خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مدینہ منورہ سے عمرہ کرنے کے لئے جانا چاہ رہے تھے تو آپ ﷺ سے اجازت طلب کی، آپ ﷺ نے اجازت دے دی اور ساتھ فرمایا کہ اپنے بھائی (یعنی آپ ﷺ) کو بھی اپنی دعاؤں ميں یاد رکھو۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا مجھے اپنا بھائی فرمانا مجھے دنیا جہاں سے زیادہ محبوب ہے۔ اسی طرح جب آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق فرمایا تھا کہ تمہاری ان سے ملاقات ہو گی تو اُن کو میرا سلام کہنا اور ان سے میری امت کے لئے دعا کروانا، آپ ﷺ سراپا دعا تھے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے بھی مانگتے تھے اور اپنی اُمت کے لئے بھی مانگتے تھے لیکن ان دونوں واقعات سے ہمیں آپ ﷺ کی سیرت کا ایک اور رخ مل رہا ہے کہ آپ ﷺ دوسروں کے ذریعے بھی دعائیں کرواتے تھے، اس سے ہميں اپنی عملی زندگی میں دوسروں سے دعائیں کروانے کے حوالے سے کیا سبق مل رہا ہے؟۔
جواب:
جیسا کہ آپ ﷺ کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب نمبر 209 اور دوسرے مکتوبات شریفہ سے بھی تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا نزول کتنا کامل تھا، نزول کامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سامنے انسان اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے اور انتہائی عاجزی کی صورت اختیار کر لے اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھے اور اللہ جل شانہ ہی کو قادر مطلق سمجھے اور اپنی طرف ذرہ بھر بھی نسبت نہ کرے۔ دینے والے چونکہ اللہ ہی ہیں تو آپ ﷺ اس سلسلے میں اللہ پاک کی طرف ایسے متوجہ تھے اور یہ چیز آپ ﷺ پر اتنی کھلی ہوئی تھی کہ اس کے لئے ہر ذریعے کو اختیار کرتے تھے کیوں کہ اللہ جل شانہ کسی کی بھی سن سکتے ہیں، کسی کی بھی مان سکتے ہیں، اور کسی کی بھی دعا قبول فرما سکتے ہیں، لہذا آپ ﷺ کے پیش نظر یہ ہوتا کہ جو کام ہم نے کرنا ہے وہ ہو جائے اس لئے خود بھی دعا کرتے تھے اور دوسروں سے بھی دعا کراتے تھے، بلکہ دوسروں سے دعا کروانا قبولیت کی ایک صفت ہے کیونکہ جب دوسرا کسی کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کی قبولیت کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے، بالخصوص غائبانہ دعا کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس لئے آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ عمرے کے وقت مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینی طور پر پتا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو دیں گے لیکن منشاء الٰہی کو پورا کرتے تھے کہ اللہ تعالی کی منشاء یہی ہے کہ اس میں عاجزی اختیار کی جائے، چنانچہ آپ ﷺ اس طرح کرتے تھے۔ اور ہمارے اندر چونکہ اس حد تک تواضع نہیں ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، دعا سب کی قبول ہوتی ہے، میری بھی قبول ہوتی ہے بس میں خود دعا کرتا ہوں۔ کسی اور سے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم دوسروں کو نہیں کہتے۔ حالانکہ بعض دفعہ کسی وقت قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے جس میں کسی کی زبان سے کوئی بات نکل جاتی ہے تو اس کا کام بن جاتا ہے۔ اس لئے ہمارے مشائخ فرماتے ہیں۔
ہر لحظہ زدن غافل ازاں شاہ نباشی
شاید کہ نگاہے کند آگاہ نباشی
کسی بھی لمحے اللہ پاک کی طرف سے غافل نہ ہو، پتا نہیں کس وقت رحمت کی نظر ہو جائے اور اس وقت ہم غافل ہوں۔ لہذا کبھی کبھی ایسی حالت ہو سکتی ہے، لیکن بعد میں پھر آدمی بہت پچھتاتا ہے کہ اوہ ہو! یہ میں نے کیا کر دیا یہ تو ایک فیضِ عام تھا جو سب کو دیا جا رہا تھا لیکن میں اس وقت غائب تھا، جس وجہ سے وہ مجھے نہیں ملا، لہذا پھر انسان افسوس کرتا ہے۔ اس لئے ہر وقت اپنی ضرورت سمجھ کر، ہر لمحے تاک میں رہنا چاہیے کہ کوئی بھی لمحہ ضائع نہ ہو، چاہے وقت کے لحاظ سے ہو یا عمل کے لحاظ سے ہو، یعنی چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی چھوٹا نہ سمجھیں پتا نہیں کسی چھوٹے عمل پر ہی اللہ تعالیٰ بخش دے۔ بعض دفعہ کسی بہت چھوٹے عمل پر اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے جیسے ایک فاحشہ نے کتے کو پانی پلایا تھا تو اس پر اللہ پاک نے اس کو بخش دیا۔ اس طرح کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے عمل پر بھی اللہ تعالیٰ بخش سکتا ہے لہذا اس کو بھی ضائع نہ کیا جائے، یعنی time کو بھی ضائع نہ کیا جائے کہ کوئی وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہو سکتا ہے جس میں انسان کی دعائیں قبول ہو جائیں۔ جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ دو بڑے صحابہ تھے، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا کہ بہترین رات کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر، بات صحیح تھی کیونکہ قرآن نے اس کی تعریف کی ہے: ﴿اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرَاكَ مَا لَيْلَـةُ الْقَدْرِ لَيْلَـةُ الْقَدْرِ خَيْـرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ﴾ (القدر: 2-3) یہی سوال حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جس رات میں بھی کسی کی توبہ قبول ہو جائے۔ اب ذرا میں اگر engineering point of view سے ایک بات کہوں تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے input based جواب دیا تھا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے output based جواب دیا تھا، یعنی اصل میں قبولیت مقصود ہے تو جس رات میں بھی کسی کی توبہ قبول ہو جائے وہی اس کے لئے بہترین رات ہے، اور وہ کوئی عام رات بھی ہو سکتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام آ جائے اور کسی کی توبہ قبول ہو جائے اور کام بن جائے۔ اس لئے نہ معلوم کون سا وقت انسان کے لئے ایسا ہے جس میں اس کی بات پوری ہو جائے گی تو وہ اس کی تلاش میں رہے، اسی طرح یہ بھی نہیں پتا کہ کس بندے کی بات مان لی جائے، لہذا وہ ہر ایک سے کہلواتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی عاجزی نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ