اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
میں جہاں تعلیم حاصل کرتا ہوں وہاں موجودہ سیمسٹر کے کچھ کورسز میں خواتین پڑھا رہی ہیں۔ نظر کی حفاظت نہیں ہو پا رہی۔ رہنمائی کی ضرورت ہے۔
جواب:
اول تو ہونا یہ چاہیے کہ مرد مردوں کو پڑھائیں اور خواتین خواتین کو پڑھائیں لیکن مکمل طور پر ایسا نظام بنانا ہمارے بس میں نہیں ہے اس لئے ہمیں اسی سسٹم کے ساتھ اس طرح چلنا پڑے گا کہ شریعت کی خلاف ورزی بھی نہ ہو اور ہم اپنا کام بھی کر سکیں۔
ہمارے ایک پیر بھائی تھے ڈاکٹر سرفراز صاحب۔ جب انہوں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا تو وہاں مخلوط ماحول تھا۔ خواتین طالبات بھی تھیں اور خواتین اساتذہ بھی تھیں۔ وہ بڑے پریشان ہوئے۔ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ حضرت میں میڈیکل کالج چھوڑ رہا ہوں، وہاں مخلوط ماحول ہے، نظر کی حفاظت نہیں ہو پا رہی۔ میں مدرسے میں داخلہ لینا چاہتا ہوں اور بس دین کا علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت نے فرمایا: جو لوگ یہ غلط کام کر رہے ہیں وہ تو نہیں بھاگ رہے تم بھاگ رہے ہو، کمال ہے تمہیں تو زیادہ غیرت مند ہونا چاہیے اور میدان میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ علماء تو الحمد للہ کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن علماء کی خدمت کرنے والے تھوڑے ہیں۔ تم علماء کے خادم بننے کی نیت کر لو اور میڈیکل کالج مت چھوڑو۔
خیر حضرت نے ان کو اس طریقے سے تیار کر لیا۔ بعد میں وہ ڈاکٹر بن گئے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک حادثے میں شہید ہو گئے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، بڑے پاک اور نیک انسان تھے۔
ہمارا طریقہ یہی ہے کہ ہم کہتے ہیں اپنا کام بھی نہ چھوڑیں اور شریعت کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔ اگر آپ کو پی ایچ ڈی کرنے کے لئے باہر جانا پڑے وہاں تو یہ بد نظری وغیرہ کا سلسلہ اور بھی زیادہ ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ آپ کسی بس یا ٹرین میں جا رہے ہوں تو آپ کے ساتھ سیٹ پر کوئی خاتون بیٹھ جائے۔ وہاں تو آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ میرے ساتھ کیوں بیٹھی ہیں۔ یہاں پاکستان میں کم از کم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بی بی آپ دوسری جگہ بیٹھ جائیں۔ تو اُن حالات میں بھی آپ کو اپنا کام تو کرنا ہی ہوگا، ایسے مسائل کی وجہ سے اپنا کام چھوڑ دینا درست اقدام نہیں ہے، بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ اپنا کام بھی جاری رہے اور شریعت پر عمل بھی ہوتا رہے۔
آپ اپنی نظروں کی حفاظت کی نیت کریں۔ اللہ پاک سے دعا کیا کریں:
”اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتنَةِ النِّسَآءِ“
ترجمہ: ”اے اللہ میں عورتوں کے فتنہ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں“۔
خصوصاً class میں داخل ہوتے وقت یہ دعا کر لیا کریں۔ زیادہ تر نگاہیں نیچی رکھیں، اگر اوپر دیکھیں تو نگاہیں بورڈ کی طرف رکھیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ صرف سن لیں اور نوٹس اپنے کسی ساتھی سے لے لیں۔ میں بھی یہ کیا کرتا تھا۔ نوٹس دوسروں سے لے لیتا تھا، اور لیکچر صرف سن لیتا تھا۔ آپ بھی ایسا کر لیا کریں، لیکچر سن لیا کریں، نوٹس کسی ساتھی سے لے لیا کریں، جب بورڈ کی طرف دیکھنا ضروری ہو تب صرف بورڈ کو ہی دیکھیں۔ اپنی نظر کو ٹرین کریں، پھسلنے کا طریقہ سکھائیں۔ مثلاً اس وقت میں دیکھ تو کسی ایک طرف رہا ہوں مگر آس پاس کی اور کئی چیزیں بھی میری نگاہوں کے سامنے آ رہی ہیں، لیکن مکمل طور پر مجھے وہی چیز نظر آئے گی جس کو میں ارادتاً دیکھ رہا ہوں دوسری چیزیں ٹھیک سے نظر نہیں آئیں گی بلکہ ذرا دھندلی نظر آئیں گی۔ اس لئے اپنا فوکس بورڈ کی طرف رکھیں۔
اللہ پاک نے اس آنکھ کے اندر بڑا عجیب حفاظتی نظام رکھا ہوا ہے۔ اس میں cones ہیں اور rods ہیں۔ cones آنکھ کے سامنے والے حصے میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کو سامنے والی چیز واضح طور پہ نظر آتی ہے، اس کی resolution perfect ہوتی ہے۔ جبکہ rods کے ذریعے چیز واضح ہوکر نظر نہیں آتی صرف اس کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ مثلاً مجھے پتا ہے اس وقت میری دائیں طرف کوئی چیز پڑی ہے، لیکن اگر مجھے پہلے سے معلوم نہ ہو کہ کیا چیز ہے تو میں بغیر دیکھے نہیں بتا سکتا کہ کیا چیز پڑی ہے۔ اسی طرح جب آپ سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں تو دائیں بائیں طرف جو چیزیں ہوتی ہیں وہ مکمل طور پہ آپ کو نظر نہیں آتیں صرف ان کا ایک خاکہ سا نظر آتا ہے، اس لئے آپ اپنی نظر سامنے جمائیں اور اللہ پاک نے جو حفاظتی انتظام رکھا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ہمت کریں جواں ہمت بنیں اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم۔ حضرت آپ نے جو اذکار دیئے تھے وہ کرتے ہوئے 30 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ذکر یہ تھا۔
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 500 مرتبہ۔
جواب:
باقی ذکر اسی طرح کرتے رہیں صرف ”اللہ“ اب 500 مرتبہ کیا کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم حضرت جی۔ مندرجہ ذیل اذکار کرتے ہوئے تقریباً 30 دن ہو گئے ہیں:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 400 مرتبہ، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ 600 مرتبہ اور ”اَللّٰہ“ 500 مرتبہ۔ اس سے آگے ذکر کی کیا ترتیب رکھنی ہو گی؟
جواب:
باقی چیزیں وہی رکھیں صرف ”اللہ“ کا ذکر بڑھا کر 5500 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت۔ آج 19 فروری کو ایک ماہ کا ذکر پورا ہو گیا۔ ذکر درج ذیل تھا: 200 400 600 اور 500 مرتبہ ”اللہ“۔ لطیفۂ قلب پر 10 منٹ اور لطیفۂ روح پر 15 منٹ کا تصور کیا۔ دونوں پر ذکر محسوس ہوا۔ لطیفۂ روح پر ذکر کرتے ہوئے پورے جسم پر اثر محسوس ہوا ایسا لگا جیسے روح آسمان کی طرف گئی تھی۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ لطیفۂ قلب پر 10 منٹ، لطیفۂ روح پر 10 منٹ اور لطیفۂ سر پر 15 منٹ ذکر کریں۔ لطیفۂ سر لطیفۂ قلب سے 4 انگل اوپر اور اس جگہ سے 2 انگل سینے کی طرف ہوتا ہے۔ آپ ایک مہینہ یہ کر لیں۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم حضرت جی۔ عرض ہے کہ میرا ابتدائی ذکر 5 منٹ دل پر، 5 منٹ لطیفۂ روح پر، 5 منٹ لطیفۂ سر پر، 5 منٹ لطیفۂ خفی اور 5 منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر اللہ سننے کا تھا، اس کے علاوہ مراقبۂ احدیت بھی دیا تھا۔ یہ معمول کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے لیکن مراقبۂ احدیت میں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ مجھے مراقبۂ احدیت کا طریقہ ٹھیک سے سمجھ نہیں آ رہا۔
جواب:
آپ مراقبۂ احدیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے ہر وقت فیض آ رہا ہوتا ہے۔ ہمیں اس فیض کا ادراک و احساس ہو یا نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض تو ہر وقت آ رہا ہوتا ہے۔ اس فیض کا سب سے بڑا ذریعہ آپ ﷺ ہیں، یہ فیض سب سے پہلے آپ ﷺ پہ آتا ہے وہاں سے شیوخ پہ آتا ہے۔
اس فیض کے تصور کو مراقبۂ احدیت کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ نے یہ تصور کرنا ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے اس کی شان کے مطابق فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پر اور آپ ﷺ کے قلبِ اطہر سے میرے شیخ کے دل پر اور وہاں سے میرے دل پر فیض آ رہا ہے۔ یہ مراقبۂ احدیت ہے۔ اس کو آپ نے پندرہ منٹ کرنا ہے۔ فیض کا تصور کرنا ہوتا ہے، نور کا یا کسی اور چیز کا نہیں۔ فیض ہر وہ چیز ہے جس سے انسان کو فائدہ ہوتا ہے۔ مثلاً آپ کو نماز کی توفیق ہو رہی ہے تو یہ فیض ہے۔ آپ اچھے ماحول میں خوش رہتے ہیں یہ بھی فیض ہے۔ آپ لوگوں کے کام آ رہے ہیں یہ بھی فیض ہے۔ ساری اچھی چیزیں فیض ہیں۔ مراقبۂ احدیت میں اس فیض کے آنے کا تصور ہوتا ہے۔ اس کے بعد والے مراقبات میں خاص قسم کے فیض کا تصور ہوتا ہے۔ امید ہے اب سمجھ آ گئی ہو گی۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم۔ حضرت جی درج ذیل معمولات کرتے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ۔ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 300 مرتبہ۔
جواب:
باقی معمولات وہی رکھیں صرف ذکر میں ”اللہ“ کے ذکر کی تعداد 3500 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم حضرت جی۔ اللہ پاک آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ پچھلی بار آپ کو علاجی ذکر کی تکمیل کا بتایا تھا، آپ نے کوئی تبدیلی نہیں فرمائی تھی اس لئے ابھی وہی جاری ہے۔
دل میں کچھ سختی سی محسوس ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا۔ پتا نہیں کسی گناہ کا اثر ہے یا کوئی بے احتیاطی ہوئی ہے۔ ذہن گناہ کی چیزوں کی طرف جاتا رہتا ہے۔ اپنا اندر کبھی خالی خالی اور کبھی بوجھل محسوس ہوتا ہے۔ اپنے کام سے متعلق یوٹیوب پر چیزیں دیکھتی ہوں، تصویر کے ساتھ ویڈیوز آتی ہیں تو ہاتھ رکھ کر دیکھ لیتی ہوں۔ استغفار اور دعاؤں کی کمی لگ رہی ہے۔ دعاؤں میں گریہ زاری بھی کم ہو رہی ہے۔ نماز بالکل بے توجہی والی ہوتی ہے۔ رو رو کے اللہ پاک سے عاجزی سے دعا نہیں کر پاتی۔ جہاں نوکری چھوڑنے کا خطرہ لگ رہا تھا وہاں بد تمیزی کی وجہ سے چھوڑنا ہی پڑا۔ وہاں کام کر کے خوش تھی۔ اپنے پسند کے کام سے طبیعت کچھ نہ کچھ ٹھیک رہتی ہے۔ کام چھوڑنے سے دل اداس تھا۔ ذہن میں یہی تھا کہ اس میں بہتری ہو گی۔ پھر اپنے ہسپتال میں وقتی طور پر کام شروع کر دیا کہ کچھ کام کر سکوں وہاں اللہ پاک نے اچھے دوست بھی دے دیئے۔ جس چیز میں فائدہ محسوس ہو شکر کرتی ہوں۔
کچھ دنوں سے یہ مسئلہ ہو رہا ہے کہ وقت تھوڑا جلدی کا ہے اس لئے جلدی جلدی جانا ہوتا ہے۔ نیند کی دوائی دیر سے کھاتی ہوں پھر جاگتی بھی دیر سے ہوں۔ ناشتے کے بعد پہلی ترجیح میں علاجی ذکر کرتی ہوں۔ ذکر ٹھیک ہی رہتا ہے لیکن کچھ دنوں سے مسلسل دیر ہو رہی ہے۔ ذکر کے آخری حصہ مراقبہ میں ذہن الجھ جاتا ہے۔ کام پر جانے کو دیر ہو رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یکسوئی نہیں ہو پاتی۔ اسی حالت میں ذکر کر لیتی ہوں کہ رہ نہ جائے۔ ویسے مسئلہ نہیں لیکن کچھ دنوں سے مسئلہ ہونے لگ گیا ہے کہ وقت کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا۔ طبیعت بیزار سی ہو جاتی ہے۔ اتوار کا بیان اور سوموار کی مجلس سن لیتی ہوں اور جوڑ میں چلی جاتی ہوں۔ اس کے علاوہ کافی سارے گروپ بھی ہیں جن میں بیانات سننے کی توفیق نہیں ہوتی۔ بس معمولات کا ناغہ نہ ہو اس کی فکر رہتی ہے۔ جب کچھ بھی کرنے کا دل نہ کرے تو کسی سہیلی سے مل لیتی ہوں اس پر بھی پریشانی ہو جاتی ہے غلط بات یا غیبت کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ فون پر میسجز وغیرہ پہ باتیں کر لیتی ہوں۔ پھر لگتا ہے کہ دوسروں کا اثر دل میں آ جاتا ہے۔ کون سی ٹھیک ہوں یا متقی ہوں کہ دوسروں کے دل کا اثر نہ ہو۔ فی الحال سمجھ نہیں سکتی کہ کس چیز کو ٹھیک کروں کیا کروں طبیعت بیزار ہوتی ہے۔ حضرت جی دعا فرمائیں اللہ پاک مجھے قبول فرمائے، اپنے راستے میں استقامت نصیب فرمائے اور دنیا کی محبت میرے دل سے نکال دے۔ شاید اسی دنیا کی محبت نے پریشان کیا ہوا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ آپ کو فکر ہے اللہ تعالیٰ اس فکر کو اور بھی مضبوط کر لے۔ یہ تو ہمارا پوری زندگی کا کام ہے اس میں گھبرانا نہیں ہے۔ اس کو اُدھیڑ بن کہتے ہیں، انسان اسی ادھیڑ بن میں لگا رہے اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہے تو خیر ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس چیز پر بہت زور دیتے ہیں کہ اگر انسان کسی معمول کو پورا نہ کر سکے تو کم سے کم آدھا تو نہ چھوڑے۔ حالات و کیفیات کیسے ہی ہوں انسان کو اپنی سی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ کہتے ہیں: ”لگے رہو لگے رہو لگ جائے گی“۔
آپ پریشان نہ ہوں اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو فکر دی ہے یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اس پہ اللہ کا شکر کریں کہ آپ کو فکر ہے اور اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ آدمی کو یہ خیال ہو کہ میں غلط نہ ہو جاؤں کوئی نقصان نہ ہو جائے کوئی اور بات نہ ہو جائے اسی بات کا ڈر اور فکر تقویٰ ہے۔
باقی جو آپ نے کہا کہ گریہ و زاری میں کمی ہو رہی ہے، نماز میں بے توجہی ہو رہی ہے کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔ یہ ساری غیر اختیاری باتیں ہیں۔ جو چیز آپ کے بس میں ہی نہیں ہے اس کی فکر کرنا چھوڑ دیں جو چیز بس میں ہے اس کو قابو کریں اس میں آپ سے سستی نہ ہو۔ جو کچھ بس میں نہیں ہے آپ اس کی بالکل کی پروا نہ کریں۔
آپ کو ذکر میں استقامت سے فائدہ ہو گا اس لئے ذکر کے معمول پر ثابت قدم رہیں۔ اگر آپ سارے بیان نہیں سن سکتی تو کوئی بات نہیں، سارے بیان کون سن سکتا ہے۔ آپ صرف وہ بیان سنیں جو آپ کی پسند کے ہوں، اپنے اوپر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں ورنہ انسان کو زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ زیادہ چیزوں کی طرف دھیان لگانے سے ٹینشن کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ آپ تو خود ڈاکٹر ہیں آپ کو بہت ساری چیزوں کا پتا ہو گا۔ آپ ایسا کریں کہ سوموار اور اتوار کا بیان سن لیا کریں یہ کافی ہے۔ اپنی نیند پوری کرنے کی کوشش کریں یہ زیادہ ضروری ہے۔ اختیاری چیزوں میں سستی نہ کریں اور غیر اختیاری چیزوں کے درپے نہ ہوں اللہ جل شانہ آپ کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم حضرت میں پسرور سے عرض کر رہا ہوں۔ کچھ دنوں سے سبق میں ناغہ ہو گیا ہے۔
جواب:
سبق کون سا تھا یہ بتا دیجئے۔
سوال نمبر9:
(ایک خاتون نے بڑا دلچسپ سوال کیا تھا کہ لطائفِ معصومیہ اور لطائفِ بنوریہ میں فرق کیوں ہے؟ (یہ خاتون چونکہ عالمہ ہیں اس وجہ سے پھر میں نے ان کو جواب دے دیا) سوال یہ تھا:
لطائفِ معصومیہ میں اور لطائفِ بنوریہ میں فرق کیاں ہے اور یہ فرق کیوں ہے۔ ان کو بنوریہ اور معصومیہ کیوں کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
آپ یہ بتائیں کہ حنفی اور شافعی مذہب میں فرق کیوں ہے اور ان کو حنفی اور شافعی کیوں کہتے ہیں؟ جو وجہ فرق کی فقہ میں ہے وہی وجہ فرق کی تصوف میں ہے۔ جس طرح فقہ میں اجتہاد ہوتا ہے اسی طرح تصوف میں بھی اجتہاد ہوتا ہے بلکہ تصوف میں فقہ سے زیادہ اجتہاد ہوتا ہے۔ تصوف جتنا اجتہادی ہے فقہ اتنا اجتہادی نہیں ہے۔ فقہ کا اجتہاد یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک کے پاس الگ دلیل ہوتی ہے اس دلیل کے مطابق اجتہاد کرکے مسئلہ مستنبط کرنا ہوتا ہے جبکہ تصوف کا اجتہاد یہ ہوتا ہے کہ آپ کے سامنے جو آدمی ہے اس کے کیا حالات ہیں، اُس وقت کیا حالات ہیں اور ان حالات میں کیا ہو سکتا ہے۔ اس میں تغیر بہت زیادہ ہے جبکہ فقہ میں نسبتاً تغیر کم ہے۔ تصوف کی ہر چیز میں تغیر ہے ان تغیر کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا اجتہاد نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ تصوف میں بہت زیادہ اجتہاد ہے لیکن لوگ اس کو سمجھتے اور مانتے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ لکیر کے فقیر جیسا معاملہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ لکیر کا فقیر تو فقہ بھی نہیں ہے اس میں بھی اجتہاد کرنا پڑتا ہے تو تصوف میں بدرجۂ اولیٰ اجتہاد کرنا پڑے گا۔ ہاں قرآن مجید اور حدیث شریف میں آپ اپنی طرف سے کچھ شامل نہیں کر سکتے۔ حدیث شریف میں صرف رایوں اور سند کی جانچ کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اس میں کوئی اجتہاد اور کمی یا بیشی نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک فقہ کا تعلق ہے اس میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے، لیکن یاد رہے کہ اس میں بھی کچھ اصول طے ہو چکے ہیں ان میں اجتہاد کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ان میں بھی اجتہاد شروع ہو جائے پھر تو وہ بازیچۂ اطفال بن جائے گا۔ اس لئے فقہ کے معاملے میں طے شدہ اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی ہاں نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد ضرور کیا جائے گا۔ جیسے آج کل بنکوں کے نظام کا مسئلہ درپیش ہے تو اس میں اجتہاد ہو گا۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کی اپنی رائے ہے باقی لوگوں کی اپنی رائے ہے۔ ہم نہ مولانا تقی عثمانی صاحب کی مخالفت کر رہے ہیں نہ ہی دوسروں کی مخالفت کر رہے ہیں، ہم کہتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہیں یہ بھی ٹھیک ہیں۔ فریقین کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔ ہم اس میں کوئی پارٹی نہیں بننا چاہتے۔ البتہ اگر کوئی چیز ہم پر کھل گئی، کوئی چیز ہماری سمجھ میں آ گئی ہم اس سمجھ اور شرح صدر کی وجہ سے کسی ایک کے ساتھ ہو جائیں تو یہ علیحدہ بات ہے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ محترم حضرت یہ کار گزاری اس ہفتے میں 2 مرتبہ پہلے بھی بھیج چکا ہوں۔ نصیحت موصول نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ شئر کر رہا ہوں، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ درج ذیل معمولات چل رہے ہیں:
ذکر:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 100 مرتبہ، ”ھُوْ“ 500 مرتبہ، ”اَللّٰہ ھُو“ 200 مرتبہ۔
”حَقْ اَللّٰہ“ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق اللہ تعالیٰ سے راضی رہ کر ہی ادا کر رہا ہوں اور جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے میں اس پر راضی ہوں۔
مراقبات:
مراقبہ معیت میں تصور کیا کہ اللہ جل شانہ میرے ساتھ ہے جیسا کہ اس کی شان ہے۔ اس تصور میں جتنی یکسوئی آ رہی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس مراقبہ کی مقدار 15 منٹ ہے۔
مراقبہ کے دوران کے احوال:
ایک دن یہ جملے دل و دماغ میں ظاہر ہوئے کہ ”یہ جہاں ہے تمہارے قدموں میں، یہ جہاں ہے تمہاری خواہش“۔
حضرت جی اس کے علاوہ ایک اور حال جس کا بیان کرنا ایسی حیثیت سے صحیح نہیں سمجھتا ہوں مگر آپ کو اطلاع کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک دن مراقبہ کے دوران نظر آیا یا کشف ہوا کہ میں چھوٹا سا بچہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی گود میں لیا ہوا ہے۔ اس سے کچھ دن پہلے ایک خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ ناموسِ رسالت اور سیرتِ النبی ﷺ کانفرنس ہو رہی تھی میں بھی اس کا ممبر تھا۔ اس کانفرنس کے صدر نے کچھ نعتیہ اشعار پڑھے۔
میرے محبوب نبی کریم جس بزم میں ہو بزم میرے محبوب کا وہ بزم ہے میرا بزم ہے جس بزم میں ہو بزم میرے محبوب کا وہ بزم میرا بزم ہے
یہ جملے مجھے یاد رہ گئے۔ اس طرح کے اشعار میں نے پہلے کبھی نہیں سوچے تھے اور نہ ہی سنے تھے۔
آپ کی اجازت سے 1 کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اللہ کے فضل سے روزانہ 10 سے 13 ہزار مرتبہ درود پڑھنے کی توفیق ہوئی۔ الحمد للہ اب تک 98 لاکھ پورے ہو گئے ہیں۔
دوسرا مراقبہ یہ کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طریقے پہ نبی کریم ﷺ کی شریعت پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں ان شاء اللہ اس پر چل کر دکھاؤں گا۔ اس کی مقدار 10 منٹ ہے۔
غیبت، جھوٹ اور بد نظری پر کنٹرول کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور آپ کے فیض کی وجہ سے جھوٹ سے بچا رہا۔ الحمد للہ نظر کی حفاظت کے لئے کوشش کر رہا ہوں۔ مخلوط ماحول کی وجہ سے نتیجہ 98 فیصد رہا۔ غیبت پر 100 فیصد control کا یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر کوئی قابل بیان غیبت نہیں کی ہاں ملکی اور قومی شخصیات کے بارے میں وہ باتیں جو شاید مصلحتاً ان کے سامنے نہ کر سکوں، مکمل کنٹرول کے لئے دوسروں کی موجودگی میں ان پہ رائے دینے سے بھی رکا رہا ہوں۔ غصے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً کنٹرول ہے۔ حضرت رہنمائی اور نصیحت کی درخواست ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ آپ پہلے ہی کافی معمولات کر رہے ہیں، یہ معمولات کرتے رہیں اور ان کے ساتھ اگر آپ پہ بوجھ نہ ہو تو 10 منٹ کے لئے مراقبۂ دعائیہ بھی کیا کریں۔ اور اس میں امت کے حالات کو سامنے رکھ کر اللہ پاک سے دعا کریں کہ اللہ پاک امت کو فتنے سے بچائے، آج کل کے دور میں نئے نئے فتنے آ رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے ہم سب کو بچائے، ہمارے سلسلے کو بھی دعا میں یاد رکھیں لیکن اس دعا میں آپ کی زبان سے کوئی الفاظ نہیں نکلنے چاہییں ساری دعا دل ہی دل میں ہو۔ اسی کو مراقبۂ دعائیہ کہتے ہیں۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔ میرا تعلق شکر گڑھ سے ہے اور میں نے ایم اے اسلامیات، اردو کیا ہوا ہے۔ میں حضرت شاہ صاحب سے ذکر لینا چاہتی ہوں براہِ مہربانی رہنمائی فرما دیں۔ میں تین اذکار پہلے سے کر رہی ہوں۔ استغفار، درودِ ابراہیمی، ”لَا حَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“۔
ایک خواب عرض ہے۔ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں روضہ رسول ﷺ اور خانہ کعبہ دیکھتی رہتی ہوں۔ ایک دفعہ روضۂ رسول ﷺ پر جالیوں کے اندر بیٹھی ہوئی تھی۔ جیسے کسی مزار کی قبر کے گرد جالی ہوتی ہے۔ اچانک ایک چنگاری روضۂ اقدس پر پڑی دیکھتی ہوں تو پریشان ہوتی ہوں سوچتی ہوں اس چنگاری کو بجھا دیتی ہوں چاہے میرا ہاتھ بھی جل جائے۔ اس کے بعد روضہ کی گلابی مٹی سے چنگاری بجھا دیتی ہوں اور ایک لائن میں ہمارے نبی کریم ﷺ کا روضہ سب سے اوپر اور پھر حضرت نوح علیہ السلام کا روضہ اور دو اور نبیوں کا روضہ مبارک دیکھتی ہوں۔ ساتھ نبی کریم ﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ بنی تھی۔
میں زیادہ تر سچے خواب دیکھا کرتی ہوں۔
جواب:
آپ جو ذکر پہلے سے کر رہی ہیں اسے جاری رکھیں البتہ یہ جو ذکر ہے، 300 دفعہ ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ ِللهِ وَ لَاۤ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَ اللهُ أَکْبَر“ اور 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ“، اس کو ایک نشست میں کوئی وقت مقرر کر کے روزانہ بلا ناغہ کرتی رہیں۔ جب 40 دن پورے ہو جائیں تو پھر مجھے اطلاع کر دیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل اذکار عمر بھر کے لئے ہیں انہیں آپ نے ان شاء اللہ ساری عمر کرنا ہے۔
ہر نماز کے بعد 33 دفعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہ“، 33 دفعہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہ“، 34 دفعہ ”اَللّٰہُ اَکْبَر“، 3 دفعہ کلمہ طیبہ، 3 دفعہ درودِ ابراہیمی، 3 دفعہ استغفار اور 1 مرتبہ آیت الکرسی۔
پہلے والا ذکر صرف 40 دن تک کرنا ہے، اور جن دنوں میں خواتین نماز نہیں پڑھ سکتی ہیں ان دنوں میں بھی اس ذکر کا ناغہ نہ کریں، کیونکہ ان دنوں میں نماز منع ہوتی ہے مگر ذکر پہ کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ اس کو 40 دن بلا ناغہ مکمل کر کے مجھے بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم مرشد،
فلاں From Singapore:
We hope you and your family members are doing well!
Myself ذکر:
200 400 600 and 2500. I have been able to do my ذکر and مراقبہ. Still I am trying to listen to منزل audio but my body feels heavy and lethargic.
Number 2:
Special ذکر
”یَا وَدُوْدُ، یَا سَلَامُ، یَا رَحِیْمُ، یَا رَحْمٰنُ، یَا غَفُوْرُ“
111 times.
الحمد للہ I have been able to maintain reciting this اسماء الحسنیٰ
ان شاء اللہ I’ll keep trying to correct myself مرشد.
My wife:
مراقبۂ قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ
10 minutes each. مراقبہ special فیض of صفاتِ ثبوتیہ for 15 minutes from اللہ سبحانہ تعالیٰ to the heart of our prophet محمد ﷺ and from there to the heart of my مرشد and to my لطیفۂ روح. Special ذکر:
”اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُكَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ“ 313
”یَا وَدُوْدُ، یَا سَلَامُ یَا رَحِیْمُ یَا رَحْمٰنُ یَا غَفُوْرُ“ 111 times
Condition:
الحمد للہ مرشد I am still reading the قرآن daily and waking up regularly to perform my تہجد prayers. الحمد للہ مرشد I am still feeling very much at peace and lot of gratitude towards اللہ الحمد للہ.
Older son current عمل:
200, 400, 600, 500
Condition:
He does not have any feelings at this time.
Second son current عمل:
200, 400, 600 and 2000 and 5 minutes thinking his heart is saying اللہ اللہ.
Condition:
He said he is still not feeling anything different.
Eldest daughter current عمل:
اللہ in tongue 2500 and مراقبہ اللہ in قلب 15 minutes.
Condition:
Nowadays, she still feels a sense of calmness.
Youngest current عمل:
اللہ in tongue 2500 مراقبہ اللہ in heart 15 minutes.
Condition:
She said recently she has started feeling spiritually closest to اللہ.
جواب:
سبحان اللہ very good
So you should do at least 100, 100, 100 and 1000 times ذکر. You should do this and you can continue the remaining but you should do this ذکر at least this much. Your wife you should do at least 100, 100 and 1000 and the rest you will do the same and your wife, she should do now شیوناتِ ذاتیہ on لطیفۂ سر of فیض and special ذکر. You can continue all other things as it is . For the oldest son, he should do 200, 400, 600 and 1000 and the other son he should do 200, 400, 600 and 2500 and for the eldest daughter, she should do it from tongue 3000 times اللہ اللہ and the youngest, she should do also 3000 times. So ان شاء اللہ it’s enough now.
سوال نمبر13:
السلام علیکم حضرت میں برونائی سے عرض کر رہا ہوں۔ آپ سے ایک ذاتی مسئلے میں رہنمائی درکار ہے۔ مجھے یونیورسٹی کی طرف سے Phd کی پڑھائی کے لئے سکالر شپ کے طور پر کچھ رقم ملتی ہے جو میں اہل و عیال کو بھیجتا ہوں۔ یہاں برونائی میں مجھے ایک ٹیوشن مل رہی ہے ایک پاکستانی صاحب کے بیٹے کو کچھ دن امتحان کی تیاری کروانے کے لئے گھر میں پڑھانا ہے جس کے عوض وہ کچھ معاوضہ دیں گے۔ سننے میں آیا ہے کہ سٹوڈنٹ ویزا پر کسی ملک میں جائیں تو وہاں ایسا کوئی کام کرنا منع ہوتا ہے مگر میرے سکالر شپ ایگریمنٹ لیٹر میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے۔ Immigration Dependent کی ویب سائٹ پر بھی مجھے ایسا کچھ نہیں ملا۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں ان کے بیٹے کو پڑھا سکتا ہوں؟
جواب:
ان شاء اللہ I shall consult some مفتی صاحب in this regard and than I shall tell you.
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے آپ سلامت رہیں۔ اللہ پاک کے فضل و کرم اور آپ کی برکت سے میرا 40 روزہ تکبیر اولیٰ والا چلہ مکمل ہو گیا ہے۔ الحمد للہ ہر موقع پر اللہ پاک کی مدد میرے شامل حال رہی۔ ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کہ کس طرح مجھ سے یہ چلہ پورا ہو گیا۔ اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ آمین۔
جواب:
ماشاء اللہ۔ اللہ پاک نے آپ کو توفیق دے دی۔ اس کے لئے 2 رکعت صلوٰۃ شکرانہ پڑھیں اور اسے جاری رکھنے کی کوشش کریں
سوال نمبر15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
نمبر 1:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو لطیفۂ قلب اور روح 10 منٹ اور لطیفۂ سر 15 منٹ کا دے دیں۔
نمبر 2:
لطیفۂ قلب 15 منٹ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب اس کو لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ کا دے دیں۔
نمبر 3:
لطیفۂ قلب 10 منٹ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اب اس کو 15 منٹ کا لطیفۂ قلب بتا دیں۔
نمبر 4:
اسم ذات کا زبانی ذکر 1500 مرتبہ۔
جواب:
اب ان کو 2000 مرتبہ دے دیں۔
نمبر 5:
ایک طالبہ کا ذکر 65 منٹ ہے۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ ثبوتیہ 15 منٹ۔ اس طالبہ کو بواسیر کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے زیادہ دیر ذکر کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس طالبہ نے وظیفے کا وقت کم کرنے کی درخواست کی ہے۔
جواب:
ذکر کے لئے وضو لازم نہیں ہوتا اور یہ طالبہ معذور ہے لہٰذا یہ بغیر وضو بھی ذکر کر سکتی ہے کوئی حرج نہیں۔
سوال نمبر16:
Question from an عالم!
السلام علیکم حضرت
Can you please explain why there are no سلسلہ going back to other صحابہ? Can you please explain in urdu how حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ is also in نقشبندی طریقہ بیعہ because we always thought this سلسلہ uniqueness is that it has two صحابہ in it,
سیدنا ابو بکر اور سیدنا سلیمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہما
جواب:
آپ کی یہ فکر بڑی اچھی ہے۔ جو صحابۂ کرام کا کام ہے وہ کوئی کم تو نہیں ہے۔ جیسے ہم لوگ کہتے ہیں کہ کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ مجھے خلافت ملے کیونکہ یہ تو اپنی تجویز دینے والی بات ہو گئی اللہ پاک کی رضا پہ راضی ہونا نہ ہوا۔
صحابۂ کرام اس چیز میں بہت زیادہ خیال رکھتے تھے، وہ اپنی طرف سے کچھ تجویز نہیں کرنا چاہتے تھے ان کی ساری مرضی اللہ کی منشا پر منحصر ہوتی تھی۔
اللہ پاک نے خاص قسم کا کام اس امت تک پہنچانا تھا اس کے لئے اللہ کی طرف سے تشکیل ہو گئی اور اس کام کے لئے حضرات ابو بکر صدیق اور علی کرم اللہ وجہہ کا انتخاب ہو گیا۔
اصل میں تو سب سلسلے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر منتہی ہوتے ہیں لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک شاخ کے واسطے سے نقشبندی سلسلے کے جد امجد بنتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کے دفتر سوم میں مکتوب نمبر 123 بڑی وضاحت سے لکھا ہے۔ نقشبندی سلسلۂ بیعت کا تعلق بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، ان کے اہلِ خانہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ان کی اولاد میں یہ سلسلہ چلا ہے، وہاں سے ہوتے ہوئے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا وہاں سے پھر باقی جگہوں پہ تقسیم ہوا ہے۔
جب یہ سلسلہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا تب اس کا تعلق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی جڑ گیا۔ کیونکہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا ننھیال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تھا۔ اس طرح اس سلسلہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیض بھی آ گیا۔
آج کے دور میں صورت حال یہ ہے کہ سارے سلسلے آپس مل جل گئے ہیں۔ اب یہ فیض سب ہی کے پاس ہے۔ اس لئے ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کون سا سلسلہ زیادہ افضل ہے۔ خود مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معاملہ دیکھیں وہ نقشبندی بھی تھے، قادری بھی تھے، چشتی بھی اور کبروی بھی تھے۔ اس طرح شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور کئی دوسرے اکابر کے پاس تمام سلسلوں کی نسبت ہے۔ اس لئے اب اس افضل و مفضول کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے، کیونکہ اب سارے سلسلے آپس میں intermix ہو گئے ہیں۔
اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اصل تعلیم کو دیکھنا چاہیے، مزاج کو دیکھنا چاہیے جس کا جو مزاج ہو اس کے مزاج کے مطابق اس کی تربیت ہونی چاہیے۔ تربیت سلسلوں کے اوپر منحصر نہیں ہوتی بلکہ سالک کے مزاج پہ منحصر ہوتی ہے۔ جیسے میں چشتی بزرگ کا مرید ہوں میرے شیخ کی نسبت چشتی تھی لیکن اُن کو اندازہ ہو گیا کہ میری نسبت نقشبندی ہے۔ حضرت نے مجھے بڑی دعائیں دیں اور فرمایا کہ اللہ پاک آپ کی نسبت میں بہت برکت دے اور نقشبندی فیض بہت زیادہ دے۔
اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کا شیخ چشتی ہو تو ضروری نہیں کہ وہ چشتی فیض ہی پھیلائے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے سسٹم ایسا بنا دیا کہ ایک چشتی بزرگ سے نقشبندی فیض دلوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے تو کوئی چیز مشکل اور ناممکن نہیں اور اب ایسا ممکن ہے اس لئے کہ اب سارے سلسلے مل جل گئے ہیں، ایک سلسلے سے دوسرے سلسلے کو فیض مل سکتا ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ یہ دونوں حضرات چاروں سلسلوں میں مجاز بیعت و خلافت تھے۔ اس لئے ان کے مریدین میں نقشبندی فیض بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میرا اللہ اللہ کا ذکر 5000 مرتبہ ہے۔ دل پر ”اللہُ اللہ“ 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ لطیفۂ روح پر پوری توجہ نہیں ہوتی۔ یہ معمول کرتے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔
جواب:
آپ 5500 مرتبہ ”اللہُ اللہ“ کریں باقی معمولات وہی کرتی رہیں جو پہلے کر رہی ہیں۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم۔ حضرت جی میرے بھتیجے کا ذکر 200، 400، 600 اور 2000 ہے۔
جواب:
اب اس کو 2500 کا بتا دیں۔
سوال نمبر19:
بھابھی کا ذکر 2000 مرتبہ ”اللہُ اللہ“ ایک مہینے کے لئے مکمل ہو گیا ہے۔ 10 منٹ کا مراقبہ دل پر اور 15 منٹ کا لطیفۂ روح پر ہے۔ دل میں اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے۔ لطیفۂ روح پر بھی محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔
جواب:
اب ان کو 10 منٹ دل کا، 10 منٹ لطیفۂ روح کا اور 15 منٹ لطیفۂ سر کا بتا دیں اور ساتھ 2000 مرتبہ ”اللہُ اللہ“ کا بتا دیں۔
سوال نمبر20:
حضرت جی اگر اللہ پاک حرمین شریفین میں جانے کی توفیق عطا کریں تو وہاں حرمِ مکہ اور حرمِ مدینہ میں کون سا مراقبہ کرنا چاہیے؟
جواب:
جن کے مراقبات جاری ہوتے ہیں ان کا مراقبہ ان کے حال کے مطابق ہوتا ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی رحمت آتی ہے وہ سب سے پہلے خانہ کعبہ پہ اترتی ہے پھر وہاں سے پورے عالم میں جاتی ہے۔ انسان جب خانہ کعبہ کے سامنے ہو اور اسے دیکھ رہا ہو تو یہ تصور کرے کہ جو رحمت خانہ کعبہ پہ اتر رہی ہے اس رحمت کی ایک آبشار میری طرف بھی آ رہی ہے۔ اسی تصور میں آنکھیں بند کر کے بیٹھا رہے۔ اگر کسی کا ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ کا ذکر قلبی جاری ہو تو زیادہ بہتر ہے کہ وہ کرے ورنہ زبان سے بھی کر سکتا ہے۔
یہ مکہ کے حرم کی بات تھی اور حرم مدنی میں تو سب سے اہم کام صلوۃ و سلام ہے۔ جب بھی موقع ملے تو یہی پڑھتا رہے: ”اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ“۔ مسجد نبوی میں ہم جس جگہ بیٹھ کر بھی درود شریف پڑھیں آپ ﷺ سنتے ہیں۔ اس لئے آپ مسجد نبوی میں جہاں بھی بیٹھے ہوں تو ان کلمات کا ورد کرتے رہیں:
”اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ۔ اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ“۔
جتنا زیادہ ممکن ہو درود شریف اور صلوۃ وسلام کا سلسلسہ جاری رہے اور قرآن پاک کی تلاوت کرکے ایصال ثواب کرتے رہیں۔
سوال نمبر21:
حضرت مجھے درج ذیل معمول دیا گیا تھا جسے کرتے ہوئے ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 500 مرتبہ۔ اس کے علاوہ 10 منٹ کا ذکر لطیفۂ قلب پر اور لطیفۂ روح پر 15 منٹ کا پر ملا تھا۔
لطیفۂ قلب پر ذکر محسوس ہوتا ہے البتہ لطیفۂ روح پوری کوشش کروں تو محسوس ہوتا ہے ورنہ بہت کم ہوتا ہے۔
جواب:
باقی معمولات وہی رکھیں لیکن لطیفۂ روح پہ اب 20 منٹ کریں تاکہ یہ بڑھ جائے اور زیادہ چل پڑے۔
سوال نمبر22:
اگر آدمی مراقبہ کر رہا ہو تو مراقبہ کے اصول کیا ہیں۔ مثلاً آدمی کہیں گھر میں بیٹھا ہوا مراقبہ کر رہا ہے۔ درمیان میں کسی کو کوئی بات کہہ دی یا کسی نے کوئی بات پوچھی اور اس مراقبہ کرنے والے نے اشارے سے ہاں یا نہ میں جواب دیا یا ایک آدھ لفظ بول دیا۔ کیا مراقبہ جاری رکھے یا دوبارہ شروع سے کرنا چاہیے؟
جواب:
مراقبہ تو یقیناً جاری رہے گا البتہ اس کا اثر کم ہو جائے گا۔ یہ بات کئی مرتبہ سمجھائی گئی ہے کہ مراقبہ کے لئے ایسا وقت منتخب کرنا چاہیے جس میں کسی قسم کی رکاوٹ کا امکان بہت ہی کم ہو۔ جس مراقبہ میں جتنی کم رکاوٹ، کم ڈسٹریکشن اور کم ڈسٹربنس ہو گی اس کا اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔ اسی طرح بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر ایک مراقبہ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا، مثلاً 20 منٹ کا مراقبہ ہے تو دس منٹ صبح کر لے دس منٹ شام کر لے تو اس سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟ اس بارے میں بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر ڈاکٹر نے ایک دوا کے بارے میں کہا ہو کہ دو گولیاں صبح کھانی ہیں اور دو شام تو کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ ایک گولی صبح کھا لیں، ایک دوپہر، ایک عصر اور ایک رات کو؟ ظاہر ہے اگر ایسا کریں گے تو بجائے فائدہ کے نقصان ہو گا۔ مراقبہ کا بھی یہی معاملہ ہے جتنا مراقبہ جتنے وقت کے لئے دیا گیا ہو اسے اتنے ہی وقت میں ایک بار میں مکمل کریں، تب فائدہ ہوگا۔
سوال نمبر23:
حضرت! آپ کی طرف سے جو ذکر دیا جاتا ہے، یہ دی گئی مقدار سے زیادہ کر سکتے ہیں؟
جواب:
بالکل نہیں۔ یہ علاجی ذکر ہے اور علاج کے دوران دوا اتنی ہی لینی چاہیے جتنی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہو، لہٰذا علاجی ذکر جتنا بتایا جائے اتنا ہی کیا جائے نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ البتہ ثوابی ذکر کو انسان بڑھا سکتا ہے۔ ہم ثوابی ذکر کے بارے میں اکثر بتاتے ہیں کہ صبح سے دوپہر تک جتنا زیادہ ممکن ہو کلمہ طیبہ پڑھے، دوپہر سے مغرب تک درود شریف اور مغرب سے سونے تک استغفار پڑھے جتنی زیادہ تعداد میں ممکن ہو سکے پڑھ لے، کوئی حد نہیں۔ اس کے علاوہ تلاوت بھی جتنی چاہے کر سکتے ہیں۔ لیکن علاجی ذکر دی گئی مقدار سے نہ کم ہونا چاہیے اور نہ ہی زیادہ ہونا چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ