ایفائے عہد کی سیرتِ نبوی ﷺ سے عملی مثال

سوال نمبر 321

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ ایفائے عہد کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے، صلح حدیبیہ میں جو کفار کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے کوئی مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آ جائے تو مسلمان اس کو واپس کر دیں گے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو واپس کر دیا تھا حالانکہ ان کو مکہ مکرمہ میں کفار سے جان کا خطرہ تھا لیکن آپ ﷺ نے معاہدے کی خلاف ورزی اس نازک موقع پر بھی گوارا نہیں کی۔ اس قسم کے واقعات سے ہمیں ایفائے عہد کی اہمیت کے بارے میں کیا رہنمائی مل رہی ہے؟

جواب:

بات بالکل واضح ہے، اس کے اندر کوئی جھول نہیں ہے، کمزوری نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے اگر ایسے خطرناک اور ایسے نازک موقع پر بھی اپنے معاہدے کو پورا کیا تو اگر کوئی آپ ﷺ کے طریقے پہ چلنا چاہتا ہے، سنت پہ چلنا چاہتا ہے اس کو ایفائے عہد کرنا چاہیے، معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ معاہدوں کی پاسداری اگر نہ ہو تو یہ معاشرہ چل ہی نہیں سکتا کیونکہ انسانوں کے اندر ایک دوسرے پہ اعتماد ہونا یہی اصل بات ہے، اگر اعتماد نہ ہو تو معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو driver پر اعتماد نہ ہو تو کیا آپ اس کی گاڑی میں بیٹھیں گے؟ آپ کو دکان دار پر اعتماد نہ ہو تو کیا آپ اس سے سودا لیں گے؟ اگر آپ کو ٹیچر پر اعتماد نہ ہو تو کیا آپ اپنے بچے کو اس سے پڑھوائیں گے؟ ڈاکٹر پر اعتماد نہ ہو تو کیا آپ اس سے اپنا علاج کروائیں گے؟ یہ دنیا اعتماد پر قائم ہے، reputation کی بہت اہمیت ہے آج کل ہماری terminology میں۔ تو جس کی Bad Reputation ہو، وہ اچھا کام بھی کرے پھر بھی اس کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا، کیونکہ ظاہر ہے وہ بد نام ہوتا ہے، بد سے بد نام برا والی بات ہے۔ تو اگر ایک انسان وعدے کو پورا نہیں کرتا تو اس کے وعدے پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

ایک شخص کبھی کبھی چیخنا شروع کر دیتا کہ شیر آ گیا، شیر آ گیا، شیر آ گیا۔ لوگ دوڑ کے اس کی مدد کے لئے جاتے اور وہ کھل کھلا کے ہنسنے لگ جاتا اور کہتا: میں نے مذاق کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں واقعی شیر آ گیا اور اس نے مدد کے لئے پکارا لیکن لوگ سمجھے کہ مذاق کر رہا ہے اور وہ نہیں گئے اور شیر نے اس کو کھا لیا۔ چنانچہ وعدہ پورا کرنا ہمارے معاشرتی structure کے لئے بہت ضروری ہے۔ جیسے فرمایا: "لَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَہْدَ لَہٗ" (مشکوٰۃ شریف، حدیث نمبر: 31) اس کا کوئی دین نہیں ہے جو اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتا، تو ہمیں اپنے معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔

سوال میں جو واقعہ مذکور ہے وہ میں پورا کرنا چاہوں گا تاکہ ذرا پتا چل جائے کہ جو وعدے ہم پورے کرتے ہیں ان میں نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہوتا ہے۔ ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو گئے تھے اور معاہدہ ہو گیا تھا کہ کفار کی طرف سے اگر کوئی آ گیا تو اس کو واپس کرنا پڑے گا اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی جائے گا تو اس کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ بظاہر یہ کمزوری والا معاہدہ تھا لیکن حقیقت میں جو مسلمانوں کے پاس سے چلا گیا تو وہ ان کا رہا ہی نہیں تو اس کو واپس لے کر کیا کریں گے؟ اور جو کفار کی طرف سے مسلمانوں کی طرف آیا اس کا معاملہ اللہ پاک نے دکھا دیا۔ ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاھدے کی پاسداری کرتے ہوئے واپس کرنا پڑا اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا دل کٹ رہا تھا خود آپ ﷺ کو بھی بڑی تکلیف ہوئی لیکن بہرحال معاہدہ کو پورا کیا اور ان کو واپس کر دیا۔ ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تو یہ معاہدہ نہیں تھا وہ اس سے آزاد تھے، تو جو ان کو لے جا رہے تھے راستے میں انہوں نے ان کی خوشامد وغیرہ کر کے اور ان کو بہلایا پھسلا کر ان سے ان کی تلوار لے لی اور ان پہ حملہ کر کے ان کو مار دیا۔ اس کے بعد مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی علاقے میں انہوں نے اپنا ڈیرہ ڈال لیا اور کافروں کے قافلے جو وہاں سے گزرتے ان پہ اچانک حملہ کرتے ان کو مارتے اور ان کا مال چھین لیتے۔ جس کی وجہ سے کافروں کے قافلے بہت زیادہ غیر محفوظ ہو گئے اور پھر کچھ اور مسلمان بھی مکہ سے نکل کر ان کے پاس جمع ہو گئے اور ان کی ایک چھوٹی سی جماعت بن گئی جنہوں نے کفار کا جینا مصیبت میں ڈال دیا جس کی وجہ سے کافر مجبور ہو کر آپ ﷺ کے پاس آ گئے کہ آپ معاہدہ سے اس شرط کو دور کر دیں۔ کیونکہ جن سے معاہدہ تھا ان سے وہ محفوظ تھے لیکن جن کے ساتھ معاہدہ نہیں تھا ان سے محفوظ نہیں تھے۔ اور ظلم بھی ان کے اوپر کیا گیا تھا تو اپنے ظلم کا بدلہ بھی لے سکتے تھے۔ لہذا کفار نے عرض کیا کہ آپ ان کو بلا لیں اور معاہدے میں شامل کر لیں۔ اللہ پاک نے اس کے لئے ایسی صورت بنا دی جیسے قرآن کی آیت ہے: ﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: 2) جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لئے اللہ پاک کوئی راستہ نکال دیتا ہے اور اس کو وہاں سے دیتا ہے جہاں سے کسی کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ یعنی ہم اگر اللہ پر بھروسہ کر کے اپنے وعدوں کے اوپر یقین کر لیں تو یہ بہت اچھی بات ہو گی۔

آج کل تھوڑی سی بات پہ مطلب پرستی کرتے ہیں۔ ایک آدمی نے دوسرے کو مکان کرائے پہ دیا اور کرائے دار مکان کو اپنا تالا لگا کر اپنا سامان لینے گیا، واپس آ کر دیکھا کہ ایک اور تالا بھی لگا ہوا ہے۔ اس نے مکان مالک سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اور مجھے بھی اس کرائے دار نے بلا لیا کہ سفارش کروں۔ تو مکان مالک رونے لگا کہ جی معافی چاہتا ہوں، اصل میں یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا یعنی اس کو کوئی زیادہ پیسے والا کرایہ دار مل گیا تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ حرکت کی، یعنی عجیب و غریب بات ہے۔ بھئی آپ نے معاہدہ کیا اور اس نے تالا بھی لگا دیا اس کے بعد آپ کسی اور کو کیسے دے سکتے ہیں؟ لیکن یہاں پر آج کل دو پیسوں کے لئے لوگ اپنا وعدہ توڑ دیتے ہیں، اپنی بات کو بدل دیتے ہیں، یہ چیز بہت ہی خطرناک ہے۔ کیونکہ جس کی زبان پر بھروسہ نہیں رہا اس کے بعد آپ پھر کیا کر سکتے ہیں؟ پھر تو انتہائی مشکل حالات بن جاتے ہیں۔ اس میں انسان کی uncertainty رہتی ہے اور uncertainty انسان کے لئے بہت تکلیف دہ چیز ہوتی ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ اسی چیز سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سنت پر عمل کر لیں۔ معاشرت کی سنت مشکل ہوتی ہے، عبادات پہ آنا آسان ہوتا ہے۔ معاملات پہ آنا عبادات سے زیادہ مشکل ہوتا ہے اور معاشرت اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ جیسے میں نے ابھی مثال دی کہ معاہدے کی پاسداری معاشرتی سنت ہے اس کو پورا کرنا واقعی مشکل کام ہے۔ اسی طرح نکاح اور فوتگی کی رسموں میں اپنے آپ کو بچانا، یہ مشکل چیزیں ہیں لیکن زندگی اسی پہ بدلتی ہے۔ معاشرت تو انہی چیزوں سے ٹھیک ہو گی۔ مثلاً عبادت آپ اچھی کر رہے ہیں تو آپ کا اللہ کے ساتھ معاملہ ہے اس کا کسی اور پہ اثر نہیں پڑ رہا لیکن اگر آپ کی معاشرت خراب ہے تو آپ دوسروں کے لئے بھی تکلیف دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پڑوسیوں کے حقوق آپ ادا نہیں کر رہے اور رات کے دو بجے آپ اس کی دیوار میں کیل ٹھوک رہے ہیں جس سے اس کی نیند خراب ہو رہی ہے تو ان بیچاروں کی تو زندگی اجیرن ہو گئی۔

ایک واقعہ ہے واللہ اعلم صحیح ہے یا غلط لیکن میں نے پڑھا ہے کہ کہ یہ پلازوں میں apartments ہوتے ہیں تو اوپر والے مکان میں کوئی رہتا تھا جب وہ دفتر سے آتا تو جوتے پٹخ، پٹخ دیتا تھا زمین کے اوپر جس کی وجہ سے نیچے والا تنگ ہوتا لیکن وہ باز نہیں آتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے ایک جوتا پٹخ دیا اور دوسرا نہیں پٹخا، ہو سکتا ہے اس نے سوچا ہو کہ آج میں زیادہ تکلیف نہیں دیتا تو کافی دیر کے بعد اس کے دروازے پر knocking ہوئی اور نیچے والا پڑوسی تھا کہ جوتا آپ نے اگر پٹخنا ہے تو پٹخ لیں کیونکہ مجھے نیند نہیں آ رہی، میں ابھی تک انتظار کر رہا ہوں کہ پتا نہیں آپ کب پٹخیں گے؟ تو ایسے لوگوں سے لوگ کیا سکھ پائیں گے؟ گاڑیاں جو ہم parking کرتے ہیں، بعض دفعہ گھروں کے سامنے کر دیتے ہیں اب وہ باہر آ ئے گا تو کیا کرے گا؟ یہ بہت غلط بات ہے۔ دوسرے لوگوں کے راستوں کو بند کرنا انتہائی بڑا جرم ہے لیکن اس کو آج کل کوئی چیز ہی سمجھا جاتا بلکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ مسجد میں جائیں آپ نے جوتے اتارے، واپس آئے تو آپ کے جوتے نہیں ہیں، کوئی پہن کے چلا گیا۔ اگر آپ اپنے لئے کوئی دوسرے جوتوں کو بندوبست کر لیں یا پیدل چلے جائیں بغیر جوتوں کے اور برداشت کر لیں تو تکلیف آپ کو ہوئی، ان شاء اللہ آپ کو اس پر اجر بھی ہو گا اس کا کوئی گناہ نہیں ہو گا اور یہ گناہ متعدی بھی نہیں ہوگا۔ لیکن اگر آپ نے غصے میں آ کر کسی اور کے جوتے پہن لئے تو آپ نے اس کو سزا دی جس نے آپ کے ساتھ کوئی جرم نہیں کیا تھا، آپ نے اس کو تکلیف دی۔ آگے وہ بھی شاید غصہ ہو جائے کسی اور کو تکلیف دے اور اس طرح یہ متعدی ہو جائے گا، پھر لوگ جوتے مسجدوں میں رکھتے ہیں۔ یہ فساد ادھر سے آیا کہ جو لوگ پرواہ نہیں کرتے۔ تو معاشرت کی چیزیں بہت زیادہ اہم ہوتی ہیں جس کی آج کل پرواہ نہیں کی جاتی۔

ڈاکٹر فدا صاحب مجھے ایک دن کہنے لگے کہ فلاں صاحب کو میں اجازت دے رہا تھا لیکن میں نے ایک دن دیکھا کہ انہوں نے گاڑی صحیح جگہ park نہیں کی تو میں نے ایک سال ان سے مجاہدہ کروایا پھر ان کو اجازت دی۔ آج کل ان چیزوں کی پرواہ ہی نہیں کی جاتی، بس جو لوگ اچھی طرح نماز پڑھ لیتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس یہ ولی اللہ ہو گیا حالانکہ نماز کے اثر کو دیکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر نماز میں آپ کی نیت صحیح نہیں ہے تو ظاہری نماز تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن باطن تو ٹھیک نہیں ہے اس کا اثر تو نہیں ہو گا۔ لوگ اثر کو جان سکتے ہیں، آپ کی نیت کو نہیں دیکھ سکتے۔ آپ کی نماز میں اگر وہ اثر نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی نماز ٹھیک نہیں ہے نتیجتاً آپ کی معاشرت خراب ہے، آپ کے معاملات خراب ہیں۔ اس پر محنت کرنی چاہیے اس طریقے سے کہ یہ چیزیں ٹھیک ہو جائیں اس کے ساتھ نفس کی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ پھر تو ہم نمازیوں کو بد نام کریں گے، نمازیوں کے اوپر لوگ شک کریں گے۔ تو ہم اپنے آپ کو اس طرح نقصان سے بچا سکتے ہیں کہ ہم اپنی معاشرتی سنتیں بھی زندہ کریں، اخلاق کی سنتیں بھی زندہ کریں، پھر ہمارا دین مکمل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ