دل کے ذریعے ایک وقت میں مختلف اعمال ہو سکتے ہیں؟

سوال نمبر 306

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرمایا ہے کہ شکر محض زبان سے اداء کرنا کافی نہیں بلکہ دل سے شکر اداء کرنا ضروری ہے۔ جتنے بھی قلبی اعمال ہیں ان کا محل دل ہے۔ کیا دل کے ذریعے ایک وقت میں ایک ہی عمل ہو گا یا بیک وقت کئی اعمال دل کے ذریعے سے ہو سکتے ہیں؟ جیسے دل شکر سے بھی لبریز ہو، توکل بھی ہو اور تواضع بھی ہو۔ کیا اس طرح ہو سکتا ہے؟

جواب:

جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ فجور کی مزاحمت سے نفس میں تقوی پیدا ہوتا ہے اور دل میں store ہوتا ہے، اسی طرح یہ ساری چیزیں دل کے اندر موجود ہوتی ہیں جن کو اخلاق حمیدہ کہتے ہیں، یعنی جیسے نفس کے اندر تمام رذائل کی صلاحیت موجود ہے اس طرح نفس کی مزاحمت کی وجہ سے اور نفس مطمئنہ کی وجہ سے قلب کے اندر اس کے آثار محفوظ ہو جاتے ہیں، اگرچہ عمل اس وقت ہوتا ہے جس وقت اس کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً ایک شخص شاکر بھی ہے، صابر بھی ہے، متوکل بھی ہے، متقی بھی ہے اور مخلص بھی ہے تو ایسا ہو سکتا تاہم یہ ساری صلاحیتیں دل میں ہوں گی گویا یہ ساری چیزیں جمع ہو سکتی ہیں، ہاں ان کا ظہور اپنے اپنے وقت پہ ہو گا۔ مثلاً ایک شخص عالم ہے تو اس کا علم اس کے دماغ میں موجود ہے، لیکن ساری چیزیں ہر وقت اس کو مستحضر نہیں ہوتیں، لیکن جس وقت جس چیز کی ضرورت ہو گی وہ سامنے آتی جائے گی۔ چنانچہ اگر کوئی کہے کہ وہ فلاں کتاب کا بھی عالم ہے، فلاں کتاب کا بھی عالم ہے، فلاں کتاب کا بھی عالم ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ تو میں کیا کہوں گا؟ میں یہی کہوں گا کہ اگر حقیقت ہے تو ہو سکتا ہے، حققیت نہیں ہے تو نہیں ہو سکتا۔ اسی طریقے سے اگر کسی کے دل میں اخلاق حمیدہ جمع نہیں ہیں تو نہیں ہوں گے اور اگر اس نے حاصل کئے ہیں تو وہ ہوں گے، فرق صرف یہ ہے کہ عقل، قلب اور نفس کا آپس میں جو باہم ربط ہے وہ ذہن میں رہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں، اگر نفس مطمئنہ نہ ہو تو قلب سلیم نہیں ہو سکتا، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کا قلب سلیم ہو اور نفس امارہ ہو، لہذا اگر نفس امارہ ہے تو قلب سلیم نہیں ہو گا، کیونکہ نفس کی شرارتوں کے سارے اثرات دل کے اوپر جائیں گے اور دل کو تباہ کریں گے۔ جیسے کہا جاتا ہے حبِ جاہ، حبِ باہ اور حب مال، حب کا مطلب ہے محبت، اور محبت دل میں ہوتی ہے لیکن جاہ کی خواہش نفس سے آتی ہے، باہ کی خواہش بھی نفس سے آتی ہے اور مال کی خواہش بھی نفس سے آتی ہے۔ جیسے سامری کو موسٰی علیہ السلام نے کہا تھا کہ تونے ایسی کیوں حرکت کی؟ اس نے کہا: میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدموں کی خاک بچھڑے کے منہ میں ڈال دی تو وہ بچھڑا بولنے لگا اور مجھے میرے نفس نے ایسا کرنے کو کہا تھا: ﴿کَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِىْ نَفْسِىْ﴾ (طہ: 20) "قَلْبِی" نہیں کہا۔ لہذا نفس کا اپنا کردار ہے، قلب کا اپنا کردار ہے اور عقل کا اپنا کردار ہے لیکن ان تینوں کرداروں کا ایک دوسرے پہ اثر ہوتا ہے، لہذا کسی ایک کی اصلاح سے کام نہیں بنتا، بلکہ اگر اصلاح ہو گی تو سب کی ہو گی اور اگر کسی ایک کی نہیں ہو گی تو کسی کی بھی نہیں ہو گی۔ جیسے کہتے ہیں کہ نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے (نہ خود کھیلیں گے اور اور نہ دوسروں کو کھیلنے دیں گے) یعنی خود بھی نہیں ٹھیک ہو گا تو دوسرے کو بھی ٹھیک نہیں رہنے دے گا بلکہ اس کو بھی خراب کرے گا، اس لئے سب کے اوپر نظر رکھنی ہوتی ہے البتہ ہر ایک کی اپنی اپنی افادیت ضرور ہے، مثلاً قلب کا اپنا domain ہے، عقل کا اپنا domain ہے اور نفس کا اپنا domain ہے۔ اس لئے جب کوئی شخص کامل ہو جاتا ہے یعنی ان تینوں کی اصلاح ہو جاتی ہے تو پھر specialization کسی ایک میں بھی ہو سکتی ہے، یعنی اگر کسی کا دل بہت زیادہ صاف ہے تو وہ صدیقین میں ہو گا اور اگر کسی کی عقل بہت زیادہ صاف ہو جائے تو وہ علمائے راسخین میں آ جاتا ہے اور اگر کسی کا نفس بہت زیادہ پاک ہو جائے ہے تو وہ زہاد میں آ جاتا ہے، گویا ہر ایک کی اپنی اپنی افادیت ہے لیکن یہ آپس میں باہم interrelated ہیں لہذا کسی ایک پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا سب کو سنبھالنا ہوتا ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ