خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفار مکہ کو سمجھانے کے لئے بھیجا تھا کیونکہ مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رشتہ دار بھی تھے پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ مکرمہ میں ایک مقام حاصل تھا۔ اسی طرح اور مواقع پر بھی آپ ﷺ نے جب کسی سے بات چیت کرنے کے لئے یا کسی اور مہم پر صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی کو بھیجنا ہوتا تھا تو اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ایسے صحابی کا انتخاب کرتے تھے جس کے اندر اُس کام کو پورا کرنے کی پوری صلاحيت ہوتی تھی، اگرچہ تمام صحابہ کاملین تھے، لیکن پھر بھی ہر ایک کی اپنی انفرادی خصوصیت بھی تھی اور آپ ﷺ انفرادی صلاحيت کے لحاظ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ذمہ داری دیتے تھے، اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ صحابہ کرام کی انفرادی مجبوریوں کا بھی خیال رکھتے تھے جیسے غزوہ بدر کے موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی اہلیہ محترمہ کی بیماری کی وجہ سے ساتھ نہيں لے کر گئے تھے، اس سے ہميں leadership qualities کے حوالے سے کیا راہنمائی مل رہی ہے؟۔
جواب:
یہ بات بالکل واضح ہے بلکہ سوال میں ہی اس کا جواب موجود ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص کی اپنی انفرادی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور کوئی بھی exactly ایک جیسا نہیں ہوتا، بھائیوں میں بھی نہیں ہوتا، بیٹا اور باپ بھی نہیں ہوتے، کچھ فرق ضرور ہوتا ہے، جیسے finger prints میں فرق ہوتا ہے اس طرح ان تمام چیزوں میں فرق ہوتا ہے۔ اگر دو انسان بالکل ایک جیسے بھی پیدا ہو جائیں تو بھی ان میں فرق رہے گا، کیونکہ وہ ماحول جو انسان کے اندر تبدیلیاں لاتا ہے وہ ہر ایک پر مختلف تبدیلیاں لائے گا، کیونکہ ہر ایک، ایک جیسی حالت میں نہیں رہ سکتا جس بنا پر ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ لہذا جب ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے، اسی طرح ہر کام بھی دوسرے کام سے مختلف ہے، نیز کچھ لوگوں میں بعض کاموں کی صلاحیتیں بہتر ہوں گی اور کچھ لوگوں میں دوسرے بعض کاموں کی بہتر ہوں گی۔ چنانچہ یہ بھی ایک fact ہے۔ اور کامل کس کو کہتے ہیں؟ کامل یہ نہیں کہ اُس میں تمام چیزوں کی صلاحیتیں موجود ہوں، کامل ہونے کے لئے یہ دعوٰی نہیں ہے۔ بلکہ کامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نقصان پہنچانے والے رذائل فنا ہو جائیں اور دب جائیں۔ یعنی جو بھی ہو اللہ کے لئے ہو اور آپ ﷺ کا طریقہ اس میں موجود ہو اور اللہ پاک کی خوشنودی اور رضامندی اس کو حاصل ہو۔ تو جتنے بھی کاملین ہیں ہر کامل دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، بلکہ آپ حضرات نے سنا ہو گا کہ بعض حضرات جلالی ہوتے ہیں اور بعض جمالی ہوتے ہیں جیسے چاروں خلفائے راشدین بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سب حضرات کا آپس میں تقابل کریں تو ہر ایک کو اللہ پاک نے مختلف خصوصیات سے نوازا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق تھے، عمر فاروق تھے، عثمان غنی تھے اور علی شجاعت اور علم کے لحاظ سے مشہور تھے، لہذا ہر ایک کی اپنی اپنی انفرادی خصوصیت تھی لیکن سب کاملین تھے۔ پھر ہر ایک نے اپنی صلاحیتوں کو جیسے استعمال کیا اسی کے مطابق پھر grading ہوئی۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے چار پانچ آدمیوں کو مختلف پرچے دے دیئے جائیں، ان میں سے کوئی 90 نمبر حاصل کر لے، کوئی 85 حاصل کر لے، کوئی 83 حاصل کر لے، کوئی 80 حاصل کر لے تو grading کے لحاظ سے ان میں فرق پایا گیا، حالانکہ پرچے مختلف تھے۔ لہذا کمال کے لحاظ سے فرق بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان میں صلاحیتیں ایک جیسی ہوں، مثلاً کسی کو صبر کا paper دیا گیا اور کسی کو شکر کا paper دیا گیا۔ جیسے ایوب علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی مثال ہے، ایوب علیہ السلام کو صبر کا اور سلیمان علیہ السلام کو شکر کا حکم تھا۔ بہر حال صلاحیتیں مختلف ہو سکتی ہیں، ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر وہ مختلف کام کر سکتے ہیں، لیکن leader میں یہ پہچان ہونی چاہیے کہ کس کے اندر کون سی صلاحیت ہے اور اس کو کس کام کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور کس کام کے لئے بھیجا جا سکتا ہے اور ان میں سے کس کو کس کام کے لئے کہا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے سلسلے کے ساتھیوں میں کوئی doctor ہے، کوئی engineer ہے، کوئی استاذ ہے اور کوئی دوسری صفات رکھتا ہے، اب میں ڈاکٹری کے کام کے لئے engineer کو تو نہیں بھیج سکتا، اگر بھیجوں گا تو یہ درست نہیں ہو گا اور engineering کے کام کے لئے doctor نہیں بھیج سکتا، ہر ایک کی اپنی اپنی افادیت ہے اور ہر ایک کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی طرح جن صحابہ میں جس قسم کی صلاحیت ہوا کرتی تھی آپ ﷺ ان سے اسی کے مطابق کام لیا کرتے تھے اور یقیناً بعد میں ثابت بھی ہو جاتا تھا کہ ایسے ہی بہتر تھا۔ لہذا ہم لوگوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے کہ اگر ہمیں بھی اس قسم کی کوئی ذمہ داری دی جائے تو ہمیں اس بات کا خیال ہونا چاہیے کہ کون سا کام کون کر سکتا ہے۔ اگر ہم broad spectrum میں سوچیں تو پہلا اختلاف مرد و عورت میں نظر آتا ہے، لہذا مردوں کے کام عورتیں آسانی سے نہیں کر سکتیں اور عورتوں کے کام مرد آسانی سے نہیں کر سکتے کیونکہ دونوں کو مخلتف صلاحیتیں ملی ہیں، مثلاً بچوں کی پرورش مرد آسانی سے نہیں کر سکتے اور باہر کی محنت مزدوری اور دیگر تمام کام عورتوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت میں پہلے سے تقسیم کار موجود ہے کہ مرد مردوں کے کام کریں اور عورتیں عورتوں کے کام کریں۔ اب اگر خلافِ فطرت مرد عورتوں کے کام شروع کر دیں اور عورتیں مردوں کے کام شروع کر دیں تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور وہ مسائل ہمیں نظر بھی آتے ہیں اور وہ ہمیں بھگتنا ہوتے ہیں۔ اس طرح بعض ذاتوں میں الگ الگ صلاحیتیں ہوتی ہیں ان سے پھر اسی قسم کا کام لیا جائے۔ قبائل میں، ذاتوں میں، sex میں بھی اپنی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں، لہذا ان صلاحیتوں کی پہچان ہونی چاہیے اور ان کے مطابق ہمیں کام کرنا چاہیے۔ جیسے ایک آدمی میں پیدائشی طور پر شاعری کی صلاحیت ہے اس کو تھوڑی سی محنت سے شاعر بنایا جا سکتا ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو تو آپ جتنی بھی محنت کر لیں اور education دیں لیں لیکن وہ شاعری نہیں کر سکے گا وہ اس کے بس میں ہی نہیں ہے اور شاعر کے لئے کوئی خاص بات نہیں ہو گی وہ فوراً کر لے گا۔ چنانچہ لوگوں کے اندر مختلف صلاحیتیں ہیں ان کو ماننا پڑے گا اور ان کو جاننا پڑے گا اور پھر ان کو استعمال کروانا پڑے گا، یہی ایک leader کی quality ہے جو اس میں ہونی چاہیے۔ leader سارا کام خود نہیں کرتا، لیکن leader کی وجہ سے کام بحسن و خوبی تکمیل پاتے ہیں۔ یعنی سارے کام اپنی اپنی جگہ پر ہو رہے ہوتے ہیں۔ جیسے assembly میں باقاعدہ قانون ہے کہ کوئی براہ راست کسی ممبر سے بات نہیں کرے گا، بلکہ ہر ہر ممبر speaker کی chair کو مخاطب کرے گا اور پھر chair ان کی بات کو communicate کروائے گی یا روکے گی یا سمجھے، سمجھائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر direct contact ہوتا ہے تو چونکہ بعض دفعہ طبیتعوں کا اختلاف ہوتا ہے لہذا clash آ جاتا ہے، گویا chair shock absorber کے طور پہ استعمال ہوتی ہے تاکہ clash نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر کا باقاعدہ خیال رکھنا پڑتا ہے اور اس کی اطاعت کرنی پڑتی ہے چاہے وہ جہاں کا بھی امیر ہو، سارے لوگ اس کی اطاعت کریں گے، جب سارے لوگ اس کی اطاعت کریں گے تو پھر بات بنے گی۔ امیر کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر ایک سے وہ کام لے جو وہ کر سکتا ہو، لیکن سب لوگوں کا کام یہ ہے کہ امیر کی اطاعت کریں، اور اس کو جو کام دیا جائے اسے انجام دے اور یہ نہ کہے کہ فلاں کو وہ کام دیا گیا، مجھے یہ کام کیوں دیا گیا؟ یہ فیصلہ امیر پہ چھوڑ دے، یہ اس کا کام ہے۔ اگر غلطی ہے تو اس کی ہے، اگر صحیح ہے تو بھی اسی کے کھاتے میں ہے۔ لہذا یہ تمہارا کام نہیں ہے جو کام تمہارا ہے وہ کرو، اور تمہارا کام ہے امیر کی اطاعت کرنا۔ ہمارے ہاں ابتدا میں جب خانقاہ کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے ایک امیر مقرر کر لیا، چونکہ پہلے سے وہ امیر نہیں تھے اور کچھ لوگوں کے ساتھ بے تکلفی تھی تو وہ ان کو عملی طور پر امیر ماننے کے لئے تیار تھے لیکن ذہنی طور پر تیار نہیں تھے، تو ابتدا میں کچھ مسائل ہوئے لیکن پھر ان سب کو سمجھایا گیا کہ اسی میں خیر ہے، اگر آپ نے نظام صحیح چلانا ہے تو یہی طریقہ ہے کہ امیر کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ ایک system وجود میں آ گیا جو الحمد للہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو سلامت رکھے۔ بہر حال امیر کی اطاعت بہت ضروری ہے اور امیر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ایک کی صلاحیتوں کو جانچے اور اس کے مطابق اپنے کام چلائے۔
(سوال: کیا ہر ایک کی انفرادی مجبوری کو بھی سمجھے؟)
(جواب) ہاں! انفرادی مجبوری بھی اسی میں شامل ہے کہ ہر شخص ہر کام نہیں کر سکتا، یا وقتی طور پر وہ کام نہیں کر سکتا یعنی ضروری نہیں کہ مستقل طور پر اس میں اس کام کی صلاحیت نہ ہو، لیکن بعض دفعہ وقتی مجبوری ہوتی ہے۔ جیسے ایک شخص کو آپ بازار بھیج رہے ہیں اور یک دم اس کے پیٹ میں درد ہو گیا لیکن اگر آپ کہیں کہ نہیں نہیں! آپ کر سکتے ہیں، آپ کتنی دفعہ بازار گئے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ ٹھیک ہے کہ وہ جا سکتا تھا لیکن موجودہ حالت میں نہیں جا سکتا۔ میرے خیال میں یہ بات بالکل واضح ہے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کیونکہ وقتی طور پر کوئی بھی مجبوری پیش آ سکتی ہے البتہ اس کے genuine ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ امیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے، کیونکہ وہ دیکھے گا کہ کن حالات میں وہ شخص بات کر رہا ہے، ممکن ہے کوئی طبعاً کسی کام کو نہ کرنا چاہتا ہو لیکن وہ کر سکتا ہو، تو اس وقت امیر اپنا اختیار استعمال کرے گا اور اس کو کہے گا کہ یہ آپ کو کرنا ہے۔ لیکن امیر کو یہ ضرور خیال ہونا چاہیے کہ کسی کی مجبوری اگر genuine ہے تو اس کو support کرے اور اس کو ایسا کام نہ دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ