احساس کمتری کا انفرادی اور اجتماعی ادراک اور اس کا ازالہ

سوال نمبر 318

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی






اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دور میں مسلمانوں کو کفار پر جو غلبہ حاصل تھا اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے آپ نے مسلمانوں کے اندر جن کمزوریوں کو دور کرنے کا تذکرہ فرمایا تھا ان میں ایک بہت بڑی کمزوری احساس کمتری ہے۔ اپنے اندر احساس کمتری کا ادراک ہم میں سے ہر فرد انفرادی طور پر کیسے کر سکتا ہے؟ اور بحیثیت مجموعی پوری امت کے اندر احساس کمتری کا ادراک کون کر سکتا ہے؟ نیز پوری امت سے احساس کمتری کو دور کرنے کے لئے معاشرے کے کس طبقے کو کس طرز پر کام کرنا ہو گا؟

جواب:

الحمد للہ کچھ ایسے سوالات آ جاتے ہیں جو کہ آج کل کے حالات کے مطابق ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم صحیح طور پہ سمجھنے کی کوشش کریں اور صحیح طور پر سمجھیں۔

احساسِ کمتری ایک نفسیاتی بیماری ہے اور اس کی بنیاد دنیا کی محبت ہے۔ انسان جس کو اپنے آپ سے دنیا میں بہتر سمجھتا ہے تو اس سے دب جاتا ہے۔ چاہے وہ طاقت ہو، چاہے خوبصورتی ہو، چاہے مال ہو، چاہے رسوخ ہو، چاہے post ہو۔ احساس کمتری اگر صرف اس بات تک رہتی کہ ان پر رشک کرتے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یعنی طاقت میں زیادہ ہے تو ان پہ رشک کر لیں یا علم میں زیادہ ہے یا post میں زیادہ ہے یا کوئی چیز ہے تو ان پہ رشک کر لیں تو کوئی بات نہیں تھی۔ آپ اپنے لئے بھی مانگیں اللہ تعالیٰ سے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے زیادہ دے دے اور جن کو اللہ نے دیا ہوا ہے وہ اس پر آمین کہیں، یہاں تک تو کھلی چھٹی ہے۔ لیکن جب آپ یہ سوچنا شروع کر لیں کہ اس سے ختم ہو جائے اور اس کے پاس نہ رہے تو یہ حسد ہے جو خطرناک بات ہے، اس سے نیکیاں بھی جلتی ہیں اور انسان بھی جلتا ہے، اس سے کینہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ جیسے طبقاتی کشمکش میں کینہ ہوتا ہے، افسر شاہی، نوکر شاہی قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایک نیک آدمی ہے لیکن افسر ہے، اس سے دوسرا نیچے subordinate اس لئے نفرت کرے کہ وہ افسر ہے، تو یہ کیا چیز ہے؟ دوسرا آدمی افسر ہے اس سے نیچے subordinate بڑا نیک آدمی ہے، وہ اس وجہ سے اس کو ذلیل سمجھے کہ وہ subordinate ہے تو یہ غلط بات ہے، دونوں میں دنیا کی محبت ہے۔ چونکہ دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے لہذا اس سے اس طرح کے مسائل پیدا ہوں گے۔ چنانچہ احساس کمتری کو دور کرنے کی بنیاد دنیا کی محبت کو قلب سے نکالنے والی بات ہے۔ مِن حَیثُ المَجمُوع قوم کی بھی یہ صورتحال ہو گی اور انفرادی طور پر بھی یہی صورتحال ہو گی۔ علامہ اقبال مرحوم کو اللہ پاک نے اپنے بزرگوں کے پیچھے چلنے کی توفیق عطا فرمائی تھی اس سلسلے میں، تو انہوں نے اس قسم کی باتیں کی ہیں:

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر

تو شاہین ہے بسیرہ کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اور فرمایا:

شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

معلوم ہوا علامہ اقبال کی نظر میں سب سے پہلے جو غور و فکر کرنے والے ہیں وہ اساتذہ ہونے چاہئیں اس بارے میں علم دینے والے، کیونکہ علم دینے والے حضرات لوگوں کے اندر یہ چیزیں ڈال سکتے ہیں۔ پہلے علماً ان کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھائے، اور واقعی ملکوں کی تعمیر میں اساتذہ کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اگر اساتذہ خود احساس کمتری کے مریض ہیں تو وہ شاگرد میں کیسے احساس کمتری ختم کر سکیں گے۔ تو اساتذہ کے اندر احساس کمتری نہیں ہونا چاہیے اور ان کو ان بچوں کا خیال رکھنا چاہیے جو آ گے چل کر ان شاء اللہ بہت بڑے بڑے کام کریں گے۔

قافلہ تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا

مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

اپنی نظر کو ان چیزوں سے آ گے بڑھاؤ کیونکہ یہ چیزیں راستے کی باتیں ہیں، ان کو بے شک آپ ساتھ لے لیں لیکن جب استعمال کر لیں تو بس آگے بڑھ جائیں۔ انہوں نے پیغام دیا ہے خودی کا جو اصل میں قومی تعمیر کے لئے تھا، انفرادی بات نہیں کی بلکہ انفرادیت کے لئے انہوں نے کہا تھا:

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

یعنی ہر فرد کو ملت کے بنانے میں کام آنا چاہیے کیونکہ ان تمام افراد سے قوم بنتی ہے۔ تو ہمیں اپنے اندر سے احساسِ کمتری کو دور کرنا چاہیے۔

چونکہ ایک تعلیم ہے اور دوسری تربیت ہے۔ تعلیم کا میں نے بتا دیا اور علامہ اقبال نے بھی بتا دیا کہ تعلیمی طور پر لوگوں کو حق و باطل کی پہچان کرانے کے لئے اساتذہ کو بہت بڑی duty ملی ہے، وہ اس کو بخوبی ادا کریں۔ ایک دفعہ میں بیان کر رہا تھا اساتذہ کے سکول میں اساتذہ کے سامنے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ بہت اچھی جگہ پر ہیں، آپ بہت کام کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بچوں کو نہیں لایا جاتا وہ خود بے شک آتے ہوں لیکن لایا نہیں جاتا۔ کہتے ہیں: خراب ہو جائیں گے، دنیا خراب ہو جائے گی، کیونکہ ذہن میں احساس کمتری ہوتی ہے۔ لہذا ہمارے حوالے نہیں کرتے۔ لیکن آپ لوگوں کے پاس منتیں کر کر کے داخلہ دلاتے ہیں تو آپ لوگوں کو موقع ملا ہے کہ آپ بچوں کی صحیح تعلیم کا خیال رکھ سکتے ہیں، ان کو آپ یہ چیزیں سکھا سکتے ہیں۔

دوسری چیز تربیت ہے، بغیر تربیت کے تعلیم کا ثمرہ نہیں ملتا لہذا پہلے تعلیم ہو گی پھر تربیت ہو گی، اگرچہ تعلیم کے بغیر تربیت کافی ہو سکتی ہے یعنی اگر تربیت ہو جائے گی تو اس کے مطابق تعلیم بھی حاصل کر لے گا اور تربیت کی وجہ سے اپنے لئے اتنا فرض عین درجے کا علم حاصل کر لے گا جتنا کہ ضروری ہے۔ لیکن تربیت کے بغیر تعلیم کا فائدہ نہیں ہوتا وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ اور تربیت کرنا مشائخ کا کام ہے تو مشائخ ان کے اندر ایسی چیز لائیں جو واقعی مردوں کا کام ہو عورتوں کا کام نہ ہو۔ علامہ اقبال نے اس کے بارے میں بھی کہا ہے:

نہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو

یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

اسی طریقے سے انہوں نے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی کہا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جو مربی ہوتے ہیں وہ آپ کے اندر ایک چیز پیدا کرتے ہیں۔ میں اکثر اوقات کہتا ہوں کہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بہت بڑا contribution ہے پشاور یونیورسٹی میں کہ انہوں نے الحمد للہ طلبہ کے اندر سے احساس کمتری ختم کی تھی جو حضرت کے ساتھ ملا کرتے تھے۔

ہم Germany گئے تھے وہاں ہم ان سے الحمد للہ متاثر نہیں ہوئے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہمارے اوپر ان کا رعب پڑ جائے گا یا کوئی بات، حتیٰ کہ خود ایک German colleague نے مجھے کہا:


What do you do with my professor? He admires you too much.

میں نے کہا:

I don't know you. Better you ask him.

اللہ کا شکر ہے، ہمارے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ ہم ان سے کم ہیں۔ جب میں وہاں گیا تو اکبر خان پاکستانی تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ ترکوں کے ساتھ کچھ ان کی ان بن ہو چکی ہو گی کیونکہ جو لوگ آپس میں رہتے ہیں تو ان کی کچھ نہ کچھ tensions develop ہوتی رہتی ہیں۔میں نے ترکوں کی بڑی تعریف کی کیونکہ ترکوں کے ساتھ ہم محبت کرتے ہیں، ترک ہمارے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ تو میں جا رہا تھا university کی طرف تو پیچھے سے آواز آئی ”کارداش“ میں نے پیچھے دیکھا تو دو ترک مزدور تھے وہ digging کر رہے تھے یعنی زمین کھود رہے تھے۔ اشارہ کیا، میں قریب گیا۔ کہتے ہیں: پاکستانی؟ میں نے کہا: ہاں پاکستانی۔ ”کارداش پاکستانی“ ”کارداش پاکستانی“ یعنی دوست پاکستانی دوست۔ انہوں نے صرف میرے کپڑوں سے انداز لگایا کہ یہ پاکستانیوں کے کپڑے ہیں۔ اور ایک ترک شراب پئے ہوئے تھا اور میں گزر رہا تھا تو اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا: Sehr guter Mann Sehr guter Mann، بہت اچھا آدمی ہے، بہت اچھا آدمی ہے، حالانکہ میں نے ان کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی تھی صرف ان کے دل کی محبت تھی۔ تو میں نے اکبر خان کو کہا: ان کی ہمارے ساتھ محبت اور ہماری ان کے ساتھ محبت ہے۔ انہوں نے کہا: آپ ابھی ابھی آئے ہیں، تھوڑا عرصہ آپ رہیں تو پھر آپ کو پتا چل جائے گا کہ یہ کیسے ہیں؟ میں نے کہا: زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ گناہ گار ہیں۔ گناہ گار سے گناہ گار ترک کو لے لو اور اس کو ایک پلڑے میں بٹھاؤ باقی پلڑے میں سارے کافر Germans کو بٹھاؤ، یہ گناہ گار ترک ان سے اونچا ہے اور ان سے بھاری ہو گا کیونکہ اس کے دل میں ایمان ہے۔ میں نے کہا: ایمان ایسی چیز ہے جو infinity پہ جاتا ہے۔ یعنی 1 کو آپ 0 پر divide کریں تو infinity ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان دیا ہوا ہے، ایمان بہت بڑی چیز ہے ﴿وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 139) تم ہی اعلی ہو گے، تم ہی اونچے ہو گے، غالب ہو گے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اپنے ایمان کی کیفیت کو بڑھاؤ اور دوسرے کی ایمان کی قدر کرو۔ دوسروں کی دنیا سے متاثر نہ ہو بلکہ ان کے ایمان سے متاثر ہو، ان کے اخلاق سے متاثر ہو، ان کے تقویٰ سے متاثر ہو، ان کے اچھے اچھے کاموں سے متاثر ہو۔ یہ بات غلط ہے کہ آپ ان کی دنیا سے متاثر ہوتے ہیں کہ یہ فلاں Deputy Commissioner ہے۔ ہو گا بھئی لیکن اگر اللہ والا نہیں ہے تو جہنم میں جلے گا۔ اسی طرح کوئی General ہے، کوئی پروفیسر ہے، کوئی ڈاکٹر ہے، یہ سب اس وقت اچھے ہیں جب اللہ والے ہیں۔ البتہ کافروں سے بہرحال پھر بھی اچھے ہیں کیونکہ ایمان رکھتے ہیں یہ بات اپنے طور پہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر اللہ والوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر اللہ والے اونچے ہوں گے کیونکہ قرآن پاک میں بار بار ذکر اللہ والوں کا آ رہا ہے اور اگر مقابلہ کرنا ہے کافروں کے ساتھ تو پھر یہ اچھے ہیں، بے شک کتنے ہی گناہ گار کیوں نہ ہوں۔ بس یہی احساس کمتری کو ختم کرنے کی چیزیں ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سے احساس کمتری کی جڑیں نکالے (آمین) اور ہمارے دل کو اپنی محبت سے بھر دے اور دنیا کے محبت کو ہمارے دل سے ایسا نکالے کہ پھر اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ