وعدوں کی پاسداری میں رکاوٹیں اور ان کا حل

سوال نمبر 322

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی






اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کی سیرت سے ایفائے عہد کی اہمیت تو علماً واضح ہو گئی لیکن اس وقت اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ایفائے عہد کی پابندی ہم اس طرح نہیں کر رہے جس طرح کرنی چاہیے۔ وہ کونسی رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے ہم اپنے وعدوں کی پابندی نہیں کر پاتے اور ان رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

تمام اوامر و نواہی پر عمل کرنے میں نفس اور شیطان ہے۔ شیطان خارجی مخلوق ہے، ہر شخص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، زبردست وسوسہ ڈال سکتا ہے لیکن اس کے پاس ہمیں مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہیں، لہذا اگر کوئی شیطان کے وسوسے پہ عمل نہ کرے تو شیطان اس کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا۔ البتہ شیطانی نظام لوگوں کے ساتھ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ وہ انسانوں میں اور جنات میں کسی کو اپنا آلۂ کار بنا دیتا ہے یعنی اس کے وسوسے کی وجہ سے وہ ان کا بن جائے تو اس صورت میں ان کی صلاحیتیں شیطان استعمال کر سکتا ہے اور بہت زبردست استعمال کرتا ہے۔ ہم لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شیطان چونکہ خارجی مخلوق ہے اور اس کو صرف وسوسے کی طاقت دی گئی ہے لہذا اس سے اتنا ڈرنا بھی نہیں چاہیے کہ اس سے ہم چھوٹ ہی نہیں سکتے، اس سے بچ ہی نہیں سکتے، یہ والی بات بھی غلط ہے۔ اور اس سے بے پرواہ بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ شیطانی نظام اس کو حرکت دے سکتا ہے۔ تو شیطانی نظام سے بچنے کے بھی راستے ہیں۔ اگر ہم ان راستوں کو اختیار کر لیں تو شیطان ہمارے ساتھ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ جیسے نمبر ایک، ہم لوگ نفس کی اصلاح کر لیں۔ دوسری بات، اپنے دل کو پاک و صاف کر لیں دنیا کی محبت سے اور اپنی عقل کو ذکر و فکر سے جلا بخشیں۔ تو پھر شیطان جب وسوسہ ڈالے گا تو ہماری عقل alert ہو گی کہ یہ تو گڑبڑ ہے، دل میں دنیا کی محبت نہیں ہو گی، لہذا وہ دنیا کی محبت کا لالچ دے گا لیکن ہم لالچ میں نہیں آئیں گے اور نفس چونکہ اطاعت پر تیار ہو گا تو وہ اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرے گا۔ لہذا شیطان کی بات خود بخود ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ شیطان سے اتنا ڈرنا بھی نہیں چاہیے کہ وہ ہمیں مجبور کرے گا اور اتنا غافل بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ شیطانی نظام کے ذریعے سے ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میں نے کچھ اس بارے میں لکھا ہے، فکر آگہی میں۔ نفس اور شیطان کی حقیقت:

نفس و شیطان کے بارے میں تو کہتے ہیں بہت

ہم ان کے بارے میں شاید نہیں جانتے ہیں بہت

نفس کیا ہے اس کی تفصیل بتا دے استاذ

اور شیطان کے بارے میں سمجھا دے استاذ

اور جو بچنے کا گر ہے ان سے، سکھا دے استاذ

چھڑا کے ان سے، ہمیں حق سے ملا دے استاذ

ہمارے حق میں مفید آپ کی تعلیم ہو گی

یہ علم نعمت ہمارے لئے عظیم ہو گی

نفس خواہشات کا ہے جسم میں مربوط ایک نظام

اس کی خواہش ہو پوری ہے جس کی چاہت یہ تمام

چاہے نقصان ہو فائدہ ہو اس کو کیا اس سے کام

شوق پورا کر کے بے شک رہ جائے بے نیل و مرام

اس کو گناہ و ثواب سے کوئی سروکار نہیں

بات ماننے کے لئے یہ کبھی تیار نہیں


نفس کی ایک کمزوری ہے۔


اور جو شیطان ہے اس کا نام تھا پہلے ابلیس

اور عبادت سے ملائک کا ہوا تھا یہ جلیس

دل میں لیکن تھا عبادت سے خلافت کا حریص

نہ سجدہ آدم کو کیا بحث و تمحیص

اس کی پاداش میں مردودِ بارگاہ ہوا

سب کچھ غارت ہوا، ذلیل ہوا، تباہ ہوا

تو اس نے اس وقت اللہ سے کچھ مہلت مانگی

تو خدا نے اسے اس وقت یہ مہلت دے دی

وہ جب سمجھا کہ میں نے رب سے یہ مہلت پا لی

اس تباہ حال نے اللہ سے ایک بات کہہ ڈالی

جن کے آنے سے میرا سب کچھ ہی تباہ ہوا

میں نافرماں ہوا مردودِ بارگاہ ہوا

ان کی اولاد کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا

آگے پیچھے سے دائیں بائیں سے میں آؤں گا

ان کو تجھ تک کبھی آنے نہ دوں بہکاؤں گا

ہوں گے نا شکرے نا شکرے انہیں بناؤں گا

تیرے بندوں پہ البتہ میرا کچھ بس نہ چلے

سن کے اللہ بھی جواباً پھر یوں گویا ہوئے

جو ہوں گے میرے ان کو تو نہیں گمراہ کر سکے

ساتھ جہنم میں تیرے ڈالوں بنے جو بھی تیرے

تو شیاطین ہمیں گمراہ کرنے شروع پھر ہوئے

پر جو طاقت تھی ان کے وہ بس وسوسے ہی رہے


ان کی طاقت سوسہ ہی ہے


بچ جائیں وہ جو اس کے وسوسوں پہ کان نہ دھریں

آگے پیچھے نہ ہوں بس سیدھے شریعت پہ چلیں

ہاں یہ شیطان ہمارے نفس سے خبر دار بھی ہے

یہ دھوکہ بازی کے کاموں میں تیز طرار بھی ہے

بے وقوفوں سے نفس جب ماننے کو تیار بھی ہے

یہ حریص اور نا سمجھ ہے بے اعتبار بھی ہے

تو ذریعہ اس کو شیطان پھر بنا دیتا ہے

دل میں زہر وساوس کا ملا دیتا ہے

کہیں منقول نہیں شیطان کی تربیت کرنا

ہر غلط وسوسہ کی ہے مخالفت کرنا

نفس کی اسلام میں البتہ ہے بہت محنت کرنا

شیخ کامل سے بہتر اس پہ بیعت کرنا

نفس کی اصلاح ہو تو شیطان کے ہاتھ آتا نہیں

نفس مطمئن کبھی شیطان سے ہاتھ ملاتا نہیں

نفس کی پاکی پہ ہے قرآن میں فلاح منحصر

اور ہے نفس کی تباہی پہ گندگی مقدر

اس میں کہیں بھی نہیں دیکھ لے شیطان کا ذکر

نہ کچھ بگاڑ سکے شیطان نفس اپنا پاک ہو اگر

دل سے شبیرؔ کہے اگر نفس کی اصلاح ہو تو

تو پھر شیطان کے وسوسے کا کوئی زور نہ ہو

اصل بات یہی ہے کہ ہم لوگ نفس کی بات مان لیتے ہیں، اب نفس کی خواہش کیا ہے؟ حریص ہے وہ دیکھتا ہے کہ مجھے دنیا کا فائدہ کس چیز میں ہے؟ اگر وعدہ خلافی میں دنیا کا فائدہ نظر آتا ہو تو وہ وعدہ خلافی کر لیتا ہے۔ پس اگر آپ اس کے شر کو درمیان سے نکال لیں تو پھر وعدہ خلافی نہیں ہو گی۔ اس دور میں جب بہت پر زور مخالفت تھی لیکن اسلامی لشکر میں سے کوئی کسی کو امان دیتا تو پورا لشکر اس کو امان دیتا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اُس وقت چونکہ ایسے ایسے milestones establish کئے گئے ہمارے لئے ایفائے عہد کے کہ جب وہ وعدہ کیا اس کو پورا کرنے کے لئے چاہے کچھ بھی قیمت دینی پڑی وہ پورا کر کے چھوڑا۔ بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں لیکن اس وقت چونکہ آپ ﷺ کی صحبت موجود تھی، یہ ساری چیزیں ممکن تھیں۔ اب ہمیں اس کمی کو دور کرنے کے لئے اپنی اصلاح کی کوششیں تیز کرنی پڑیں گی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ جیسے ابتدا میں جب انسان نوجوان ہوتا ہے تو اول دوائی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، انسان کا دفاعی نظام خود ہی cover کر لیتا ہے۔ اس کے بعد آدمی جب بوڑھا ہوتا جاتا ہے تو complications بڑھنے لگتی ہیں، جسم کے کئی حصے بیمار ہوتے ہیں۔ اگر ایک کا علاج کرتے ہیں دوسرا خراب ہوتا ہے، دوسرے کا کرتے ہیں تو تیسرا خراب۔ اس کے لئے بہت planning کے ساتھ دوائی کرنی پڑتی ہے، یعنی احتیاط کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے کہ یہ نہ ہو وہ نہ ہو۔

اسی طریقے سے اب امت کا بڑھاپا آ گیا ہے یعنی مسائل بڑھ گئے ہیں، complications بڑھ گئی ہیں۔ ایسی صورت میں علاج کے راستے بھی involved اور complicated ہو رہے ہیں لیکن بہرحال بے شک کوئی مر بھی رہا ہو تو بھی چاہتا ہے کہ بس میرا علاج کسی طریقے سے ہو جائے بلکہ ڈاکٹروں سے کہتا ہے: کچھ تو کرو ناں۔

تو اس سلسلے میں ہمارے مشائخ کچھ تو کر رہے ہیں، جتنا جتنا جس کے ساتھ ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کی اہمیت جاننی چاہیے، اہمیت کا پتا چل جائے تو پھر قربانیاں بھی دی جا سکتی ہیں، پھر اس کے لئے مشکلات بھی برداشت کی جا سکتی ہیں، اس کے لئے کوششیں بھی کی جا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ