عسکری اداروں میں دینداری کے فروغ کے لیے کون سے اصول یا حکمت عملی اپنانا چاہیے تاکہ اس مقصد کو مؤثر طریقے سے حاصل کیا جا سکے؟

سوال نمبر 315

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان





اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

کل آپ نے عسکری اداروں میں دین داری کے فروغ کے لئے ایک مفروضے کو سامنے رکھ کر کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت فرمائی تھی اور وہ مفروضہ یہ تھا کہ جو top leaders ہیں وہ ٹھیک ہیں دوسرا مفروضہ یہ کہ top leaders خراب ہیں اور جو نچلا طبقہ ہے ان میں چند ٹھیک ہیں۔ اب ان کو کیسے کام کرنا ہو گا اور مفروضے کو سامنے رکھ کر کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

سب سے پہلی یہ بات کی گئی تھی کہ top leaders خراب ہیں اور نیچے والا طبقہ ٹھیک ہے۔ لیکن top leaders کے اوپر بھی کوئی ہے؟ جی بالکل! top leaders کے اوپر اللہ پاک ہے، لہذا ان top leaders کے لئے اللہ کو نہیں بھلایا جا سکتا۔ لہذا اس چیز کو یاد رکھیں "لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِىْ مَعصِيَةِ الْخَالِقِ" (مصنف لابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 34406) یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں خالق کی نا فرمانی ہو، جائز نہیں ہے، یہ واضح بات ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

ڈاکٹر انعام الرحمن صاحب اگرچہ وہ بہت اچھے آدمی ہیں لیکن بعض دفعہ انسان نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوتی ہے، ایک دفعہ شاید وہ مجھے آزمانا چاہتے تھے واللہ اعلم بالصواب، میں back bencher تھا، پیچھے بیٹھا ہوا تھا، وہ Nuclear Engineering کے subject پہ Cost Economics کے سوالات حل کر رہے تھے، چونکہ Cost Economics میں سود وغیرہ بھی ہوتا ہے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا سود جائز ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ تو کہنے لگے: ہمیں تو کرنا پڑتا ہے، میں نے کہا: پوچھا کیوں ہے؟ نہ پوچھتے۔ اگر مجھ سے پوچھیں گے تو میں وہی جواب دوں گا جو شریعت کے مطابق ہو گا۔ در اصل یہاں لوگ slip ہو جاتے ہیں ایک چھوٹا سا لفظ ہے Yes sir یہ آپ کو تباہی کے دہانے پہ پہنچا دے گا، بس آپ تھوڑا سا ہاں میں ہاں ملائیں تو بس آپ کا کام ہو جائے گا، اس وقت ایمان کی آزمائش ہوتی ہے اگر بول نہیں سکتے ہو تو چپ تو رہ سکتے ہو، ہاں میں ہاں کیوں ملاتے ہو؟ برائی کو روکنے کے تین درجے ہیں ایک درجہ عملاً کسی برائی کو روکنا ہے جو حکومت کا کام ہے، in power لوگوں کا ہے یہ وہی کر سکتے ہیں جن کا رسوخ ہو، جن کی power ہو۔ دوسرا درجہ زبان سے برا کہنے یا اس کے بارے میں نصیحت کرنے کا ہے، یہ علماء اور اچھے لوگوں کی شان ہے کہ وہ اس بات کو پہنچائیں اور جس کو کسی حیثیت سے اس کی قوت حاصل ہو وہ اس سے یہ کام انجام دیں۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں کام نہیں ہو سکتے تو دل سے اس کو برا سمجھیں اور اس کو اضعف ایمان فرمایا گیا ہے یعنی یہ کمزور ایمان ہے۔ اب ہاں میں ہاں ملانا کس میں آئے گا؟ کیونکہ اگر کمزور ایمان بھی نہیں ہو گا تو پھر کیا ہو گا؟ اس لئے یہ خطرناک بات ہے۔ لہذا اس صورت میں انسان کم از کم خاموش تو رہ سکتا ہے، ہاں میں ہاں کیوں ملاتا ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ البتہ اچھے لوگوں کو میدان سے بھاگنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ مواقع ملتے رہتے ہیں۔ جیسے کل میں نے قدرت اللہ شہاب کی مثال دی تھی کہ ایوب خان اپنی تقریر میں اپنے thoughts وغیرہ بیان کر رہے تھے تو ایک مرزائی senior officer اٹھا اور کہنے لگا کہ sir آپ کی یہ زبردست تحقیقی باتیں تو پیغمبرانہ شان کو touch کر رہی تھیں، تو قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں میں نے سوچا کہ کہیں ایوب خان اس میں لڑھک نہ جائے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کو صحیح سمجھ لے اور خود کو ایسا ہی سمجھنے لگے۔ جیسے اکبر نے کیا تھا، کیونکہ اکبر کو بھی اسی طرح خراب کیا گیا تھا۔ تو قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ میں نے بھی اسی کی طرح عقیدت کے ساتھ اٹھ کر سینے پہ ہاتھ رکھ کر کہا کہ sir ان کی باتوں میں نہ آئیں، یہ آپ کو خود ساختہ پیغمبروں کی باتوں کی طرف لے جا رہے ہیں۔ چنانچہ پھر آپس میں ہماری تو تو، میں میں بھی ہوئی۔ لیکن کہتے ہیں کہ ایوب خان نے پھر ہمیں آپس میں ہاتھ ملانے کے لئے کہا اور اس طرح بات کو ختم کیا۔ چنانچہ یہاں قدرت اللہ شہاب نے اپنا کام کر لیا، اور صحیح طریقے سے کیا اور وہ یہی کر سکتے تھے۔ اس کی مثالیں بھی موجود ہیں اور لوگ ایسے کرتے ہیں، ہر جگہ انسان کو راستہ ملتا ہے صرف بات کرنے کا ڈھنگ ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگنی چاہیے اور اچھے طریقے سے بات کرنی چاہیے اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر کم از کم چپ ہونا چاہیے۔ ایک بہت بڑے افسر نے مجھے مشورے کے لئے بلایا اور مجھے کہا کہ آپ مجھے ایک مشورہ دیں، میں LPR پہ جانا چاہتا ہوں کیونکہ کچھ لوگ مجھے غلط کاموں کے لئے use کرنا چاہتے ہیں یعنی وہ ان سے بھی بڑے لوگ تھے۔ تو میں ایسا کرنا نہیں چاہتا لہذا میں ایک سال پہلے ہی جا رہا ہوں LPR پہ، کیا اس پہ عمل کروں یا نہ کروں؟ اب میں بہت چھوٹا سا آدمی تھا تو میں نے کہا sir یہ آپ نے بہت بڑا مشورہ مجھ سے مانگا ہے اور میرا قد اتنا نہیں ہے کہ میں اس کے بارے میں کچھ کہہ سکوں، اگر آپ مجھے موقع دیں تو میں اپنے شیخ سے کچھ consult کر لوں؟ انہوں نے کہا اگر یہ ہو جائے تو اور بھی اچھی بات ہو جائے گی۔ تو میں پشاور حضرت کے پاس چلا گیا، حضرت کو میں نے ساری بات عرض کر دی، حضرت نے فوراً فرمایا: ان کو کہو کہ اپنی کرسی سے نہ ہٹو، جتنا موقع بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اسے avail کرو، جو صورت حال آپ بتا رہے ہیں اس میں آپ کو use نہیں ہونا چاہتے اور وہ use کرنا چاہتے ہیں تو آپ use کو minimize کر سکتے ہیں، کیونکہ آپ کا ارادہ اس میں شامل نہیں ہے اور اگر آپ ایک سال پہلے چلے گئے تو اس ایک سال کے عرصے میں جو بھی اور شخص آئے گا وہ اگر ان کے مزاج کے مطابق ہوا تو وہ خود بھی وہی چاہے گا تو نہلے پہ دہلے والی بات ہو جائے گی، وہ بھی خرابی چاہتے ہوں گے یہ بھی خرابی چاہتا ہو گا تو مزید خرابی ہو جائے گی، لہذا اپنی seat کو نہ چھوڑیں۔ میں نے آ کر ان صاحب کو اطلاع کر دی، انہوں نے کہا بہت شکریہ۔ اور پھر وہ ایک سال مزید رہے۔ یہ ہوتا ہے طریقہ، یہ ہوتی ہے فکر۔ چنانچہ یہ تھی مولانا صاحب کی فکر۔

ایک دفعہ مجھے بھی امتحان میں ڈال دیا گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے کہا: آپ کو subordinate کی ضرورت ہے، میں نے کہا جی sir۔ کہنے لگے یہ ایک لڑکی ہے اور ایک غلط عقیدے کا آدمی ہے ان میں سے آپ کسی ایک کو چن لیں، تو میں حیران ہو گیا کہ عجیب بات ہے، ایک طرف لڑکی ہے دوسری طرف بد عقیدہ آدمی ہے۔ اب میں کیا کروں، تو میں نے کہا: مجھے آپ ذرا سوچنے کا موقع دیں گے؟ کہنے لگے: ہاں ٹھیک ہے دو تین دن آپ سوچ لیں، پھر مجھے بتائیں، تو میں نے یہاں کے local لوگوں سے پوچھا، انہوں نے کہا اوہو! sir ہو سکے تو بد عقیدہ آدمی کو بالکل نہ لیں، ایسا ہو جائے گا ایسا ہو جائے گا۔ یہ سوچ کی بات ہے۔ میں سیدھا حضرت کے پاس چلا گیا اور ان سے میں نے consult کیا کہ حضرت یہ مسئلہ ہے کیا کروں؟ فرمایا: یہ جو بد عقیدہ لڑکا ہے جس کو آپ select کریں گے یہ پہلے سے selected ہے یعنی آپ کے لینے نہ لینے سے یہ نہیں ہے کہ آپ اس کو recruit کر رہے ہیں بلکہ recruited ہے۔ چونکہ حضرت بھی پروفیسر تھے تو وہ ان چیزوں کو جانتے تھے تو پوچھا کہ already recruited ہے؟ میں نے کہا جی ہاں already requited ہے۔ اگر میرے پاس نہیں ہو گا تو کسی اور کے ساتھ ہو گا، انہوں نے کہا پھر آپ اس کو لے لیں، کیونکہ بد عقیدہ شخص اس وقت خطرناک ہو گا جب وہ top پہ ہو گا کیونکہ ایسی صورت میں subordinate آپ ہوں گے تو وہ آپ کے لئے خطرناک ہوتا، کیونکہ وہ آپ کو lead کرے گا۔ اب چونکہ آپ اس کو lead کریں گے تو اس کے شر کو کم کر سکتے ہیں۔ اگر کسی اور کے پاس جائے گا تو اور مسئلہ ہو جائے گا۔ اور لڑکی اس وقت خطرناک ہوتی ہے جب وہ subordinate ہوتی ہے۔ اس لئے آپ وہ لڑکی نہ لیں بلکہ لڑکا لے لیں۔ تو پھر میں نے وہ لڑکا لے لیا، اور کافی عرصہ میرے ساتھ رہا۔

میرا مقصد یہ ہے کہ یہ سوچنے کی باتیں ہیں، ہر انسان اپنے وقت پہ بہتر سوچ سکتا ہے اور اس کے مطابق عمل کر سکتا ہے، انسان کو broiler کی طرح نہیں بننا چاہیے کہ اپنی گردن ڈال دے کہ مجھے ذبح کر دو، کچھ resist کریں، ایسے نہ بنیں کہ آپ کے اوپر جو چھری پھیرنا چاہے پھیر لے۔ "لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِىْ مَعصِيَةِ الْخَالِقِ" (مصنف لابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 34406) کو یاد رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ تو کریں کہ اگر آپ کے پاس موقع نہیں ہے اور حالات ساز گار نہیں ہیں تو خاموشی اختیار کریں۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: "مَنْ صَمَتَ نَجَا" (ترمذی شریف، حدیث نمبر 2501) "جس نے خاموش اختیار کر لی اس نے نجات پائی" اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ جل شانہ کی مرضی کے مطابق ایک ایک لمحہ ایک ایک پیسہ اور جسم کے ایک ایک عضو کا استعمال کرنے کی توفیق عطا فرما دے اور ہماری اولاد کو بھی۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ