ایمان نبی سے قریب اور مومن سے بعید کیوں ہے؟

سوال نمبر 310

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت مصطفی ﷺ کی ابتدا میں فرماتے ہیں مومن کا وجود ایمانی آفتاب نبوت کا ایک معمولی سا عکس اور پرتو ہے اور ظاہر ہے کہ پرتو کو جو قرب اور تعلق اپنے اصل منبع یعنی آفتاب سے ہوتا ہے وہ آئینے سے نہیں ہو سکتا۔ مومن کو جو ایمان پہنچتا ہے وہ نبی کے واسطے سے پہنچتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایمان نبی سے قریب ہے اور مومن سے بعید ہے اس لئے کہ نبی ایمان کے ساتھ متصف بالذات ہے اور مومن ایمان کے ساتھ متصف بالعرض ہے، لہذا ضروری ہے کہ مومن اپنے اور اپنے ایمان کے جاننے سے پہلے اپنے نبی ﷺ کی سیرت کو جانے تاکہ اسی راستے پہ چلے اور دوسروں کو پھر اس نہج پر چلنے کی دعوت دے۔(سیرت النبی ﷺ، جلد اول، ص9)

جواب:

ذرا مشکل الفاظ میں یہ بات کی گئی ہے جو میرے خیال میں شاید آسان الفاظ میں بھی کی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی کو جو چیز دکھائی جاتی ہے اور بتائی جاتی ہے وہ نبی کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے اور ایمان بھی ہوتا ہے اور باقی لوگ نبی کے کہنے کے مطابق بات مانتے ہیں۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اصل اور بنیادی ایمان تو پیغمبر پر ہے کیونکہ پیغمبر ہمیں اللہ پاک کی صفات بتاتا ہے، ہمیں اپنی طرف سے تو کچھ معلوم نہیں، مثلاً اگر آپ اپنے طور سے اللہ کے بارے میں سوچیں کہ اللہ یوں ہے، یوں ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، کیونکہ ایمان بالغیب اصل ہے تو غیب کے بارے میں جس نے خبر دی ہو گی تو اسی کی بات مانی جائے گی، جیسے قرآن آپ ﷺ کے لئے مفصل ہے اور ہمارے لئے مجمل ہے، ہم قرآن پڑھتے ہیں تو اس کا معنی ماحول کے مطابق مراد لیتے ہیں، جبکہ آپ ﷺ اس طرح مراد لیتے تھے جس طرح اللہ چاہتے تھے۔ لہذا ہم اس کا معنٰٰی پیغمبر سے لیں گے۔ جیسے صلوۃ کا ایک معنی کولہے مٹکانا یعنی dance کرنا بھی ہے، گویا ﴿اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ﴾ (البقرہ: 43) کا عربی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ dance کی محفل قائم کرو۔ حالانکہ کوئی بھی مسلمان اس کا یہ معنٰی مراد نہیں لے سکتا، کیونکہ اس کو معنی معلوم ہے کہ پیغمبر نے صلٰوۃ سے جو معنٰٰی سمجھا ہے وہ ایک خاص نماز ہے جو آپ ﷺ نے خود پڑھی ہے اور اس کے پڑھنے کی دعوت دی ہے۔ اب اگر میں اپنی طرف سے نماز پڑھ لوں تو وہ قبول نہیں ہو گی جب تک میں وہ نماز نہ پڑھوں جو پیغمبر نے پڑھنے کو بتائی ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا "صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّی" (بخاری شریف، حدیث نمبر 605) "نماز پڑھو اس طرح جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھو" لہذا آپ ﷺ کی سیرت ہمارے لئے اللہ جل شانہ کا حکم جاننے کا ذریعہ ہے، چنانچہ نبی ﷺ کے لئے یہ اصل ہے اور ہم اس کو نقل کر رہے ہیں اور جیسے آپ ﷺ چاہتے ہیں اس کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ایسی بات ہوتی تو صحابہ کرام کہتے ہیں "اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم" اللہ اور رسول کو اچھی طرح پتا ہے۔ نیز کہتے "سَمِعْنَا و اَطَعْنَا اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا" ان تین فقروں پہ ذرا غور کریں کہ جو آپ ﷺ نے فرمایا ہم اس پر ایمان لائے گویا اس کی تصدیق کر لی۔ "سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا" کہ ہم نے سن لیا اور ہم نے مان لیا اور اطاعت کر لی۔ یعنی پہلا جملہ ایمان کے لحاظ سے ہے اور یہ اعمال کے لحاظ سے ہے اور "اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ" کہ تمام علم اللہ اور اللہ کے رسول کے پاس ہے۔ اللہ پاک نے ہی اپنے رسول کو دیا ہے، لہذا جو علم اللہ تعالیٰ نے رسول کو دیا ہے ہمارے لئے وہی علم ہے اور ہمارے لئے ذریعہ وہی ہے جو آپ ﷺ نے بتایا ہے۔ لہذا یہی اس کا مطلب ہو سکتا ہے۔ اگرچہ مختلف الفاظ کی مختلف تشریحات ہوتی ہیں ان کا تو ہم انکار نہیں کر سکتے لیکن اس سے مراد یہی ہے کہ اللہ کے نبی کو اللہ جل شانہ کے پیغام کا پتا ہے اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کیا چاہتے ہیں، لہذا کبھی آپ ﷺ نے کسی کام کے لئے قرآن کا حوالہ دیا اور کبھی براہ راست فرمایا کہ ایسا کرو۔ لہذا قولی حدیث، فعلی حدیث اور تقریری حدیث ان تینوں قسم کی احادیث شریفہ کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ ہے۔ جیسے ایک صاحب مناظراتی انداز میں بات کر رہے تھے کیونکہ مناظراتی انداز میں بات ذرا سی مختلف ہوتی ہے اس لئے کہ اس میں فتنہ کی جڑ کاٹی جاتی ہے تو انہوں نے کہا لوگ حدیث کو نہیں مانتے، ہم تو قرآن کو بھی حدیث کے ذریعے سے مانتے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے قرآن کے متعلق فرمایا کہ یہ قرآن ہے تو یہ بھی حدیث شریف ہی ہے، قرآن تو نہیں ہے، لہذا اس حدیث شریف کے ذریعے سے ہم مانتے ہیں کہ یہ قرآن ہے، اس لئے اگر حدیث کو بیچ سے نکالو گے تو قرآن تک بھی نہیں پہنچو گے، گویا یہ بنیاد ہے۔ اس لئے آپ ﷺ کی بات کو اس انداز میں سمجھنا چاہیے۔ اسی لئے وحی کی دو قسمیں کی گئی ہیں، وحی متلو اور وحی غیر متلو گویا قرآن بھی وحی ہے اور حدیث بھی وحی ہے۔ البتہ ایک وحی کی تلاوت کی جاتی ہے اور دوسری کی وحی کے طور پہ تلاوت نہیں کی جاتی۔ بس یہی فرق ہے۔ اور آپ ﷺ کے بارے میں اللہ پاک نے خود فرمایا: ﴿مَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر: 7) کہ جو پیغمبر آپ کو دیں اس کو لو اور جس سے روک دیں اس سے منع ہو جاؤ۔ لہذا ہمارے پاس بنیاد آپ ﷺ کا فرمان ہے اور اس کے لئے ہمیں سیرت رسول کا مطالعہ کرنا چاہیے، کیونکہ سیرت رسول میں تینوں چیزیں آ جاتی ہیں فعلی حدیث، تقریری حدیث اور قولی حدیث۔ جیسے ہمارے شیخ نے فرمایا تھا کہ اصلاح کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ سیرت پاک کی کتابوں کو اصلاح کی نیت سے پڑھو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ