اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم فلاں،
One more month of meditation has been completed. Meditation was 20 minutes لطیفۂ قلب and 20 minutes لطیفۂ روح in which ذکر of اللہ اللہ has to be felt. I do feel ذکر for 4 to 5 minutes in both لطائف. Three days were skipped. May I continue with this?
جواب:
Yes you can continue with this. ان شاء اللہ you will get the target .
سوال نمبر2:
السلام علیکم حضرت میری امی نے پہلے 40 دن کا ذکر کیا تھا اس کے بعد 10 منٹ کا قلب کا مراقبہ دیا گیا تھا لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے نہیں کر پائیں۔ اب وہ دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
وہ مراقبہ دوبارہ شروع کر لیں اور با قاعدگی کے ساتھ ایک مہینہ مکمل کر کے اطلاع کر دیں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
Respected حضرت I have been continuing with my completed اصلاحی ذکر so far every night beyond 30 days without missing a day.
200 times “لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ”
400 times “لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ”
600 times “حَقْ” and 300 times “اللہ”. Kindly inform me what ذکر I should do next?
جواب:
So now you should do 400 times اَللّٰہُ اَللّٰہ and the rest will be the same ان شاء اللہ..
سوال نمبر4:
حضرت I have previously done مجاہدہ of غضِ بصر lowering of gaze but it has weekend. Should I do it again or focus on making up missed صلوٰۃ prayers? جزاک اللہ.
جواب:
You should do both, one is فرض and the other is also resisting حرام which is also فرض. So you should do both ان شاء اللہ.
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی معمولات چھوٹ گئے تھے۔ آپ کو اطلاع دی تھی جس پر آپ نے فرمایا تھا کہ معمولات جہاں سے چھوٹے ہیں وہیں سے دبارہ شروع کر دوں۔ دوبارہ معمولات کرتے ہوئے 1 ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ الحمد للہ درج ذیل معمولات پورے ہو رہے ہیں۔ ذکر 200، 400، 600، قلب، روح اور سر کا مراقبہ 5، 5 منٹ ہو رہا ہے۔ مراقبہ کے دوران کبھی خیالات آتے ہیں اور کبھی کبھی اللہ کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
جواب:
آپ ان خیالات کی پروا نہ کیا کریں بس مراقبہ پر توجہ مرکوز رکھا کریں۔ اب لطیفۂ سر کا وقت بڑھا کر 15 منٹ کر لیں اور قلب و روح کے لطیفہ پر 5، 5 منٹ جاری رکھیں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میں نے اور میرے کچھ ہم خیال دوستوں نے مشورہ سے طے کیا ہے کہ کوئی ایسی ترتیب بنائی جائے کہ ہفتہ یا اتوار کے روز مغرب کے بعد میرے گھر میں سب جمع ہوں اور اکٹھے بیٹھ کر آپ کا آن لائن بیان سنا جائے۔
جواب:
جی بالکل ایسا کر سکتے ہیں، پہلے بھی کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں، آپ بھی کر لیں۔
سوال نمبر7:
حضرت جی السلام علیکم۔ آپ کی والدہ کی رحلت کے بارے میں سنا۔ اللہ جل شانہ ان کے لئے آئندہ کی منزلیں آسان فرمائے، ان کو اعلیٰ ترین درجات عطا فرمائے۔ (آمین)
آپ کی ہدایت کے مطابق درج ذیل معمولات کرتے ہوئے 1 ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 دفعہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 دفعہ، ”حَقْ“ 400 دفعہ اور 100 دفعہ ”اللہ“، اس کے علاوہ دوسرے معمولات اور تسبیحات جاری ہیں۔ الحمد للہ اس ماہ تمام تسبیحات مکمل ہوئی ہیں۔ بعد از عشاء اور تہجد کے اوقات میں تسبیحات، تلاوت، تدبر قرآن، نوافل اور دعاؤں کے درمیان کیا کوئی زیادہ پسندیدہ یا مسنون ترتیب ہے جس کے مطابق اعمال تقسیم کر کے زیادہ احسن طریقے سے مکمل کیے جائیں۔ نیز آپ کی والدہ کے لئے 10 منٹ کا مراقبہ دل سے روزانہ مکمل کیا لیکن کسی duration کا تعین نہیں کیا تھا۔ کیا وہ ابھی جاری رکھیں۔
جواب:
علاجی اذکار تو مسنون نہیں ہوتے، یہ تجرباتی ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ بتائے گئے طریقے کے مطابق ہی کرنے ہوتے ہیں۔
تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کی تسبیحات میں یہ تفصیل ہے کہ صبح سے دوپہر تک جو وقت ملے اس میں ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ“ کا ورد کیا کریں، دوپہر سے مغرب تک ملنے والے اضافی اوقات میں درود شریف اور اس کے بعد استغفار کا ورد کیا کریں۔
تلاوت کا طریقہ یہ رکھیں کہ ابتدا میں تلاوت کی جائے اس کے بعد اس میں تدبر کیا جائے۔
مسنون نوافل باقی نوافل سے افضل ہیں۔ نوافل میں کئی نیتیں کی جا سکتی ہیں۔
آپ ہماری والدہ کے لئے ایصالِ ثواب کر لیا کریں۔ ایک دفعہ سورۂ فاتحہ 3 دفعہ سورۂ اخلاص کا ثواب ان کو بخش دیا کریں۔ یہ بہت مفید ہے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم۔ مجھے یہ ذکر ملا تھا: 200 مرتبہ 400 مرتبہ 600 مرتبہ اور 1500 مرتبہ۔ اس کے ساتھ قلب کا 10 منٹ کا مراقبہ تھا۔ اس ذکر و مراقبہ کو ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ لیکن کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ اس ذکر کی تعداد 200، 400، 600 اور 2000 مرتبہ کر لیں۔ 10 منٹ کا مراقبہ بھی جاری رکھیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم۔ حضرت جی آپ کی والدہ کی وفات کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ ان کے لئے دل سے دعا کرتے ہیں اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کو صبرِ عظیم عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ اللہ پاک دین کی راہ میں آپ کی تمام کوششوں کو قبول فرمائے اور اس کا بہتر سے بہتر اجر عطا فرمائے۔ دونوں جہاں میں آپ کا سایہ سب سلسلے والوں کے سروں پہ سلامت رکھے۔ آمین۔
حضرت جی۔ میرے لطائف جو 1 ماہ کے لئے آپ نے دیئے تھے، لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ اور لطیفۂ خفی 15 منٹ۔ ان کو ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔ جمعرات کو 1 ناغہ بھی ہوا ہے۔ سب لطائف محسوس ہوتے ہیں مگر کبھی ہلکے اور کبھی تیز۔ please تھوڑا وقت کم کر کے دے دیں۔ اتنا وقت مشکل ہوتی ہے۔ مزید رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
میں تو آپ کو 1، 1 منٹ کا مراقبہ بھی دے سکتا ہوں لیکن اس میں نقصان آپ کا اپنا ہے۔ اگر دنیا میں کسی کو فائدہ کی چیز دی جائے تو وہ اسے زیادہ سے زیادہ وقت کے لئے چاہتا ہے۔ آپ ہی بتا دیں کہ میں آپ کو کتنا وقت دے دوں لیکن فائدہ نقصان کے ذمہ دار خود ہوں گے۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم۔ محترم حضرت صاحب امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت صاحب مجھے آپ کی رہنمائی چاہیے تھی۔ میرے اکثر کاموں میں رکاوٹیں آ جاتی ہیں جبکہ میں 5 وقت نماز ادا کرتا ہوں۔ صبح سورۃ یس کی تلاوت، مغرب کے بعد سورۃ رحمٰن، واقعہ، مزمل، و الضحیٰ اور الم نشرح کی بھی تلاوت کرتا ہوں۔ پھر بھی مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواب:
اس بارے میں آپ کو کیا بتاؤں۔ 5 منٹ میں تو میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی کریں اللہ کی رضا کے لئے کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک سے دعا مانگا کریں۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿ادْعُوْنِی أَسْتَجِبْ لَکمْ﴾ (غافر: 60)
ترجمہ: ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“۔
لہٰذا دعا مانگنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ باقی آپ نے جتنے معمولات گنوائے ہیں آپ یہ سب حصول ثواب اور اللہ پاک کی رضا کے لئے کیا کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ ان معمولات کو آپ مالی تنگی دور کرنے کے لئے نہ کریں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تجارت نہ کریں اپنے معاملات کو اللہ جل شانہ پہ چھوڑیں اور اللہ پاک سے مانگیں ضرور، مانگنے میں سستی نہ کریں۔ دین کے کاموں میں دنیا کی نیت نہ کریں تو آپ کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ رزق اور مال میں تنگی کے لئے دعا کے علاوہ مزید کچھ کرنا چاہیں تو صلوٰۃ حاجت پڑھ لیا کریں، کیونکہ اپنی حاجات کے لئے مانگنے کا یہ مسنون طریقہ ہے۔ صلوٰۃ حاجت پڑھ کر آپ دعا کر لیا کریں۔ مانگنے کے لئے سب سے بہتر وقت تہجد کا ہے، تہجد کی 8 رکعات میں سے آخری دو رکعتوں میں صلوٰۃ حاجت کی نیت بھی کر لیا کریں، اس طرح آخری دو رکعتیں تہجد اور حاجت دونوں کی شمار ہو جائیں گی، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل و مشکلات کے بارے میں دعا کر لیا کریں۔ دعا کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، آپ کچھ نہ بھی کریں پھر بھی دعا ضرور کیا کریں۔ کیونکہ دعا مانگنا اللہ پاک کا ایک مستقل حکم ہے، جب بھی آپ دعا مانگنے ہیں تو اللہ پاک کے حکم پہ عمل ہوتا ہے۔ دعا دنیا کے لئے بھی ہو تب بھی اس پہ ثواب ملتا ہے۔ یہ طریقہ اختیار کریں تو ان شاء اللہ آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا ورنہ پھر آپ کو شکایت ہی رہے گی اور شکایت کو شیطان اپنے لئے استعمال کروا لیتا ہے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب الحمد للہ آپ کی برکت سے ذکر معمول کے مطابق جاری ہے۔ کچھ عرصے سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے میں دل مشغول نہیں ہوتا مگر دل ہی دل میں ذوق و شوق سے کرتا رہتا ہوں۔ کبھی کبھی آپ سے تعلق کی وجہ سے کچھ محسوس ہوتا ہے، جس کے بارے میں علم نہیں کہ وسوسہ ہے یا خیال ہے، ایسے میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر یہی کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں میرا کچھ نہیں سب کچھ تو ہے سب کچھ تیرا ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
بالکل ٹھیک ہے۔ اپنے اوپر نظر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اپنے اوپر نظر نہ ہو صرف اللہ پر نظر ہو اور اگر کچھ مل جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور سلسلہ کی برکت سمجھا جائے۔ دعا جس حالت میں بھی ممکن ہو ضرور کی جائے دعا میں اللہ کی طرف توجہ ضروری ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہاتھ اٹھا کر کی جائے۔ بہت ساری دعائیں ایسی ہیں جن میں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے مثلاً بیت الخلا جاتے وقت اور کھانا کھاتے وقت جو دعا ہوتی ہے اس میں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے، اسی طرح اور کوئی دعائیں ایسی جو ہاتھ اٹھائے بغیر کی جاتی ہیں۔ ہاتھ اٹھانا ضروری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ضروری ہے۔ یہ اس کی بنیاد ہے بس آپ اس بنیاد کو پکڑ لیں ان شاء اللہ آپ کو فائدہ ہو گا۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ محترم حضرت جی اللہ سبحانہٗ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ خیریت سے ہوں۔ میں پیشہ کے لحاظ سے استاذ ہوں اس وجہ سے بہت بولنا پڑتا ہے سمجھانے کے لئے بہت سی مثالیں دینی پڑتی ہیں اس سب کے دوران بار بار نظر خود پر جاتی ہے کہ کیا عمدہ پڑھایا ہے پھر دفعتاً اس پر ندامت ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس پر استغفار کرتا ہوں کہ نہیں یہ سب اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے ہے جس پر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اس سے دل کو کچھ سکون ملتا ہے۔ بعض دفعہ بہت زیادہ بولنا پڑتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میں خود ستائشی میں مبتلا ہوں۔ یہ سوچ کر بہت برا لگتا ہے۔ پھر پچھتاتا ہوں کہ شاید خاموش رہنا چاہیے تھا۔ رہنمائی فرمائیں کہ کیا کروں۔ ایسے موقع کو کیسے manage کیا کروں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو، آپ کے اہل و عیال کو اور ہمارے سلسلہ کے ساتھیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
جواب:
آپ چونکہ استاد ہیں اور استاد دنیاوی چیزیں سمجھاتا ہے اس پہ اگر وہ تنخواہ بھی لے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ کام اس نے دنیا کے لئے کیا ہے اس لئے اگر اس سے دنیا حاصل ہو جائے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ البتہ اس میں یہ خیال رہے کہ اس سے آپ کو جو کچھ مل جائے مثلاً آپ کو اچھا بولنا آ جائے یا آپ کسی کو اچھا سمجھائیں تو ابتداءً تو آپ صرف زبان سے کہہ دیا کریں کہ یہ اللہ کا فضل ہے، پھر آہستہ آہستہ اس زبانی بات کو دل میں اتارنے کی کوشش کر لیں۔ دل سے سمجھیں کہ یہ اللہ کا فضل ہے۔ آپ نے اسے اپنا کمال سمجھا اس پہ استغفار کر لیا کریں۔ اس طریقے سے آپ کو فائدہ ہوتا رہے گا۔ یہ چیزیں آہستہ آہستہ نکلتی ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک ہی دن میں نکل جائیں۔ سفر جاری رہنا چاہیے رکنا نہیں چاہیے جب سفر جاری رہتا ہے تو کبھی نہ کبھی انسان منزل پہ پہنچ ہی جاتا ہے۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ کیسے ہیں اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔ (آمین) چند طالبات کے اصلاحی اذکار کو 1 ماہ پورا ہو گیا ہے۔
نمبر 1:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ 15 منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ کا بتا دیں اور تمام لطائف پر 5 منٹ کا ذکر جاری رکھیں۔
نمبر 2:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ تجیلیاتِ افعالیہ۔ محسوس ہو رہا ہے۔
جواب:
اب تجیلیاتِ افعالیہ کی جگہ صفاتِ ثبوتیہ کا بتا دیں۔ باقی تمام وہی رہے گا۔
نمبر 3:
لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح 10 منٹ اور لطیفۂ سر 15 منٹ کا بتا دیں۔
نمبر 4:
ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا ہے، الحمد للہ۔
جواب:
اب ان کو ابتدائی مراقبہ 10 منٹ کا بتا دیں۔
نمبر 5:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ اور لطیفۂ خفی 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب تمام لطائف پر 10، 10 منٹ اور پانچویں لطیفۂ اخفیٰ پر 15 منٹ کا مراقبہ بتا دیں۔
نمبر 6:
لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب اس کو لطیفۂ روح 15 منٹ کا دے دیں۔
نمبر 7:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو 10، 10 منٹ سب لطائف پر بتا دیں اور ساتھ 15 منٹ مراقبۂ احدیت دے دیں۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم۔ حضرت جی آپ کے فیض کا چشمہ ہمیشہ جاری رہے۔ (آمین) میں نے 1 ماہ تک کا ذکر مکمل کر لیا ہے۔ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 400 مرتبہ، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 1500 مرتبہ۔ نیز لطیفۂ قلب پر اللہ کا تصور 10 منٹ تک ہے جو محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
آپ اب ذکر کی تعداد اس طرح کر لیں۔ 200، 400، 600 اور 2000 مرتبہ۔ مراقبہ اسی طرح کرتے رہیں۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت اقدس مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ حضرت کی خیر اور تمام معاملات میں برکت مطلوب ہے۔
احوال یہ ہیں کہ انفرادی طور پر دعا میں جو لجاجت اور خاص قسم کی حالت ہوتی ہے لیکن مجمع میں یہ حالت بالکل نہیں ہوتی بلکہ ایک قسم کا حجاب ہوتا ہے۔ لیکن اس وجہ سے دعا کو کبھی چھوڑا نہیں ہے۔ حضرت اقدس رہنمائی فرمائیں کہ کہیں یہ ریا تو نہیں۔
جواب:
ریا کا وسوسہ ریا نہیں ہوتا۔ ریا ایک ارادی فعل ہے جب تک آپ کا ارادہ ریا کا نہ ہو تب تک ریا نہیں بنے گی۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
I hope حضرت is well and the family! I wanted to ask that I had صبر and tolerance before but now it seems like it is disappearing. At times, I get upset and express it through words and regret it later as it was not my intention to hurt anyone. Secondly it seems like the quick quality of jealousy is coming again while it was gone, and also, I have pride. I want people to make my مشورہ and to listen to what I say. Please help me حضرت. I am drowning. The past month, I was not consistent in my ذکر. There were many times that I slept before making my ذکر.
جواب:
Number 1: You told me that you missed ذکر many times so it is also affecting.
Number 2: Something is granted in the start by default and as a toffee, as it is given to children in the beginning but later on they are made to work by themselves and make progress. So now you have to get this thing. What you are granted by your effort which is called سلوک
ان شاء اللہ you will get it. I hope ان شاء اللہ but you have to do effort. You should not leave ذکر.
Number 2: For everything what you consider wrong you should do استغفار and better is 2 رکعت صلوٰۃ توبہ that you will not do it again.
Number 3: Think about why it has occurred and understand what was the reason behind it? So find that reason and remove it. This will become your experience ان شاء اللہ and by this, you will be growing gradually ان شاء اللہ toward success.
سوال نمبر18:
السلام علیکم۔ حضرت جی گزشتہ بدھ آپ نے بیان میں فرمایا تھا کہ محمدی مشرب نبی ﷺ کے نقش قدم پر ہوتے ہیں اور غیر محمدی مشرب دوسرے انبیاء کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ محمدی مشرب اور انبیاء کے نقش پر چلنے سے کیا مراد ہے کیا یہ اپنی مرضی سے ہوتا ہے یا تکوینی طور پر ہوتا ہے یا پھر شیخ کی صواب دید پر ہوتا ہے؟
جواب:
اللہ پاک نے مختلف مزاج بنائے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جس کا جو بھی مزاج ہو اس نے کام خود کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کا مزاج بہت اچھا ہو لیکن وہ کام نہ کرے تو اس کا وہ مزاج ضائع ہو جاتا ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے دونوں کو مانگا تھا، عمر بن خطاب عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مانگا تھا اور عمر بن ہشام ابو جہل کو بھی مانگا تھا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا ایمان لے آئے اور فاروق اعظم بن گئے۔ ابو جہل کی تمام صلاحیتیں کفر کے لئے استعمال ہوئی تو وہ تباہ و برباد ہو گیا۔
ایک تو آپ یہ بات یاد رکھیں کہ کام خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ اپنی محنت کو دیکھیں دوسروں پہ نظر نہ رکھیں۔ جیسے بھی اللہ نے آپ کو بنایا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں۔ مثلاً کسی کو دونوں آنکھیں دیں کسی کو ایک آنکھ دی۔ اب جس کی ایک آنکھ ہے کیا وہ بیٹھ جائے کہ میں کچھ بھی نہیں کروں گا؟ ایسا کرنا تو غلط ہو گا، ہر کسی پہ اپنی طاقت و صلاحیت کے مطابق effort کرنا لازم ہے۔ لہٰذا آپ یہ نہ دیکھیں کہ کون کیا ہے، بس اپنے طور پر محنت جاری رکھیں۔ ہماری خانقاہ میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ سالکین کی نظر اس طرف ضرور جاتی ہے کہ کون کیا ہے محمد مشرب ہے یا غیر محمدی مشرب۔ اس طرح کے امتیازات کی طرف ان کی نظر بہت جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف کے یہ اسباق دوسری خانقاہوں میں اس طرح تفصیل و تشریح کے ساتھ نہیں پڑھائے جاتے لہٰذا ان کو یہ مسائل پیش نہیں آتے۔ ہماری خانقاہ میں چونکہ یہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں اس لئے لوگوں کو شوق ہو جاتا ہے کہ میں یہ کیوں نہیں۔ بعد میں یہ شوق شکایت بن جاتا ہے اور اس راستے میں جب شکایتیں شروع ہو جائیں تو سالک کی واپسی شروع ہو جاتی ہے تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چیز سالک کے لئے تصوف کی اصطلاحات و اسباق پڑھنے کا ایک سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ آپ ان چیزوں میں نہ پڑیں اور سمجھیں کہ بس اللہ کی مرضی، اللہ نے مجھے جیسا بنایا ہے میں اس کے مطابق ہی ٹھیک ہوں اور اب مجھے اسی کو استعمال کرنا چاہیے۔ طبیعت اور مزاج خراب نہیں ہوتے اصل میں عمل خراب اور صحیح ہوتا ہے۔ آپ اپنے عمل کو درست کرنے کی کوشش کریں اور باقی چیزیں چھوڑیں۔
سوال نمبر19:
اسی بدھ کے بیان میں آپ نے فرمایا کہ جو لوگ صفات میں فنا ہوتے ہیں وہ کسی بھی وقت واپس ہو سکتے ہیں اس لئے ذات میں فنا ہونا ضروری ہے کیونکہ ذات میں فنا ہونے والے واپس نہیں ہوتے۔ حضرت جی! اگر کسی کو اس کا اسمِ مربی مل جائے تو اس کی ترقی کافی تیز ہو جاتی ہے۔ کیا اسمِ مربی بھی اللہ کی صفت نہیں ہے؟
جواب:
آپ نے بالکل صحیح بات کی نشاندہی کی ہے۔ جو لوگ صفات میں فنا ہوتے ہیں اور صفات سے آگے نہیں جاتے ان کی واپسی کا خطرہ ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ صفات میں فنا ہونے والے کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی کسی خاص چیز یا کسی خاص غرض سے کہیں جائے، اور اس کی غرض پوری نہ ہو تو ایسے آدمی کی واپسی ممکن ہے۔ مثلا کسی کو خلافت ملنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اگر کوئی خلافت کے حصول کی غرض سے ہی سلسلے میں شامل ہو جائے اور پھر اس کی یہ غرض پوری نہ ہو تو ممکن ہے وہ اس راہ پہ قائم نہ رہے۔ اس لئے ذات میں فنا ہونا اصل ہے، بس اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ کے لئے محبت کریں۔ ؎
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں
خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں
باقی اسمِ مربی صرف تربیت کے Point of view سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کے لئے جو اسمِ مربی بنایا ہوتا ہے اس کے ذریعے اس کی ترقی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے کیونکہ اس کو اس کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے۔ سائنس کے قوانین میں ہے کہ جہاں گونج ہو وہاں amplitude بڑھ جاتا ہے۔ جس چیز کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اس میں action کا amplitude بڑھ جاتا ہے۔ باقی محنت تو وہاں بھی کرنی ہوتی ہے یہ نہیں کہ اسم مربی والے راستے میں محنت نہیں کرنی ہوتی محنت ضروری ہوتی ہے لیکن اس کا amplitude بڑھ جاتا ہے۔ اسمِ مربی کو پانا بھی کوئی معمولی کام نہیں ہے اس میں بڑی محنت اور کوشش لگتی ہے۔
سوال نمبر20:
حضرت teaching something is a means of pride and jealousy, like I want the student to know that I am better than other اساتذہ and also they must listen to me. So how do I remove this disease حضرت should I stop teaching?
جواب:
No no never, I don’t say that you should stop teaching. You should continue it but if you are doing well so this is فضل of اللہ سبحانہ تعالیٰ, if you do wrong it means your نفس is stopping you from progress. Therefore, you should try to remove the evils of نفس and continue this work. For example, if someone is not eating in a good way, should he stop eating? He should learn to eat in good way. So you should continue this teaching and do not demand reward from the student because if you are doing it for Allah so He will grant you the great reward. So ask اللہ سبحانہُ تعالیٰ to help you and to give you اجر of that. And what is jealousy? Jealousy means if اللہ سبحانہُ تعالیٰ has granted someone something and you are thinking it’s not good, so it means you are not satisfying with the حکمت of اللہ سبحانہٗ تعالیٰ. So this is very wrong. So consider this and do not take this by اختیار and if it’s coming بالاضطرار so it is وسوسہ, then forget about it.
سوال نمبر21:
السلام علیکم۔ حضرت جی میری طبیعت خراب رہتی ہے۔ سر اور گردن میں بہت زیادہ بوجھ رہتا ہے۔ عامل حضرات کہتے ہیں کہ جنات کا اثر ہے۔ عجیب عجیب شکلیں نظر آتی ہیں ان سے میں بہت ڈر جاتی ہوں اور پھر خود پر control نہیں کر سکتی کبھی رونا آتا ہے کبھی ہنسنا۔
اس سے آگے message لکھتے وقت ان پر کپکپی طاری ہو گئی اور طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ اس حوالے سے آپ کو لکھنے سے گریزاں بھی رہتی ہے۔ اس وقت ان پر شدت سے بوجھ پڑ گیا ہے۔
جواب:
اگرچہ میں عامل نہیں ہوں لیکن دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مسائل کو حل فرمائے۔ آپ روزانہ مغرب کے بعد با قاعدگی کے ساتھ منزلِ جدید پڑھتی پڑھا کریں۔ شروع شروع میں آپ کے اوپر بوجھ آئے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آسان ہوتا جائے گا اور اللہ پاک آپ پر فضل فرمائیں گے۔
سوال نمبر22:
سیدی و مرشدی محبی و مکرمی ادام اللہ فیوضکم، السلام علیکم۔ کچھ احوال اور کچھ سوالات تصوف کے متعلق پیش خدمت ہیں۔
ذکر و احوال:
سب نمازیں گھر میں باجماعت ادا ہو رہی ہیں۔ تہجد اور اوابین کا معمول حضرت والا کی دعا سے پہلے ہی حاصل تھا البتہ اب اشراق کی توفیق مل گئی ہے مگر افسوس کہ اللہ پاک کریم کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ پہلے تہجد اور فجر پڑھ کے سونے کا معمول تھا اب business اور client project کی وجہ سے سونے کی گنجائش ہی نہیں، اس لئے پڑھ پاتا ہوں۔ اس میں تو کوئی اخلاص نہ ہوا۔
نمبر 2:
علاجی ذکر کی timing بھی adjust کرنا پڑی ہے پہلے عشاء کے بعد کرتا تھا مگر اب فجر کے فوراً بعد کر لیتا ہوں، اس وقت جسم میں چستی بھی ہوتی ہے اور استحضار بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کیا یہ مناسب ہے؟ کیوںکہ مجاہدہ تو عشاء کے بعد زیادہ ہے۔ تمام اذکار بس ادا ہو رہے ہیں کوئی خاص کیفیت نہیں ہے۔ حضرت والا کے live بیانات سنتے وقت جو حالت ہوتی ہے وہ بسا اوقات الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اپنے گناہوں کا استحضار رہتا ہے اور نفس کی خیانتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ نماز میں اور ذکر میں بھی خشوع نصیب فرما دے۔ اکثر حضرت والا کا کلام ”کیسے کہوں کہ اس نے بلایا نہیں مجھے“ پڑھنے سے نیت درست ہو جاتی ہے۔ الحمد للہ درود شریف کا ورد 5000 مرتبہ جاری ہے اور اس کی برکات سب سے زیادہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی یاد پہلے کے مقابلے میں زیادہ آتی ہے اور اس کی برکت سے امت کی فکر اور میرے نبی ﷺ کی امت کے لئے دعا کی توفیق ہو جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ سنت کو تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے۔ شاید پہلی دفعہ زندگی میں ثواب کے بجائے نبی ﷺ کی محبت کی وجہ سے سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق ہو رہی ہے۔ اس وقت جو یہ احوال لکھ رہا ہوں رسول اللہ ﷺ کی جدائی کے غم سے آنکھیں نم ہیں۔ جب اپنی زندگی پر نظر کرتا ہوں تو اپنی جان پر مہربان اور میری حقیقی کامیابی کے فکر مند اور دعا گو حضرت والا سے زیادہ کسی کو نہیں پاتا۔
نمبر3:
جس بات نے میرے پتھر دل کو بھی پگھلا دیا وہ اس سانحۂ عظیم کے پیش آنے پر حضرت والا کا صبر و رضا ہے اور آپ کا یہ جملہ ہے کہ الحمد للہ سب کچھ سنت طریقے سے ادا ہو گیا۔ اللہ اکبر، میرے شیخ! اللہ کی رضا میں تسلی ہے، اس سے بہت اثر بھی ہے اور فائدہ بھی۔ اللہ کریم کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے سنت کا متبع شیخ عطا فرمایا۔
نمبر 4:
کوشش جاری ہے کہ زبان پر پورا قابو ہو اور نفس کا حصّہ نہ بنے۔ جس طرح حضرت والا بیان فرماتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو مگر بعض اوقات جذبات سے مغلوب ہو کر کچھ نہ کچھ منہ سے نکل جاتا ہے جس پر بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ غیر شرعی بات تو نہیں مگر فضول ضرور ہے۔ الحمد للہ حضرت والا نے بالکل واضح فرما دیا ہے کہ کیفیات مقصود نہیں ہیں۔ مدہوشی نہیں بلکہ ہوش میں رہ کر فقط محبوب حقیقی کی رضا تلاش کرتے ہوئے اوامر و نواہی بجا لانا سب سے ضروری چیز ہے۔ اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں۔
قرآن کریم میں موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے محبت کی شدت میں اللہ تبارک تعالیٰ سے اس کا دیدار مانگا، جواب میں انکار کیا گیا اور موسیٰ علیہ السلام نے رجوع فرمایا۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کا ایسا کرنا جذبات اور اپنی خواہشوں کی ترجیح کے ضمن میں نہیں آیا؟ یا پھر انبیاء علیہم السلام اس سے مستثنیٰ ہیں۔
حضرت شاہ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح میں آتا ہے کہ وہ ایک تجلی کے منتظر رہے۔ اسی طرح حضرت حاجی امداد اللہ نے قصد کیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ خود نہیں کھلائے گا تب تک وہ نہیں کھائیں گے۔ پھر حضرت مولانا عبد اللہ بہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ مشہور ہے کہ نفس کی مکمل اصلاح ہو چکی تھی اور شیخ کی طرف سے تسلی بھی دی گئی لیکن خود فرماتے ہیں کہ ایک اضطراب کی کیفیت آ رہی تھی جس کی بنا پر مختلف مشائخ وقت کے پاس حاضری دی مگر کیفیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت نے ان کو اجازت دے دی مگر پھر بھی وہ کیفیت دور نہیں ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے اکابر کاملین ہونے کے باوجود، نسبت کی بشارت ملنے کے باوجود اور نفس کی تربیت ہونے کے باوجود کیفیت کے حصول میں یا پھر اس کے ازالے کے لئے بے قرار تھے۔ ہم دونوں باتوں میں کیسے تطبیق کریں کہ اپنے مشائخ پر بد گمانی بھی نہ ہو کہ یہ سب باتیں سکر کی تھیں یا تکمیل ہونے کے بعد سکر کے ساتھ تھیں۔ طویل عریضہ کے لئے معافی چاہتا ہوں۔ جب سہولت کے ساتھ جواب مناسب ہو، ارشاد فرما دیجیے گا۔
جواب:
سب سے پہلے تو میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ معمولات میں استقامت پر دل خوش ہوا، اللہ تعالیٰ مزید استقامت اور برکات عطا فرمائے۔
اس کے بعد یہ عرض ہے کہ احوال منزل تک پہنچنے کے لئے سیڑھیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ راستے کی باتیں ہوتی ہیں ان پہ ہم نظر بھی نہیں کرتے لیکن ان کو نظر انداز بھی نہیں کرتے کیونکہ ان کے ذریعے تربیت کی جاتی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کے ذریعے طفلان طریقت کی تربیت ہوتی ہے۔ یہ کیفیات اللہ پاک کی طرف سے آتی ہیں اور اللہ پاک کی طرف سے یہ جاتی ہیں۔ یہ مطلوب و مقصود نہیں ہیں ہاں اگر اچھی ہوں تو محمود ضرور ہیں۔
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے شکایت کی کہ حضرت لوگ دعاؤں اور ذکر میں روتے لیکن مجھے لگتا ہے کہ میرا دل پتھر ہے اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا مجھے بالکل رونا نہیں آتا۔ حضرت نے فرمایا: یہ رونا کوئی مقصود نہیں ہے ہاں کبھی کبھی رونا آ بھی جاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو ایسا زور کا رونا آنے لگا کہ پسلیاں ٹوٹنے لگیں۔ یہ حالت ہوئی تو دوبارہ حاجی صاحب کی خدمت میں گئے اور عرض کی کہ حضرت اب تو پسلیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ فرمایا یہ راستے کی چیزیں ہوتی ہیں مقصود نہیں ہیں، کبھی پیش آ جاتی ہیں اور کبھی ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد حضرت گنگوہی سے یہ کیفیت بالکل ختم ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد عرض کیا کہ حضرت وہ حالت تو بالکل ہی چلی گئی۔ فرمایا: کیا کریں رشید، چھوڑ دو ورنہ پھر پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی۔
معلوم یہ ہوا کہ یہ چیزیں مقصود نہیں ہوتیں اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی بات پر یقین، اللہ پاک کے ساتھ تعلق کی مضبوطی اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر اللہ کے لئے عمل ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ تنکا چُلو بھر پانی میں بھی بہہ جاتا ہے اور آبشار میں ہاتھی بھی ٹھہر نہیں سکتا۔ سونامی آ جائے تو اس کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے بڑے بڑے جہاز بھی نہیں ٹھہر سکتے۔ اسی طرح ان کیفیات و وارِدات کی حد منجانب اللہ سب کے لئے الگ الگ ہوتی ہے۔ جس پر جس درجے کا وارد ہوتا ہے اس سے اتنے ہی درجے کا stamina چاہیے ہوتا ہے۔ اگر کسی آدمی پر اس کی برداشت سے زیادہ کا وارِد آئے تو بے شک وہ کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو اس کی برداشت سے نکل جاتا ہے۔ لہٰذا ہم بزرگوں کے ساتھ یہی گمان کریں گے کہ ان پہ جو وارد آیا وہ ان کی برداشت سے زیادہ تھا اور اپنے آپ کے ساتھ یہ گمان کریں گے چلو بھر پانی میں بھی تنکا بہہ جاتا ہے۔ اسی میں حفاظت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان باتوں سے اثر نہ لیں اصل چیزوں پر نظر رکھیں اور اصل چیزیں یہی ہیں جو میں نے عرض کی ہیں۔ اگر یہ چیز آپ کو حاصل ہو چکی ہے یا جب حاصل ہو جائے تو بس اسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور باقی معاملات میں Safe side پر رہیں۔
سوال نمبر23:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ جب مجھے یہ پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے تو میری ساری پریشانیاں دور ہو گئیں۔ یقیناً یہ بات حضرت کو علماً تو پہلے سے پتا ہو گی، اس لئے یہاں جو لکھا وہ حالاً پتا ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔ حضرت جی رہنمائی فرما دیں کہ اس کے حصول کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
جس سوال کا جواب آپ کو خود معلوم ہو اس کے بارے میں مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ کس مسلمان کو پتا نہیں ہے کہ جھوٹ حرام ہے، زنا حرام ہے اور دھوکہ حرام ہے اس کے باوجود مسلمانوں میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں، زنا کار بھی ہوتے ہیں اور دھوکے باز بھی ہوتے ہیں اور اس کی وجہ نفس کی پیروی ہے۔ جذبات پہ قابو پانا یہ دل سے متعلق ہے، کسی بات پر یقین ہونا عقل سے متعلق ہے۔ جب عقل کامل ہو جاتی ہے اور قلب سلیم ہو جاتا ہے تب یہ علم حالاً حاصل ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر24:
حضرت یہ جو مراقبات میں نیت کرتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے اللہ کے محبوب ﷺ کے قلب اطہر پہ رحمت آ رہی ہے وہاں سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے دل پہ آ رہی ہے۔ کیا یہ کشفی چیز ہے یا کسی نے اسے محسوس کیا ہے یا پھر اس پر کوئی نقلی دلیل موجود ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اللہ پاک کی طرف سے نبی پاک ﷺ پر رحمتوں کا نزول اور وہاں سے نیک انسانوں پر رحمت کا آنا‘ یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ حقائق ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ بڑا لمبا باب باندھا ہے کہ آپ ﷺ کے ذریعے ساری چیزیں تقسیم ہوتی ہیں خواہ وہ چیزیں تشریعی ہوں یا تکوینی ہوں۔ اس بارے میں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ تو یہ سب حقائق ہیں، مراقبہ میں ان حقائق کو محسوس کروایا جاتا ہے۔ شیخ ایک دروازہ ہے۔ بے شک شیخ سے اوپر بہت کچھ ہے لیکن آپ تک پہنچنے کے لئے دروازہ آپ کا شیخ ہے، آپ تک وہ تمام رحمتیں اور فیوض شیخ کے ذریعے آئیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دھیان میں رہے کہ حدیث قدسی میں ہے:
”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“ (صحیح مسلم: 6805)
ترجمہ: ”میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں“۔
جب مراقبہ میں آپ اس طرح گمان کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے ہیں اور آپ کا کام بن جاتا ہے۔
کوئی سوال اور۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ بہت اجر عطا فرمائے انہوں نے بعض چیزیں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اگر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الطاف قدسیہ کا لطائف والا باب نہ پڑھا ہوتا تو ان سوالات کے جوابات نہ دے پاتا۔
اکثر حضرات نے دل اور نفس کا تذکرہ کیا ہے لیکن عقل کے ایک درجے کا تذکرہ زیادہ کیا ہے۔ اس سے بہت سارے مسائل کلئیر ہو گئے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس سلسلے میں عقلی خدمت بہت زیادہ کی ہے اور با قاعدہ کتاب لکھی ہے ”احکامِ اسلام عقل کی نظر میں“۔ اس میں احکام اسلام پہ اٹھنے والے تمام سوالات کا جواب عقلی طور پر دیا ہے۔ اس صدی میں اس چیز کی بڑی ضرورت تھی کیونکہ دور حاضر کے لوگ ایسے سوالات اٹھاتے ہیں۔
ایک انگریز نے پوچھا کہ کتا وفادار جانور ہے تو پھر آپ لوگ اس کتے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔
حضرت نے اس کا جواب یوں دیا کہ واقعی آپ کی بات صحیح ہے کتا بڑا وفادار ہے اس میں بڑی اچھی صفات ہیں لیکن ایک عیب ایسا ہے جس کی وجہ سے یہ قابلِ نفرت ہے وہ یہ کہ کتا اپنی جنس کے غیر کے لئے اپنے ہم جنسوں سے لڑ پڑتا ہے، یعنی انسان کے لئے اپنے جیسے دوسرے کتوں سے لڑتا ہے۔ جیسے ہمارے ہندوستانی لوگ دوسرے ہندوستانیوں سے انگریزوں کی خاطر لڑ پڑتے ہیں۔ اس لئے ہم اس کتے سے نفرت کرتے ہیں۔
اس طرح حضرت نے اس کے سوال کا جواب بھی دے دیا اور پیغام بھی دے دیا۔ بہرحال ان تمام چیزوں کی عقلی تشریح ایک بہت بڑی خدمت ہے جو ان حضرات نے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ان بزرگوں کی تحریروں میں بہت کچھ ہے۔ کاش ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہو جائے اور ہم لوگ ان سے وہ چیزیں حاصل کریں۔ یہ علوم ان بزرگوں کے عمر بھر کا نچوڑ ہیں اور ہمیں مفت میں مل رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں یہ علوم حاصل کرنے چاہئیں کیونکہ اگر ہم خود عمر بھر بھی محنت کریں تو یہ چیزیں حاصل نہیں کر سکتے۔
سوال نمبر25:
حضرت آپ نے عقل اور قلب کی بات فرمائی ہے۔ میں فتح الباری میں دیکھ رہا تھا اس میں لکھا ہے کہ مقامِ عقل مقامِ قلب کے اندر ہی ہے۔ اس پر قرآن کی دلیل بھی پیش کی گئی ہے:
﴿لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا﴾ (الأعراف: 179)
ترجمہ: ”ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں“۔
جواب:
اس کے جواب مختلف حضرات نے الگ الگ دئیے ہیں۔ ہر مفسر اور بزرگ کی اپنی رائے ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک بات سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ قرآن اور حدیث میں عقل کا مستقل طور پر ذکر آیا ہے۔ بعض لوگ اس عقل کا مقام دماغ کو قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ اس کا مقام قلب کو قرار دیتے ہیں۔ ہم ان دونوں میں اس طرح تطبیق کر سکتے ہیں کہ در اصل عقل کا تعلق دونوں طرف ہوتا ہے، دماغ کے ساتھ بھی اور دل کے ساتھ بھی۔ اس کا ایک چیمبر قلب و دماغ والا ہے اور دوسرا چیمبر قلب و جگر والا ہے۔ قلب و دماغ والا حصہ سمجھنے کے لحاظ سے ہے اور قلب و جگر والا حصہ عمل کرنے کے لحاظ سے ہے۔ جب تک کوئی بات قلب اور دماغ میں نہ آئے تب تک اسے سمجھا نہیں جا سکتا اور جب تک قلب و جگر عمل پہ نہیں آتے اس وقت تک آپ کام کر نہیں سکتے۔کیونکہ قلب برزخ ہے اس کا تعلق دماغ کے ساتھ بھی ہے یہ سمجھنے کے لحاط سے دماغ کے ساتھ interact کرتا ہے اور اسی قلب میں قوتِ عازمہ بھی ہے۔ قوتِ عازمہ کا تعلق عمل کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہرحال عقل، قلب اور نفس الگ الگ چیزیں ہیں لیکن قلب درمیان میں ہوتا ہے اس کا تعلق ایک طرف سے عقل کے ساتھ ہوتا ہے دوسری طرف سے نفس کے ساتھ ہوتا ہے، اس لئے فرمایا گیا کہ ان لوگوں کے دل تو ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں۔ ان تینوں کی مستقل حیثیت سے تشریح قرآن و حدیث دونوں میں ملتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی علیحدہ علیحدہ تشریح کی ہے یہ ان کی عبقریت ہے کہ انہوں نے اس چیز کو اتنی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ان کے بعد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس چیز کو اور زیادہ واضح کیا ہے کیونکہ ان کے دور میں زیادہ وضاحت کی ضرورت تھی۔ ان سے پہلے لوگ ان چیزوں کو اس طرح ڈسکس نہیں کرتے تھے۔ جیسے علمائے احناف پہلے حدیث شریف نہیں بیان کرتے تھے صرف مسئلہ بیان کرتے تھے۔ اب احناف بھی باقاعدہ حدیث بیان کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ اس کے بغیر لوگ مانتے ہی نہیں، اس لئے اب وہ بھی محتاط ہو گئے ہیں۔ پہلے اعتماد کا دور تھا اب استناد کا دور ہے۔ اس لئے اب ہم لوگوں کو استناد کے ساتھ مسلح ہونا چاہیے۔ عقل و قلب اور نفس کے بارے میں نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل سے بھی بھرپور انداز میں واقف ہونا چاہیے۔ آخر ہمارے بزرگوں نے بھی تو فلسفہ پڑھا ہے۔ انہوں نے فلسفہ اس لئے پڑھا تاکہ فلسفیانہ موشگافیوں کا جواب دے سکیں۔ آج کل کے دور میں لوگ سائنسی اعتراضات نکالتے ہیں، لہٰذا ہمارے لئے بھی سائنس اور عقلیات کے بارے میں جاننا ضروری ہے تاکہ ہم سائنسی طور پر پیدا ہونے والے شبہات کا جواب دے سکیں۔
مجھے مفتی رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا: شبیر صاحب آپ ہمیں سائنس دانوں کی ایک جماعت بنا دیں جس میں ہر شعبے کا سائنس دان موجود ہو تاکہ ہم بوقتِ ضرورت ان سے استفادہ کر سکیں۔ میں نے کہا: الحمد للہ حضرت ہمارے ادارے میں ہر قسم کے سائنس دان موجود ہیں اور ماشاء اللہ وہ دین دار بھی ہیں۔ آپ جب چاہیں ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عقل، قلب اور نفس تینوں مستقل طور پر الگ الگ چیزیں ہیں جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں اور عقلی طور پر بھی ثابت ہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ