اہلِ بدر کا مقام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں کیا تھا؟

سوال نمبر 309

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

صحيح بخاری میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کی تیاری کر رہے تھے تو ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ جن کے اہل و عیال ان دنوں مکہ مکرمہ میں تھے، اُنہوں نے اس بات کی اطلاع مکہ والوں کو ایک خط کے ذریعے دینے کی کوشش کی اور ایک عورت کو وہ خط دے دیا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع بذریعہ وحی ہو گئی اور وہ خط پکڑا گیا۔ جب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے اس بارے ميں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو اُنہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے دین سے مرتد ہو کر یہ کام نہیں کیا بلکہ میری غرض اپنے اہل و عیال کی حفاظت تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اُڑا دوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تحقیق حاطب بدر ميں حاضر ہوا ہے اور اے عمر! تجھے کیا معلوم شاید اللہ تعالیٰ نے نظرِ رحمت سے اہل بدر کو فرما دیا ہو کہ جو چاہے کرو، بلاشبہ میں نے تمہاری مغفرت کر دی۔ یہ سُن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور عرض کیا اللہ اور اُس کا رسول زیادہ جانتے ہيں۔(بخاری شریف، حدیث نمبر: 6259) اس واقعے سے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں اہلِ بدر کے مقام کے بارے میں کیا معلومات مل رہی ہیں؟

جواب:

عمومی طور پر ہمیں ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ جن کی بھی تشکیل فرما دیتے ہیں تو وہ تشکیل بہت اونچی اور حکمت والی ہوتی ہے، تو آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں چنانچہ آپ ﷺ کے لئے جن ساتھیوں کو چنا گیا تو یہ بہت بڑی بات ہے، کوئی معمولی بات نہیں ہے، اس لئے اس جماعت کا بہت اونچا مقام ہے کیونکہ اس جماعت ہی کے ذریعے سے اللہ کا جو دین آپ ﷺ لے کے آئے تھے وہ اس امت تک پہنچا ہے، گویا اس جماعت پر اعتماد دین کی اساس ہے اگر اس جماعت پر اعتماد مجروح ہو جائے تو دین پر اعتماد نہیں رہے گا، لہذا روایات کے ذریعے سے اور احادیث شریفہ کے ذریعے سے اس کی حفاظت کی گئی ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا کہ عنقریب میری امت بھی 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ان میں صرف ایک نجات پائے گا تو پوچھا گیا کہ وہ کون سا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "مَا انَا عَلَيْهِ وَ اَصْحَابِی" (ترمذی شریف، حدیث نمبر 2641) "جس پر میں ہوں جس پر میرے صحابہ ہوں گے"۔ پتا چلا کہ معیار حق اللہ اور اللہ کے رسول کی بات اور صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا طریقہ ہے، چونکہ آپ ﷺ کی بات کو آپ ﷺ کے دین کو صحابۂ کرام پر نافذ کیا گیا ہے تو صحابہ کرام اس کے لئے role model بن گئے، اس لئے اب ان کو دیکھ دیکھ کر دین پر عمل کیا جا سکتا ہے، یہ تو صحابہ کی عمومی فضیلت ہے۔ پھر خلفائے راشدین کی خصوصی فضیلت ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: "عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ"۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر 4607) یہ فقہ کے لحاظ سے ہے۔ یہ دو باتیں ہو گئیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اصحاب بدر کی اس قربانی کا special تذکرہ ہے جو انہوں نے اس حالت میں دی تھی اور صحابۂ کرام بھی اس چیز کو جانتے تھے، جب مشاجرات ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی فرمایا تھا کہ میرے ساتھ بدری صحابہ ہیں، لہذا بدری صحابہ کا ایک مقام تھا، شوریٰ میں بھی اور دوسرے معاملات میں بھی۔ اس واقعے سے پتا چلا کہ اللہ جل شانہ نے ان کو ایک خاص مقام دیا ہے اگرچہ تھوڑی بہت کمی کوتاہی تو ہوتی ہے۔ جیسے کوئی اتنا بڑا پہاڑ ہو کہ آئندہ جتنے بھی گڑھے بنیں وہ سب اس سے بھر سکتے ہوں اور وہ پہاڑ ان سب کے لئے کافی ہو۔ یہی مثال بدری صحابہ کی ہے کہ ان کی وہ نیکی جو انہوں نے میدانِ بدر دی تھی وہ اتنی زیادہ تھی کہ بعد میں اگر ان سے کوئی لغزش سرزد ہو بھی جائے تو وہ نیکی اس کو fill up کرنے کے لئے کافی تھی۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ اس کے بعد وہ جو کچھ بھی کریں معاف ہے۔ جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین دفعہ جنت خریدی تھی جس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ آج کے بعد عثمان جو کچھ بھی کرے اس پر مواخذہ نہیں ہو گا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعض نیکیاں ایسی ہوتی ہیں جو ماضی کے سب گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، بعض نیکیاں حال کے درجے میں بہت اونچی ہوتی ہیں اور بعض مستقبل کے لئے بھی کافی ہو جاتی ہیں چنانچہ بدر میں شرکت کی بھی کچھ ایسی ہی بات تھی۔ جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ کاش اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی اتنا بتا دیتا کہ دوڑ کے ایک دفعہ آپ ﷺ کی زیارت کر لو تاکہ رئیس التابعین کے بجائے صحابہ میں آپ کا شمار ہو جائے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ ایک موقع ہوتا ہے۔ لہذا غزوہ بدر میں جنہوں نے شرکت کی ان کا مقام بہت اونچا ہو گیا تھا، چنانچہ بدری صحابہ کا 313 کا عدد بڑا مقبول عددہے۔ اس کے ذریعے سے بہت سارے کام ہوتے ہیں، آئندہ بھی اس عدد کا بہت زیادہ استعمال ہو گا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو دین اور دینداروں کی محبت، بالخصوص جن کے ذریعے سے دین آیا ہے یعنی پیغمبروں اور صحابہ کرام کی محبت، پھر جن کے ذریعے سے ہم تک اس کے مختلف حصے پہنچے ہیں جیسے محدثین ہیں اور فقہاء کرام ہیں اور پھر صوفیائے کرام ہیں ان کی محبت، پھر جن کے واسطے سے اِن حضرات کی بات ہم تک پہنچی ہے جیسے وقت کے مشائخ اور علماء کی محبت کی توفیق بخشے۔ اس محبت کے ذریعے سے گویا ہم اپنے آپ کو فتنوں کے خلاف اور مشکلات کے دور میں سنبھال سکتے ہیں اور یہ ہمارے لئے بچت کا سامان بن جاتی ہے۔ آج کل اس پر بہت زیادہ چوٹیں ماری جا رہی ہیں یعنی صحابہ پر، اولیاء کرام پر مختلف صوفیائے کرام پر، علمائے کرام پر اور مشائخِ دین پر چوٹیں ماری جاتی ہیں تاکہ ہماری یہ نسبت مخدوش ہو جائے۔ جس کے بعد ہم شیطان کے لئے تر نوالہ بن جائیں گے، لہذا ہم لوگوں کو اس مسئلے میں اپنے آپ کو سنبھالنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ