اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
السلام علیکم حضرت جی اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے۔ محترم جو وظیفہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ، "اَللہ" 500 مرتبہ اور مراقبہ 5 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خَفی، لطیفۂ اخفیٰ اور 15 منٹ کے لئے تجلیاتِ افعالیہ تصور کرنا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور وہاں سے شیخ کے قلب پر اور ان سے میرے قلب پر آ رہا ہے، 60 دن ہو چکے ہیں۔ مراقبہ کے دوران قلب پر اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے اور اکثر اوقات غشی بھی ہوتی ہے۔ پھر مجھے پتا چل رہا ہوتا ہے کہ مجھے اونگھ آئی ہے جو لطائف کے وقت نہیں ہوتی۔ حضرت جی میرے لئے آئندہ کیا حکم ہے؟
جواب:
باقی چیزیں تو آپ وہی جاری رکھیں۔ البتہ تجلیاتِ افعالیہ کی جگہ مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ کریں گے اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی صفات ہم اپنی صفات کے ذریعے سے پہچانتے ہیں۔ جیسے ہم دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں، بول رہے ہیں تو اسی طریقے سے اللہ جل شانہ بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں، اللہ پاک کلام بھی فرماتے ہیں اور اللہ جل شانہ سن بھی رہے ہوتے ہیں۔ ”بصیر“ ہیں ”سمیع“ ہیں ”متکلم“ ہیں لیکن ہماری طرح نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی شان کے مطابق ہیں اور اللہ کی ذات لا متناہی ہے۔ اس کے لئے کسی وسیلے کی یا کسی واسطے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تو یہ فیض آپ ﷺ کے لطیفۂ قلب پر آ رہا ہے اور لطیفۂ قلب سے شیخ کے لطیفۂ قلب پر آ رہا ہے اور پھر وہاں سے آپ کے لطیفۂ روح کے اوپر آ رہا ہے۔ یہ آپ 30 دن کریں گے۔
سوال 2:
You have asked me a question. حضرت when a person has achieved a مقام, can it go away because of sins? This is what you had asked and I had answered, yes, why not, for example; can مقام تقویٰ remain with sins مقام ریاضت with laziness and مقام قناعت with greed and so on?
جواب:
Actually these مقامات are the absence of some رذائل. It means, if some person is greedy and he is no more greedy, then he will get مقام قناعت. If a person has فجور, it means he has involved himself in sins, so then he will be فاجر. But if he controls these sins and do not do these sins and get rid of these sins, so this will be تقویٰ. This مقام تقویٰ is achieved because of suppressing this desire or you can say these رذائل. When laziness is controlled, ریاضت comes. It means one can exercise many things that are required. I think you should understand this. This is no more difficult.
سوال 3:
السلام علیکم
Sir الحمد للہ there is gradual progress and concentration of the ذکر and فیض.
جواب:
سارے لطائف پر 5 منٹ ذکر کر لیا کریں۔ اس کے بعد 15 منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فیض جیسے کہ اس کی شان ہے آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے میرے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے دل میں آ رہا ہے۔ ایک مہینے کے لئے کر کے اس کے بعد رابطہ کریں۔
سوال 4:
So الحمد للہ there is gradual progress in the concentration of the ذکر and فیض in the last few months. I was thinking that may اللہ سبحانہ تعالیٰ give me توفیق of sending درود شریف to حضرت محمد ﷺ (peace be upon him)! الحمد للہ reciting a درودِ تنجینا. A report is being sent every Thursday . Again I prayed to اللہ سبحانہ تعالیٰ to give me the regularity in sending درود. Today a new message came in the درود counter group about the درود.
الحمد للہ اللہ سبحانہ تعالیٰis giving me an opportunity along with others to send درود شریف to the خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ (peace be upon him). Previously, I tried but I was not regular. ان شاء اللہ with توفیق the of اللہ سبحانہ تعالیٰ, I will continue. May اللہ سبحانہ تعالیٰ make my very little contribution pure and may اللہ سبحانہ تعالیٰ accept it آمین.
جواب:
I also say آمین! May اللہ سبحانہ تعالیٰ grant you توفیق to perform all these things only for the sake of اللہ.
سوال 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ محترم الحمد للہ آپ کی ہدایت کے مطابق آج درج ذیل ذکر مکمل ہو گیا ہے۔ 200 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 600 دفعہ "حَق"، 300 دفعہ "اَللہ"، آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ احوال: الحمد للہ اب گناہ کے کاموں سے دل تنگ ہوتا ہے اور نیکی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ ہر کام سے پہلے دل میں آتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور اللہ کیا چاہتے ہیں؟ نماز اگر رہ جائے تو لگتا ہے کہ بس دنیا ہی ختم ہو گئی۔ لوگوں میں بیٹھنے اور دولت وغیرہ کی گفتگو سے وحشت ہونے لگی ہے۔ دل میں ایک آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے، مغفرت فرمائے، کسی کی محتاجی کے بغیر عزت کے ساتھ زندگی گزروا دے اور ایمان کے ساتھ کلمہ پر موت نصیب فرمائے اور آخرت میں معاف فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے اہل و عیال کو اور ہمارے سلسلہ کے ساتھیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
جواب:
ماشاء اللہ۔ آپ اب 200 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 600 دفعہ "حَق" اور 400 دفعہ "اَللہ"، شروع فرما لیں اور الحمد للہ یہ اچھے حالات ہیں اللہ جل شانہ اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ ذکر سے دل کے دروازے کھلتے ہیں۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک صاحب کو قلبی اذکار بتا رہے تھے تو جب بتا دیئے تو لگتا تھا کہ جیسے یہ بہت زیادہ ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا: بھئی دل کے سارے پٹ جو کھولنے ہیں۔ یعنی دل میں ہر طرف سے مسائل آتے ہیں۔ مثلاً آنکھ کی طرف سے، دماغ کی طرف سے، زبان کی طرف سے، یہ ساری چیزیں دل پہ آتی ہیں۔ یہ جتنے بھی راستے ہیں ان کو روکنا بھی ہے نفس کی اصلاح کے ذریعے سے اور صفائی بھی کرنی ہے۔ جہاں جہاں سے کوئی گند آتا ہے اس کو ختم بھی کرنا ہے جس کے لئے ذکر ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ جل شانہ ہمیں صحیح طریقے سے ذکر کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
اصلاحی ذکر بہت اہم ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ اپنے ایک بہت اہم ملفوظ میں ارشاد فرمایا:عام طور پر عام ذکر سے درود شریف افضل ہے کیونکہ اس میں درود بھی ہے، دعا بھی ہے اور ذکر بھی ہے۔ لیکن مشائخ جو ذکر دیتے ہیں وہ درود شریف سے بھی زیادہ افضل ہے کیونکہ یہ اصلاح کا ذریعہ ہے اور اصلاح فرضِ عین ہے۔ تو یہ جو اصلاحی ذکر ہے یہ بہت زیادہ اہم ہے، اس سے اصلاح ہوتی ہے اور اصلاح ہو جانا بہت بڑی چیز ہے، اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرما دے اور اگر خدا نخواستہ اس گند کے ساتھ ہم اس دنیا سے چلے گئے تو بڑے مسائل ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں فرمایا ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 9-10) ”یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور یقیناً تباہ و برباد ہو گیا وہ شخص جس نے اس کو ایسے ہی چھوڑ دیا“ کتنی خطرناک بات ہے؟ چنانچہ ہمیں دل لگا کے کام کرنا چاہیے۔ ماشاء اللہ آپ کو اس کا احساس ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ اس احساس کو اور بھی بڑھائے اور اس کے مطابق عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
سوال 6:
حضرت جی اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم سب پر تا دیر قائم رکھے۔ حضرت مجھے آپ جس عمل کی بھی تلقین کریں گے ان شاء اللہ میں اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ہر وقت دعا ہی کرتا رہوں گا اور کوئی آسان سا عمل ہو۔ کثرتِ نوافل اور تہجد، اشراق، چاشت وغیرہ کے لئے معذور ہوں کیونکہ IBS کا مریض ہوں، وضو بہت جلدی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بار بار وضو سے نوافل نہیں پڑھ سکتا۔ اللہ پاک معاف فرمائے۔ نوافل سے انکار والی بات نہیں ہے۔
جواب:
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ نفل، نفل ہوتا ہے۔ فرض اور واجب الگ ہے۔ لہٰذا فرائض اور واجبات پر استقامت ہو تو نوافل تو ایک اضافی چیز ہے۔ اور جو چیز نوافل سے ملتی ہے وہ آپ کو بیماری پر مل رہی ہے۔ البتہ ذکرِ علاجی کو با قاعدگی کے ساتھ کرتے رہیے کیونکہ ذکرِ علاجی سے علاج ہوتا ہے اور ذکرِ علاجی کے لئے آپ جیسے معذور آدمی کے لئے وضو کا باقی رکھنا بھی ضروری نہیں ہے کیونکہ ذکر بغیر وضو کے بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ چونکہ وضو کی حالت میں علاجی عمل کا اثر زیادہ ہو جاتا ہے اور ثوابی عمل کا ثواب زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے دیگر حضرات کو ہم وضو کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ وضو مومن کا اسلحہ ہے۔ لیکن آپ چونکہ بیمار ہیں تو بیمار کے لئے عذر کے احکام ہوتے ہیں۔ اللہ جل شانہ آپ کی بیماری کو بھی دور فرمائے اور اعمال پر بھی استقامت نصیب فرمائے۔
سوال 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں فلاں سعودی عرب سے بات کر رہا ہوں۔ حضرت جی میرے ذکر کی تفصیل اس طرح ہے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا للہ" 200 مرتبہ، "اَللہُ اَللہ" 200 مرتبہ اور "اَللہ" 100 مرتبہ اور مراقبہ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ پر 5، 5 منٹ، کہ ہر چیز اللہ کا ذکر کر رہی ہے یہ سننا اور لطائف اللہ اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اور 15 منٹ مراقبہ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے فیض میرے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب مبارک سے فیض میرے لطیفۂ خفی پر آ رہا ہے۔ حضرت جی آگے ذکر کرنا چاہتا ہوں آپ سے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اب آپ شانِ جامع کا مراقبہ کریں یعنی جتنے بھی مراقبات آپ نے کئے ہیں یعنی تجلیاتِ افعالیہ، صفاتِ ثبوتیہ، شیوناتِ ذاتیہ، صفاتِ سلبیہ ان سب کو ملا کر جو فیض ہے وہ آپ کے لطیفۂ اخفیٰ پر آ رہا ہے۔ یعنی حضور ﷺ کے لطیفۂ قلب پر اور وہاں سے شیخ کے لطیفۂ قلب اور وہاں سے آپ کے لطیفۂ اخفیٰ پر آ رہا ہے۔
سوال 8:
میرا وظیفہ 7000 بار اسمِ ذات تھا جس کی مدت پوری ہو چکی ہے۔ مجاہدہ یہ تھا کہ دو عورتوں میں بحث ہو رہی ہو تو ان کے خاموش ہونے کے بعد فیصلہ کرنا ہے، اس کے بعد آپ نے دیا تھا کہ آپ نے سوچنا ہے کہ اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ میری خاموشی میں بہتری ہے اور اگر لڑائی کے بیچ میں ہم کوئی بات کرنا چاہیں تو کوئی سنے گا بھی نہیں، شاید ہم بھی اس میں پڑ جائیں۔
جواب:
بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے۔ اگر ایک انسان عقل سے کام لے تو بہت سارے مسائل کا حل خود ہی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ یہ عقل ہی ہے جس کے ذریعے سے ہم لوگ بعض چیزوں کے نتائج اس کے ہونے سے پہلے جان لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو کنویں میں گرتے دیکھیں تو دوسرا آدمی کنویں میں اپنے آپ کو نہیں ڈالنا چاہتا، بچتا ہے۔ تو یہ جو بچنے کا جذبہ ہے یہ بھی عقل کی وجہ سے ہے کیونکہ اس کو پتا چل جاتا ہے کہ اس کا یہ نقصان ہوتا ہے، اس کے علم میں اضافہ ہو گیا۔ اس علم کو بروئے کار لا کر وہ اپنے آپ کو اس نقصان سے بچاتا ہے۔ تو آپ کی عقل میں یہ بات آ گئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ ابھی یہ مجاہدہ آپ جاری رکھیں فی الحال، البتہ اسمِ ذات 7500 مرتبہ کر لیں۔ ان شاء اللہ اس کے بعد آپ کو کچھ اور بتائیں گے۔
سوال 9:
حضرت previously, you had mentioned about the vital role of تصوف in the places of the world where other islamic activities such as تبلیغ اور مدرسہ are banned. Now the next question is, what could be the simplest way of introducing تصوف to the general public instead of few individuals and can it be introduced through word of mouth instead of written material جزاک اللہ?
جواب:
اصل میں یہ depend کرتا ہے اس پر کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں؟ یعنی یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ simple انداز میں تصوف کی بات ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ تو نتائج effort کے مطابق ہوتے ہیں، جتنی آپ effort کرتے ہو اس کے مطابق نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ایک شخص زیادہ dose برداشت نہیں کر سکتا تو آپ اس کو کم dose دیں گے، لیکن اس کو زیادہ dose کی ضرورت ہے اور وہ زیادہ dose سے بھاگتا ہے، تو عین ممکن ہے کہ کم سے اس کو فائدہ ہی نہ ہو، عین ممکن ہے کہ وہ اس کے لئے resistant ہو جائے، عین ممکن ہے کہ کم dose سے کم فائدہ ہو جائے، یہ تینوں باتیں ممکن ہیں ایک ہی چیز سے۔ تو حالات پر منحصر ہوتا ہے کہ آیا یہ ان لوگوں میں ہو سکتا ہے یا کام ایسا ہے کہ بالکل ہی فائدہ نہ ہو یا فائدہ ہو گا لیکن کم ہو گا؟ یعنی ہم اس پر depend کریں گے۔ simplest انداز میں عوام میں تصوف کی باتیں پھیلانے کی کوشش کی جا سکتی ہے بغیر اس کو تصوف کہے۔ مثلاً میں اگر لوگوں کو کہوں کہ ہر وقت اللہ پاک سے مانگو جو بھی چیز چاہیے ہو وہ اللہ تعالیٰ سے مانگو اور یہ نہ بتاؤں کہ یہ تصوف ہے، جبکہ حقیقت میں یہی تصوف ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اگر آپ اس ذریعے سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر لیں تو یہ بھی ایک طریقہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مثال کے طور پر آپ کسی کو کہہ دیں کہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اگر آپ ان کے فائدے کے لئے کام کریں گے جس سے ان کو دنیا میں جائز فائدہ ہو اور آخرت میں فائدہ ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوں گے اور آپ کے لئے کچھ راستہ کھولیں گے کیونکہ ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا﴾ (العنکبوت: 69) کسی طریقے سے بھی آپ اللہ جل شانہ کے راستے میں کچھ محنت کریں گے تو اللہ پاک اسے قبول فرما کر آپ کو مکمل قبول فرما سکتا ہے اور آپ کے لئے اسباب بنا سکتا ہے۔ یہ simple طریقے بہت زیادہ ہیں۔ البتہ اپنے آپ کو دعویٰ سے بچانا ضروری ہے کہ دیکھو میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا۔ تو اگر کسی طریقے سے ان کو بے شک تھوڑا سا ہی اصلاحی ذکر دے دیا جائے کہ اس کی نظر اپنے پہ نہ رہے بلکہ اللہ پہ رہے تو یہ ان کے کاموں کی حفاظت کر سکتا ہے ورنہ رفاہی کام بہت سارے لوگ کر رہے ہیں لیکن ان کی نظر اپنے پہ ہوتی ہے کہ میں نے یہ کیا میں نے وہ کیا۔ تو فائدے کی بجائے بعض دفعہ نقصان ہو سکتا ہے۔ دعا تو سب کر سکتے ہیں اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور درود شریف پڑھتے رہیں، ہر آدمی اس کو کر سکتا ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ استغفار کا کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً دو رکعات صلوٰۃ التوبہ پڑھ لیں اور رات سونے سے پہلے اور صبح اٹھتے ہی دو رکعات صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ لیا کریں تہجد کے وقت اگر پڑھ سکیں تو اچھی بات ہے ورنہ اشراق کے ساتھ پڑھ لیں اور اس میں اللہ پاک سے مانگیں کہ یا اللہ مجھے قبول فرما اور نیک کاموں کی توفیق عطا فرما دے اور کوشش کریں کہ آپ اس دن کتنے نیک کام کر سکتے ہیں، تو ایک نہیں بلکہ بہت سارے راستے ہیں۔ لیکن اصل چیز تو اصلاحِ نفس ہے۔ اگر کوئی اس پر آتا ہے تو یہ بہت ہی بڑی بات ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس کے لئے قبول فرمائے۔
سوال 10:
محترم حضرت شاہ صاحب السلام علیکم امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا مراقبہ 15 منٹ کا ہے، جس میں تصور کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو دیکھ رہے ہیں اور میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ حضرت جی میں مراقبہ با قاعدگی سے کر رہا ہوں کبھی کوئی ناغہ نہیں ہوا لیکن کیفیت میں کوئی تبدیلی ابھی آنا شروع نہیں ہوئی، کئی مہینوں سے محسوس ہوتا ہے کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے لیکن کچھ دنوں سے دونوں کیفیات محسوس نہیں ہو رہیں اور مراقبے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں لیکن وقت کشمکش میں گزر جاتا ہے، بہت کوشش کرنے کے باوجود دل اللہ اللہ نہیں کرتا لیکن کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا۔
جواب:
یہ آپ کی خوبی ہے کہ آپ نے ناغہ نہیں ہونے دیا۔ ناغہ ہونا بہت نقصان دہ چیز ہے، اس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ اس سے آدمی بہت پیچھے ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دل جو اللہ اللہ کرتا ہے اس پہ ہمارا کوئی control نہیں ہے، یہ ہم نہیں کر رہے ہوتے، اگر ہم لوگ ارادے سے کرنا چاہیں گے تو یہ وہ چیز نہیں ہے جو کہ ہم چاہتے ہیں۔ اس میں خود اللہ اللہ ہونا شروع ہو جائے تو یہ اصل بات ہے۔ اس کی مثال ہمارے بزرگ دیتے ہیں۔ جیسے بلی اپنے شکار کی تلاش میں بیٹھی ہوتی ہے وہ ہر وقت اس کے سامنے نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔ جیسے چوکیدار بھی تو ایسے ہی کرتا ہے، بعض دفعہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آپ کیا کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ میں تو کچھ بھی نہیں کرتا بس دیکھ رہا ہوں، اگر کوئی گڑبڑ ہو رہی ہو تو اس کو روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب یہی وہ بات ہے کہ آپ نے concentration اس پر کرنا ہے کہ اگر اللہ اللہ شروع ہو تو مجھ سے miss نہ ہو جائے، آپ کی طرف سے اتنی توجہ کافی ہے۔ باقی آپ خود دل سے کروائیں تو ایسا نہیں ہوتا کیونکہ دل کے اوپر کسی کا بس نہیں چلتا اور اگر دل سے آپ کروا بھی لیں گے تو یہ، وہ نہیں ہو گا جو دل کا ذکر ہے۔ چونکہ ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے تو دل بھی ایک چیز ہے لہٰذا دل شروع کرے گا اور آپ نے اگر اس کو catch کر لیا اور اگر اس چیز کو آپ کی توجہ مل گئی تو وہ چل پڑے گا۔ آپ ناغہ سے گھبرائیں نہیں کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کو ایک سال کے بعد شروع ہوا ہے، بعض لوگوں کو 40 دن کے بعد شروع ہوا ہے، بعض لوگوں کو ایک مہینے کے بعد شروع ہوا ہے، بعض لوگوں کو 6 مہینے کے بعد شروع ہوا ہے۔ صرف یہ ایک طریقہ نہیں ہے اگر کسی کا بالکل شروع نہیں ہوتا تو ہمارے پاس الحمد للہ اور طریقے بھی ہیں۔ اللہ تک پہنچنا ہے کسی بھی طریقے سے جو بھی طریقہ کسی کو راس آجائے، کوئی خاص طریقہ ضروری نہیں۔ چشتی طریقہ، نقشبندی طریقہ، سہروردی طریقہ، قادری طریقہ، یہ سب اللہ تک پہنچنے کے راستے ہیں اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ میں نے خواہ مخواہ کسی خاص طریقے سے ہی پہنچنا ہے۔ ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ راستے بنائے ہیں۔ حضرات تو فرماتے ہیں کہ جتنے لوگ ہیں اتنے راستے ہیں۔ البتہ انتظام کے لئے grouping کی ہوئی ہے کہ اس قسم کے لوگوں کے لئے یہ بہتر ہے اور اُس قسم کے لوگوں کے لئے وہ بہتر ہے، جس کی وجہ سے سلسلے بنے ہوئے ہیں۔ قادری ہے، چشتی ہے، سہروردی ہے، نقشبندی ہے، شاذلی ہے، رفاعی ہے، مختلف سلسلے ہیں۔ ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے۔ شیخ کی ضرورت اسی لئے تو ہوتی ہے ورنہ کتابوں سے لوگ اپنی اصلاح کروا لیتے۔ شیخ جو ہوتا ہے صرف کتاب نہیں پڑھتا بلکہ اللہ تعالیٰ مرید کے لئے جو صحیح ہوتا ہے وہ شیخ کے قلب پر بھیج رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ گھبرائیں نہیں اللہ پاک آپ کو راستہ دے دے گا لیکن آپ نے ہمت کرنی ہے۔
سوال 11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرا ایک colleague ہے جس کا ذکر 200، 200، 200 اور 100 ہے۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب ان کو بتائیں 200، 300، 300 اور 100 کریں۔
سوال 12:
السلام علیکم حضرت جی میرے ذکر اور مراقبہ کے 35 دن پورے ہو چکے ہیں۔ اگلے ذکر و مراقبہ کے لئے رہنمائی کریں جزاک اللہ۔ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ اور "اَللہ" 3500 مرتبہ اور مراقبہ 15 منٹ دل پر۔ مجاہدہ غضِ بصر یعنی 20 منٹ نیچے دیکھنا پورا ہو گیا ہے، اب آگے ہدایت فرمائیں۔ کیفیت: نامحرم کی بد نظری میں بہتری آئی ہے۔ مراقبہ: دل پر صرف اللہ اللہ کو تصور کرتا ہوں۔
جواب:
پتا چل رہا ہے آپ کو کہ مجاہدہ سے فائدہ ہو رہا ہے، ان شاء اللہ مراقبہ بھی نصیب ہو جائے گا۔ اب آپ "اَللہ اَللہ" کو 4000 تک کر لیں۔
مراقبہ اور مجاہدہ میں یہ فرق ہے کہ مراقبہ فاعلات میں سے ہے یعنی انسان کے اندر جو صلاحیتیں ہیں ان کو ابھارنے کے لئے ہے اور مجاہدہ رذائل کو دبانے کے لئے ہے۔ جو صلاحیتیں آپ کے اندر ہیں ان کا باہر آنا بھی ضروری ہے لیکن رذائل نے جو سر نکالے ہوئے ہیں ان کو دبانا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں صرف ایک لے لوں تو کیا کام مکمل ہو جائے گا؟ ظاہر ہے کام مکمل نہیں ہو گا بلکہ درمیان میں رہ جائے گا۔ حضرت مجدد صاحب نے اسی پر زور دیا ہے کہ جذب کو حاصل کرنے کے بعد پھر سلوک طے کر لیں اور سلوک میں رذائل ہی دبانے ہوتے ہیں جتنے بھی ہمارے مقامات ہیں وہ سارے رذائل کے دبانے کے ہیں۔ البتہ بعض حضرات نے مقام کا معنی وہ لے لیا جس کو ہم title کہتے ہیں، یعنی کسی اونچی جگہ پہ کوئی پہنچتا ہے تو کہتے ہیں: فلاں بڑے مقام پر ہے۔ اصل بات ہے یہ ہے کہ جس کے زیادہ رذائل دبے ہوں وہ بڑے اونچے مقام پر ہے، تقویٰ رذائل کے دبانے کو کہتے ہیں۔ یعنی ہمارے اندر جو خواہشاتِ نفس ہوتی ہیں ان کو دبانا تقویٰ ہے۔ متقی کے لئے فرمایا ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ﴾ (الحجرات: 13) تقویٰ کے حاصل کرنے سے مقام بن گیا یعنی رذائل کے دبنے سے بن گیا۔ اب اگر میں رذائل نہ دباؤں اور میں کہوں کہ میں فلاں مقام پہ پہنچ گیا ہوں تو یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے یا نہیں؟ حضرت نے اس بات کو ذرا سمجھایا ہے اللہ کرے کہ ہمیں سمجھ آ جائے، یہ بہت اہم باتیں ہیں۔ اصل میں ہم جلدی خوش فہمیوں میں اپنے آپ کو مبتلا کر لیتے ہیں، ان سے نکلنا چاہیے اور حقائق کو سامنے لانا چاہیے ورنہ ہم ساری زندگی اگر خوش فہمیوں میں رہیں تو کیا فائدہ؟ وہ کسی کا شعر ہے:
وائے نا دانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
ظاہر ہے اگر عین وقت پہ یہ پتا چل جائے پھر کتنا افسوس ہو گا؟ اللہ پاک کا کلام سب سے اوپر ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے ﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَ قَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 8-9-10) بالکل فیصلہ صاف واضح ہو چکا ہے۔ لہٰذا ہم اس کے لئے جتنے بھی ذرائع ڈھونڈ سکتے ہیں ڈھونڈیں لیکن وہ ذرائع ہی ہوں گے، ہمارا اصل مقصد نفس کی اصلاح کرنا، عقل کو پاک کرنا، عقل کو فہیم کرنا ہے جس کے لئے محنت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِين