خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
ایک دفعہ کفار نے آپ ﷺ کی بات سننے کے لئے یہ شرط رکھی کہ ہم ان فقراء کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے اگر آپ ان کو الگ کر دیں تو ہم آپ کی مجلس میں آ جائیں گے، آپ ﷺ چونکہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ مسلمان ہو جائیں تو آپ ﷺ کو دل میں خیال آیا کہ اگر ان فقراء صحابہ کو تھوڑی دیر کے لئے الگ کر دوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس عمل سے منع فرمایا۔ اس واقعے سے دعوت کا کام کرنے والے علماء و مشائخ و مبلغین حضرات کے لئے دعوت کے کیا اصول واضح ہوتے ہیں اور دین کی دعوت قبول کرنے کے لئے اگر کوئی دنیاوی جاہ و جلال والا شخص کوئی شرط رکھ لے تو اس شرط میں کن کن باتوں کے اوپر نظر رکھ کر قبول کیا جا سکتا ہے اور کن وجوہات سے اس کی شرط کو رد کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
در اصل ہمیں اس میں آپ ﷺ کا پورا دعوتی نظام سامنے رکھنا ہو گا کہ مختلف واقعات میں آپ ﷺ نے کیا کیا؟ چنانچہ معاشرے کے اندر اگر کسی کو کوئی جاہ حاصل تھی تو آپ ﷺ نے اس کا خیال رکھا ہے اور ان کی قدر بھی کی ہے جیسے حاتم طائی کی بیٹی آئی تو آپ ﷺ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی اور ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہو گئے تو ان کے بارے میں اعلان کیا کہ ان کے گھر میں بھی جو داخل ہو جائے گا تو وہ محفوظ ہے۔ اسی طرح اور بھی جو بڑے لوگ مسلمان ہوتے تو ان کا بڑا خیال رکھتے تھے اور اگر ویسے کوئی آپ ﷺ کے ساتھ ملنے کے لئے آتا تو اس کا بھی بڑا اکرام کرتے۔ ایک طرف تو یہ بات ہے۔ دوسری طرف بات یہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا مطالبہ جو عقیدے کے مخالف ہوتا تو اسے بھی قبول نہیں کرتے تھے، اور ایسا عمل جس سے کسی دوسرے کی بے اکرامی ہو اسے بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ یعنی خود ان کو عزت دینا الگ بات ہے لیکن ان کی وجہ سے کسی کی بے عزتی کرنے کا بھی تصور نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ ان فقراء کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا مقام تھا، انہوں نے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے لٹایا تھا، لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے برگزیدہ بندے تھے۔ اب اگر بڑے لوگوں کی وجہ سے ان کی بے اکرامی ہو جاتی تو یہ اللہ کو پسند نہیں تھا، یعنی اتنی سی بات بھی اللہ کو پسند نہیں تھی کہ عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کسی وقت مسئلہ پوچھنے کے لئے آئے چونکہ نا بینا تھے، ان کو پتا نہیں چلا کہ آپ ﷺ کے ساتھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، تو انہوں نے مسئلہ پوچھا تو اس وقت مشرکین مکہ کے کچھ لوگ آپ ﷺ کی دعوت پر آئے تھے، ان کو آپ ﷺ کچھ سمجھانا چاہتے تھے تو آپ ﷺ کو اس وقت ان کا آنا ناگوار گزرا کہ یہ بعد میں بھی آ سکتے تھے، کیونکہ یہ تو اپنے ہیں، یہ ناگوار گزرنا بھی اللہ پاک کو پسند نہیں آیا اور فرمایا: ﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤىۙ اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰىؕ وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ یَزَّكّٰۤىۙ اَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى﴾ (عبس: 1-4) گویا اللہ جل شانہ ان کی بے اکرامی پسند نہیں فرماتے، اور آپ ﷺ وہی کرتے تھے جو اللہ چاہتے تھے۔ نیز اللہ تعالٰی نے فرمایا: ﴿وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا﴾ (الکہف: 28) کہ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا پابند کریں جو اللہ پاک کو پکارتے ہوں صبح و شام، اور اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور ان کی بات نہ مانیں جن کا دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کیا ہے اور انہوں نے اپنے نفس کی پیروی کی اور وہ حد سے بڑھ گئے۔ چنانچہ اللہ پاک نے عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا اور دوسرے حضرات کے بارے میں بھی فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگوں کو بھی دعوت دینے میں مقتدر لوگوں کا، بڑے لوگوں کا، صاحبِ حیثیت لوگوں کی حیثیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ بات اس لئے ضروری ہے کہ بعض لوگوں میں چھچھورا پن ہوتا ہے، مثلاً جب تبلیغ میں چلے جاتے ہیں تو ان کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ اب ہم بہتر لوگوں میں آ گئے ہیں۔ گویا باقی لوگوں پر ان کی ایک حقارت کی نظر ہوتی ہے، لیکن ویسے زبان سے ان کو کہتے ہیں کہ آپ ایسے ایسے ہیں، تو یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ در حقیقت انجام کا کسی کو پتا نہیں ہے، انجام کس کا اچھا ہے یہ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے۔ چنانچہ ایک وقت میں اگر کوئی گناہ گار بھی ہے تو ہمیں کیا پتا کہ وہ اخیر تک گناہ گار رہے گا، عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہم سے بھی بہت زیادہ آگے بڑھا دیں، لہذا ان کو حقارت کی بجائے اکرام کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ چوتھے نمبر پر اکرامِ مسلم کا جو باب شامل کیا گیا ہے وہ اسی مقصد کے لئے کیا گیا ہے کہ یہ صورت حال نہ ہو۔ چنانچہ جب ہم مسلمانوں کا اکرام کریں گے تو ان کے دل میں ہمارے لئے محبت پیدا ہو گی، نتیجتاً وہ ہماری بات آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں گے اور ہم دل سے بھی ان کو خود سے اچھا سمجھیں۔ چونکہ انسان کو پتا نہیں ہے کہ میرا انجام کیسا ہو گا لہذا دعوی تو کسی صورت میں نہیں کر سکتا لیکن اگر ایسا کوئی خیال بھی ہو تو اس خیال سے بھی اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ اور دعوت کے میدان میں تو اس کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ دعوت میں اس کا اثر direct دل پر پڑتا ہے اور ان لوگوں پہ پڑتا ہے جن کو وہ دعوت دے رہا ہے۔ اگر ذرہ بھر بھی ان کو احساس ہو گیا اور یہ بات ان کے اوپر کھل گئی کہ یہ تو مجھے bluff کر رہے ہیں اور مجھے کم سمجھ رہے ہیں لیکن ویسے ہی زبان سے اس طرح کہہ رہے ہیں تو کیا ان کو آپ قائل کر سکیں گے؟ سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا، بلکہ وہ تمہارے دشمن ہو جائیں گے۔ لہذا ہمیں ہر طرح سے باقی لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، انجام کار کے لحاظ سے، چونکہ پتا نہیں ہے کہ کون اچھا ہے لہذا اس کو اچھا جان کر دعوت دینی چاہیے، کیونکہ ہمیں مومن کے ساتھ نیک گمان کرنے کا حکم ہے اور بد گمانی کے لئے دلیل کی ضرورت ہے، نیک گمان کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا حکم ہے اور بد گمانی کے لئے دلیل چاہیے اور اگر مثلاً کسی پر بد گمانی کریں تو ہماے پاس دلیل نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمیں کیا پتا کہ کس کا انجام کیسا ہے۔ لہذا ہمیں ان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرنا چاہیے اور دعوت میں جو بات ہم پہنچا رہے ہیں اس کو ان کی امانت سمجھ کر پہنچائیں کہ یہ ان کی امانت ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ پاک نے ہمیں اس امانت پہنچانے کے لئے چن لیا ہے ورنہ وہ کسی کے ذریعے سے بھی پہنچا سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ہمیں ہی دیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر دعوت دیں کہ ہمیں اللہ پاک نے یہ امانت ان کو پہنچانے کے لئے دی ہے اور ہم اس میں خیانت نہ کریں یعنی ان کے دنیاوی مقام سے ڈر کر ہم کوئی بات آگے پیچھے نہ کریں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ان کی بے اکرامی نہ کریں۔ ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ اس سے بہت خیر کے صورتیں پیدا فرمائے گا۔
وَ مَا عَلَيْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ