خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کبھی کبھار اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو ان کے اپنے ناموں کے علاوہ پیار سے دوسرے ناموں سے پکارتے تھے اور ان میں بعض نام ایسے مشہور ہوئے کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہم ان کے اپنے ناموں کی بجائے آپ ﷺ کے اِن پکارے گئے ناموں سے پہچانتے ہیں، جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ذوالیدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھی آپ ﷺ نے ایک دفعہ ابو تراب کے نام سے مخاطب کیا تھا تو علی رضی اللہ عنہ کو یہ نام بہت پسند تھا۔ آپ ﷺ کا صحابہ کو مختلف ناموں سے مخاطب کرنا محبت کی وجہ سے تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل ہم لوگ ایک دوسرے کو ذاتی نام کے علاوہ کسی اور نام سے جب مخاطب کرتے ہو تو اس میں ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟۔
جواب:
در اصل نام سے زیادہ اہم چیز ایک محبوب ہستی کی طرف سے محبت کے طور پر کوئی نام کا ملنا ہے، کیونکہ ان کا اپنا ذاتی نام پہلے سے موجود تھا، لیکن آپ ﷺ نے محبت کے ساتھ جن کا کوئی اور نام رکھا تو وہ ان کے لئے بہت بڑا title بن گیا۔ لہذا ہم اس نام کے الفاظ کو نہیں دیکھیں گے بلکہ اس محبت کو دیکھیں گے جس کی بنیاد پر وہ نام رکھا گیا ہے۔ جرمنی میں ہمارے ایک نو مسلم بھائی تھے، بڑی اچھی اچھی باتیں کیا کرتے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے مسلمان ہوئے؟ کہتے ہیں یہ سوال مجھ سے بہت سارے لوگوں نے کیا ہے، مجھے کسی کی تقریر نے مسلمان نہیں کیا یا کسی article وغیرہ سے میں مسلمان نہیں ہوا، بلکہ کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے میرا ذہن اس طرف چلا گیا کہ اسلام ایک صحیح دین ہے، کچھ واقعات اس نے ہمیں بتائے، ان میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ ایک ترک بوڑھا آدمی جا رہا تھا جسے کسی نے عطر پیش کیا تو اس نے کہا کہ میں عطر کیوں نہ لوں؟ جب کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی تین چیزیں پیش کرے تو ان سے انکار نہ کرو، ایک عطر، دوسرا تکیہ اور تیسرا دودھ۔ اور لے کر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں حیران ہو گیا کہ وہ کون سی ہستی ہے جن کا نام لے کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، This was the first click۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا تھا کہ میں انڈیا سے جا رہا تھا (چونکہ Arctic تھے) راستے میں گاڑی میں عراق سے گزر رہا تھا تو ایک صحرا سا تھا جس میں ایک کسان بہت سارے پھل لئے ہوئے انتظار میں ہے اور گاڑی کو بہت زور زور سے اشارہ کر رہا ہے، میں نے سوچا پتا نہیں کسی مصیبت میں ہے یا کہیں جانا چاہتا ہے، میں نے گاڑی روکی اور اشاروں سے پوچھا کیا ہے؟ کہنے لگا ڈکی کھولو، میں نے ڈکی کھولی تو وہ اس میں پھل ڈالنے لگا اور کہتا ہے اچھا ہوا آپ آ گئے میں یہ زکوۃ دینا چاہتا تھا، تم راہ گیر ہو اور راہ گیر اس کا اچھا مصرف ہیں، اس لئے یہ میں آپ کو دے رہا ہوں۔ میں نے کہا کمال ہے، مجھے دے بھی رہے ہیں اور وہ پھر بھی اتنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، یہ کیا بات ہے۔ گویا دل میں جو جذبہ ہوتا ہے اس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر ہم بھی محبت اور پیار کے ساتھ کسی چھوٹے کو کسی اور نام سے پکاریں تو وہ برا نہیں مانتا، بلکہ اس پہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِكَ اگر اس نام کے پیچھے کوئی بغض ہو یا کوئی نفرت ہو یا کوئی اور ایسی بات ہو تو وہ نام لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اور ایسے ناموں کے متعلق ممانعت وارد ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾ (الحجرات: 11) لہذا اچھے جذبے کے ساتھ جو چیز وجود میں آتی ہے تو وہ اچھی ہو جاتی ہے اور غلط کے جذبے ساتھ جو چیز وجود میں آ جاتی ہے تو وہ بھی غلط ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے نام رکھنے چاہئیں۔ پہلے تو والدین کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو ان کے لئے اچھا نام تجویز کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ والدین اس کو کس نسبت میں لانا چاہتے ہیں چنانچہ اگر انہوں نے اللہ کے ناموں کے ساتھ کوئی لفظ شامل کیا ہے جیسے عبد شامل کر کے عبد اللہ، عبد السلام یا عبد الرحمن وغیرہ رکھا تو وہ ان کو اللہ کا بندہ بنانا چاہتے ہیں۔ اور اگر انہوں نے اس کو آپ ﷺ کے کسی نام کے ساتھ پکارا تو وہ اس کو آپ ﷺ کی صفات کی طرف لانا چاہتے ہیں جیسے محمد ہے، احمد ہے، محمد یعقوب ہے۔ اسی طرح کسی بھی پیغمبر کا نام ہے، یا کسی صحابی کا نام ہے۔ اور اگر بچی ہے تو کسی صحابیہ کا نام ہے، گویا وہ اس نسبت کی طرف لانا چاہتے ہیں اور آج کل کے ایکٹروں کے نام پر رکھنا چاہیں تو وہ کس طرف لانا چاہتے ہیں؟ کیسا راستہ متعین کر دیا اس کے لیے! یہ کتنا بڑا ظلم ہے بچوں پہ، بعض دفعہ لوگ ایسے فضول قسم کا نام رکھتے ہیں جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا، یہ غلط روش ہے اور یہ احساس کمتری کی ایک علامت ہے، احساس کمتری میں انسان صحیح اور غلط کو نہیں دیکھتا، بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں، جیسے fashion ہوتا ہے کیونکہ fashion میں بھی لوگ صحیح اور غلط کو نہیں دیکھتے، صرف یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ تو یہ احساس کمتری کی علامت ہے، جس کی وجہ سے انسان کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ چنانچہ نام رکھنے میں سب سے پہلے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح نام رکھیں پھر اگر اس کو محبت سے کوئی دوسرا نام دینا چاہیں اور وہ بھی اچھا نام ہو جس سے کوئی خفت محسوس نہ کرے تو وہ بھی رکھ سکتے ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ بسا اوقات بعض نام صرف ایک خاص وقت کے لئے ہوتے ہیں جیسے baby، اب کسی کو baby کہہ دیں تو جب تک وہ بچہ ہو گا تب تک ہی اس کا یہ نام ہو سکتا ہے، بعد میں جب وہ baby نہیں رہے گا تو اس کو baby کہنا ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ بعض دفعہ اس قسم کے نام بڑھاپے تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کو لوگ baby کہتے ہیں۔ لہذا ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ ہماری معاشرت کی باتیں ہیں۔
اللہ جل شانہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ