حدیبیہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وفاداری اور محبت

سوال نمبر 298

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال:

صلح حدیبیہ کے موقع پر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ شریف تشریف لے گئے اور اپنے ایک قرابت دار ابان بن سعید کے گھر ٹھہرے جب اہل مکہ کو حضور ﷺ کا پیغام مصالحت پہنچایا تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ہم محمد ﷺ کو ہرگز مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، ہاں اگر تم خود عمرہ ادا کرنا چاہو تو کر لو۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں یہاں تنہا عمرہ و طواف کرلوں اور آپ ﷺ بیت اللہ سے دور حدیبیہ میں بیٹھے رہیں، اور حدیبیہ میں کچھ لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رشک کیا کہ وہ عمرہ کر لیں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے، جب آپ ﷺ نے یہ بات سُنی تو فرمایا مجھے یقین نہیں کہ عثمان میرے بغیر عمرہ و طواف کر لیں۔ اس واقعہ سے ہمیں آپ ﷺ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آپس کے عشق و محبت کے بارے میں کیا معلومات مل رہی ہے؟۔

جواب:

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلکہ تمام صحابہ کو آپ ﷺ کے ساتھ ایسی محبت تھی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ البتہ ہر ایک کا اپنے اپنے مزاج کے اعتبار سے الگ الگ رنگ تھا۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت اپنے طریقے پہ تھی، عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت اپنے طریقے پہ تھی، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت اپنے طریقے پہ تھی، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت اپنے طریقے پہ تھی۔ اور باقی سب صحابہ اور صحابیات کو بھی آپ ﷺ کے ساتھ بے حد محبت تھی، آپ ﷺ کے ساتھ محبت تو اس دین کی اساس ہے۔ تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے آپ ﷺ کے بغیر عمرہ کر سکتے تھے؟ چنانچہ انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ جیسے ایک صحابی نے آپ ﷺ کی دعوت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر عائشہ کی بھی ساتھ دعوت کرو گے تو ہم آئیں گے، انہوں نے کہا ان کی تو نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا پھر میری بھی نہیں، شاید کھانا کم ہو گا۔ پھر کبھی انہوں نے دعوت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ کی ساتھ کرو گے تو پھر، انہوں نے کہا ان کی تو نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا پھر میری بھی نہیں۔ اس طرح کئی بار ہوا بالآخر وہ راضی ہو گئے اور کہا کہ ان کی بھی کرتا ہوں تو پھر آپ ﷺ چل پڑے۔ اس سے پتا چلا کہ دعوت میں انسان اپنی طرف سے شرط اس طرح لگا سکتا ہے، دو طرفہ نہیں بلکہ ایک طرف سے کہ اگر یوں نہیں ہو سکتا تو میں نہیں آ سکتا۔ مثلاً ہمارے پاس اگر کوئی آئے کہ آپ آ جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کو بھی ساتھ بلاؤ گے تو ہم آئیں گے، اگر وہ مان لیں تو میں لے جا سکتا ہوں ورنہ میں نہیں لے جا سکتا اور یہ ذمہ داری ہے۔ آج کل یہ بڑا مسئلہ ہے کہ اپنے ساتھ جم غفیر ویسے ہی لے جاتے ہیں، جیسا کہ باراتوں میں ہوتا ہے کہ 50 افراد کا کہتے ہیں اور 500 لے جاتے ہیں، اس سے ان کے لئے کتنی پریشانی ہوتی ہے، تو ایسی بے اصولی نہیں ہونی چاہیے، لیکن آپ پہلے سے condition لگا دیں گے تو ان کو کم از کم پتا ہو گا لہذا وہ اس کے مطابق انتظام کریں گے۔ تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی طرح شرط لگا دی تھی کہ میں آپ ﷺ کے بغیر اکیلے عمرہ نہیں کر سکتا، یہ نہیں کہا تھا کہ میں عمرہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ کہا تھا کہ آپ ﷺ بھی میرے ساتھ عمرہ کریں گے تو میں کروں گا، گویا اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جب انہوں نے اس سے انکار کر دیا تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی عمرہ نہیں کیا۔ چونکہ آپ ﷺ اس دین کو لانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچانے والے ہیں تو جب ہمیں دین ملا ہی ان کے ذریعے سے ہے تو آپ ﷺ جو فرمائیں گے اسی پر ہی عمل کرنا ہو گا۔

ایک دفعہ چند صحابہ کرام کو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ بنو قریظہ جا کر ہی نماز پڑھنی ہے، جب راستے میں عصر کی نماز قضا ہونے لگی تو دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ نے کہا کہ چونکہ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ جلدی پہنچیں، جب ہم جلدی نہیں پہنچ سکے تو نماز تو پڑھنی ہے کیونکہ نماز وقت پر ہی فرض ہے، ان کا اجتہاد یہ تھا۔ دوسرے گروہ نے کہا کہ ہمیں دین تو آپ ﷺ کے ذریعے سے پہنچا ہے تو آپ ﷺ نے جب فرمایا ہے تو ہمارے لئے یہی حکم ہے لہذا ہم نماز چھوڑ دیں گے اور سفر جاری رکھیں گے۔ جیسے حج کے موقع پر عرفات میں مغرب کی نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ کیونکہ یہی حکم ہے، اور حکم کس طرف سے آیا ہے؟ آپ ﷺ کی طرف سے۔ لہذا ان کا اجتہاد یہ تھا کہ ہمیں آپ ﷺ نے فرمایا ہے لہذا ہمارے لئے یہی حکم ہے۔ جب دونوں حضرات آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا معارضہ پیش کیا کہ اس طرح معاملہ ہوا تھا، اس میں کیا بات ضروری تھی؟ تو آپ ﷺ خاموش ہو گئے اور کسی کا بھی انکار نہیں کیا۔ یہی اجتہاد کا بہت بڑا بین ثبوت ہے، حالانکہ نماز کا معاملہ تھا اگر اس میں کوئی بات ہوتی تو آپ ﷺ فرماتے کہ نماز قضا کرو، آپ کو نماز پڑھنی چاہیے تھی۔ ایک تو اس میں اجتہاد کا یہ پہلو ہے اور دوسرا یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ آپ ﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت اور position کو refer کر کے جب کوئی بات کی جاتی ہے تو اس کا حکم بدل جاتا ہے۔ کیونکہ آپ ہی دین پہنچانے والے ہیں، ہمیں تو آپ ﷺ کے بغیر کسی چیز کا پتا نہیں ہے، لہذا آپ ﷺ نے اللہ پاک کے بارے میں جو فرمایا وہی حق ہے کیونکہ ہم نے اللہ کو دیکھا نہیں ہے اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور آپ ﷺ نے جنت اور دوزخ کے بارے میں جو فرمایا ہے یا اور بھی جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے وہ سب اللہ جل شانہ نے آپ ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔ چنانچہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس قسم کا اجتہاد کیا اور اس کا آپ ﷺ نے انکار بھی نہیں فرمایا۔ چونکہ ہمارے لئے دین مکمل ہو گیا ہے لہذا اب جو چیزیں متعین ہو چکی ہیں ان کے مطابق ہم عمل کریں گے اور جن میں ابھی اختلاف ہے ان میں کسی کی تقلید کریں گے جن پہ ہمیں اعتماد ہو، ہمارے لئے یہی راستہ ہے۔ لیکن صحابہ کرام کے دور میں تدوین ہو رہی تھی اس لئے ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے، اپنے آپ کو ان پہ قیاس نہ کیا جائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ