عسکری قوتوں کی بہتری اور اس کے امکانات

سوال نمبر 313

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان





اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے پاس کفار کے مقابلے میں جنگی ہتھیار بہت کم ہوتے تھے لیکن پھر بھی کفار ان سے ڈرتے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس جنگی ساز و سامان کفار کے مقابلے میں کم نہیں ہے، لیکن پھر بھی کفار مسلمانوں سے اس طرح خائف نہیں ہیں، مسلمانوں کی عسکری قوتوں کے لئے کام کرنے والے لوگ اس بات پر مطمئن ہیں کہ ہم کفار کے مقابلے میں اپنی طاقت بڑھاؤ کے حوالے سے قرآن پاک کے حکم پر عمل پیرا ہیں، لیکن اس سے جو مقصد ہے یعنی کفار پر اپنا رعب جمانا وہ حاصل نہیں ہو رہا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے عسکری اداروں میں کس چیز کی کمی ہے کہ جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے اور اس کمی کو کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

اللہ پاک کا حکم ہے کہ دشمن کی طاقت کے مقابلے میں اپنی استطاعت کے مطابق اپنی طاقت بھی بڑھاؤ: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُم﴾ (الانفال: 60) یعنی جتنی تمہاری استطاعت ہے، لیکن کفار پر اس کا اثر ہونے کے لئے کچھ اور چیزوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے قوانین موجود ہیں، پولیس موجود ہوتی ہے، لیکن لوگ قوانین کی پرواہ نہیں کرتے۔ مثلاً ٹریفک ہی کو لے لیں جو بہت زیادہ واضح اور مشاہدے کی چیز ہے جسے سمجھنا بھی آسان ہے۔ بہر حال لوگ اشارہ بھی cross کرتے ہیں، غلط direction پہ بھی جاتے ہیں، یہ ساری باتیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا پولیس نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے۔ کیا پولیس کے پاس چالان کرنے کی طاقت نہیں ہے؟ بالکل طاقت ہے۔ پھر کیوں ایسا ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو پتا ہے کہ ہم رشوت سے چھوٹ سکتے ہیں۔ چنانچہ اگر کسی پولیس والے کو 100 روپیہ دے دیں تو بس ٹھیک ہے۔ گویا اس جرم کی جو اصل سزا ہے لوگ اس کو تصور میں نہیں لاتے بلکہ رشوت کو سامنے لاتے ہیں کہ میں اتنے پیسے دے کر چھوٹ جاؤں گا اس لئے لوگ اس سے نہیں ڈرتے، حالانکہ ڈرنا چاہیے۔ اسی طرح جن کے بارے میں یہ یقین ہو جائے کہ کچھ مفادات دے کر ہم ان کو اپنے لئے استعمال کر سکتے ہیں تو وہ ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے جہاں ایک طرف ﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (الانفال: 60) کے مطابق طاقت بڑھانی چاہیے تو دوسری طرف ایک تو قوم کا moral بڑھانا چاہیے، اور دوسرا ہماری عسکری قوتوں میں دیانتداری، حوصلہ اور دین پر استحکام بڑھانا چاہیے۔ صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کتنی طاقت تھی؟ پورا یورپ چڑھ آیا تھا لیکن چونکہ وہ honest تھے، بیدار مغز تھے، اپنے فائدے اور نقصان کو جانتے تھے اور کسی غلط کام پر compromise نہیں کرتے تھے، یہ ان کی نمایاں خصوصیات تھیں، لہذا پورے یورپ کو شکست دے دی تھی۔ چنانچہ محض اسلحے کے زور پہ جنگیں نہیں جیتی جا سکتیں، اس کے لئے کچھ اور چیزیں بھی ہوتی ہیں اور سب سے بڑی بات ہے کہ جب اللہ کی مدد ساتھ ہوتی ہے تو پھر کام بنتا ہے، اس لئے ایک طرف تو ہمیں اپنی قوت کو بڑھانا ہو گا، دوسری طرف قوم کا moral بلند کرنا ہو گا اور تیسری طرف عسکری اداروں میں دیانتداری اور حب الوطنی کے جذبے کو develop کرنا پڑے گا۔ لہذا اگر وہ صحیح مسلمان بن جائیں گے تو پھر کافر سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں ہماری دال نہیں گلے گی۔ آج کل اس کا سب سے بڑا ثبوت طالبان ہیں کہ انہوں نے تین super powers کو شکست دی، England کو، انگریزوں کو، Russia کو۔ اور اب 41 ممالک پر مشتمل NATO کے ادارے کو شکست دی ہے۔ یہ ساری باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ کے بھروسے پر سچائی کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور عزم کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں اور وہ کارنامے ہو جاتے ہیں جن کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس وقت ہم پر جتنی محنت ہو رہی ہے وہ opposite direction کی ہو رہی ہے، جو چیزیں ہمارے پاس اصل سرمایہ ہیں ان کو ہم سے چھینا جا رہا ہے، یعنی اللہ پہ بھروسے کی اور اللہ جل شانہ کے ساتھ تعلق کی دولت ہم سے چھینی جا رہی ہے، دشمنوں کے قریب کیا جا رہا ہے، دوستوں سے دور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ شیطان ہمارا دشمن ہے اور اللہ ہمارا دوست ہے۔ چنانچہ جب باقاعدہ قصداً with planning ہمیں دوست سے دور کیا جا رہا ہو اور دشمن کے قریب کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں اگر ہم لوگ ان شیطانی منصوبوں کو پروان چڑھائیں اور اللہ جل شانہ کے پسندیدہ کاموں پہ پابندیاں لگائیں تو پھر نتیجہ کیا ہو گا؟ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح فکر عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ