خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ سے حج کے موقع پر ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا حج ہر سال فرض ہو گا؟ آپ ﷺ اس پر خاموش رہے اور جب تین دفعہ صحابی نے یہ سوال دہرایا تو آپ ﷺ اس پر ناراض ہوئے۔ اس طرح جب یہودیوں نے آپ ﷺ سے اصحاب کہف، ذو القرنین بادشاہ اور روح کے متعلق سوالات کئے تھے تو باقی دو کے مفصل جوابات اللہ پاک نے قرآن پاک میں دے دیئے، لیکن روح کے متعلق فرمایا: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ (الاسراء: 85) ان دونوں واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ کسی بھی قسم کا سوال کرنے سے پہلے ہمیں کیا سوچنا چاہیے؟ نیز جن سے سوال کیا جاتا ہے ان کے لئے ان دونوں واقعات میں کیا ہدایات ہیں؟۔
جواب:
اصل میں انسان تجسس بھی کرتا ہے اور ذمہ داری سے بچنا بھی چاہتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہم دفتروں میں ذمہ داری لینے سے کتراتے ہیں، اپنے محلے میں ذمہ داری لینے سے کتراتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے لئے کوئی آسانی کا راستہ ڈھونڈیں، یہود میں کج فہمی تھی اسی لئے انہوں نے ایک سیدھی سادی بات کو اپنے لئے کافی مشکل بنا دیا۔ اس حدیث شریف کا تب صحیح اندازہ ہو سکے گا جب یہ واقعہ سامنے ہو گا کہ ایک شخص نے کسی کو قتل کیا تھا تو موسٰی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا کریں؟ موسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گائے ذبح کر دیں۔ تو اگر وہ اس پر As it is عمل کر لیتے تو ٹھیک ہوتا کیونکہ اس وقت کوئی اور condition تھی نہیں، لہذا اگر وہ اس پر عمل کر لیتے تو بہت آسان تھا اور اسی سے کام ہو جاتا لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں ﴿اُدْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌ﴾ (البقرۃ: 68) تو اللہ تعالٰی نے ایک condition بتا دی، اگر وہ اس کے بعد بھی عمل کر لیتے تو ٹھیک تھا لیکن انہوں نے اس کے بعد پھر سوال کیا تو ایک اور condition آگئی، پھر اور سوال کیا تو ایک اور condition آ گئی، اب ان تمام conditions کے مطابق گائے کا ملنا کافی مشکل ہوتا گیا، اخیر میں ان کو با قاعدہ سونے میں تول کر وہ گائے خریدنی پڑی، کیونکہ ان صفات کے مطابق ایک ہی گائے تھی۔ جب انہوں نے اخیر میں کہا کہ: ﴿اِنْ شَآءَ اللهُ لَمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 70) کہ ان شاء اللہ، اللہ پاک ہمیں ہدایت دیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی تو انہوں نے اس پر عمل کر لیا اور پھر جس مقصد کے لئے گائے ذبح کی تھی کہ اس کے گوشت کا ٹکڑا اس کے اوپر مارا تو وہ زندہ ہو گیا اور اتنی بات کی کہ فلاں شخص نے مجھے مارا ہے۔ چنانچہ اگر وہ پہلی بات پر ہی عمل کر لیتے تو بڑا اچھا تھا اور اسی سے کام ہو جاتا، کیونکہ اس میں اور condition تو نہیں لگی تھی۔ لہذا انسان بلاوجہ تجسس نہ کرے، اگر کسی نے اس کے لئے آسان راستہ طے کیا ہوا ہو تو اس کو اپنے لئے مشکل نہ بنائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تو آخرت کی کامیابی چاہیے، اب اگر آخرت کی کامیابی آسانی سے مل جائے تو کتنی بڑی بات ہے اور اگر ہم پوچھتے رہیں کہ یہ کیسے ہو اور یہ کیسے ہو؟ تو مشکل ہو جاتی ہے۔ تاہم یہ اس وقت کی بات تھی جب شریعت مدون ہو رہی تھی، اور وحی اتر رہی تھی، لیکن اب جو لوگ سوال کرتے ہیں وہ تفصیل جاننے کے لئے کرتے ہیں اس لئے کہ شریعت میں مزید کوئی بات نہیں آ سکتی کیونکہ وحی نہیں آ رہی۔ لہذا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ہم جاننے کے لئے بھی سوال نہ کریں، جاننے کے لئے تو ضرور سوال کرنا چاہیے، کیونکہ جاننے کے لئے سوال و جواب ضروری ہے۔ لیکن بنی اسرائیل کا سوال جاننے کے لئے نہیں تھا وہ تجسس کے لئے تھا اور اس وقت احکامات اتر رہے تھے تو اگر وہ اس پر فوراً عمل کر لیتے تو کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ البتہ آج کل تربیت میں بھی اس قسم کی بات ہو سکتی ہے کیونکہ تربیت میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اُس وقت اللہ پاک شیخ کے دل میں جو بات ڈالتا ہے تو وہ اس کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔ اب اگر وہ شیخ کی بات پر فوراً عمل کر لے تو اس کو وہ چیز اسی سے مل جائے گی اور اگر وہ پوچھے گا کہ میں یہ کیسے کروں؟ یہ کیسے کروں؟ تو ممکن ہے اس قسم کی چیزیں اس کے ساتھ بڑھتی جائیں۔ گویا شیخ کے ہاں یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ بس جیسے کہہ دیا اس پر من عن عمل کرو، لیکن عمل کو جاننے کے لئے اگر کوئی چیز سمجھ نہیں آئی تو اس کے لئے سوال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر آدمی یہ سمجھے کہ اتنی چھوٹی بات سے اتنی بڑی بات کیسے مل جائے گی تو یہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے والی بات ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کا الگ نظام رکھا ہے، سارے لوگ ایک جیسی صلاحیت کے مالک نہیں ہیں اس لئے سب لوگوں کو ایک طریقے سے ڈیل نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے بعض لوگ اتنے بیمار ہوتے ہیں کہ ان کو صرف زندہ رکھنے کے لئے جو دوائیاں دی جاتی ہیں اگر وہ کام کرنا شروع کر دیں تو ڈاکٹر حضرات بہت خوش ہوتے ہیں کہ اس نے اپنا کام کر دکھایا حالانکہ وہ چل پھر نہیں سکتے نہ کوئی اور کام کر سکتے ہیں، لیکن ان کی حالت ہی اس طرح ہوتی ہے کہ وہ صرف اس سے زندہ بھی رہیں تو یہ بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر شخص کی اپنی حالت ہوتی ہے، بعض لوگوں کا مزاج کچھ ایسا ہوتا ہے وہ سوچتے ہیں کہ میں اس طرح ترقی کر لوں جس طرح فلاں فلاں ہے۔ نتیجتاً اس سے وہ کام بھی نہیں ہو پاتا جو وہ کر سکتا ہے، کیونکہ بعض دفعہ ایسی صورتحال بن جاتی ہے کہ اس کی جو حالت ہوتی ہے اس میں اگر اس کے ایمان کی حفاظت ہو جائے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہوتی ہے، تو ایسے حالات میں مشائخ ان کو ذرا آسان نسخے بتاتے ہیں ان کو مشکل میں نہیں ڈالتے، اور پھر اسی کے حساب سے ان کی ترقی بھی ہوتی ہے، اب اگر آدمی کہے کہ میں فلاں کی طرح ہو جاؤں اور فلاں چیز مجھے بتا دی جائے تو اپنے آپ کو مشکل میں پھنسا دیتا، اور اس کو فائدہ بھی نہیں ہو گا، عین ممکن ہے وہ اسی وجہ سے پھنس جائے اور جو ہو سکتا ہے اس سے بھی رہ جائے۔ لہذا اس معاملے میں بھی ضروری ہے کہ ہم لوگ اپنے آپ کو مشکل میں نہ ڈالیں۔ اور جہاں تک علمی بات ہے تو علمی باتوں میں قیل و قال ہوتی ہے، اس میں انسان کو پوچھنا پڑتا ہے اور جاننا پڑتا ہے۔ لیکن عملی باتوں میں قیل و قال کی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں نے من و عن اس پر عمل کیا جو انہیں بتایا گیا تو ان کو تھوڑے میں بہت کچھ دے دیا گیا اور وہ ترقی کر گئے۔ اور جو لوگ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر یہ سمجھتے رہے کہ ہمیں وہ چیزیں کیوں نہیں ملیں تو وہ حسد میں مبتلا ہو گئے یا کسی اور چیز میں مبتلا ہو گئے اور جو کچھ حاصل کیا ہوتا ہے اسے بھی ضائع کر لیتے ہیں۔ بلکہ اس کے متعلق مشائخ نے بڑی عجیب عجیب باتیں بھی کی ہیں جن کو سمجھنا بھی مشکل ہے، فارسی کا ایک کلام ہے کہ اگر شیخ کہہ دے کہ اپنے سجادہ پہ شراب ڈال لو تو ڈال لو، کیونکہ وہ اس راہ و رسم کی منزل کو جانتے ہیں یعنی وہ اس سے واقف ہے وہ کسی وجہ سے کہہ رہے ہوں گے۔ چنانچہ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اسی طرح کر لو بلکہ مقصد یہ ہے کہ شیخ کی بات پہ اعتراض نہ کرو، بس اس کی بات مان لو اور یہ آپ کے لئے مفید ہو گا، اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ اگر آپ اس طرح کرتے ہیں تو بار بار کی یہ بے اعتمادی آپ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے، یعنی بعض دفعہ صرف مستحبات کی بات ہوتی ہے (یعنی شیخ صرف مستحبات کا تارک ہوتا ہے) تو انسان ان مستحبات (کے ترک) کو دیکھ کر (اس بد اعتمادی کی وجہ سے) اپنے آپ کو فرائض سے بھی محروم کر لیتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی ایمان کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ لہذا یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، سارے دور ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس وقت کوئی آپ کو امام ابو حنیفہ نہیں ملے گا، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نہیں ملے گا حتی کہ مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسا بھی نہیں ملے گا، اس موجودہ دور میں آپ کو سیاست میں مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ نہیں ملیں گے اور نہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ملیں گے، کیونکہ یہ بہت پہلے کی باتیں ہیں۔ لہذا جب آپ اس دور کے ہیں تو آپ کے لئے شیوخ بھی اس دور کے ہیں، اور اسی دور کے لحاظ سے جو ہستیاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں ان کی اگر قدر کرو گے تو آپ کو اللہ پاک مزید عطا فرمائے گا۔ ﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7) اور اگر نا قدری ہو گی تو پھر خطرناک مسائل کا اندیشہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ