خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
جب رجب کا چاند نظر آتا تو آپ ﷺ یہ دعا فرماتے "اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ" (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 3815) "اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرما دے اور ہمیں رمضان شریف تک پہنچا دے" رجب کا مہینہ ان چار مہینوں میں شامل ہے جو حرمت والے مہینے ہیں، اس مہینے کی فضیلت کے بارے میں اور آج کل اس مہینے میں جو خرافات ہو رہی ہیں ان کے بارے میں وضاحت فرمائیے۔
جواب:
در اصل ایک انسان ماننے والا ہوتا ہے اور ایک اپنی من مانی کرنے والا ہوتا ہے۔ البتہ ماننے والا فائدے میں رہتا ہے اس کو اللہ پاک نواز دیتے ہیں اور جو ماننے کی بجائے اپنی من مانی کرتے ہیں وہ اپنے لئے ہر چیز میں مصیبتیں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ چونکہ مبارک مہینوں میں رجب بھی شامل ہے لہذا اس کے لئے آپ ﷺ نے دعا بھی کی ہے اور اس میں رمضان شریف کی خصوصی طلب کا اظہار بھی فرمایا ہے لیکن کچھ لوگوں نے اس میں چند ایسی چیزیں رواج دیں جو ان کے خبثِ باطن کی علامت ہیں جس بنا پر وہ اپنا بہت نقصان کرتے ہیں کیونکہ جن بزرگ ہستیوں پہ وہ کیچڑ اچھالتے ہیں ان کو تو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان کا تو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا اجر بڑھ جاتا ہے اور اس کے بدلے میں اللہ پاک ان کو مزید مقامات عطا فرماتے ہیں لیکن یہ اپنے آپ کو خراب کر لیتے ہیں، جیسے آسمان پر کوئی تھوکتا ہے تو وہ تھوک اس کے اپنے اوپر ہی آتا ہے آسمان تک نہیں پہنچتا۔ بہر حال جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے "اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ" (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 3815) یعنی اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرمائیے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دیجئے۔ چنانچہ اسلام نے اس مہینے کو بہت معزز و محترم بتلایا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ جہلاء نے اس مہینے میں بہت سی من گھڑت خرافات شروع کر دی ہیں جن کا دین اسلام اور شریعت محمدی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں کوئی ذکر ملتا ہے، مثلاً رجب میں کونڈوں کی بدعت کی ہے، در اصل عوام اس کی بنیاد نہیں جانتے لہذا وہ بھی شامل ہو جاتے ہیں، میلا ٹھیلا ہر ایک کو پسند ہے کیونکہ یہ نفس کی خوشی کی بات ہے، کھانے پینے کے چکر میں بہت سارے لوگ اپنا آپ کو خراب کر لیتے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیے کھانا پینا تو اللہ پاک نے ہمارے لئے جائز رکھا ہے اگر حلال طریقے سے ہو اور صحیح طریقے سے کھایا جائے، اور اللہ پاک دیتا بھی ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو ان رسومات میں ہمیں مزید کھانے کو جو ملتا ہے وہ کتنا ہوتا ہے؟ اس کی کتنی قیمت ہوتی ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کالجوں میں جو functions اور installation ہوتے ہیں ان میں لوگ کیسے چیزوں پہ حملہ کرتے ہیں اور چائے کے ایک کپ کے لئے اپنے آپ کو بے عزت کرتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ انسان کا نفس انتہائی بے وقوف ہے، اگر اس میں تھوڑی سی بھی سمجھ ہوتی تو ایسا نہ کرتا، وہ کتنی چیز ہوتی ہے کہ اس کے لئے انسان اپنی عزت نفس خراب کرے، بڑی عجیب بات ہے، وہاں تو عزت نفس کی بات ہے لیکن یہاں ایمان کی اور عقیدے کی بات ہے، یہاں انسان اپنے ایمان کو اور عقیدے کو متاثر کر لیتا ہے۔ چنانچہ بائیس رجب کے کونڈوں کی یہ قبیح بدعت جو بغضِ صحابہ اور توہینِ صحابہ پر مبنی ہے در اصل دشمنان صحابہ کی ایجاد کردہ ہے، اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ بائیس رجب کی شب کو عورتیں نہا دھو کر با وضوء ہو کر خاص طریقے کے مطابق پڑیاں بنا کر مٹی کے کورے کونڈوں میں بھر کے چوکی یا صاف چادر پر رکھ کر ایک منظوم کتاب پڑھواتی ہیں۔ اس کی ابتدا 1906 میں ریاست رام پور U.P میں ہوئی، رجب کے کونڈوں کو ثابت کرنے کے لئے ایک جھوٹی کہانی کا سہارا لیا جاتا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینے میں ایک غریب لکڑہارے کی بیوی نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو بائیس رجب کو میرے نام کے کونڈے بھرے گا تو وہ اللہ سے جو بھی دعا کرے گا وہ قبول ہو گی ورنہ قیامت کے دن وہ میرا گریبان پکڑ لے، چنانچہ اس لکڑہارے کی بیوی نے ایسا ہی کیا، اس کا شوہر بہت سا مال لے کر واپس لوٹا اور ایک شاندار محل تعمیر کر کے رہنے لگا۔ وزیر کی بیوی نے کونڈوں کو نہ مانا تو اس کے شوہر کی وزارت ختم ہو گئی، پھر اس نے توبہ کی اور کونڈے بھرے تو وہ دوبارہ وزیر بن گیا اس کے بعد بادشاہ اور قوم ہر سال دھوم دھام سے یہ رسم منانے لگے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک قبیح حرکت ہے جو دشمنان صحابہ کی ایجاد کردہ ہے اس کی ایجاد صرف اور صرف بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اظہار کے لئے ہے، اس کا دین اسلام اور شریعت محمدی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کونڈوں کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں تو ان کو ترک کرنا چاہیے، ان کو شرعی حکم سمجھ کر پکانا، بنانا، کھانا بدعت ہے۔ کفایت المفتی میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کاتب رسول بھی تھے صحابی رسول تھے بائیس رجب ان کا یوم وفات بنتا ہے۔ اصل میں وہ لوگ یوم وفات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں جس کے لئے انہوں نے یہ رسم شروع کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ، امام موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہ یہ سب ہمارے بزرگ ہیں، انہوں نے کبھی ایسی باتیں نہیں کیں، لہذا یہ باتیں گھڑنے والے وہی لوگ ہیں جو یہ نظریہ رکھتے تھے تو انہوں نے ان کی طرف سے یہ باتیں گھڑ لیں۔ آپ حضرات جانتے ہوں گے جھوٹی اور موضوع روایات بھی ہیں اور موضوع روایات پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں ہیں تو جو آپ ﷺ پر جھوٹ باندھ سکتے ہیں کیا وہ آپ ﷺ کی اولاد پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے؟ چنانچہ یہ جھوٹی باتیں ہیں۔ اور پھر کمزوری یہ ہے کہ لوگ دنیا کی بات کے لئے ہر ایک چیز مان لیتے ہیں تاکہ میں مالدار ہو جاؤں۔ جیسے آپ حضرات نے شاید دیکھا ہو گا کہ ہر کچھ عرصے کے بعد اچانک internet پر یہ بات آ جاتی ہے یا کہیں کاغذ پر لکھا ہوا آتا ہے کہ مدینہ منورہ کے شیخ احمد رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی یہ کرے گا تو ایسے ہو گا، یہ کرے گا تو ایسے ہو گا اور اگر کوئی مانے گا تو اس کو یہ فائدہ ہو گا اور اگر کوئی نہیں مانے گا تو اس کو ایسا ایسا نقصان ہو گا۔ اس طرح کی ایک لمبی چوڑی کہانی آ جاتی ہے۔ اور یہ ہم بچپن سے مسلسل دیکھ رہے ہیں ہر پانچ چھے سال کے بعد یہ قصہ دہرایا جاتا ہے۔ در اصل جن لوگوں کو آپ نے دنیا کے فائدے کا لالچ دے دیا تو وہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں جیسے جرمنی میں ہمارے ساتھ دو ہندو تھے انہوں نے لاٹری ڈالی تھی تو وہ میرے پیچھے پڑ گئے کہ آپ جب نماز پڑھیں تو ہمارے لئے دعا کریں کہ ہم یہ لاٹری جیت جائیں، میں نے کہا ہم تو اس چیز کو مانتے ہی نہیں ہیں تو ہماری دعا کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے، انہوں نے کہا آپ کم از کم کہہ تو دیں، میں نے ان کو ویسے ہی کہہ دیا کہ اچھا ٹھیک ہے، خدا کی شان جب result آیا تو جتنے پیسے انہوں نے لاٹری میں لگائے تھے اتنے ہی ان کو ملے، ہم نے کہا دیکھو ہمارے ساتھ تو یہ بات ہے۔ حالانکہ مسلمانوں سے وہ کتنی نفرت کرتے ہیں لیکن اپنی دنیا کے لئے دعا کا بھی کہنے لگے۔ جیسے پہلے انڈیا میں مسجدوں کے باہر ہندو عورتیں اپنے بچوں کو اپنی گود میں اٹھا کے کھڑی ہوتی تھیں اور مسلمان نمازیوں سے کہا کرتی تھیں کہ ان کو دم کر دیں تو مسلمان ان کو دم کرتے ہوئے گزر جاتے، حالانکہ وہ ہندو ہوتی تھیں، لیکن اپنی دنیا کے لئے ایسا کرنے کے لئے تیار ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا کی بات ہو تو انسان ہر بات مان لیتا ہے۔ لہذا جب انسان دنیا کے رخ پہ کوئی رسم کھڑی کر دیتا ہے کہ آپ کو یہ فائدہ ہو گا، یہ فائدہ ہو گا، تو اس سے ہی نقصان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے اہل سنت والجماعت کے صحیح العقیدہ لوگ بھی ان کے گھیرے میں آ جاتے ہیں اور وہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی بات صحیح ہو گی چلو try کر لیتے ہیں اور اپنے عقیدے کو خراب کر دیتے ہیں۔
اس طرح شب معراج منانے کا معاملہ ہے، شب معراج کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں اور اس میں اختلاف ہے، لہذا اپنی طرف سے خواہ مخواہ ایک چیز کو لازم کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح ستائیسویں رجب کے روزے کو بھی لوگوں نے ثواب کا کام سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ بعض لوگوں نے جب یہ روزہ رکھا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ اس روزے کو تڑوایا تھا کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، چونکہ ہم لوگوں کو صحابۂ کرام کے نقش قدم پہ چلنے کا حکم ہے اور خلفائے راشدین کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ: "عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ" (شرح معانی الآثار للطحاوی، حدیث نمبر 1186) چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اس روزے کو تڑوانے کا اہتمام کیا تو ہمیں بھی ان کے پیچھے چلنا چاہیے اور ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جو خلاف سنت ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس رات کو جاگ کر کون سی برائی کر لی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی ایک انتہائی خوبصورت ہزار روپے کا نوٹ بنالے جو اصل نوٹ سے بھی زیادہ خوبصورت ہو تو حکومت اس کے ساتھ کیا کرے گی؟ گرفتار کرے گی، اس کو سزا دے گی، ہاں اگر وہ کاغذ کے طور پہ چھاپے جیسے بچوں کے کھیلنے کے لئے چھاپے جاتے ہیں تو اس پر کچھ نہیں کہا جاتا کیوں کہ اس میں claim نہیں ہے۔ اسی طرح جو چیز دین میں ثابت نہیں ہے اور آپ اس کو ثواب سمجھتے ہیں تو گویا آپ نے اس کو دین کا حصہ سجھ لیا جو کہ دین میں اضافہ ہے اور اس پر سزا ہے۔ بدعت کا یہی مطلب ہے کہ دین کے اندر کوئی نئی بات نکالنا اور اس پر ثواب کا یقین کر لینا۔ اگر کوئی ویسے ہی اضافی بات کرتا ہے تو ایک لغو بات تو ہو سکتی ہے بدعت نہیں ہو گی، لیکن اگر کوئی اس میں ثواب سمجھتا ہے تو پھر ٹھیک نہیں ہے۔ چونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا کوئی اس کو ثواب سمجھ کرے گا تو یہ بدعت ہے، ہاں بغیر اس تخصیص کے کہ یہ ستائیسویں ہے، چھبیسویں ہے یا پچیسویں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ ستائیسویں کو روزہ رکھنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اس دن کو خاص کر کے ثواب سمجھ کر روزہ رکھنا ٹھیک نہیں ہے یعنی چھبیسویں کو بھی نہ رکھے۔ ستائیس کو رکھے اور پھر اٹھائیسویں کو بھی نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہے اس نے تخصیص کر لی ہے۔ اسی طرح جمعے کے روزے کے بارے میں بھی بتاتے ہیں کہ خاص کر جمعے کا روزہ رکھنا بھی ثابت نہیں ہے لہذا اس سے پہلے یا اس کے بعد ایک روزہ ملا لیں تو پھر ٹھیک ہے تاکہ ایک نئی چیز نہ بن جائے، اس طرح کسی بھی معاملے میں خود رائی اور خود روی ٹھیک نہیں ہے یعنی اس کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان اپنی رائے سے کوئی بات دین میں شامل کر لے۔ اسی طرح اور بھی بعض چیزیں articles میں آ رہی ہیں جیسے رجب کی روٹی کی بھی کوئی رسم ہے، اس قسم کی کئی چیزیں موجود ہیں جن پر علمائے کرام نے رد کیا ہے، اسی طرح کچھ لوگ جمعہ کے دن میٹھی روٹی پکاتے ہیں اور اس پر اکتالیس مرتبہ سورہ ملک پڑھتے ہیں جس کو تبارک کہتے ہیں اور اس روٹی کو میت کی طرف سے فدیہ اور صدقہ و خیرات سمجھ کر تقسیم کرتے ہیں، شریعت میں اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے جبکہ روٹی کے بارے میں مفتی محمود الحسن صاحب فرماتے ہیں یہ نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے نہ صحابہ کرام سے نہ فقہائے و محدثین کی کتب سے، بلکہ من گھڑت ہے، ایسی چیز کو جس میں ثواب سمجھا جائے اور وہ من گھڑت ہو بدعت کہتے ہیں اس کا ترک کرنا واجب ہوتا ہے۔
رجب کا مہینہ ایک مبارک مہینہ ہے اس میں سب سے بڑا کام یہ کریں کہ گناہ سے بچیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نیک کام کریں، اپنا اکاؤنٹ بھریں، بزرگ مہینہ ہے لہذا شعبان کے مہینے میں بھی یہ اعمال کریں، رمضان میں تو خیر ہیں ہی۔
اللہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَيْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ