خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
https://99.cdn.tazkia.org/2021/2/10/20210210_0643_Seerat-study-by-Question304.mp3
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کے گھر والوں کے لئے تین دن تک کھانا بھیجا جائے کیونکہ ان پر غم آیا ہے، آج کل اس سنت پر عمل میں کافی افراط و تفریط پائی جاتی ہے، کچھ علاقوں میں رواج یہ ہے کہ میت کے گھر لوگ کھانے پینے کی اتنی چیزیں بھیج دیتے ہیں کہ ان کا سنبھالنا میت کے گھر والوں کے لئے بڑا مسئلہ ہوتا ہے نتیجتاً یا وہ کھانا ضائع ہو جاتا ہے یا میت کے گھر والے اس کو باقی گھروں میں تقسیم کرتے ہیں جو کہ ان کے لئے غم کے موقع پر ایک مشکل کام ہوتا ہے، دوسری طرف کچھ علاقوں میں میت کے گھر کھانا بھیجنے کی بجائے میت کے لواحقین سے لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کو کھانا کھلائیں گے، اس قسم کی افراط و تفریط کی علمی اور عملی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟۔
جواب:
معاشرہ پورا ایک unit ہوتا ہے اس میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، جس طرح انسان کے اندر پورا ایک نظام ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے اسی طرح معاشرے میں بھی ہر فرد دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر ایک پہ آنی ہوتی ہیں، مثلاً گھروں میں خوشی بھی آتی ہے، غم بھی آتے ہیں، بیماریاں بھی آتی ہیں، اور مختلف قسم کے حالات آتے ہیں، اب اس میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ چنانچہ یہاں بھی وہی عاجلہ اور آجلہ والی بات ہے جو ابھی ذکر کی گئی کہ انسان یا تو فوری طور پر کسی چیز کو چاہتے ہیں یا بعد میں آنے والے دنوں کا خیال کر کے اس کو صحیح طور پہ کرتے ہیں۔ در اصل غم اور خوشی تکوینی چیزیں ہیں، لیکن اس میں شریعت نے ہمیں کیا guide کیا ہے اور وہ کس چیز کی طرف لانا چاہتی ہے، چنانچہ ہمیں شریعت میں حکم ہے کہ ہم آپ ﷺ کی پیروی کریں اور اللہ تعالیٰ کی بات مان لیں۔ لہذا آپ ﷺ پر خوشیاں بھی آئی تھیں، غم بھی آئے تھے، پریشانی بھی آئی تھی، پھر صحابہ کرام پر بھی خوشیاں بھی آئی تھیں، غم بھی آئے تھے اور پریشانی بھی آئی تھی، اس طرح تابعین اور تبع تابعین سب کے ساتھ یہ معاملہ ہوا تھا، اور آپ ﷺ نے اس کے لئے یہ guideline مقرر کی ہے: "مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ" (ترمذی شریف، حدیث نمبر 2641) یعنی جس پر میں چلا ہوں اور جس پر میرے صحابہ چلے۔ لہذا ہم لوگوں کو اس قسم کے events میں صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگی میں دیکھنا ہو گا کہ ان کا کیا طرز عمل تھا؟ کیونکہ آپ ﷺ بھی ان میں موجود تھے تو اس قسم کے حالات میں کیا ہوتا تھا۔ یہ جو guideline آپ ﷺ کی طرف سے ملی ہے کہ جن کے گھر میں غم ہو ایک تو ان کے ساتھ غم کو سمیٹا جائے یعنی ان کے ساتھ تعزیت کی جائے۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ ان کے گھر والوں کے لئے بھی اور ان کے ہاں باہر سے آنے والوں کے لئے بھی انتظام دوسرے قریبی لوگوں کو کرنا چاہیے، لہذا کوئی بھی کام اگر انتظام کے ساتھ ہو تو وہ اچھی طرح پورا ہو جاتا ہے اور اگر انتظام کے ساتھ نہ ہو تو نقصان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جیسا کہ سوال کا پہلا حصہ ہے کہ لوگ بہت زیادہ کھانا بھیج دیتے ہیں اور وہ ضائع ہو جاتا ہے، تو یہ انتظام کیسے ہونا چاہیے؟ یہ وقتی پر طور دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ اس کے لئے کوئی guideline ہمیں نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ output ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ ہونا کیا چاہیے، لہذا اس وقت کے حالات کے لحاظ سے اس کو manage کرنا ہوتا ہے۔ جیسے یہ اندازہ لگایا جائے کہ کتنے لوگ ہیں اور کتنے مہمان ہیں اور با قاعدہ ایک organize طریقے سے اس کا انتظام کیا جائے۔ organize طریقے سے مراد یہ ہے کہ جیسے بعض علاقوں میں یہ انتظام بہت اچھا ہے کہ اس مقصد کے لئے ان کی کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں، ان کمیٹی والوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے لوگ اس میں contribute کرتے ہیں، پیسہ لگاتے ہیں، پھر کمیٹی والے لوگ responsible ہوتے ہیں اور اس قسم کے event میں اسی کمیٹی کے زیر انتظام کھانا پکتا ہے، اور وہ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کتنے کھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر چار پانچ آدمی فیصلہ کرنے والے ہوں تو وہ آسانی کے ساتھ decide کر لیں گے، کیونکہ ان کو پتا ہو گا اس لئے کہ وہ watch کرتے ہیں کہ کیا صورتحال ہے، کتنے لوگ آ سکتے ہیں، کتنے لوگ آئے ہوئے ہیں، کس وقت کس چیز کی ضرورت ہو گی، کس وقت چارپائیوں کی، کس وقت دریوں کی، کس وقت tents کی اور کس وقت کن اور چیزوں کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مختلف علاقوں میں مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ manage کر سکتے ہیں، لیکن اگر سب لوگ گھروں میں ہی اپنے اپنے طور پہ کریں گے کہ جیسے ایک بھی لا رہا ہے، دوسرا بھی لا رہا ہے، تیسرا بھی لا رہا ہے، چوتھا بھی لا رہا ہے تو کوئی manage ہی نہیں ہو سکتا اور ان کو پوری طرح پتا بھی نہیں چل سکتا اور نہ ہی وہ آسانی کے ساتھ اس کو manage کر سکتے ہیں، اس صورت میں یہی ہوتا ہے، جیسے سوال میں کہا گیا ہے کہ اتنا زیادہ کھانا لوگ بھیج دیتے ہیں کہ وہ بعد میں ضائع ہو جاتا ہے، لہذا اسے انتظامی لحاظ سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہم پیر ودھائی موڑ پہ دیکھتے ہیں کہ تین تین، چار چار بسیں کھڑی ہوتی ہیں ہر ایک کہہ رہا ہوتا ہے کہ روکے چلو، روکے چلو اور ہر ایک دکھاتا ہے کہ میں جلدی پہنچنے والا ہوں اور لوگوں کو کھینچتے ہیں، جس سے لوگوں کو بھی پریشانی ہوتی ہے اور شاید ان کو بھی پریشانی ہوتی ہے، لیکن اگر وہ انتظام کر لیں کہ سب number سے جائیں گے اور اس کا کوئی انتظام کرنے والا ہو اور با قاعدہ اس پر عمل ہو تو سب لوگ آرام کے ساتھ ایک ایک بس میں بیٹھ جائیں گے اور سب لوگوں کو سکون ہو گا اور drivers کو بھی آرام کا موقع ملے گا کہ جب ان کا number نہیں ہو گا تو وہ کم از کم rest تو کر لیں گے، ویسے بھی ان کی زندگی بڑی active ہوتی ہے۔ لہذا انتظام کی ضرورت ہے بغیر انتظام کے کام نہیں ہو سکتے۔ بہر حال یہ ایک طریقہ ہے جو کافی لوگ اپناتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے رشتہ داروں کی سطح پر اس قسم کا نظام بنا لیتے ہیں اور رشتہ دار آپس میں contribute کرتے ہیں اور بعد میں اس قسم کے انتظامات کر لیتے ہیں اور رشتہ داروں کو تو اور بھی آسانی ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ اپنے گھر کے حالات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، جب کہ باقی لوگوں کو تو اتنا پتا نہیں ہوتا، بہرحال چاہے رشتہ دار ہوں یا پڑوسی یا کسی بھی اور طریقے سے ہو، لیکن انتظام کے ساتھ ہوتا ہو تو ٹھیک ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ یہ انتظام کرنے کی بجائے میت کے گھر سے کھانے کے خواہش مند ہوتے ہیں جو بہت بڑا ظلم ہے اور یہ دل کی سختی کی علامت ہے، انسان کو دل کا سخت نہیں ہونا چاہیے اس کی قرآن پاک میں بھی مذمت آئی ہے۔ لہذا میت کے گھر سے کھانے کی ہوس نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کی help کرنی چاہیے، اور help بھی ذرا مناسب انداز میں، organize طریقے سے کی جائے۔
فوتگی کے بارے سوال جواب کی صورت میں ایک کلام لکھا گیا ہے، وہ آپ سن لیں۔
شاگر:
میرے استاذ میں نے عجیب طریقہ دیکھا
میں نہ سمجھا میں کہوں کیا کہ میں نے کیا دیکھا
میرے ایک دوست کا والد سنا کہ فوت ہوا
جنازہ کے لئے اس گھر کی طرف تیز چلا
جب پہنچا تو اس کے گھر میں بہت ہی شور تھا
عورتوں کے بین سے سوگوار وہ ماحول دیکھا
عورتیں کیا کہ مرد ان کے روتے جاتے تھے
pose رونے کے وہ عجیب ایک بناتے تھے
(یہ بھی ایک المیہ ہے اور لوگ اس طرح کرتے ہیں)
یہ جو رونا تھا مصنوعی سا نظر آتا تھا
بعد میں اس کا اثر مفقود میں تو پاتا تھا
ہر مرد رونے کی ایک شکل جب بناتا تھا
اس طرح ان سے محبت وہ ایک جتاتا تھا
اٹھی چارپائی جب میت کو لے جانے لگے
کلمہ وہ سارے پھر زور زور سے دہرانے لگے
جب جنازہ پڑھا گیا تو لوگ آنے لگے
لوگ چہرہ انہیں میت کا پھر دکھانے لگے
اور کچھ لوگ گلے لگ کے گھر کو جانے لگے
وہ جنازے میں حاضری کو یوں جتانے لگے
(یہ بھی ہوتا ہے)
دفن کے واسطے چارپائی اٹھی بالآخر تب
جو باقی رہ گیے تھے قبر پہ آئے وہ سب
قبر میں پھر میت نیچے اتاری جانے لگی
دفن کے بعد مٹی بھی پھر ڈالی جانے لگی
مٹی قبر کی بھی پھر درست کرائی جانے لگی
اور اس کے بعد تلاوت کرائی جانے لگی
دعا کے بعد رسم قل کا بھی اعلان ہوا
رسم کا نام تو سن کر ہی میں حیران ہوا
(یعنی رسم قل میں رسم کا لفظ شامل ہے)
تین دن گھر میں دعوتوں کی فراوانی تھی
میرے نصیب میں دیکھ کر اس کو حیرانی تھی
دیکھی جاتی نہیں اس دوست کی پریشانی تھی
رشتہ داروں اور دوستوں کی تو مہمانی تھی
میں تھا حیران اور حیران ہوا جاتا تھا
اور ان حالات میں پریشان ہوا جاتا تھا
ہاں جی رسم قل میں تو وہ پڑھنا برائے نام سا تھا
لوگوں کو مطلب اس آنے میں ایک کام سے تھا
باقاعدہ physically یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے موقع پہ کچھ لوگ لوگوں کو مصروف رکھتے ہیں، ادھر ادھر باتوں میں لگائے رکھتے ہیں کیونکہ لوگوں کو کھانے کا انتظار ہوتا ہے، تو ایسا بھی ہوا کہ جب کھانا آنے لگا تو با قاعدہ سٹیج سے اعلان ہواکہ جس چیز کا انتظار تھا وہ پہنچ گئی۔ اب اندازہ کریں کہ کس چیز کے انتظار میں گیے تھے؟ کھانے کے لئے گیے تھے۔
ملنے جلنے سے اور گپ شپ دعا سلام سے تھا
اسی میت کے وسیلے سے فیض عام سے تھا
یعنی انداز ضیافت بڑا شاندار رہا
مجھ پہ تو دیکھ کے یہ غم بڑا سوار رہا
اور چہلم میں انتظام اور عجیب ہوا
card بھیجے گیے چہلم جو کچھ قریب ہوا
(جیسے card بھیجے جاتے ہیں)
دوسرا شاندار ایک طعام پھر نصیب ہوا
کھایا مالداروں نے محروم تو غریب ہوا
قرض پہ قرض میرے دوست پہ چڑھتا ہی رہا
یہ وہ خدمت اپنے والد کی سمجھتا ہی رہا
میرے مشفق یہ جو دیکھا یہ طریقہ کیا ہے
میری آیا نہ سمجھ میں یہ ماجرا کیا ہے
خرچ کرنے کا اس انداز میں سلسلہ کیا ہے
اس کے بارے میں اکابر کا بھی فتوی کیا ہے
استاد جواب دیتا ہے:
میرے بیٹے ان طریقوں سے ہم انجان نہیں
اس لئے اس طرح کاموں پہ ہم حیران نہیں
لوگ رسومات میں اپنی عقل کو چھوڑتے ہیں
مذہبی بات بھی culture کی طرف موڑتے ہیں
اس طرح نفس کے چکر سے رشتے جوڑتے ہیں
اور سنت کے طریقوں سے رشتے توڑتے ہیں
ہر جگہ ہر طرح لوگوں کی خوشنودی ہے مطلوب
واہ کیا کام ہوا یہ سنیں، یہی ہے مطلوب
(اکثر comment یہی ہوتے ہیں کہ واہ جی کیا بات ہے، کیا زبردست ہوا۔)
آپ نے جذبات کا بے شک ہے احترام کیا
جو ہر ایک کر سکے تو اس طرح ہر کام کیا
دور تکلف کو کیا سادگی کو عام کیا
شرکیہ کام اور ٹوٹکوں کا اختتام کیا
یہ سادگی ہمیں پھر راس کیوں نہیں آتی
تکلفات کی جو عادت ہے وہ نہیں جاتی
رونا غالب ہو تو رونے میں قباحت بھی نہیں
عورتیں بین کریں اس کی اجازت بھی نہیں
اور رونے کے محض pose کی حاجت بھی نہیں
غم مزید اور بڑھانے کی ضرورت بھی نہیں
مرد قوام ہیں عورتوں کو تسلی دے دیں
رو کے خود کو ان کو رونے کی شہ نہ دے دیں
میت ہو مرد تو عورتوں کے درمیان نہ ہو
تاکہ پھر چہرہ دکھائی کا بھی سامان نہ ہو
نیز غیر محرم مرد عورتوں کا امتحان نہ ہو
غسل کے واسطے کوئی بھی پریشان نہ ہو
عورتیں چارپائی اٹھانے میں مزاحم بھی نہ ہوں
سامنے اضطراری اس میں غیر محرم بھی نہ ہو
چاہیے لے جانے میں میت کو ہم عزت دے دیں
اس کی چارپائی کو کندھے سے رفاقت دے دیں
اور گھر والوں کو حوصلہ دیں اور ہمت دے دیں
ان کو اس وقت جس چیز کی ہو حاجت دے دیں
ہم خاموشی سے چلیں ساتھ اور عبرت پکڑیں
اور کرائے کے ذاکرین کی نہ حاجت پکڑیں
حق میں میت کے جنازہ ہی بڑی ہے دعا
تو اس کے بعد بھی دعا ہی ہو تو یہ ہے کیا
(یعنی اصل دعا تو نمازِ جنازہ ہی ہے)
ضروری کام میں میت کو اب دفن کرنا
تو اس کے واسطے فوراً ہی قبر پر جانا
یہی سنت ہے کہ فوراً ہو اب تدفین کا عمل
کوئی اچھا یا برا کام نہ ہو اس میں مخل
بڑی عزت ہے اس میت کی ہو تدفین ابھی
مٹی ڈالنے میں بھی شریک قبر پہ ہوں سبھی
دیکھ لے وہ سب کو جو آنا ہے وہ جگہ ہے یہی
بس یہی روز بلائے ہمیں دشمن نہ کبھی
قبر پہ وعظ یہی ہو کہ یہاں آنا ہے
جو بھی دنیا میں ہے موجود سب کو جانا ہے
تین دن تک ہو گی تعزیت اس کے گھر والوں سے
کہ ہم قریب رہیں غم میں سوگوارں سے
ساتھ ہونے کا ہو اظہار ان کے پیاروں سے
چاہے مہمانی نہیں ایسے غم کے ماروں سے
بلکہ تین دن تک ان کے گھر میں آگ جلے ہی نہیں
ہم کھلائیں انہیں کچھ بھی وہاں پکے ہی نہیں
ہو جو میت کے لئے کوئی بھی ایصال ثواب
نہ بنا دے اسے رسم و رواج اور یوں ایک عذاب
ان کو آزاد رکھیں جس طرح بھی جانیں ثواب
ورنہ ان کی کہیں ہو جائے نہ نیت ہی خراب
کیونکہ لوگوں کے لئے جو بھی کریں گے وہ عمل
بنے ریا خدا کے ہاں نہ وہ رہا ہی اصل
اس میں تخصیص رواجی کا احتمال نہ ہو
اور غیر شرعی طریقوں کا استعمال نہ ہو
اور لوگوں کی خوشی کا بھی اس میں خیال نہ ہو
کسی مالک کے بھی ترکے سے فی الحال نہ ہو
(یعنی کسی بھی وارث کے ترکے سے یہ ادا نہ کیا جائے۔)
ترکہ میت کا ورثا میں ہو تقسیم فوراً
اس کی تقسیم کی دی جائے بھی تعلیم فوراً
فرض واجب کے مقابل مستحب کچھ بھی نہیں
جب خدارا راضی نہ ہو پھر تو یہ سب کچھ بھی نہیں
حق میں میت کے سب شور و شغب کچھ بھی نہیں
بس محض ضد ہو تو پھر اس سے عجب کچھ بھی نہیں
ضد میں شیطان نے شبیر تیر کیا مارا ہے
سوچ لیں ہم اگر ارادہ یوں ہمارا ہے
اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
وَ مَا عَلَيْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ