عسکری اداروں میں دیانتداری و حوصلہ کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟

سوال نمبر 314

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان





اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

کل آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنی عسکری قوت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ قوم کا moral بلند کرنا چاہیے اور عسکری اداروں میں کام کرنے والوں میں دیانتداری، حوصلہ اور دین پر استحکام کو فروغ دینا چاہیے۔ یہ ساری باتیں ہم میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں، لیکن ان کی عملی ترتیب سے ہم کافی حد تک نا واقف ہیں۔ عملی طور پر ان سب کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کون سا کام کس کی ذمہ داری ہو گی؟ یعنی قوم کا moral بلند کرنے کے لئے اپنے علماء کو کام کرنا ہو گا، مشائخ کو کرنا ہو گا، سیاسی حضرات کو کرنا ہو گا، یا کسی اور شعبے نے یہ کام کرنا ہو گا؟ اسی طرح عسکری اداروں میں مختلف قسم کے لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے ہر ایک کے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں جو دین پھیلانے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، چنانچہ اگر اس قسم کے اداروں میں کوئی دینداری کو فروغ دینا چاہے تو چونکہ اس کے ارد گرد ماحول ساز گار نہیں ہوتا لہذا کام کرنا مشکل ہوتا ہے، ایسی صورت میں کس انداز سے کام کرنا چاہیے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں؟

جواب:

سوال کافی مشکل ہے کیوں کہ یہ چیزیں آپس میں کافی inter related قسم کی ہیں جن کو علیحدہ علیحدہ بھی discuss کرنا ہوتا ہے اور پھر ان کو مجموعی طور پر بھی discuss کرنا ہوتا ہے، مثلاً سب سے پہلے ہم assume کرتے ہیں کہ جو top thinkers اور top leaders ہیں وہ صحیح ہیں، ان کو کیا کرنا ہو گا؟ اور دوسری صورت میں ہم یہ کہتے ہیں کہ top leaders صحیح نہیں ہیں لیکن جو نیچے کے لوگ ہیں ان میں سے چند ایک ٹھیک ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں؟ گویا یہ دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔ لہذا اگر top leaders صحیح ہوں تو ان کے لئے guideline یہ ہو سکتی ہے چونکہ عموماً وہ آرمی میں خطیب ہوتے ہیں تو وہ صحیح خطبیوں کا انتخاب کریں جن کی تربیت بھی ہو چکی ہو اور وہ پھر جمعہ کے خطبوں میں اور مختلف قسم کی ceremonies میں یہ چیزیں ہمارے عسکری اداروں کے لوگوں میں promote کریں اور وہ اس پر کام کریں۔ کیونکہ خطیب حضرات اسی لئے appoint کئے جاتے ہیں کہ ان سے اپنی دینی ضروریات کی توقع کی جاتی ہے۔ البتہ دو باتیں ضروری ہیں، ایک تو ان خطیب حضرات کو status دینا تاکہ وہ جرأت کے ساتھ بات کر سکیں اور صحیح بات کر سکیں، دب کے نہ رہیں، یہ بھی ضروری ہے۔ دوسرا ان خطیب حضرات کو بھی چاہیے وہ کہ اس status کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کریں، بلکہ دین کے تحفظ کے لئے استعمال کریں۔ میں آپ کو اس کی ایک اپنی مثال دیتا ہوں، ہم اپنے ادارے district area کے دفتر میں نماز پڑھ رہے تھے، ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ کہنے لگے نائب صوبیدار ہوں، اور حضرات بھی تھے، میں نماز پڑھاتا تھا جب نماز میں نے پڑھا لی تو ان صاحب سے مزید بات چیت ہوئی تو پتا چلا کہ وہ خطیب ہیں لیکن اس کی post نائب صوبیدار کی تھی، تو مجھے سخت غصہ آیا کہ اس نے اپنا تعارف نائب صوبیدار کے طور پہ کیوں کرایا، اس کو اپنا تعارف خطیب کے طور پہ کرانا چاہیے تھا تاکہ یہ نماز پڑھاتے اور میں ان کے پیچھے نماز پڑھتا، کیونکہ جب عالم موجود ہوں تو عالم کو ہی نماز پڑھانی چاہیے۔ تو میں نے کہا کہ افسوس آپ نے ایسی حرکت کی، اگر آپ مجھے بتاتے کہ آپ عالم ہیں اور خطیب ہیں تو مجھے جرات نہ ہوتی کہ میں آپ کو نماز پڑھاؤں، میں آپ کو آگے کرتا اور آپ نماز پڑھاتے۔ آپ نے اپنی دنیاوی post کے حساب سے تعارف کرایا، آپ grade 17 یا grade16 کے لگ بھگ ہی ہوں گے، میں grade 18 ہوں، لہذا میرے نیچے کئی grade16 ہیں تو میں آپ کو کیوں آگے کرتا، کیونکہ اس لحاظ سے نہ آپ مجھ سے senior ہیں اور نہ میرے برابر ہیں۔ لیکن اگر آپ علمی لحاظ سے بات کرتے تو علمی لحاظ سے آپ کو فوقیت حاصل تھی۔ یہ بات میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ احساس کمتری بہت بری چیز ہے اس سے نقصان ہوتا ہے۔ گویا اداروں کو چاہیے کہ ان میں احساس کمتری پیدا بھی نہ ہونے دیں، اور ان لوگوں میں بھی یہ position ہونی چاہیے کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ صورت ممکن نہ ہو مثلاً post equivalent بنانا مشکل ہو تو دوسری بات یہ ہے کہ صحیح العقیدہ اور دیندار اور دیانتدار لوگوں سے ملنے جلنے پر پابندی نہ ہو اور ان کی مجلسوں میں شرکت کی جا سکے اور ان سے باقاعدہ اصلاح کرائی جائے۔ جیسے ہمارے پہلے دور میں ہوتا تھا مثلاً سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں دوسرے حضرات کے دور میں یہ ساری چیزیں ہوتی تھیں، علماء و مشائخ کی خدمت میں لوگ حاضر ہوتے تھے، ابھی recently کچھ پچاس سال پہلے یہ ساری باتیں ہوتی تھیں، یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اندر اغیار نے بہت کام کیا ہے اور ایسے لوگوں کو بھی ان میں داخل کیا ہے جو دوسرے لوگوں کے agent ہیں اور وہ ملک و قوم کے لئے مخلص نہیں ہیں، لہذا ان کو پہچاننا چاہیے، ان کے پاس نہیں جانے دینا چاہیے، لیکن سب سے روکنا ٹھیک نہیں ہے، اگرچہ security verification جیسے باقی لوگ کرتے ہیں ان کی بھی کر لیں، لیکن جو صحیح معنوں میں security cleared لوگ ہیں ان کے ساتھ ملنے جلنے میں کوئی پابندی نہ ہو اور ان سے انسان اصلاح کروا سکے تو پھر یہ مقصد حاصل ہو گا۔

جیسے شہاب الدین غوری اور شہاب الدین سہروردی دو الگ الگ شخصیتیں ہیں، اور شہاب الدین غوری کا نام شہاب الدین نہیں تھا یہ ان کا لقب تھا، اصل میں یہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کا نام تھا، انہوں نے اپنا نام شہاب الدین غوری کو اس وقت لقب کے طور پہ دیا جب شہاب الدین غوری ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ کر رہے تھے، کیونکہ ان کو جب شکست ہوئی تھی تو انہوں نے ایک سال تک صاف کپڑے نہیں پہنے تھے کہ میں اب اپنا بدلہ لوں گا، جب پوری تیاری کر لی تو شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں بوڑھا ہوں ورنہ میں آپ کے ساتھ جاتا۔ چلو میں نہیں جا سکتا لیکن آپ میرا نام استعمال کر سکتے ہیں، تو ان کو اپنا نام دے دیا۔ گویا ہمارے لیڈروں کا اولیاء اللہ کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق ہوتا تھا۔ اسی طرح محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ والوں کے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا، اور ان کے والد سبکتگین کا بھی ایسے ہی تعلق تھا۔ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ تو بذات خود ولی اللہ تھے۔ اس طرح سب کا ایسا ہی تعلق تھا۔ لہذا ہم لوگوں کو یہ راستے کھولنے پڑیں گے اور ہمیں ان راستوں کو اختیار کرنا پڑے گا، کیوں کہ سوال میں جو بات آپ نے کہی ہے یہ اس بغیر نہیں آ سکتی، یہ theoretical نہیں ہیں، practical چیزیں ہیں۔ یعنی آپ کسی کو کوئی کتاب پڑھا دیں اور سوچیں کہ ان میں وہ چیزیں آ جائیں یہ impossible ہے۔ یہ چیز صحبتِ صالحین کے ذریعے سے آتی ہے۔ جیسے اللہ تعالٰٰی نے فرمایا: ﴿كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119) یہ اللہ پاک نے ویسے تو نہیں فرمایا۔ اس وقت صورتحال اگرچہ ہر جگہ ایک جیسی تو نہیں ہو گی لیکن بعض جگہوں پر ایسا ہے جیسا کہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ رات کو کہیں جا رہے تھے تو کتے بھونکنے لگے اور ان کے اوپر پل پڑے تو انہوں نے پتھر سے ان کو بھگانا چاہا لیکن جس پتھر کو بھی ہاتھ لگاتے وہ زمین میں دھنسا ہوتا تھا، تو انہوں نے کہا: کمال ہے جس کو باندھنا تھا اس کو کھلا چھوڑ دیا، اور جن کو کھلا رکھنا تھا ان کو باندھ دیا ہے۔ اسی طرح آج کل بعض جگہوں پر حالات اس قسم کے ہیں کہ جن کے ساتھ ملنا خطرناک ہے ان کے ساتھ ملنے کی اجازت ہے اور جن کے ساتھ ملنے میں فائدہ ہے ان پہ پابندی ہے۔ تاہم اچھے نتائج حاصل کرنے کے لئے اچھے فیصلے کرنے ہوں گے، یعنی It's not theoretical discussion یہ practical چیز ہے practically achievable ہے۔ البتہ رکاوٹیں تو ذاتی مفادات کی ہوتی ہیں لیکن ان کے مقابلے میں ملی اور دینی مفادات کو راسخ کرنے کے لئے کوئی طریقہ کار تو ہونا چاہیے، کیوں کہ نفس ہر ایک کے ساتھ ہے، کون ہے جو نفس سے فارغ ہے؟ لہذا نفس کا مقابلہ کرنے کے لئے جو نظام ہے اس کو activate کرنا پڑے گا ورنہ لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لئے سوچیں گے۔ ہمارے پاس کتنے plots ہیں اور میرے پاس کیا balance ہے اور میرے پاس کیا چیز ہے، انہی چیزوں پہ سارا غور ہو گا، انہی پہ آپس میں discussion ہو گیں، انہی پہ آپس میں گپ شپ ہو گی، نتیجتاً ملک کا بیڑہ غرق ہو گا یا نہیں؟ لہذا ہمیں اس حوالے سے سوچنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے مجھے اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور پھر سب کو۔ اس لئے کہ پاکستان، اللہ تعالیٰ اس کو آباد رکھیں، ستائیسویں کو تکوینی طور پر بنایا گیا ہے جو معمولی بات نہیں ہے اور ماشاء اللہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو اس کو support کیا اور مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ، سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے شیخ تھے یہ سب حضرات ہر اول دستے میں شامل تھے۔ آخر کوئی وجہ تو تھی، کس بنیاد پر کیا تھا؟ کچھ توقعات کی بنیاد پر کیا تھا، لہذا ان توقعات کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے اور ہمیں پاکستان کو واقعی پاکستان بنانا چاہیے یعنی پاک لوگوں کی جگہ بنانا چاہیے اور اغیار کی جو سازشیں ہمارے ملک کو غلط direction کی طرف لے جانے کی کی جارہی ہیں اور اس حوالے سے جو plannings کر رہے ہیں اور ان کے لئے جو لوگ استعمال ہو رہے ہیں، اللہ پاک ان کو ہدایت دیں، کیونکہ بہت بڑا نقصان کر رہے ہیں اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ اور جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی۔ آخر مشرقی پاکستان بھی کچھ لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے گیا ہے، کشمیر کا بھی حال کچھ اس طرح ہی بن رہا ہے، اس طرح بلوچستان کے ساتھ بھی کچھ مسائل ہو رہے ہیں، KPK کے لئے بھی اغیار کے بڑے منصوبے تیار ہیں، پنجاب کو بھی کوئی چھوڑے گا تو نہیں۔ تو اغیار کے ان سب منصوبوں کو ناکام کرنے کے لئے ہمیں کام کرنا پڑے گا اور دیانتداری کے ساتھ کرنا پڑے گا، یعنی اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر، اپنے آپ کو اس کے سامنے جواب دہ سمجھ کر جس کے ہاتھ میں جو اختیار ہے وہ کرنا پڑے گا۔ مجھے کل ہی شہاب نامہ سے ایک واقعہ ملا جسے میں نے group میں share بھی کیا کہ صدر ایوب صاحب نے ایک دفعہ بڑی زبردست تقریر کی تو چونکہ خوشامدی لوگ بھی ہوتے ہیں تو ایک بہت senior افسر اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ جناب صدر آپ کی اتنی زبردست تحقیقات اور تقریر سے تو کچھ پیغمبرانہ شان ظاہر ہو رہی تھی، یہ کہنے والا افسر در اصل مزرائی تھا۔ وہاں قدرت اللہ شہاب بھی بیٹھے ہوئے تھے، وہ بھی کافی senior افسر تھے تو وہ سوچنے لگے کہ اس سے بڑا مسئلہ ہو جائے گا یعنی اگر ایوب خان نے واقعی اس پر سوچنا شروع کر دیا اور اس دلدل میں پھنس گئے تو پتا نہیں کہاں تک پہنچیں گے، کہتے ہیں: میں بھی اسی طرح نیاز مندانہ طور پہ کھڑا ہو گیا اور اسی طرح عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ جناب صدر! یہ جن صاحب نے بات کی ہے، ان کی باتوں میں آپ نہ آئیں کیونکہ یہ خود ساختہ پیغمبروں کے بارے میں یہی سوچتے ہیں، چنانچہ ایوب خان کو بھی یہ بات سمجھ میں آ گئی۔ بہر حال قدرت اللہ شہاب نے واقعی عین وقت پہ صحیح بات کی اور واقعتاً لوگ اس طرح ہی کرتے ہیں۔ خود میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا، ایک قادیانی ہمارا teacher تھا چونکہ مجھ سے ہی زیادہ اس کو خطرہ تھا کہ یہ ذرا مذہبی لگتا ہے ایسا نہ ہو کہ مجھ پہ کسی وقت حملہ کر دے یا کسی طرح کوئی نقصان پہچائے، اس لئے وہ میری بہت خوشامد کرتا تھا، میں نے ایک دفعہ کوئی بات کی تو کہتا ہے It is like الہام جیسے آپ کو یہ الہام ہوا ہے، میں نے کہا: مجھے کوئی الہام نہیں ہوا ہے یہ technical چیز ہے در اصل یہ کہہ کر وہ بہکانا چاہتا تھا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، اغیار کی سازشیں بہت سخت ہیں، وہ بہت ذہین ہیں، فطین ہیں، فتین بھی ہیں اور فطین بھی ہیں، یعنی تا کے ساتھ بھی اور طا کے ساتھ بھی۔ اس لئے ہمیں اپنے آپ کو بچانا ہو گا اور اگر ہم اس دنیا کی خاطر ان کی باتوں میں آ گئے ہیں اور اپنے آپ کو خراب کیا تو کتنے دن کے لئے ہو گا، کتنے عرصے کے لئے ہو گا، انسان ذرا سوچے تو سہی۔ کچھ ہی عرصے میں سارا کچھ آگے پیچھے ہو جائے گا، آخر بڑے بڑے عہدوں پہ جو لوگ تھے وہ کدھر چلے گئے؟ سب اپنی اپنی جگہوں پہ چلے گئے ہیں، تو اگر کسی نے کوئی خیر کا کام کیا ہے تو وہی ان کے کام آئے گا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ کسی بھی سرکاری عہدے پہ آ جانے پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے کہ میں اس کو کیسے استعمال کر رہا ہوں؟ اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر رہا ہوں یا ملکی اور دینی مفاد کے لئے استعمال کر رہا ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے امتحانوں میں کامیاب کرے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ