احادیث میں مذکور فضائل کو دیکھ کر احساس محرومی سے بچنے کی نیت

سوال نمبر 317

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



https://99.cdn.tazkia.org/2021/2/23/20210223_0635_Seerat-study-by-Question317.mp3



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ سے روایت کی کہ جنت میں ایسی قومیں داخل ہوں گی کہ جن کے دل پرندوں کے دلوں کی طرح ہوں گے۔ (صحیح مسلم) اس حدیث شریف میں جنتیوں کی ایک صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کے دل نرم ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے مختلف مزاج بنائے ہیں جیسے کوئی نرم مزاج کا ہوتا ہے اور کوئی سخت مزاج کا ہوتا ہے۔ اس قسم کی احادیث شریفہ جن میں کسی خاص صفت کے فضائل بیان ہوئے ہوتے ہیں، جب ان احادیث شریفہ کو ایسے حضرات دیکھتے ہیں جن کے اندر یہ صفت قدرتی طور پر نہیں ہوتی تو ایسے حضرات پھر ان صفات والے لوگوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں جس سے بعض اوقات نا شکری کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے ایسی صورت میں اس قسم کے فضائل والی احادیث شریفہ کا مطالعہ کرتے وقت کس قسم کی نیت کرنی چاہیے؟

جواب:

اصول اچھی طرح انسان کو اپنے دل میں بٹھانا چاہیے جو قرآن پاک نے بیان کیا ہے ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ: 286) یعنی اللہ تعالیٰ کسی کو ایسی چیز کا ذمہ دار نہیں بناتا جو اس کے بس میں نہ ہو۔ انسانوں کی مختلف طبیعتیں ہوتی ہیں، ہر طبیعت پہ ان کو اللہ نے پیدا کیا ہوتا ہے، وہ اپنی طبیعت کو نہیں بدل سکتے۔ کوئی جلالی طبیعت کا ہوتا تو کوئی جمالی طبیعت کا ہے، کوئی کسی اور طبیعت کا ہوتا ہے۔ طبیعتوں کا فرق تو اللہ پاک نے پیدا کیا لہذا اس کو چھیڑنا نہیں چاہیے اور اس کی تو تربیت بھی نہیں ہے، انسان جس طبیعت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اس کو انسان تبدیل نہیں کر سکتا اور اس کو جبلت کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر آپ سنیں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو اس کا یقین کر سکتے ہیں لیکن یہ سن لیں کہ کسی کی جبلت تبدیل ہو گئی تو اس پہ یقین نہ کریں۔ یعنی جبلت تبدیل نہیں ہوتی تو جو چیز تبدیل نہیں ہو رہی تو وہ انسان کے بس میں نہیں لہٰذا اس کی وجہ سے اللہ پاک اس کو ذمہ دار نہیں بنائے گا۔

اب ہر طبیعت کے اندر اپنے اپنے فائدے ہوتے ہیں۔ merits and demerits یہ دونوں ہر طبیعت میں ہوتے ہیں۔ اس بارے میں کچھ research کرنی ہے یا کچھ زیادہ پڑھنا ہے تو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”الامارات“ میں ایک chapter ہے، اس کو پڑھ لیا جائے۔ تو اس میں مختلف طبیعتوں کے بارے میں تین قسمیں دی ہوتی ہیں، ہر قسم اور ہر طبعیت کے اپنے فوائد اور مسائل ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک نے ہر ایک کو موقع دیا ہے۔ ٹھیک ہے بعض چیزیں بعض لوگوں کے لئے ذرا مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے پٹھان مہمان نواز ہوتے ہیں یہ ان کی طبیعت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا بنایا ہے۔ عرب بھی مہمان نواز ہوتے ہیں اور مہمان نوازی کی حدیث شریف میں بڑی تعریف آئی ہے، قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر ہے۔ اب ان کے لئے یہ عمل آسان ہے لیکن ہندوستان والوں کے لئے اور پاکستان میں پنجاب والوں کے لئے بہت مشکل ہے، ان کو بجٹ کافی calculate کرنا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ پشاور ہمارے ایک ساتھی گئے امتحان لینے کے لئے، واپس آئے تو مجھے کہا کہ یار وہاں کسی سے راستہ پوچھنا بڑا مشکل کام ہے۔ میں نے کہا کیا مسئلہ ہوا تھا؟ کہتے ہیں: یار کسی سے راستہ پوچھو تو وہ اس کو اپنا مسئلہ بنا لیتا ہے، جب تک آپ کو بس میں نہیں بٹھاتا اس وقت تک اس کو آرام نہیں آتا۔ میں نے کہا: اچھا ہوا آپ نے چارسدہ میں کسی سے نہیں پوچھا۔ کہتا ہے: وہ کیوں؟ میں نے کہا: چارسدہ میں اگر آپ کسی سے راستہ پوچھیں تو آپ کو چائے پلا کر چھوڑے گا کیونکہ اس کو پتہ چل جائے گا کہ یہ مہمان ہے۔ میرے ساتھ ایسا واقعہ ہوا تھا، میں گیا تھا غالباً عمر زئی کا علاقہ تھا یا کوئی اور جگہ تھی۔ وہاں جن حضرت سے میں ملا تو مغرب کے وقت سے کچھ پہلے میں وہاں پہنچا تھا۔ میں نے کہا: مجھے بہت شوق تھا کہ حاجی ترنگزئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جگہ کی زیارت کروں، میں اس لئے آیا ہوں۔ حضرت بہت خوش ہوئے۔ پھر جب مغرب کے بعد میں نے اجازت مانگی تو انہوں نے کہا: آپ تو کہتے تھے کہ میں یہاں پر آیا ہوں تو اب جا کیوں رہے ہو؟ میں نے کہا: حضرت میں نے زیارت کر لی اور چونکہ میں نے والدہ کو دوائی پہنچانی ہے تو میں ٹھہر نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا اس وقت تو گاڑیاں بھی نہیں ملیں گی۔ میں نے کہا: کوشش کروں گا کہ مل جائے۔ فرمایا: اچھا ٹھیک ہے چلے جاؤ اور اگر گاڑی مل جائے تو ٹھیک ہے لیکن نہ ملے تو کسی اور جگہ نہ جانا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ بہرحال گاڑی مل گئی اور میں وہاں سے روانہ ہو گیا۔ گاڑی کے اڈے تک پہنچنے کے لئے میں جس سے راستہ پوچھتا تو وہ کہتا: آ ئیں چائے پی کر جائیں۔ یہ بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے کیونکہ وقت بھی کم ہوتا ہے۔ یہ مزاج ہوتے ہیں لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے بنائے ہوتے ہیں تو ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن پنجاب والے اگر یہ کر لیں تو ان کو اجر زیادہ ملے گا کیونکہ اپنی طبیعت کے خلاف کر رہے ہوں گے اور ہندوستان والوں کو شاید اس سے بھی زیادہ اجر ملے گا کیونکہ اس معاملے میں وہ کچھ زیادہ ہی سست ہیں۔ اگر کسی کو شریعت کے مطابق اپنے مزاج کے خلاف چلنا پڑے تو اس کو ایسا نہ لگے کہ اس سے نقصان ہو رہا ہے بلکہ اس کو فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ اس کو زیادہ اجر مل رہا ہے وہ اپنی طبیعت کے خلاف کام کر رہا ہے اور طبیعت کے خلاف کام کرنا مجاہدہ ہے اور مجاہدے پر اجر ملتا ہے۔ چونکہ یہ شریعت پر چلنے کے لئے مجاہدہ ہے اس لئے اس کا فائدہ ہو گا۔ کسی نے کیا خوب شعر کہا ہے:

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

یعنی بادِ مخالف سے گھبرانا نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ کو مزید اجر دلوانے کے لئے راستہ ہے۔ ہر قوم کے merits اور demerits ہوتے ہیں تو اگر یہ merits ہے تو demerits بھی ہے۔ جیسے ان کا غصہ یا کوئی چیز، یہ نقصان والی بات ہے۔ اگر پٹھان غصہ برداشت کرے گا تو اس کو زیادہ اجر ملے گا کیونکہ ہر قوم کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طبعیتیں دی ہوتی ہیں۔ لیکن اس میں ہمیں شریعت پر چلنا ہے تو اگر طبعیت favor میں ہے تو محفوظ ہیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا، آسانی ہو گی، نقصان نہیں ہو گا، گناہ سے بچیں گے اور اگر opposite ہے تو مجاہدہ کے ذریعے شریعت پر لانا ہو گا جس پر اجر زیادہ ملے گا تو کس چیز میں نقصان ہوا؟ نقصان تو نہیں ہوا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ