سے کوئی برائی نہیں ہے۔ جیسے اگر کوئی مجھے مارے، میرے اوپر کوئی چیز پھینکے اور مجھے آکر لگے اور میں کہوں کہ مجھے چوٹ لگ گئی ہے تو اس میں کون سی غلط بات ہے؟ بالکل چوٹ لگی ہے یہ اسی کا اقرار ہے، یہ الگ بات ہے کہ میرا جواب کیا ہو گا اور میں اس کے جواب میں کیا کرتا ہوں، آیا میں اس پر خاموش رہتا ہوں یا اس کی طرف دو چیزیں پھینکتا ہوں، یا میں اس کو گالیاں دیتا ہوں، یہ ساری باتیں میرے اوپر منحصر ہوں گی، لیکن یہ کہنا کہ مجھے چوٹ لگی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ تو حقیقت ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے بھی فرمایا کہ اے ابراہیم! ہم تیرے غم میں غمناک ہیں، خفا ہیں، ہمیں غم ہے۔ گویا اس غم سے انکار نہیں ہے۔ البتہ یہ غم آنے پر میں نے کیا کیا ہے؟ کیا میں نے جزع فزع کیا ہے؟ کیا میں رویا ہوں، چیخا چلایا ہوں، غلط باتیں زبان سے نکالی ہیں؟ تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اگر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے؟ تو آنسوؤں پہ کسی کا control نہیں ہے، کیونکہ آنسو دل کی بات کا اظہار کرتے ہیں اور دل پر کسی کا control نہیں ہے۔ لہذا اگر کسی شخص کی زبان پر وہی بات آتی ہے جو حقیقت ہے اور اس بات کے اثر کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں تو اس کو اجر ملے گا، کیونکہ اس نے صبر کیا ہے۔ نیز آپ ﷺ کے طریقے پر عمل ہوا ہے۔ چنانچہ ہم بھی ان شاء اللہ آج اس سنت کو زندہ کرنے کے لئے اپنی والدہ عَلَیْہَا الرَّحْمَۃ کے بارے میں کہیں گے: "اِنَّا بِفِرَاقِکِ لَمَحْزُوْنُوْن" کیونکہ والدہ کے ساتھ کس کو محبت نہیں ہوتی ہے، والدہ کی محبت سے اور انہوں نے اولاد کے لئے جو تکلیفیں اٹھائی ہوئی ہوتی ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اللہ کا امر صحیح معنوں میں امر ہوتا ہے اور اس حکمت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ جب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد فوت ہوئے، تو ایک تو جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ لوگ آتے ہیں اور دعا کرتے ہیں، اگرچہ دعا میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر دعا نمائشی ہو تو اس میں حرج ہے، جیسے بار بار یہ عمل دہرایا جاتا ہے کہ پھر دعا کر لیں، پھر دعا کر لیں۔ گویا یہ حاضری لگانے والی بات ہوتی ہے جو دعا نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک رواج ہوتا ہے۔ جب کہ اصل میں بیٹھنا تو تعزیت کے لئے ہوتا ہے کہ لوگ آتے ہیں تعزیت کرتے ہیں۔ بہر حال بعد میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے سب سے بہترین تعزیت ایک بدو نے کی تھی، بدو نے کہا اے عبد اللہ! آپ کے والد عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے تمہاری صحبت اچھی ہے یا اللہ تعالیٰ کے پاس جانا اچھا ہے؟ میں نے کہا اللہ کے ہاں جانا اچھا ہے۔ پھر اس نے کہا: آپ کو عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانے سے اللہ کی رضا زیادہ عزیز ہے یا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی؟ میں نے کہا اللہ کی رضا، اس نے کہا پھر نقصان کس کا ہوا؟ وہ اپنے اللہ کے پاس چلے گئے ہیں اور تجھے اللہ کی رضا مل گئی۔ فرمایا: مجھے اس پر بہت تسلی ہوئی اور تعزیت بھی ہو گئی۔ چنانچہ تعزیت بھی تسلی کے لئے ہوتی ہے۔ لہذا انسان کو یہ چیزیں سامنے رکھنی چاہئییں اور کوئی کام بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے جس میں سنت کی مخالفت ہو۔ اور ایسے مواقع انسان اپنی مرضی سے تو نہیں لاتا اور نہ لا سکتا ہے، البتہ اس وقت کے احوال اگر سنت کے مطابق ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو اجرِ عظیم عطا فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اجرِ عظیم نصیب فرما دیں اور ہماری والدہ کو بخش دیں اور ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کو اعلٰی درجات نصیب فرما دیں (آمین) اور ہم سب کو آخرت کے لئے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ (آمین)
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ