خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
غزوہ حنین میں جب کفار کو شکست ہوئی اور بہت سارے کفار قیدی ہو گئے اور کافی مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تو کفار کے قبیلوں کے 14 سردار آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے اور ساتھ ہی انہوں نے درخواست کی کہ ہمارے قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جو مال ہمارا مسلمانوں کے پاس چلا گیا ہے وہ کو واپس کیا جائے۔ مال غنیمت اور قیدی چونکہ مسلمانوں میں تقسیم ہو چکا تھا اس لئے آپ ﷺ نے مسلمانوں میں خطبہ دیا اور فرمایا: یہ تمہارے بھائی مسلمان ہو بن چکے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس کر دیئے جائیں ان میں سے جو لوگ خوش دلی سے اپنا حصہ واپس کرنے کو تیار ہوں وہ احسان کریں، جو تیار نہ ہوں وہ آئندہ اموال فئے میں سے اس کا بدلہ لے لیں گے مختلف اطراف سے آوازیں اٹھیں کہ ہم خوش دلی سے سب قیدی واپس کرنے کو تیار ہیں لیکن معاملہ میں احتیاط کے پیش نظر کہ ہو سکتا ہے کوئی شرما شرمی خاموش رہ گیا ہو تو اس لئے آپ ﷺ نے ہر جماعت اور خاندان کے سردار کو فرمایا کہ اپنے اپنے لوگوں سے الگ الگ صحیح رائے معلوم کر کے مجھے بتائیں۔ اس واقعے سے ہمیں دوسروں کی رائے معلوم کرنے میں کن کن احتیاطوں کو پیش نظر رکھنے کی تعلیم مل رہی ہے؟۔
جواب:
در اصل دین تو اللہ ہی کا ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَام﴾ (آل عمران: 19) یہ باتیں اس معاشرے میں بالکل ناپید تھیں اور آج کل پھر چیزیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں، لیکن اللہ پاک کی بات اپنی جگہ پر مستقل ہے، اُس وقت بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اصل میں بعض لوگ معاشرے کے pressure کی وجہ سے کچھ فیصلے کر لیتے ہیں، کچھ کام کر لیتے ہیں پھر اگر وہ شریعت میں جائز ہوں تو ٹھیک ہے اور اگر شریعت میں نا جائز ہوں لیکن صرف pressure کی وجہ سے کرنے پہ مجبور ہوں تو pressure ڈالنے والے گناہ گار ہوں گے۔ مثلاً آج کل یہ بہت عام بات ہے کہ اگر کسی کو کوئی خوشی مل جائے تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ہمیں treat دو، تو وہ بیچارہ مجبور ہو جاتا ہے، اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا جب کہ اس کا دل نہیں چاہ رہا ہوتا، بعض دفعہ اس کے پاس وسائل بھی نہیں ہوتے لیکن وہ treat دینے پہ مجبور ہو جاتا ہے اور treat بھی بڑی ظالمانہ قسم کی لیتے ہیں اور اس کی حیثیت سے بڑھ کر مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فلاں ہوٹل میں کریں اور فلاں فلاں چیز کھلائیں، یہ معاشرت کی ظالمانہ چیزیں ہیں، اس سے ہمیں بچنا چاہیے، اس کو موقع دینا چاہیے کہ وہ خود اپنی مرضی سے جو کھلانا چاہے کھلانا دے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چندے کے معاملے میں بہت بے احتیاطی ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں بہت پُر زور نصیحتیں فرمائی ہیں، چندے کے معاملے میں بعض دفعہ وقتی طور پر انسان کسی کے بیان سے یا کسی کی بات سے بہت excited ہو جاتا ہے۔ یہاں اللہ نے میرے دل میں بہت اہم ڈالی ہے کہ بسا اوقات وقتی طور پر جذبہ نفس کے بخل پر غالب آ جاتا ہے، مثلاً جو آدمی نہیں دینا چاہتا لیکن کسی نے بہت جذباتی تقریر کی اور یہ اس وقت اس کے لئے تیار ہو گیا اور اس وقت وقتی طور اس کا نفس مغلوب ہو گیا اور اس نے چندہ دے دیا، لیکن چونکہ نفس کی اصلاح نہیں ہوئی تھی لہذا وہ اس کے لئے مکمل طور پر تیار نہیں تھا چنانچہ ایک دو دن کے بعد اس کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو میں نے غلط کیا، پھر پشیمان ہوتا ہے بلکہ ان لوگوں کو بعض دفعہ گالیاں بھی دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جذبے کی وجہ سے وقتی طور پہ نفس دب سکتا ہے جس کی وجہ سے انسان کوئی ایسا کام کر سکتا ہے جو نفس نہیں چاہتا تھا، لیکن یہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا پھر دوبارہ یہ چیز واپس ہو جاتی ہے۔ گویا اس کو طیبِ خاطر حاصل نہیں تھی یعنی وہ خود نہیں چاہتا تھا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص زکوۃ دیتا ہے، واجب صدقات دیتا ہے، لیکن مزید وہ کچھ نہیں دیتا، وہ اس کے لئے نفلی ہے اور نفلی پہ کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، نفلی عبادت انسان خود کرے گا تو ٹھیک ہے، البتہ شیخ تربیتی نقطہ نظر سے اگر کسی کو کہہ دے تو علیحدہ بات ہے، لیکن ویسے نفلی کاموں پہ مجبور نہیں کیا جا سکتا اور نفلی کام پہ کسی سے ناراض نہیں ہوا جا سکتا۔ لیکن اگر کسی نے جذباتی تقریر کر کے اس کو اس پر مجبور کر دیا گویا اس کی جیب سے پیسے نکلوا لئے، لیکن بعد میں جب اس کو احساس ہو گا کہ میں نے نہیں دینے تھے تو اس کا ثواب بھی چلا جائے گا اور نقصان بھی ہو گا اور ممکن ہے کچھ اور خرابی بھی آ جائے۔ اس لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے چندے کے معاملے میں یہ محتاط طریقہ بتایا تھا کہ چندہ کرنے والا پہلے سے کہہ دے کہ میں چندے کے بارے میں بات کروں گا، تاکہ جو لوگ بیٹھنا چاہیں بیٹھیں اور جو نہ بیٹھنا چاہیں نہ بیٹھیں۔ کیونکہ کچھ لوگ واقعتاً اس تلاش میں ہوتے ہیں کہ ہمارا مال صحیح لوگوں تک پہنچ جائے وہ تو آرام سے بیٹھ جائیں گے اور وہ سوچتے ہیں ممکن ہے یہ صحیح ہو تو میں معلوم کر لوں، تو یہ ان کے لئے اچھا موقع ہو گا۔ اور جو اس کی تلاش میں نہیں ہیں تو ان کے پاس option ہے بیٹھیں یا نہ بیٹھیں، آپ زبردستی نہیں کر سکتے۔
دوسری بات ہے کہ تقریر میں وہ بے شک فضائل بیان کرے تاہم تقریر کے بعد کہہ دے کہ پیسے مجھے نہ دو، میرا فلاں آدمی یہاں موجود ہے آپ کل ان کو جتنا پیسہ دینا چاہیں دے دیں، یہ رسید کاٹ کر آپ کو دے دیں گے، تاکہ اس کی وجاہت کی وجہ سے مجبور ہو کر کوئی نہ کرے جب وہ چلا جائے گا تو وہ سوچنے میں آزاد ہوں گے چنانچہ اگر وہ اہم سمجھتے ہوں گے تو دے دیں گے، اب یہ چندہ پاک ہو گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام نہیں ہوتے، آج کل اخراجات زیادہ ہیں ہم کیسے پورے کریں، خدا کے بندو ایک ہوتی ہے حرکت اور ایک ہوتی ہے برکت۔ اگر برکت ہو تو کم حرکت پر بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے اور تھوڑے مال سے بہت سارے کام بن جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ اتنے کام کے مکلف ہیں جتنے آپ کے پاس وسائل ہیں، آج کل لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ جب تک building پوری نہیں بنی ہو گی، جب تک سارے لوازمات نہیں ہوں گے کام نہیں ہو گا۔ بلکہ درمیان میں نفس کی خواہشات ہوتی ہیں، بڑا مہتمم بننا چاہتا ہے، بڑا شیخ الحدیث بننا چاہتا ہے، بڑا مفتی بننا چاہتا ہے، بڑائی کا یہ concept ذہن میں ہوتا ہے جس کے لئے سارے اسباب اختیار کئے جاتے ہیں، اگرچہ وہ اختیار اسباب دینی ہیں، لیکن پیچھے جذبہ یہ ہوتا ہے۔ جو طلباء ہم سے بیعت ہیں، فارغ ہونے کے بعد اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ تو میں ان کو کہتا ہوں جس ترتیب سے پڑھا ہے اسی ترتیب سے پڑھاؤ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ترتیب سے انسان پڑھتا ہے اس ترتیب سے استعداد پیدا ہوتی ہے۔ جیسے صرف و نحو بالکل ابتدا میں پڑھی جاتی ہے، اب پڑھنا اور چیز ہے اور پڑھانا اور چیز ہے، جب انسان پڑھاتا ہے تو تب وہ صحیح معنوں میں پڑھتا ہے، پھر اس کو واقعی پتا چلتا ہے کہ میں کون سی کتاب پڑھ رہا ہوں اور کیا پڑھتا ہوں، ایک ایک چیز پر اس کو سوچنا پڑتی ہے، کیونکہ لوگ سوال کرتے ہیں، تو اس سے اس کا علم پکا ہو جاتا ہے۔ لہذا پہلے اس کا صرف و نحو وغیرہ کا علم پکا کرو، اس کے بعد اصول سے متعلق کچھ اور کتابیں پڑھتے ہیں، فقہ کے متون پڑھتے ہیں، اور پھر منطق وغیرہ سے گزر کر ان کو قرآن سکھاتے ہیں، اس کے بعد اخیر میں احادیث شریفہ پڑھتے ہیں۔ گویا اب آپ نے یہ پڑھ لئے ہیں، ابھی تک پڑھائے نہیں ہیں اس لئے وہ کچے ہیں، سب پڑھنے کے لحاظ سے ہیں، پڑھانے کے لحاظ سے نہیں ہیں۔ نتیجتاً اگر آپ براہ راست حدیث شریف پڑھائیں گے اور براہ راست قرآن پاک کا درس دیں گے تو اس میں بہت ساری غلطیاں کریں گے، جیسے لغوی غلطیاں ہیں یا اور کئی قسم کی غلطیاں اس میں کریں گے، نتیجتاً کام خراب ہو گا۔ ایک بہت بڑے عالم تھے فاضل دیوبند، میرے پھوپھا تھے ایک دن مجھے ایک note book دی کہ دیکھو شبیر! میں نے کتنا وقت ضائع کیا ہے، آپ دیکھو یہ کیا ہے، میں نے دیکھا تو وہ ایک اردو ڈرامے کا پشتو ترجمہ تھا، بعد میں انہوں نے پشتو کے کافی ترجمے کئے تھے، تفسیر کے ترجمے کئے تھے، بہشتی زیور کا ترجمہ کیا تھا، مواعظ کے ترجمے کئے تھے اور بہت کام کیا تھا، میں نے کہا حضرت میرے ذہن میں تو اس کی بڑی اچھی توجیہ ہے، انہوں نے کہا کیا ہے؟ میں نے کہا حضرت اللہ تعالیٰ آپ سے ترجمے کا کام لینا چاہتا تھا، اگر آپ پہلے قرآن کا ترجمہ کرتے تو یہ غلطیاں قرآن میں ہوتیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بچایا ہے کہ پہلے ڈرامے کے ترجمے کروائے تو غلطیاں اس میں ہو گئیں اور جب آپ اس میں کامل ہو گئے تو آپ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ترجمہ کا، حدیث کے ترجمہ کا اور دیگر تراجم کا کام لیا، تو وہ بہت خوش ہو گئے کہ آپ نے تو میرا دل بہت خوش کر دیا۔ یہ صحیح بات ہے، کیونکہ ایک ترتیب ہے، اس ترتیب سے جب آپ جاتے ہیں تو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ پہلے وقتوں میں یہی ہوتا تھا۔ مفتی کے level تک پہنچنا کافی مشکل تھا تیس تیس، پنتیس پنتیس، چالیس چالیس سال لگ جاتے تھے تب جا کر مفتی بنتے تھے لیکن وہ واقعی مفتی ہوتے تھے، اب تو انٹر نیٹی مفتی ہیں، بس internet سے دیکھ دیکھ کر فتوے دیتے ہیں اور پھر غلطیاں کرتے ہیں، اصولِ فتوی ان کو صحیح معلوم نہیں ہوتے، تو یہ طرزِ عمل ٹھیک نہیں ہے۔
چنانچہ اگر کوئی عوام کا pressure ہے، معاشرے کا pressure ہے یا خاندان کا pressure ہے اور اب اگر وہ میری بات مان رہا ہے تو وہ میری بات نہیں مان رہا، بلکہ وہ pressure کو مان رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت میراث میں ہوتا ہے جو اکثر بہنوں کو نہیں دی جاتی، جنوبی پنجاب میں تو بالکل نہیں دی جاتی اور تقریباً باقی جگہوں پر بھی یہی صورت حال ہے۔ اس کے لئے ان لوگوں نے بڑے عجیب عجیب نخرے بنائے ہوئے ہیں حتیٰ کہ بعض لوگوں میں قرآن سے شادی کا رواج ہے اور بھی اس قسم کی باتیں بنائی ہوئی ہیں۔ ہمارے علاقے میں بھی اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ جی ہم نے بہنوں سے حصہ لینے کا کہا ہے لیکن وہ اپنا حق نہیں لینا چاہتیں۔ در اصل اس میں بھی اتنا pressure ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنا حصہ لیتی ہیں تو بہت بدنام ہو جاتی ہیں، لوگ کہتے ہیں دیکھو! یہ اپنے بھائی سے حق لے رہی ہیں اور بعض دفعہ بھائی یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ بھائی لیتی ہو یا میراث لیتی ہو؟ اور اپنے ذہن میں سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کو جو جہیز دے دیا ہے تو ان کا حق ادا کر دیا اور جب ہمارے گھر آئے گی، کھانا پینا کرے گی تو یہ بھی اس میں شامل ہے "اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" بہن ہونے کا رشتہ کہاں گیا، بہن کی محبت اور بہن کا پیار کدھر چلا گیا، آپ کھانا بھی اس کو میراث میں کھلا رہے ہیں۔ خدا کے بندو کیا کر رہے ہو؟ بہر حال میراث میں pressure بہت زیادہ role play کر رہا ہے اس وجہ سے علمائے کرام نے فتوی دیا کہ اس وقت ان کی under pressure بات کو نہ مانا جائے بلکہ ان کو ان کا حق دے دیا جائے، ایک سال تک وہ استعمال کریں، اس کے بعد اگر مرضی سے واپس دینا چاہیں تو دے دیں، چنانچہ پھر کوئی نہیں دیتا۔ میں نے مختلف جگہوں پہ میراث پڑھائی ہے۔ Riphah University Medical College میں بھی ایک دو لکچر دئیے تھے، تو اس میں تقریباً %70 عورتیں اور بچیاں ہیں اور %30 لڑکے ہیں، گویا آج کل medical college میں لڑکے بہت کم ہوتے ہیں۔ جب میں نے میراث پڑھائی تو میں نے ان سب سے پوچھا کہ کیا آپ حقِ میراث لینا چاہتی ہو؟ تو سب نے با آواز بلند کہا کیوں نہیں؟ چنانچہ جہاں پر آزادی ہے، جہاں pressure نہیں ہے یا pressure کو ماننے والے نہیں ہیں تو وہاں یہ صورتحال ہے۔ بہر حال حق تو یہ ہے کہ اس کو حق دے دو، بعد میں چاہے وہ آپ کو دے دے، لیکن ابتدا میں نہیں۔ ابتدا میں آپ ان کا حق نہ روکیں اور یہ نہ کہیں کہ یہ نہیں لینا چاہتیں۔ یہ بات بہت کمزور ہے۔ لہذا علماء کرام کے فتوے پہ عمل کرنا چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ