https://99.cdn.tazkia.org/2021/2/26/20210226_0640_Seerat-study-by-Question320.mp3
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں مسلمان اپنے دشمنوں کے بارے میں خبر گیری رکھتے تھے کہ دشمن اس وقت کیا کر رہا ہے؟ اور پھر اسی کے لحاظ سے مسلمان اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے تھے۔ اس وقت بحیثیت مجموعی ہم مسلمان اپنے دشمنوں کی planning کے بارے میں بے خبر ہیں، نتیجتاً ہم ان کے لئے تر نوالہ بنتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے عزائم سے باخبر رہنے کے لئے کس طریقے سے کام کرنا ہو گا؟
جواب:
آپ ﷺ کی نبوت کی جو تئیس سالہ زندگی ہے اس میں مکی دور کے اندر پہلے تکالیف کو سہنے کا اور صبر کا حکم تھا۔ اس وقت یہ حکم تھا کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اسباب کے دائرے میں کچھ مسئلہ بن جائے، یعنی مسلمانوں کے لئے یا دین کے لئے۔ اس وجہ سے چھپ کے سب کچھ کرتے تھے، ہجرت بھی چھپ کے ہوئی ہے، نماز بھی چھپ کے پڑھتے تھے، اپنے رازوں کو راز رکھتے تھے۔ مکی دور کے جو احکامات ہیں سارے کے سارے اسی قبیل کے ہیں۔ اس وقت ایمان اور یقین کی بات تھی اور اس پہ ہی زیادہ زور تھا۔ قرآن پاک میں بھی اس وقت یہی باتیں آئی ہیں، سورتوں میں اتری ہیں۔ پھر جب اللہ جل شانہ نے وہاں سے ہجرت کا حکم فرمایا اور اللہ جل شانہ نے مسلمانوں کے لئے ایک انتہائی زبردست پناہ گاہ مدینہ منورہ میں عطا فرما دی، وہاں انصار کی صورت میں ایک پوری قوم ان کے انتظار میں تھی۔ مسلمان مکہ سے جب تشریف لے گئے تو ان کا آپس میں مواخات کروایا گیا اور ایک ایسی society اور ایسا ماحول پیدا ہوا جس میں وہ اپنے دین پر اور اپنے علاقے میں کھلے بندوں عمل کر سکتے تھے۔ یہ بات ان کفار کو ہضم نہیں ہو رہی تھی جن کے چنگل سے مسلمان نکل کر آئے تھے، لہذا وہ اپنی ریشہ دوانیوں میں مسلسل مصروف تھے۔ نتیجتاً یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ایک طرف اپنی عسکری قوتوں کو بڑھانا شروع کر دیا اور دوسری طرف اپنے فیصلے خود کرنے شروع کر دئیے جس کے لئے باقاعدہ مواخات کی صورت میں اور معاہدات کی صورت میں اساس بنائی، مدینہ منورہ کے یہود کے ساتھ بھی معاہدات کئے، گویا کہ ایک چھوٹی سی سلطنت اسلامیہ وجود میں آ گئی۔ لیکن چونکہ یہ بات کفار کو ہضم نہیں ہو رہی تھی تو وہ مستقل سازشیں کرتے رہتے تھے۔
دوسری طرف منافقین کا ایک بہت بڑا گروہ مدینہ منورہ میں بن گیا تھا جو مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ ملا ہوا تھا، ان سے بھی آ گاہی لازمی تھی۔ اس وجہ سے مسلمان ہمیشہ حالتِ جنگ میں رہے، یا جنگ کر رہے تھے یا جنگ کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ کیونکہ تئیس سال میں تیرہ سال مکہ کے نکال لیں، آخری دس سال کیسے گزرے؟ ان دس سالوں میں کتنے جہاد ہوئے، کتنے سرایا ہوئے؟ تو ہر وقت حالتِ جنگ میں رہے، باقاعدہ پہرہ دیا کرتے تھے اور باقاعدہ جاسوسی کا نظام develop کیا ہوا تھا۔
جنگِ احزاب کے موقع پر آپ ﷺ نے ایک شخص کو خندق کے پار بھیجا اور ان سے فرمایا کہ صرف حالات کو دیکھنا ہے، کچھ کرنا نہیں ہے۔ ایک موقع پر ابوسفیان ان کے بالکل پاس ہی تھے، ان کا ارادہ ہوا کہ یہ بہترین موقع ہے میں ان کو مار سکتا ہوں۔ جیسے ہی ان کے دل میں خیال آیا ابوسفیان جاگ اٹھے اور کہا کہ ہمارے اندر کوئی غیر تو نہیں ہے؟ ہر شخص دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے پوچھے۔ تو انہوں نے فوراً توبہ کی کہ میں آپ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے لگا تھا اور خود ہی فوراً دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا: کون ہو تم؟ اس وقت چونکہ یہی حکم تھا لہذا ہمیں پتا چل گیا کہ جاسوسوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ دشمنوں کے حالات سے خبر دار رہنا بہت ضروری ہے۔ اب ذرا مماثلت کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں دشمنوں کے نرغے سے نکل کر مدینہ منورہ کے اسلامی state میں مسلمان پہنچ چکے تھے تو مشرکین مکہ اور ان کے ساتھیوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی، مسلسل ریشہ دوانیوں میں لگے رہے اور مسلمان مقابلے میں جاگے رہے اور ان کا مقابلہ کرتے رہے۔
تو ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تو کیا وہ ہمیں بھول چکے ہیں؟ تاریخ کہہ رہی ہے کہ نہیں بھولے بلکہ مسلسل ہمارے اوپر کڑی نظر رکھی ہے۔ ہمارے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ ہمارے لئے روڑے اٹکائے ہیں۔ میر تقی میر نے کہا تھا:
میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
ہم ان سے اپنے فیصلے کروا رہے ہیں، ان پر trust کر رہے ہیں۔ ہمارے دشمن بڑے ہوشیار ہیں، بڑی planning کے ساتھ چلتے ہیں۔
ہمارے دفتر میں ایک مجذوب تھے، مجھ سے ٹیلی فون پہ بات کی کہ شبیر صاحب! مدینہ منورہ سے کوئی خاص چیز لائے ہیں؟ میں نے کہا: کیوں بتاؤں؟ ٹیلی فون پہ یہ باتیں نہیں بتائی جاتیں۔ وہ یک بارگی دوڑے دوڑے آگئے، پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے لیکن تھے مجذوب نما۔ مجھے کہتے ہیں کہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا: مسلمانوں کے اندر دو چیزوں کی کمی ہے، ایک planning کی، دوسرا coordination کی، ان پہ محنت کرو۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ وہاں سے یہ بات بتائی گئی ہے لیکن میں نے اس کی اہمیت بتا دی کہ planning اور coordination مسلمانوں کی آج کل کمزوری ہے، مسلمان planning نہیں کرتے، coordination نہیں ہوتی، نتیجتاً دشمن کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ان چیزوں پہ ذرا غور کرنا چاہیے، priorities set کرنی چاہئیں شریعت کے مطابق، اپنے تقاضوں کے مطابق نہیں، پھر اس کے مطابق planning کرنی چاہیے۔ اس planning میں جو different نظام ہیں ان کی آپس میں coordination set کرنی چاہیے تب ہمیں کامیابی ہو سکتی ہے۔ ورنہ پھر صرف طفل تسلیاں ہوں گی۔ ہم اپنے آپ کو تسلی دیں گے کہ ہم ایسے ہیں، ویسے ہیں لیکن وقت پہ پتا چل جائے گا کہ ہم کیسے ہیں؟ لہذا ہمیں طفل تسلیوں سے نکل کے حقائق کے اندر جانا ہو گا، دیکھنا ہو گا کہ ہم کدھر کھڑے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ