یہودیوں کو دعوت دینی چاہیے ؟ مسلمان دنیوی شعبوں میں کیا اقدامات کریں ؟

سوال نمبر 311

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ کتابوں میں مذکور ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کو عرض کیا کہ میں یہود کا اصلی چہرہ آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ اس واقعے سے ہمیں یہود کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ وہ آپ ﷺ کو پہچانتے تھے، لیکن اپنی دنیاوی غرض کی وجہ سے آپ ﷺ پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ آج کل بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی نسبتاً آسانی کے ساتھ اسلام کو قبول کر لیتے ہیں، جبکہ یہودیوں میں بہت کم اسلام کی طرف آتے ہیں، جب یہودیوں کا یہ حال ہے تو کیا ان کو اسلام کی دعوت دینی چاہیے یا نہیں؟ کیونکہ ان کو تو پتا ہے کہ اسلام ایک حق مذہب ہے لیکن پھر بھی قبول نہیں کرتے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی دنیاوی شعبے خصوصاً تجارت و کاروبار میں بہت زیادہ ترقی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی بہت سی اشیاء موجود ہوتی ہیں، ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی اشیاء بہت کم ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمان کو بحیثیت مجموعی کیا اقدامات کرنے چاہئیں کہ دنیاوی شعبوں میں بھی مسلمان ان کے ہم پلہ آ جائیں؟

جواب:

اس سوال پر تو کتاب لکھی جا سکتی ہے، البتہ اس مختصر وقت میں جتنی بات ہو سکتی ہے وہ میں کہہ دیتا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے قرآن پاک کے ترجمے میں نفس کی بات پڑھی کہ نفس انسان پر غالب رہتا ہے، تو نفس کس پر کتنا غالب رہتا ہے اس کا آپ اندازہ اس سے کر سکتے ہیں کہ نفس نے اس کی عقل کو کتنا قابو کیا ہوا ہے، کیونکہ عقل مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس سوال سے پتا چلتا ہے کہ یہودیوں میں عقل بہت زیادہ ہے یعنی وہ پوری دنیا میں تجارت، marketing اور بہت سارے کام کر رہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں عقل بہت زیادہ ہے لیکن وہ ساری عقل دنیا کے لئے استعمال کر رہے ہیں نتیجتاً وہ نفس کے لئے استعمال ہو رہی ہے، اس کے ذریعے سے وہ نفس کی خواہشات حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف چونکہ ان کو یہ بات معلوم ہے کہ مسلمان حق پر ہیں لیکن ان کا حسد اور کینہ ان کی معلومات کے سامنے بہت زیادہ strong ہے، جیسے شیطان کا معاملہ ہے۔ کیونکہ شیطان کو ساری چیزوں کا پتا ہے اس نے تو اللہ تعالیٰ سے بات چیت کی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ایک چیز پر اڑا ہوا تھا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا، اسی کی وجہ سے گمراہ ہے اور اسی کی وجہ سے واپس نہیں آتا۔ اسی طرح یہودیوں نے بھی ایک ضد پکڑی ہوئی ہے۔ اور اس ضد میں لوگ بہت کچھ کہہ جاتے جیسے بعض دفعہ کہتے ہیں میں دوزخ میں چلا جاؤں یا کہہ دیتے ہیں کہ میں کافر ہو جاؤں، اور بھی کئی اس قسم کی بات کر لیتے ہیں، اس وجہ یہ ہے کہ اس وقت اس کی ضد نفس کی وجہ سے اتنی peak پر ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام آجلہ کو قربان کرنے پہ تیار ہو جاتا ہے۔ اس وقت چونکہ اس چیز کا اس کو احساس نہیں ہوتا لہذا وہ اتنا زیادہ peak پہ چلا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ان کو پتا ہے تو وہ مانتے کیوں نہیں؟ اس لئے نہیں مانتے کہ ان کا نفس ان پہ بہت زیادہ زور آور ہے، نفس کا علاج کرنے کے لئے بھی وہ تیار نہیں ہیں، کیونکہ وہ اپنی خواہشات کی وجہ سے اس چیز کو سمجھ ہی نہیں رہے۔ لہذا ایسی صورت میں ان کو دعوت تو دینی چاہیے لیکن دعوت دینے کا انداز مختلف ہونا چاہیے، اور انداز ایسا ہونا چاہیے کہ ان کے لئے آجلہ ایسے بنائی جائے کہ جیسے عاجلہ ہو، یعنی بہت پر اثر انداز میں ان کو سمجھایا جائے کہ یہاں چاہے آپ کو ساری دنیا پر بھی حکومت حاصل ہو جائے لیکن بالآخر مرنا ہے، تو مرنے کے بعد پھر کیا ہو گا؟ چنانچہ اس قسم کی چیزیں ان کے سامنے visualize کروائی جائیں گویا یہ ان کو دعوت دینے کا طریقہ ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ آجلہ کو بھول گئے ہیں یا قصداً بھول چکے ہیں تو ایسی صورت میں وہ سامنے نہیں آ رہے اور دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ٹھیک ہے الحمد للہ ان کو آجلہ بہت یاد ہے یعنی ان کو آخرت پر یقین ہے، ان میں ایمان ہے اور اس کے لئے کچھ اعمال بھی کرتے ہیں۔ تاہم دنیاوی آجلہ کی طرف بھی ان کو توجہ دلائی جائے کہ دنیا میں جو نقصان ہوتا ہے اس سے بچنے کے لئے کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ دنیاوی آجلہ کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک شخص بیمار ہے تو اس کو ڈاکٹر پرہیز کا بتاتا ہے تو بد پرہیزی کا نقصان آجلہ ہے اور نفس میں اس چیز کے لئے طلب عاجلہ ہے۔ لیکن اگر وہ اس عاجلہ کو برداشت نہیں کرتا اور آجلہ کو قربان کرتا ہے جس سے مزید بیمار ہوتا جاتا ہے تو اس کو سمجھانا پڑتا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ فلاں فلاں کو دیکھو کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ گویا یوں اس کو دنیاوی آجلہ کی طرف لانا چاہیے اور اسے کہنا چاہیے کہ اس وقت ہمارے اپنے دین کی حفاظت بھی اسی میں ہے کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں، اگرچہ اس کی خرابیوں سے ہمیں بچنا چاہیے، لیکن ہماری معیشت اس لئے مضبوط ہونی چاہیے کہ لوگوں کے ایمان متاثر ہو رہے ہیں، لہذا ان کو دنیاوی آجلہ کی طرف اور یہودیوں کو آخرت کے آجلہ کی طرف لانا چاہیے۔ لہذا دونوں کا حل اس میں ہے کہ آجلہ ان کے سامنے لایا جائے، تو یہودیوں کے لئے آخرت کا آجلہ لانا چاہیے کیونکہ دنیا کا آجلہ پہلے سے ان کو حاصل ہے جس کے لئے ان کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لئے دنیاوی آجلہ بھی اُس آجلہ کے لئے ضروری ہے کیونکہ اگر ان کی معیشت مضبوط نہ ہو تو دوسرے لوگ ان کو اپنی باتوں پر compromise کرنے کے لئے مجبور کر لیتے ہیں، جیسے تھرپارکر اور دوسری جگہوں پہ کر رہے ہیں یا جیسے آج کل پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو دنیاوی آجلہ کی طرف الہام کرنا پڑے گا۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ بہت افسوس کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ افسوس ہے کہ ہم تو مسلمانوں کی دنیا کے لئے بھی روتے ہیں، ان کو تو دنیا بھی سنبھالنا نہیں آتی۔ الحمد للہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی یہ سوچ بہت گہری تھی کہ اس وقت انگریز جو ہمیں تباہ کر رہے تھے ان سے کیسے بچا جائے اور اپنی معیشت کیسے مضبوط کیا جائے۔ اسی طرح جب افغانستان میں اچھے لوگوں کی حکومت آ گئی تو مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ کیا آپ لوگوں نے اپنا غلہ خود پیدا کر لیا ہے؟ دیکھیے! ان کو کس چیز کی فکر تھی۔ لہذا یہ production یعنی اپنی زرعی ترقی یا اپنی industrial ترقی کی بزرگوں کو بڑی فکر ہوتی ہے، کیوں کہ آج کل یہ چیزیں بڑی ضروری ہیں۔ جیسے پہلے جہاد میں تلواروں، نیزوں اور زرہوں کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج کل ٹینکوں، جہازوں اور missiles کی ضرورت ہے جس کے لئے باقاعدہ planning بھی کرنی پڑتی ہے اور management بھی کرنی پڑتی ہے اور بھی تمام تر انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں۔ لہذا یہ اصل میں بنیاد ہے کہ ہم لوگوں کو ان چیزوں کا بھی سوچنا ہو گا یعنی مجذوبیت والی بات نہ ہو بلکہ مقربیت والی بات ہو۔ یعنی ایسا طرز عمل ہو کہ جس سے انسان اللہ پاک کے قریب ہو جائے، چاہے وہ آخرت کے اعمال کے لحاظ سے یا دنیا کے اعمال کے لحاظ سے ہو۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ