خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پہ فرمایا: عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ، اچھی طرح پہناؤ۔ اچھا کھلانے اور پہنانے میں کیا کچھ آتا ہے؟ بعض خواتین اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لئے بھی شکایت نہیں کرتیں، لیکن آقا علیہ السلام نے مرد کی ذمہ داری لگائی ہے یعنی مرد کو کھانا اور کپڑے وغیرہ کا خیال رکھنا ہے، کیونکہ روز قیامت وہ اس کا جواب دہ ہو گا، تو جیسے ہم دوسری ذیلی ذمہ داریوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس معاملے میں کیا چیزیں فرائض ہیں اور کیا چیزیں سنت اور نفل کے درجے میں ہیں؟
جواب:
در اصل یہ سوال معاشرت کے بارے میں ہے کہ انسان آپس میں کیسے رہیں اور اس سوال میں حقوق و فرائض کی بات بھی ہے کہ بیوی کا کیا حق ہے اور بیوی پر شوہر کا کیا حق ہے؟ اس پر تو کتابیں لکھی گئی ہیں لہذا دو لفظوں میں تو یہ بات نہیں بیان کی جا سکتی۔ تاہم ایک موٹی سی بات ہے کہ اگر ہم تقسیم کار کو سمجھ لیں تو بات سمجھ آ سکتی ہے کہ مرد کے ذمے کمانا ہے اور عورت کے ذمے گھر کا کام سنبھالنا ہے یعنی اللہ پاک نے ان کی فطرت اس طرح بنائی ہے اسی لئے ان کو مستورات اور عورت کہتے ہیں اور مستور چھپی ہوئی چیز کو کہتے ہیں، عورت بھی چھپی ہوئی چیز ہے۔ لہذا اگر باہر آتی ہے تو فساد برپا ہوتا ہے اور اگر باہر نہیں آتی تو کما نہیں سکتی اور اگر کما نہ سکے تو زندہ نہیں رہ سکتی، یعنی اگر اس کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ ہو تو وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ اب مرد کے عورت کے ساتھ کچھ مفادات وابستہ ہیں اور عورت کے مرد کے ساتھ کچھ مفاد مفادات وابستہ ہیں۔ جیسے ہم لوگ ڈاکٹرز کے پاس جاتے ہیں تو ڈاکٹرز کا ہمارے ساتھ یہ مفاد وابستہ ہے کہ ہم ان کو پیسے دیتے ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ یہ مفاد وابستہ ہے کہ ہم ان سے علاج کرواتے ہیں، گویا وہ اپنے مفاد کے لئے کام کر رہے ہیں اور ہم اپنے مفاد کے لئے ان کے پاس جاتے ہیں۔ اور یہ چیز آپس میں understood ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، چنانچہ گھر کی خواتین گھر کے کام کاج کرتی ہیں اور مرد باہر کے کام کرتا ہے، اور مرد کا کام فوری مشقت کا ہے اور عورت کے کام میں تسلسل ہے، مثلاً مرد جب اپنے کام سے retire ہو جاتا ہے تو گھر بیٹھ جاتا ہے پہلے اس کو تنخواہ ملتی ہے، بعد میں اسے پنشن ملتی ہے، لیکن عورت کبھی retire نہیں ہوتی یوں اس کا کام تسلسل کا ہے، ایک routine ہوتی ہے، میں اس کو observe کرتا ہوں اور صحیح بات ہے کہ اگر ہم ان کے کام کرنے لگیں تو ہم بہت زیادہ تنگ ہو جائیں، ایک تو وہ ہمارے مزاج کے مطابق نہیں ہیں اور دوسرا وہ اس قسم کے کام ہیں کہ جن میں alert رہنا ہوتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کھانا عین وقت پہ تیار ہو، اس کا پہلے سے انتظام ہو، مہمان آئے تو اس کے لئے کیا کرنا ہے، کپڑے دھونے ہیں، بچوں کو تیار کرنا ہے اور ان کی تربیت بھی ہے، یہ سارے کام با قاعدہ ایک لگے بندھے کام ہوتے ہیں، اب مرد کہتا ہے کہ میں بہت کماتا ہوں اور یہ تھوڑا سا کام کرتی ہے اور سب کچھ میں شریک ہو جاتی ہے، اس کے ذہن کے گوشے میں یہ ایک چیز ہوتی ہے لہذا وہ اس کو برابری کے قابل نہیں سمجھتے، بلکہ وہ معاشی بنیاد پر اپنا super hand رکھتے ہیں، حالانکہ اگر کسی اور عورت کو یا مرد کو وہ ان کاموں کے لئے رکھے تو ایسا کام ہو ہی نہیں سکتا چاہے آپ کتنے پیسے دے دیں، کیونکہ ownness بہت بڑی بات ہے یعنی کسی چیز کو اپنا سمجھنا، مثلاً مہمان جب آتے ہیں تو مرد کو پرواہ نہیں ہوتی کہ گھر کیسا ہے، لیکن عورت جیسے ہی مہمان کا سنتی ہے تو فوراً چکر میں آ جاتی ہے کہ میں نے یہ چیز set کرنی، یہ چیز بھی set کرنی اور یہ چیز بھی set کرنی ہے اور اسی بنا پر ناراض بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ انہوں نے اس کو اپنا کام سمجھا ہوتا ہے اور جو اپنا کام ہوتا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اس لحاظ سے housewife اگرچہ گھر میں کماتی تو نہیں ہے لیکن وہ گھر کے کام کاج کرتی ہے جو اس کے علاوہ کوئی اور اس طرح نہیں کر سکتا۔ لہذا اللہ پاک نے جو تقسیم کی ہوئی ہے اس میں حکمت ہے۔ میں نے یہ ساری باتیں دنیاوی مفاد کے لحاظ سے بتائی ہیں، ان میں ابھی میں نے دین کی بات نہیں کی ہے لہذا اگر کوئی کافر بھی اس کو سمجھنا چاہے تو وہ اس کو سمجھ سکتا ہے۔ لیکن دین کی یہ بات ہے کہ: ﴿ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ أَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ﴾ (البقرۃ: 186) وہ تمہارا پردہ ہیں اور تم ان کا پردہ ہو۔ یعنی ایک دوسرے کے لئے ہیں، لہذا جو چیز ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں مردانگی کے لحاظ سے تو وہی چیز ہم ان کے لئے پسند کریں نسوانیت کے لحاظ سے، یعنی جو ان کے لئے suitable ہو وہ ہونا چاہیے، اس کا اندازہ یوں کر سکتے ہیں کہ مثلاً اگر مرد عورت ہوتا تو وہ کیا چاہتا؟ لہذا مرد یہ سوچے کہ میں اگر عورت ہوتا تو میں کیا چاہتا۔ چنانچہ ان کو شریعت نے جو حقوق دیئے ہیں ان کو پورا کرنا چاہیے، تو جہاں تک کھانا پینا ہے تو اس کا نام اس لئے لیا گیا ہے کہ یہ essentials ہیں یعنی یہ کرنا ضروری ہے، اس کے علاوہ چارہ نہیں ہے، کیونکہ صرف کھانا پینا نہیں ہے اور بھی کئی چیزیں ہیں، جیسے علاج وغیرہ بھی ہے، تو ان کو کھانا پینا دینا اور پہنانا تو ان کی ذمہ داری ہے۔ البتہ اگر مؤدت اور محبت ہو تو پھر calculation نہیں ہوتی بلکہ آپ سب کچھ اس کے سامنے رکھتے ہیں اور وہ بھی سب کچھ آپ کے سامنے رکھ دیتی ہے، گویا یوں معاملہ چلتا ہے۔ بہر حال ایک ہوتا ہے محبت و مؤدت والا معاملہ اور ایک ہوتا ہے عدالت والا معاملہ، عدالت والا معاملہ اور ہوتا ہے اور محبت و مؤدت والا معاملہ اور ہوتا ہے، مؤدت والے معاملے میں ہر دو فریق کی خواہش ایک دوسرے کو خیر پہنچانا ہوتا ہے لہذا اس کی کوئی limit نہیں ہوتی، جبکہ عدالت والے معاملے میں اپنے اپنے حقوق ہوتے ہیں، مرد کے اپنے حقوق ہیں، عورت کے اپنے حقوق ہیں، چنانچہ جب عدالت تک بات جاتی ہے تو عدالت صرف وہی چیز نافذ کر سکتی ہے جو ان کا عدالتی حق ہوتا ہے، تو بعض عورتیں اپنی position کو نہیں سمجھ پاتیں، جیسے ان سے کہا گیا کہ چائے پکانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، کھانا پکانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، اس کے لئے مرد اپنا انتظام خود کریں تو یہ عدالتی حق ہے، لیکن اسی سے پھر گھروں میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب میں Germany میں تھا تو ہمارے ساتھ colleague تھے عرب تھے جس کی بیوی بھی عرب تھی وہ چونکہ کتابیں پڑھی ہوتی ہیں، تو اس نے یہ پڑھا تھا کہ یہ میرے ذمہ نہیں ہے تو وہ کھانا پکانے سے انکار کر دیتی تھی تو وہ بیچارے خود پکاتے تھے، مجھ سے انہوں نے بات کی تو میں نے کہا: تم اس سے کہو کہ آپ کا علاج معالجہ میرے ذمے نہیں ہے کیونکہ یہ بھی تو مسئلہ ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے یہ بتایا تو وہ سمجھ گئی کہ اس کو کوئی استاد مل گیا ہے، تو وہ ٹھیک ہو گئی۔ کیونکہ عدالت میں تو معاملہ برابر ہوتا ہے اگر یہ عدالت میں جا کے مانگتی ہے تو وہ بھی عدالت جا کے مانگ سکتا ہے، لیکن محبت و مؤدت کی کوئی limit نہیں ہوتی، بلکہ عموماً جو صحیح مرد ہوتے ہیں وہ عورتوں کو حقوق کے لحاظ سے آگے رکھتے ہیں یعنی وہ صرف order کو نہیں دیکھتا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے اپنے کپڑے اتنے اچھے نہ ہوں لیکن عورت کو اچھے کپڑے مہیا کرتا ہے، اس طرح اور بھی ان کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے، تو یہ بات پسندیدہ ہے کہ مرد اس طرح عورت کا خیال رکھے کہ کم از کم اتنا کرے۔ اور عورت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کو اپنی چیز سمجھے اور اس کی حفاظت بھی کرے اور صحیح طریقے سے استعمال کرے، اس میں کوئی نقصان نہ کرے اور مرد کی خدمت میں سستی نہ کرے۔ یہ دونوں باتیں اگر ایسی ہوں تو میرے خیال میں معاملات درست رہیں گے۔ میں اکثر ایک بات کرتا ہوں کہ مردوں کے حقوق پر بھی کتابیں ہیں اور عورتوں کے حقوق پر بھی کتابیں موجود ہیں، لہذا مرد کو بیوی کے حقوق کی کتابیں پڑھانی چاہئیں اور عورتوں کو شوہروں کے حقوق کی کتابیں پڑھانی چاہئیں پھر تو یہ معاملہ ٹھیک ہو سکتا ہے اور اگر opposite ہو گیا تو پھر لڑائی ہے جیسے میں نے آپ کو بتایا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ