خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
کچھ دنوں سے اس موضوع پر بات ہو رہی ہے کہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے پاس عسکری قوت کفار کے مقابلے میں کم تھی لیکن پھر بھی کفار ان سے ڈرتے تھے جبکہ ہمارے پاس عسکری قوت کفار کے مقابلے میں ضرورت کی حد تک موجود ہے لیکن پھر بھی کفار ہم سے نہیں ڈر رہے۔ اس ضمن میں آپ نے دو کاموں کا تذکرہ فرمایا تھا کہ ایک تو عسکری اداروں میں دین کو فروغ دیا جائے جس کے لئے طریقہ کار کی وضاحت آپ نے پچھلے دو تین دن میں فرما دی ہے۔ دوسری بات آپ نے یہ فرمائی کہ قوم کے مورال کو بلند کرنا ہو گا اور مسلمانوں کے اندر جو احساس کمتری ہے اس کو دور کرنا ہو گا۔ اس کے لئے طریقہ کار کی وضاحت فرما دیں کہ قوم کے مورال کو کس طریقے سے بلند کیا جائے اور احساس کمتری جو کہ ہمارے اندر زیادہ سرایت کر چکی ہے اس کو دور کرنے کے لئے معاشرے کے کس طبقے کو کس طرح کام کرنا ہو گا اور ہر ایک کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری کیا ہو گی؟
جواب:
یہ جتنے بھی سوال ہیں سارے کے سارے پورے research papers ہیں یعنی مختصر طور پر ان کا جواب نہیں دیا جا سکتا لیکن جتنی کوشش ہو سکتی ہے ہم کر لیتے ہیں۔ دو باتوں کے بارے میں کہا گیا ہے ایک یہ کہ مورال کو کیسے بلند کیا جائے اور دوسرا احساس کمتری کو کیسے دور کیا جائے؟ اور یہ دونوں باتیں در اصل ایک ہی ہیں کیونکہ اگر مورال بلند ہو گیا تو احساس کمتری نہیں ہو گی، اور جب احساس کمتری نہیں ہو گی تو مورال بلند ہو گا۔ چنانچہ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 139) "تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو"۔ یہ بالکل clear بات ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے ﴿اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45) "بے شک نماز بے حیائی اور منکرات سے روکنے والی ہے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے"۔ تو جس طرح کی ہم لوگ نماز پڑھتے ہیں اسی قسم کی ہماری حالت ہے۔ اگر ہم اپنی حالت بری سمجھتے ہیں تو ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ ہماری نماز کی حالت اچھی نہیں ہے، ہمیں اپنی نماز کے اوپر محنت کرنی چاہیے اور نماز کو بہتر کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر ہمارا مورال بلند نہیں ہے اور ہمارے اندر احساس کمتری ہے تو یہ ایمان کی کمزوری ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 139) اب ایمان کیا چیز ہے؟ ایمان ایک fixed چیز ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی، لیکن یقین جو ایمان کا تقاضا ہے اس میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ کیونکہ یقین تین قسم کا ہے ایک علم الیقین ہے، دوسرا عین الیقین ہے اور تیسرا حق الیقین ہے۔ اس وقت لوگ زیادہ تر علم الیقین پر چل رہے ہیں کہ بس معلوم ہے کہ یہ چیز ایسی ہے، جنت ہے، دوزخ ہے اور اللہ کی مدد ہے اور ساری چیزیں ہیں۔ گویا یہ چیزیں علم الیقین کے درجے میں موجود ہیں۔ لیکن عین الیقین یہ ہے کہ مثلاً کوئی جہاد میں چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تو یہ عین الیقین ہو جاتا ہے۔ کوئی مشکل آ پڑے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد آئے تو آدمی کو پتا چل جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مدد فرما رہے ہیں تو یہ بھی عین الیقین ہو جاتا ہے۔
اس سے آگے ترقی کیسے ہو گی اس کو میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، یہاں الحمد للہ اللہ پاک بہت بڑا علم دے رہے ہیں۔ جیسے آپ نے اللہ تعالیٰ کی مدد کا ایک واقعہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا جس کی وجہ سے آپ میں جو تبدیلی آئی وہ عین الیقین ہے لیکن اس سے آپ کے دل کی جو حالت تبدیل ہوئی، عقل میں ترقی ہوئی اور سِر بن گیا، دل کا تعلق ملاء اعلٰی کے ساتھ ہو گیا اور نفس قابو ہو گیا تو جب وہ واقعہ ان تین چیزوں کی تبدیلی کے ساتھ ہو گا تو وہ حق الیقین بن جائے گا۔ گویا کہ اگر آپ ویسے جہاد پہ چلے گئے تو عین الیقین کے درجے میں پہنچ گئے لیکن اگر آپ نے ان چیزوں کی ترقی حاصل کی ہے اور آپ صحابہ کے طریقے پر چل پڑے یعنی سیر فی اللہ میں چلے گئے، ایسی صورت میں جو واقعات ہوں گے وہ آپ کو یقین کی حد تک پہنچا دیں گے۔ چنانچہ جیسے صحابہ کو احساس کمتری نہیں ہوا کرتا تھا اور جیسے صحابہ جری ہوتے تھے اور کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے یہی چیز آپ کو بھی مل سکتی ہے اور اس وقت یہ قانون پورا ہو جائے گا: ﴿وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 139) اسی لئے میں نے جو عرض کیا تھا کہ عسکری اداروں کے لوگوں کا اللہ والوں کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے اور ان چیزوں پہ محنت ہونی چاہیے کہ کیسے ان کی اصلاح ہو، کیسے وہ اللہ کے بن جائیں، اللہ کے سپاہی بن جائیں جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ اور ان جیسے دوسرے حضرات تھے۔ تو یقیناً وہ چیز دوبارہ لوٹ کے آ سکتی ہے۔ جیسے علامہ اقبال نے شعر کہا تھا کہ؎
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا
مزید انہوں نے کہا تھا؎
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
گویا اگر ہم لوگ اپنے ایمان کی حالت کو improve کر لیں تو اللہ کی مدد اپنی جگہ پر قائم ہے وہ چیزیں دو اور دو چار کی طرح بالکل واضح ہیں، اس میں کوئی ابہام کی بات نہیں ہے، لہذا اگر اللہ کے وعدوں پر ہمارا یقین آ جائے تو پھر ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عاجلہ انسان کے اوپر سوار ہے اور آجلہ نظروں سے اوجھل ہے۔ آپ جو کسی کو بتاتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے وہ صرف اس کا علم ہے یعنی آپ صرف اس کا علم بڑھا رہے ہیں اور ان کے علم میں وہ چیز آ رہی ہے جس کا وہ علم کے لحاظ سے انکار بھی نہیں کرے گا لیکن یہ علم الیقین عین الیقین بن جائے اور عین الیقین سے حق الیقین بن جائے، اس کے لئے انسان کو عملی اور روحانی ترقی کرنی پڑے گی، کچھ عمل کرنا پڑے گا، یعنی علم پر بھروسہ کر کے آگے بڑھے گا تو عین الیقین حاصل ہو گا۔ اور اگر علم کو اپنے ساتھ رکھ کر ویسے ہی رونا دھونا شروع کر دے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مجھے آج ہی ایک چیز ملی ہے، Lord Macaulay کا ایک statement کسی نے مجھے بھیجا ہے جس کے مطابق اس ظالم نے مقالے میں لکھا ہے کہ میں ہندوستان کے طول و عرض میں پھرا ہوں، میں نے نہ ان میں کوئی چور دیکھا، نہ کوئی بھیک مانگنے والا دیکھا۔ ہم لوگ ان پر اس وقت تک قابو نہیں پا سکتے جب تک یہ اپنی اقدار کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ہمیں ان کو ان کے اقدار سے detach کرنا پڑے گا اس حد تک detach پڑے گا کہ انگلش زبان پر اور انگلش culture پہ فخر کریں اور اپنی چیز پر ان کو خفت ہو اور وہ کہیں کہ یہ تو کم ہے اور فانی چیز اعلٰی ہے، ہمیں ان کے اندر یہ تاثر پیدا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ حالات کی تبدیلی کے لئے ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ جب کہ ہم کہتے ہیں ہمارے حالات تبدیل ہو جائیں لیکن ہم تبدیل نہ ہوں، ایسا نہیں ہے۔ اللہ پاک کا قانون یہ نہیں ہے، پہلے خود تبدیل ہونا پڑے گا پھر اللہ پاک حالات تبدیل کرتے ہیں۔ جیسے اگر علم الیقین ہو تو اس علم الیقین کو عمل میں لاؤ گے تو عین الیقین حاصل ہو جائے گا، اس عین الیقین کے ہوتے ہوئے اپنے دل کو، اپنی عقل کو اور اپنے نفس کو بدل لو تو حق الیقین حاصل ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو آپ کے اس عمل کو دیکھ کر کہ تو نے اپنے علم پر عمل کر لیا تو وہ آپ کے سامنے وہ چیزیں لے آئے گا اور عین الیقین اس درجہ میں آ جائے گا، کیونکہ آپ خود دیکھ لیں گے۔ لیکن چونکہ اس عین الیقین سے اثر آپ کے دل نے لینا ہے، آپ کی عقل نے لینا ہے اور کام تو آپ کے نفس نے ہی کام کرنا ہے تو جب تک یہ تبدیل نہیں ہوں گے تو چاہے آپ وہ چیزیں دیکھ بھی لیں گے پھر بھی آپ کو حق الیقین حاصل نہیں ہو گا، عین الیقین تک بات آ جائے گی، یعنی آپ دیکھ لیں گے کہ ایسا ہوتا ہے۔ اس لئے عام لوگوں کو جنگوں میں اور جہاد میں اس قسم کے حالات پیش آتے ہیں تو عین الیقین کا درجہ ان کو حاصل ہو جاتا ہے۔ مثلاً افغانستان کا جہاد تھا تو مردان کے حافظ صاحب تھے جو ابھی بھی زندہ ہیں وہ جہاد پہ جایا کرتے تھے تو ایک دفعہ اپنے ساتھ کسی عام آدمی کو بھی لے گئے تھے خود تو ماشاء اللہ بڑے کامل ہیں لیکن وہ ایک عام آدمی تھا تو خود ان کو تو چونکہ الحمد للہ اعلٰی درجے کا یقین حاصل تھا، لہذا یہ لڑ رہے تھے اور محاصرے میں آ گئے تھے وہ بیچارہ چونکہ نیا تھا اور اس کو یقین کا وہ درجہ بھی حاصل نہیں تھا، بیچارہ بھوکا بھی تھا اور کھانے کی کوئی چیز بھی نہیں تھی اور حافظ صاحب اپنے ammunition کو بھی بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کر رہے تھے، انہوں نے کہا کہ جی مجھے بھوک لگی ہے، حافظ صاحب نے کہا: صبر کرو۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر اس نے کہا: مجھے بھوک لگی ہے تو انہوں نے کہا: صبر کرو اللہ مدد کرے گا، کچھ دیر بعد پھر انہوں نے یہی کہا، بالآخر جب وہ بہت بے قابو ہو گیا اور اضطراری حالت ہو گئی تو حافظ صاحب نے فرمایا: جاؤ اس چٹان کے پیچھے دیکھو اگر اللہ پاک کچھ دے دے تو خود بھی کھا لینا اور مجھے بھی دینا۔ جب وہ چٹان کے پیچھے گئے تو سینی پلاؤ سے بھری ہوئی موجود تھی اور اس سے بھاپ بھی نکل رہی تھی، تو وہ لے آئے اور دونوں نے مل کر کھا لیا۔ اب یہ عین الیقین ہے، اللہ کی مدد ہے، کیا وہ عام آدمی انکار کر سکتا تھا؟ لیکن اس کا اثر حافظ صاحب پر اور تھا اور ان کے اوپر اور تھا، واقعہ ایک ہے لیکن اثر جدا جدا ہے۔ لہذا علم الیقین پہ عمل کرو عین الیقین تک پہنچا دیئے جاؤ گے، اپنے آپ کو تبدیل کر لو حق الیقین مل جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ میرے خیال میں مختصر بات مکمل ہو گئی۔ یہی ہم کہہ سکتے ہیں اس کے بعد تو تفصیلات ہیں اور تفصیلات میں پورا تصوف ہے، چنانچہ اس حق الیقین تک پہنچنے کے لئے جتنے بھی مراحل ہیں وہ پورا تصوف ہے، جو دو لفظوں میں سمجھ نہیں آ سکتا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
دیکھیے ہم یہاں "اِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" کہہ رہے ہیں تاہم اس کے ساتھ ہمارے دل کی کیا حالت ہو رہی ہے، یہ ہر ایک کی اپنی اپنی حالت ہے۔ اسی طرح یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہوں کہ ہم مانگ تو اپنے علم کے مطابق رہے ہیں لیکن حق الیقین جتنا ہو گا اسی کے حساب سے قبولیت ہو گی۔