خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ نے کل ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اجتماعی کاموں میں ایک امیر ہونا چاہیے اور پھر وہ مشورے سے مختلف لوگوں کی صلاحیتوں کے مطابق اُن کے کام متعین کرے۔ آپ ﷺ کی ذات اقدس ایسی تھی کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے حکم کا منتظر رہتا تھا، حکم پر عمل کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ آج کل کے دور میں ایک سربراہ اپنے اندر وہ خصوصیات کیسے پیدا کرے تاکہ وہ اپنے ماتحتوں سے کام بھی لے سکے اور اُن کی خدمت بھی کر سکے اور عوام اپنے اندر وہ خصوصیات کیسے پیدا کریں جو اُس دور میں عوام میں تھیں اس طرح ہم اپنے اسلاف کے طریقوں پر چل کر دنیا میں وہ مقام حاصل کریں جس کے لئے اللہ ٰتعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا۔
جواب:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہر انسان انسانیت کا ایک unit ہے۔ چونکہ افراد سے ہی قوم بنتی ہے اس لئے اگر فرد کی تربیت ہو جائے تو معاشرہ سدھر جاتا ہے، تربیت میں کیا ہوتا ہے؟ نفس کے رذائل دبا دیئے جاتے ہیں اور فضائل کو اجاگر کر دیا جاتا ہے، اخلاق ذمیمہ کو دبا دیا جاتا ہے اور اخلاق حمیدہ پیدا کر دیئے جاتے ہیں۔ جب یہ کام ہو جاتا ہے تو صوفی حضرات اس کو "سَیر فِی اللہ" کہتے ہیں، ہم نے ذرا آسان الفاظ میں سمجھانے کے لئے اسے طریقِ صحابہ کہا ہے۔ اور طریقِ صحابہ کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا "مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ" (بخاری شریف، حدیث نمبر 5080) کہ جس پر میں چلوں اور جس پر میرے صحابہ چلیں۔ چونکہ ہمیں یہ target دیا گیا لہذا اگر ہم آپ ﷺ کے صحابہ کے طریقے پر چلیں گے تو جیسے اللہ پاک نے ان سے کام لیا تھا ہم سے بھی کام لیں گے۔ اگرچہ کوئی آپ ﷺ کی طرح نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی صحابہ کی طرح ہو سکتا ہے، لیکن صحابہ نے آپ ﷺ کے طریقوں کو اختیار کیا تھا اور آپ ﷺ کے طریقے اختیار کرنے سے صحابہ چمک اٹھے یعنی ان کے اندر تمام اچھی صلاحیتیں پیدا ہو گئیں۔ اب ہمیں یہ کہا گیا کہ تم بھی میرے طریقے پر اور میرے صحابہ کے طریقے پہ چلو، لہذا جب ہم اپنے اندر "سَیر اِلیَ اللہ" مکمل کر کے "سَیر فِی اللہ" یعنی طریقِ صحابہ پہ آئیں گے تو ہمارے لئے سنتوں پہ چلنا آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ چلنا تو سنتوں پر ہے، لیکن ہمارے لئے سنتوں پہ چلنا یعنی شریعت پر چلنا آسان ہو جائے گا۔ چنانچہ ہمارے پاس یہی طریقہ ہے اور اگر ہم اس پر عمل کر لیں تو ان شاء اللہ العزیز اللہ پاک ہمیں بھی وہ نسبت عطا فرما دیں گے۔ اور آج کل کے دور میں جو تائید ہو سکتی ہے ہمیں وہ حاصل ہو جائے گی اور ہم لوگوں سے اسی طرح کام لیا جائے گا جس طرح صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لیا گیا تھا۔ گویا اس میں شُورائیت ضروری ہے کہ جیسے شُورٰی میں ان حضرات سے پوچھا جاتا تو وہ اپنے دل کی بات کہہ دیتے جس پر ان کو شرح صدر ہوتا تھا۔ پھر امیر کا جس پر شرح صدر ہوتا اس پہ سب متفق ہو جاتے۔ جیسے کوئی بات ہو رہی ہو اور ہر شخص دل کے شرح صدر کے مطابق مشورہ دے رہا ہو، گویا وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے لہذا اس کو جو حکم تھا اس پر اس نے عمل کر لیا، اب آ گے جو امیر صاحب کا حکم ہو گا اس پر عمل کرے گا یعنی امیر کا جس پر شرح صدر ہو گا وہ بتائے گا۔ پھر تیسرا stage یہ ہے کہ سب لوگ اس کی پابندی کریں گے لیکن اگر ایک اجتماعی کام کی سب پابندی نہیں کرتے تو ہر ایک نفس کی بات پر چلے گا۔ اسی لئے فرمایا جماعت سے علیحدہ نہ ہو، اکیلی بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے۔ اسی طرح خلافت کے بارے میں فرمایا کہ جس کے گلے میں خلافت کی بیعت نہیں ہو گی تو وہ گمراہی کی موت مرے گا۔ (مسلم شریف، حدیث نمبر 4899) یہ ساری باتیں اسی مرکزیت کی طرف آتی ہیں کہ اللہ پاک نے اس امت کو جو مرکزیت عطا کی ہے اور اس کا طریقہ بھی بتایا ہے اسے اپنے اندر پیدا کرنے کا حکم ہے اور اس کے اوپر محنت کی ضرورت ہے۔ بہرحال جیسے آپ نے پوچھا کہ آپ ﷺ کی ذات اقدس اس طرح تھی کہ ہر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ کے حکم کا منتظر رہتا تھا لہذا اب ہم طریقِ صحابہ پر عمل کر کے آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کے لئے منتظر رہیں کیونکہ آپ ﷺ کی پیروی اسی طرح ہو گی، اس لئے اس وقت ان کو براہِ راست حکم تھا، لیکن ہمیں قرآن و حدیث کے ذریعے سے حکم آ رہا ہے، جسے ہم شریعت کہتے ہیں۔ گویا اگر ہم طریقِ صحابہ پر آ چکے ہیں تو ہم سنت پر عمل کر نے کے منتظر رہیں گے۔ پھر اس پر لڑائی نہیں ہو گی کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں، بلکہ اس کی کوشش ہو گی کہ مجھے پتا چل جائے کہ آپ ﷺ کا طریقہ کون سا ہے تا کہ میں اس پر عمل کروں، شرح صدر اس پر چاہیے ہو گا۔ لہذا شرح صدر ہو جائے گا، جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وعدہ کیا ہے کہ: ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) کہ جو لوگ مجھ تک پہنچنے کی کوشش اور محنت کریں گے، ان لوگوں کو ضرور بالضرور ہدایت دوں گا، ہدایت کے راستے سجھاؤں گا۔ تو پھر اللہ پاک ان کو شرح صدر نصیب فرمائیں گے، ان کو طریقہ بتائیں گے جس پر عمل کر کے کامیابی نصیب ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ