اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے، پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔
سوال 1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! 5 منٹ کے لئے دل پر، 5 منٹ روح پر، 5 منٹ کے لئے سر پر، پھر 5 منٹ کے لئے پیشانی پر ذکر محسوس کرتی ہوں۔
جواب:
ابھی پانچواں بھی شروع کر لیں۔ یعنی بالکل سر کے وسط میں اوپر کی طرف جو جگہ ہے جس کو تالو کہتے ہیں، اس پر بھی آپ محسوس کریں۔ گویا 5 مقامات پر؛ دل پر، روح پر، سر پر، خفی یعنی پیشانی پر اور سر کے اوپر، یہ محسوس کریں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم! حضرت جی میرے 15 منٹ کے مراقبے کا مہینہ پورا ہو گیا ہے اور ساتھ ہی عمر بھر کی تسبیح بھی کرتی ہوں، پھر جب مراقبہ کرتی ہوں تو اِدھر اُدھر کے خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ دل میں خود بخود اللہ اللہ ہو رہا ہے اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ میں خود پڑھ رہی ہوں۔ اب آگے میری رہنمائی کیجئے۔
جواب:
ما شاء اللہ! یہی طریقہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ انسان ترقی کرتا ہے، تو آپ کو جو کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے یہ ان شاء اللہ العزیز مستقل طور پہ محسوس ہونے لگے گا، بس آپ یہ کوشش جاری رکھیں اور اب 20 منٹ کے لئے یہ مراقبہ کریں یعنی صرف آپ نے تصور کرنا ہے کہ میرے قلب میں اللہ اللہ ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ اگر آپ زیادہ بہتر کرنا چاہتی ہیں تو آپ دل کے اوپر انگلی بھی رکھ لیں تاکہ آپ کو زیادہ بہتر محسوس ہو اور سمجھیں کہ اس انگلی کے نیچے اللہ اللہ ہو رہا ہے۔ 20 منٹ کے لئے آپ یہ کریں اور ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتا دیں۔
سوال 3:
السلام علیکم! محترم میں نے 25 جولائی 2020 کو آپ سے بیعت کی تھی۔ میں نے آپ کے بتائے ہوئے اذکار ایک week پڑھے تھے، لیکن میرے husband کو یہ بات اچھی نہیں لگی، انہوں نے میرے ساتھ بہت غصہ کیا۔ جناب میں آپ سے اپنی اصلاح کروانا چاہتی ہوں، میں جب بھی ذکر start کرتی ہوں میرے لئے بہت سی problems start ہو جاتی ہیں۔ kindly مجھ سے ناراض نہ ہو جائیے گا، میں آپ کے بتائے ہوئے اذکار نہیں ادا کر سکی۔ please میری help کیجئے، میرا نفس مجھے کہیں کا نہیں رہنے دے گا please۔
جواب:
ما شاء اللہ! آپ یہ جو کوشش کر رہی ہیں یہ بہت عمدہ ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ آپ husband کے سامنے ہی ذکر کریں، اس کے لئے چونکہ تھوڑا سا وقت درکار ہوتا ہے لہذا جب وہ نہ ہوں تو اس وقت آپ اپنا ذکر کر سکتی ہیں۔ آپ کا یہ ذکر تھوڑا سا ہے، اطمینان سے اس کو کرنا شروع کر لیں اور 40 دن پورا کر کے پھر مجھے بتا دیجئے گا۔
سوال 4:
السلام علیکم! الحمد للہ ثم الحمد للہ ربیع الاول میں نیت کی تھی اور ایک ایک کر کے ان پہ عمل کی توفیق نصیب ہوتی گئی، آج میرا ایام بیض کا تیسرا روزہ ہے، اس ماہ 13، 14 اور 15 چاند تاریخ کو یہ روزے رکھنے کی توفیق ہوئی، یہ زندگی میں پہلی بار رکھے ہیں۔ حضرت جی یہ سب اللہ پاک کے فضل و کرم اور توفیق سے اور آپ کی دعا سے ممکن ہوا، اس پر جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کروں کم ہے۔
جواب:
واقعی شکر کرنے سے نعمت بڑھتی ہے اور آپ شکر کر رہے ہیں تو ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کو مزید سے بھی نوازیں گے۔ اللہ تعالیٰ سلسلے کی جملہ برکات سے مستفید فرمائے۔
سوال 5:
السلام علیکم۔
جواب:
السلام علیکم کا جواب تو و علیکم السلام ہے، لیکن بغیر تعارف کے یہ ذرا تجسس پیدا کرتا ہے اور تجسس اچھی بات نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ساتھ اپنا تعارف کرایا کریں کہ کون ہوں۔ ویسے بھی طریقہ بھی یہی ہے اور آداب یہی ہیں کہ جب کسی سے بات ہو تو کم از کم اس کو پتا ہو کہ میں کس سے مخاطب ہوں۔
سوال 6:
السلام علیکم! کیا مزاروں پر جانا جائز ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟
جواب:
کس مقصد کے لئے جانا چاہتے ہیں؟ کیونکہ یہ نیت پر منحصر ہے۔ جیسے آپﷺ نے فرمایا: ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (البخاری، حدیث نمبر: 1) ”تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے“ اس لئے آپ اپنی نیت بتا دیں تو میں بتا دوں گا کہ جائز ہے یا نا جائز ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ انسان کو عبرت حاصل ہوتی ہے، موت یاد آتی ہے، جو کہ ضروری ہے جیسے کہا گیا ہے کہ: ’’مُوتُوا قَبلَ أنْ تَمُوتُوا‘‘ مرنے سے پہلے مرنے کی کیفیت حاصل کر لو۔ لہذا اگر مزارات پہ جا کر آپ ان کے لئے آپ ایصالِ ثواب کرتے ہیں تو ما شاء اللہ ان کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ نیز اولیا اللہ کے مزارات مبارک جگہیں ہوتی ہیں اس لئے وہاں اللہ پاک کی رحمتیں برستی ہیں، اس سے بھی اپنا حصّہ وصول ہو جاتا ہے۔ باقی آپ اپنی نیت بتا دیں تو پھر میں بتا دوں گا۔
سوال 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت یہ حقیقتِ توحید و رسالت کے حقیقتِ محمدی ﷺ والے حصے کا ایک اقتباس ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ پہلے جسم کو درست کیا جاتا ہے پھر اس میں روح ڈالی جاتی ہے۔ اس سے ایک سوال ذہن میں آیا کہ یہی اصول تو ہمارے ظاہر کے لئے بھی کار فرما ہے کہ پہلے اعمال جیسے نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ کی ظاہری صورت درست کرنے کی فکر کی جاتی ہے اور جب ظاہری طور پر ٹھیک ہو جائے تو پھر ان میں خشوع اور اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ساری عمر اعمالِ ظاہری حالت درست کرنے ہی میں گزر جائے گی، کیونکہ عبادات، معاملات اور معاشرت تو بہت وسیع شعبے ہیں، ان کو ظاہری طور پر درست کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔
جواب:
بڑا Technical question ہے۔ یقیناً دونوں شعبے بہت اہم ہیں ظاہر اور باطن، باطن اصل ہے اور ظاہر اس کی حفاظت کرتا ہے، ظاہر ڈھانچہ ہے اور باطن اس کے اندر روح ہے۔ ظاہر کے بغیر باطن exist نہیں کر سکتا اور باطن کے بغیر ظاہر بے جان ہوتا ہے۔ اگر انہی باتوں کو سمجھ لیا جائے تو میرے خیال میں باقی سوال خود بخود سمجھ میں آنا شروع ہو جائیں گے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ظاہری طور پر محنت اتنی ہے کہ ڈھانچہ کم از کم درست ہو کہ وہ ڈھانچہ تو کہلائے۔ مثال کے طور پر آپ سارے ڈھانچے سے کوئی چیز نکال لیں تو پھر ڈھانچہ مکمل تو نہیں ہو گا۔ لہذا اتنا مکمل تو ہونا چاہیے کہ جیسے نماز ہے کہ نماز کے سارے ارکان تو ادا کرنے چاہئیں جیسے قومہ اور جلسہ درست ہونا چاہیے، پھر رکعتوں کی تعداد درست ہونی چاہیے، نیت درست ہونی چاہیے۔ تاکہ کم از کم ظاہری طور وہ نماز بن جائے، یعنی ظاہری طور پر اتنا تو درست کر لو۔ باقی اس کا باطن درست کرنے سے درست ہو گی، کیونکہ اس کی باقی درستگی یعنی اس کی روحانیت وہ تو اس کے باطن کے درست کرنے سے درست ہو گی۔ لہذا اگر نمازیں سنت کے مطابق پڑھی ہیں تو سبحان اللہ پھر تو میرے خیال میں دو دن میں بھی درست ہو سکتی ہیں، اگر کوئی کرنا چاہے تو اس میں time نہیں لگتا۔ روزے کے مسائل جاننے میں کتنی دیر لگے گی؟ تو اس کے مطابق روزہ رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ روزے کی برکات زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں تو اس کا تعلق باطن کے ساتھ ہے، یعنی وہ پھر باطن پر محنت ہے۔ اسی طرح زکوۃ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اسی طرح حج کا بھی معاملہ ہے، کیونکہ حج کے صرف چند مسائل ایسے ہیں کہ ان پر آپ عمل کر لیں تو آپ کا حج ہو جائے گا۔ لیکن اس کا باطن درست کرنے میں کافی time لگتا ہے۔ لہٰذا اس کے اوپر محنت کرنی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ بات تو سمجھ سے بالا تر ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ ظاہری اعمال میں ہی ساری عمر گزر جائے گی۔ ایسا نہیں ہے۔ فرائض کے درجے میں اور واجبات کے درجے میں عمل کرنے میں اتنا دیر نہیں لگتی۔ البتہ مستحبات کے ساتھ اور بالکل اعلیٰ درجے میں کرنے میں وقت لگتا ہے اور اس کا تعلق پھر باطن کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہذا جب باطن درست ہوتا ہے تو پھر چیزیں درست ہوتی ہیں۔ لہٰذا کم از کم ظاہر اتنا ہو کہ وہ عمل ہو اداء جائے، اس کے بعد پھر آپ اپنے باطن کی اصلاح پر لگ جائیں، تو باطن کی اصلاح جیسے جیسے ہوتی جائے گی اسی طرح ان ظاہری اعمال کے اندر جان آتی جائے گی اور ظاہری اعمال بہتر ہوتے جائیں گے، قبولیت کا درجہ پانے کے قابل ہوتے جائیں گے۔ تو یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں، ان میں سے کوئی بھی غیر ضروری نہیں ہے۔ البتہ ترتیب یہ ہے کہ پہلے ظاہر کو کم از کم اس حد تک درست کیا جاتا ہے کہ وہ کم از کم ڈھانچہ کہلا سکے یعنی ظاہری طور پر کم از کم وہ اعمال اداء ہو جائیں، پھر اس کے بعد ان میں بہتری پیدا کرنے کے لئے اس کے باطن کو درست کیا جاتا ہے۔
سوال 8:
حضرت مجھے خانقاہ امدادیہ کا روزانہ کا معمول مل چکا ہے، میں اس کے مطابق کون سا ذکر کروں؟ مزید یہ بتائیں کہ جو یہاں پہلے درود شریف پڑھنا مقبول ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ ان شاء اللہ حضرت کل سے معمول بنانا ہے، مزید تاخیر نہیں کرنا چاہتی۔ براہِ مہربانی رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
ابھی آپ کا ذکر کون سا ہے وہ ذرا مجھے بتانا ہو گا۔ باقی اس میں جو تفصیل آپ کو بتائی جائے گی اسی کے مطابق آپ کریں گی۔
سوال 9:
اس مہینے میں مجھ سے ایک دن اوابین، ایک دن عشاء کی چار رکعات نفل، دو دن چہل حدیث شریف اور مناجاتِ مقبول قضا ہوئے ہیں۔
جواب:
اس کے بارے میں آپ تحقیق کر لیں کہ کس وجہ سے قضا ہوئے ہیں اور اس سے تجربہ حاصل کریں کہ آئندہ یہ قضا نہ ہوں۔
سوال 10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! شاہ صاحب میرے جنوری کے معمولات والے پرچے میں اس دفعہ کافی ناغے آئے ہیں اور کسی عذر کی وجہ سے نہیں بلکہ میری سستی کی وجہ سے ہیں۔ میں جان بوجھ کر معمولات چھوڑنے لگی ہوں، اس دن تہجد کے لئے آنکھ بھی کھلی اور میں نے جان بوجھ کے تہجد نہیں پڑھی اور نیند بھی نہیں آئی، مگر تہجد بھی نہیں پڑھی۔ مجھے جیسے ضمیر اٹھا رہا تھا اور جھنجھوڑ رہا تھا کہ اٹھو جمعہ کی رات ہے اور نیند بھی تو نہیں آ رہی تمہیں، مگر میری ایک ضد تھی کہ نہیں اٹھوں گی تو بس نہیں اٹھی اور جان بوجھ کے قضا کر دی اور صبح افسوس بھی نہیں ہوا، حالانکہ پہلے اگر کوئی عمل مجھ سے قضا ہوتا تو مجھے افسوس ہوتا تھا، اس دفعہ افسوس بھی نہیں ہوا۔ شاہ صاحب میں جان بوجھ کے قضا کرنے لگی ہوں، معمولات میں بری بنتی جا رہی ہوں، میں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔
جواب:
اپنے آپ سب سے زیادہ انسان کی سمجھ میں آ سکتا ہے، کہتے ہیں علم کے دو طریق ہیں، ایک حصولی علم ہے اور ایک حضوری علم ہے۔ حضوری علم وہ ہوتا ہے جس میں انسان خود اپنے بارے میں جانتا ہے۔ جیسے کسی کو درد ہو رہا ہے تو وہ حضوری علم ہوتا ہے لیکن کسی اور کو درد ہو رہا ہو تو آپ اس سے پوچھیں گے کہ کیا ہے تو وہ بتائیں گے تو وہ حصولی علم ہے۔ چنانچہ حضوری علم کے لئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ خود حاصل ہوتا ہے۔ تو آپ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ میں کیا کروں تو میں اب آپ سے پوچھتا ہوں کہ میں کیا بتاؤں آپ کو؟ جب آپ خود کہہ رہی ہیں کہ میں جان بوجھ کے قضا کرنے لگی ہوں، تو اب میں اس میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ اس میں تو مجھے آپ نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یعنی آپ اپنے حضوری علم پر عمل نہیں کر رہیں تو میں حصولی علم کے بارے میں آپ کو کیا بتاؤں؟ میرے لئے تو Second person والی بات ہے آپ کے لئے تو First person ہے۔ اس وجہ سے میرے خیال میں آپ اس پر غور کریں اور اگر آپ اپنے لئے اس کو بہتر سمجھتی ہیں کہ آپ کو عمل کرنا چاہیے تو کریں اور اگر بہتر نہیں سمجھتیں تو مجھ سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ مالک ہے۔
سوال 11:
السلام علیکم! میں فلاں سوڈان سے بات کر رہا ہوں۔ الحمد للہ آپ کا تلقین کیا ہوا ذکر ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے 200 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘، 400 دفعہ ’’اِلَّا اللہ‘‘، 600 دفعہ ’’اللہُ اللہ‘‘، اور 2500 مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ اب مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
تو اب آپ 200 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ 400 دفعہ ’’اِلَّا اللہ‘‘ 600 دفعہ ’’اللہُ اللہ‘‘ اور 3000 مرتبہ ’’اللہ اللہ‘‘ کر لیا کریں۔ یہ ایک مہینے کے بعد بتا دیں۔
سوال 12:
سر زما دريم ذكر ھم پورہ شو؟
جواب:
اوس څلورم ذکر شروع کړه ان شاء اللہ
سوال 13:
حضرت اقدس سیدی و مولائی شاہ صاحب دامت برکاتہم بخدمت بصد احترام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ سے آپ کی خیریت، صحت و قبولیت و عافیت کے لئے دعا گو ہوں۔ اللہ تبارک تعالیٰ آپ کی محبوبیت برگزیدہ بندوں میں، آپ کا مرتبہ عالی مقبولین میں، آپ کا ذکر اہلِ قرب میں فرمائے۔ حضرت جی جنوری کے معمولات کی تفصیل درج ذیل ہے: خاموشی کا مراقبہ نومبر سے جاری ہے، وقت پر استحضار نصیب ہو جائے جس کی وجہ سے غیر ضروری امور پر بات سے فراغت ہو جاتی ہے، حالات کی سختی اگر محسوس ہو تو والد کی خدمت میں دل اور ذہن میں جو بھی خیالات ہوں من و عن تفصیلاً عرض کر دیتا ہوں اور وہ بھی کمال شفقت سے سماعت فرما لیتے ہیں اور کوئی نہ کوئی مشورہ دے دیتے ہیں، معاملات دنیاوی ہوتے ہیں اور مقصد دل کے بوجھ کو حل کرنا ہوتا ہے، ان کو بھی انتظار رہتا ہے۔ لہٰذا دعائیں اور مشورہ مل جاتا ہے اس بات چیت میں چونکہ جو ذہن چل رہا ہوتا ہے وہ عرض کر دیتا ہوں تو کچھ اشکالات ذہن میں آتے ہیں کہ کہیں یہ غیبت کے زمرے میں تو نہیں آتا، دوسرا یہ کہ کیا یہ ﴿اِنَّمَا أَشْكُوْ بَثِّيْ وَحُزْنِيْ إِلَى اللہِ﴾ (يوسف: 86) کے منافی تو نہیں ہے؟ تیسرا یہ کہ چونکہ معاملات روز مرہ کے دنیاوی ہوں تو کیا یہ پھر بھی شیخ کی خدمت میں عرض کرنے ہوتے ہیں؟ استخارہ 10 دن تک جاری رہا، محسوس ہوا کہ پاکستان shift ہونے میں ابھی تاخیر کی جائے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے آبائی علاقے میں رہنے میں نہ صرف خاندانی بلکہ دین کی مستعدی میں بھی مسائل ہو جائیں گے۔ اس دوران ایک حدیث شریف بھی پڑھنی نصیب ہوئی کہ اگر کوئی رزق لگا ہو تو بلا سبب اس کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مسند احمد میں اور سنن ابنِ ماجہ میں ایک روایت ہے کہ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں اپنا سامانِ تجارت شام اور کبھی مصر کی طرف بھیجا کرتا تھا، ایک مرتبہ میں نے عراق کی طرف تجارت کا سامان بھجوانے کی تیاری کی، میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آیا انہیں صورتِ حال بتائی، امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ایسا نہ کرو تمہیں اور تمہاری جائے تجارت کو کیا ہوا؟ یعنی کوئی نقصان ہوا؟ کوئی وجہ ہے؟ جو تجارت کا رخ تبدیل کر رہے ہو؟ پھر عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تم میں سے کسی کے لئے کسی جگہ رزق کا سبب بنائے تو وہ اسے ترک نہ کرے، یہاں تک کہ اس میں خود تبدیلی نہ آ جائے۔ ہو سکتا ہے کہ نفس مشقت میں نہ پڑنا چاہتا ہو اس لئے ذہن اس طرف بن رہا ہے۔ اس لئے آپ کی خدمت میں ساری بات رکھ دی ہے، آپ حضرت کی رائے نصیب ہو جائے۔ نمازیں الحمد للہ سب وقت پر ادا ہو رہی ہیں ما سوائے عشاء کی ایک نماز قضا ہوئی۔ جنوری میں بخار اور infection کے باعث تسبیحات کا ناغہ ہوا، تلاوت و بیانات نہیں سن سکا، infection کے باعث کئی روز کھڑے ہو کر اشارے سے نماز پڑھی، رکوع اور سجدہ کرنا ممکن نہیں تھا، ایک رات medicine کے اثر میں نیند کا غلبہ رہا اور فجر کی اذان پر آنکھ کھلی، نماز قضا ہونے کے باعث کئی دن سے طبیعت پر بوجھ ہے، ذہن میں کئی بار آیا کہ آپ کی خدمت میں عرض نہ کروں، لیکن خود پر جبر کر کے احوال پیش کر دیئے ہیں کہ تربیت کا یہی راستہ ہے۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! جو ہمارے لئے بہتر ہو اللہ جل شانہ ہمیں وہ نصیب فرما دے۔ (آمین) باقی آپ نے جو استخارہ کیا اور استخارے کا جو جواب آیا بس اسی پہ عمل کریں، کیونکہ استخارہ personal چیز ہوتی ہے اس میں باقی لوگ اتنا زیادہ interfere نہیں کرتے۔ البتہ آپ کو چونکہ شرح صدر ہو گیا ہے لہذا آپ اس پر عمل کر لیں اور بیماری کے باعث اگر کوئی معمول رہ جائے تو ان شاء اللہ اس کا پورا ہی اجر ملے گا۔ البتہ جو عشاء کی نماز قضا ہوئی ہے اس کے لئے 3 روزے رکھ لیں، ہمارا طریقہ یہی ہے کہ ہم ایک نماز پر 3 روزے بتاتے ہیں تاکہ نفس اس کا عادی نہ ہو جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ساری باتیں تفصیلات مانگتی ہیں، تفصیلات کے بعد ہی انسان کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ مگر چونکہ آپ کا شرح صدر ہو گیا ہے اور آپ کا ایک ذہن بن گیا ہے لہذا آپ اس پر عمل کر لیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال 14:
السلام علیکم! میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے 2 مہینے پہلے کہا تھا کہ میں ہر مہینے پابندی کے ساتھ اپنے معمولات آپ کو بھیجوں۔ میرا یہ ذکر چل رہا ہے 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘، 600 مرتبہ ’’حَق‘‘ اور اس کے ساتھ 5، 5 منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا۔ پچھلے مہینے آپ نے ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) کی جگہ صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبے کا اضافہ فرما دیا تھا جو کہ لطیفۂ روح پر 15 منٹ کا تھا۔ لطائف والے مراقبہ میں بہت زیادہ خیالات آتے ہیں لیکن صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبہ میں نسبتاً کم ہیں اور concentration کافی ہے، ایک دن ناغہ ہو گیا کیونکہ duty بہت busy تھی۔ ایک مہینے میں کیفیت میں کچھ زیادہ رد و بدل نہیں ہے، لیکن مہینے میں محسوس کیا ہے کہ نماز میں مجھے روحانیت کچھ زیادہ محسوس ہو رہی ہے لیکن ہر نماز میں نہیں۔ ذکر کی طرف زیادہ دھیان ہے کوشش کرتا ہوں کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ذکر کروں، اس لئے جب بھی یاد آتا ہے سب سے زیادہ استغفار، پھر درود شریف پھر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ پڑھتا ہوں۔ گناہوں کی طرف رغبت کم ہے، لیکن ہے ضرور، اگرچہ کمزور سی۔ دین کے معاملات میں کبھی جذبہ بہت بڑھ جاتا ہے اور کبھی زبردستی ذکر اور مراقبہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان منتقل ہونا چاہتا ہوں، لیکن کچھ رکاوٹیں محسوس ہو رہی ہیں اس وجہ سے دینی اور دنیاوی کاموں میں حرج سا محسوس ہوتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ یہ رکاوٹیں اللہ کی طرف سے ہیں یا میری غلط planning کی وجہ سے۔ اعصابی تھکن بھی زیادہ ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ آپ کا ذکر جو صحیح چل رہا ہے اس پہ اللہ پاک کا شکر ادا کریں، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ لطائف میں جو وسوسے آتے ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ لطائف میں انسان کو خود کچھ نہیں کرنا ہوتا، وہ خود ہو رہا ہوتا ہے، کیونکہ جیسے لطائف پہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس طرح اور بھی کچھ ہو رہا ہوتا ہے تو وہ independently ساری چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں، لہٰذا ان کی طرف آپ دھیان نہ کریں آپ اپنے مطلب کی چیزوں کو دیکھیں۔ جیسے کوئی سڑک پہ جا رہا ہو تو سڑک پر تو بہت سارے لوگ آ رہے ہوتے ہیں، لیکن ہمیں جس شخص کو دیکھنا ہوتا ہے ہم صرف اسی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے بعض دفعہ میرے جیسا کوئی شخص ہو اور اس کے سامنے اگر کوئی اور آ بھی جائے تو اگر اس کی کسی خاص شخص کی طرف دیکھنے کی توجہ ہو تو اس کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ میں نے کسی اور کو دیکھا ہے۔ اسی طرح آپ ذکر میں بھی کسی اور طرف قصداً دھیان نہ کریں، خود سے جو آ رہا ہے اس کے ساتھ لڑیں نہیں بس اس کو ignore کریں۔ یہی ignore کرنا ہی اس کا safe طریقہ ہے۔ باقی صفاتِ ثبوتیہ والا تو بہت زبردست مراقبہ ہے کیونکہ اس میں اپنی صفات کے ذریعے سے ہم اللہ پاک کی صفات کو جانتے ہیں اور اپنی صفات تو حضوری ہوتی ہیں تو ان حضوری صفات کے ذریعے سے ہم اللہ پاک جو وراء الوراء ذات ہے اس کی صفات کا ادراک کرنا شروع کر لیتے ہیں، تو یہ اس کا فائدہ ہے۔ کیفیات اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں، کیونکہ کیفیات دل میں ہوتی ہیں اور دل کی کیفیات اوپر نیچے ہو رہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ دل ہر وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے، اس لئے آپ بس اس میں سے صحیح لیتے رہیں اور جو اِدھر اُدھر کی چیزیں ہوتی ہیں ان کی طرف دھیان نہ کریں۔ اللہ جل شانہ مزید کی توفیقات عطا فرمائے۔ پاکستان منتقل ہونے کا جو ارادہ ہے اس بارے میں استخارہ کر لیں۔ باقی اعصابی تھکن ایسی چیزوں میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جب انسان سے کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا ہوتا تو اس میں اعصابی تھکن زیادہ ہوتی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مشورے میں ایک رائے دے رہے تھے تو فرمایا کہ اگر صحیح رائے دے رہا ہوں تو یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط دے رہا ہوں تو میرے نفس کی وجہ سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اس لئے ہمیشہ اچھی چیز کا گمان اللہ کی طرف اور غلط چیز کا دھیان اپنی طرف ہو کہ یہ میری وجہ سے ہے۔
سوال 15:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ حضرت جی میرے ذکر کی ترتیب کچھ یوں ہے: 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘، 400 مرتبہ ’’اِلَّآ اللہ‘‘، 600 مرتبہ ’’اللہُ اللہ‘‘۔ 500 مرتبہ زبان سے خفی طور پر ’’اللہ اللہ‘‘۔ 5 منٹ پانچوں لطائف پر ’’اللہ اللہ‘‘ محسوس کرنا اور 15 منٹ لطیفۂ روح پر صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ کرنا۔ حضرت جی یہ مراقبہ اچھی طرح نہیں ہوا، جو صفات تصوف میں اس مراقبہ میں آ رہی ہیں ان کا دھیان ایک وقت نہیں ہو رہا۔ آپ مزید رہنمائی کر دیں۔
جواب:
در اصل ساری صفات کے دھیان کا مطلب یہ نہیں ہے بلکہ اس میں آپ یہ کریں کہ ان آٹھوں صفات کے بارے میں آپ کے ذہن میں بس ایک دفعہ یہ مستحضر ہو کہ آٹھ صفات کون سی ہیں۔ ان صفات کا جو فیض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے، لہذا آپ یہ نہ کریں کہ ہر ہر صفت کا الگ الگ دھیان کریں، اس سے تو ظاہر ہے tension بنے گی۔ تو بس آپ اس طرح کریں پھر ان شاء اللہ مشکل نہیں ہو گی۔
سوال 16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی گزشتہ ہفتے کی کار گزاری: الحمد للہ فجر سمیت اکثر نمازیں تکبیر اولیٰ سے اور باقی جماعت سے ادا ہوئیں۔ ذکر 200، 200، 200، 5000 ہے، ذکر کے لئے مکمل یکسوئی اور خلوت نہیں ہو پاتی اور قبلہ رخ بیٹھنا ہوتا ہے، چونکہ دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ ہے لہٰذا فجر سے پہلے اس کے بارے میں planning کا سوچ رہا ہوں، آپ نے تاکید فرمائی تھی کہ فی الحال مطالعہ اخبارات وغیرہ موقوف رہے، جس پر عمل ہو رہا ہے لیکن کبھی WhatsApp یا Facebook پر کوئی پیغام یا تحریر، program وغیرہ میں شرکت کی دعوت ہو تو اس پر comment کرتا رہتا ہوں رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
آپ WhatsApp کے لئے ایک وقت مقرر کر لیں مثلاً آدھا گھنٹہ 24 گھنٹے میں، اسی آدھے گھنٹے میں اس کو دیکھ کر اس کا جواب دے دیا کریں۔
سوال 17:
السلام علیکم! حضرت شاہ صاحب میرا ذکر 200، 300، 300 اور 1000 دفعہ تھا۔ ایک ماہ پورا ہو گیا ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اب 200، 400، 400 اور 1000 مرتبہ کر لیں۔
سوال 18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ سے عرض کی کہ عبادات اور ریاضت کا راستہ تو کافی دشوار ہے، کوئی آسان سا راستہ ہو جس میں میں اپنے خالق کو پاؤں۔ تو ان کے شیخ نے حکم دیا کہ ہر وقت دعا میں مشغول رہا کریں، پس حضرت کرخی رحمۃ اللہ علیہ ہر وقت مشغولِ دعا رہتے۔ سوال یہ ہے کہ جو سالک نمازِ تہجد اور دیگر نمازِ نوافل وغیرہ نہیں پڑھ سکتا صرف فرائض کے ادا کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ دعا میں مشغول رہے تو کیا وہ بھی ریاضت کرنے والوں کی طرح اُونچے درجات تک پہنچ سکتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ان لوگوں کے مسلک کی تائید نہیں ہوتی جو عبادت کے بجائے صرف اللہ اور رسول سے محبت کرنے کے قائل ہیں اور عبادات سے رو گردانی کرتے ہیں۔
جواب:
در اصل ہر چیز کا ایک فرض اور واجب درجہ ہوتا ہے اور ایک نفل درجہ ہوتا ہے۔ فرض اور واجب بھی اپنے لحاظ سے ایک جیسے ہیں اور نفل اور سنت بھی آپس میں ایک جیسے ہیں۔ فرائض و واجبات تو سب کے کرنے پڑیں گے ان میں chance نہیں۔ مثال کے طور پر یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ میں معاملات کے فرائض پورے کر لوں اور عبادات نہ کروں، یہ choice نہیں ہے یا عبادات کے فرائض و واجبات پورے کر لوں یا نوافل مستحبات بھی پورے کر لوں اور عبادات و معاملات ٹھیک نہ کروں، تو اس کی choice نہیں ہے۔ فرض اور واجب درجہ ہر چیز کا چاہیے ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے ترک میں مبتلا ہونا تو حرام ہے، چاہے کسی بھی شعبے میں ہو چاہے، وہ عبادات میں ہو، معاملات میں ہو، معاشرت میں ہو، اخلاق میں ہو۔ البتہ یہ اس میں جو نفلی درجہ ہے تو بعض لوگوں کے لئے کسی شعبے کا نفلی درجہ زیادہ بہتر ہوتا ہے اور بعض لوگوں کے لئے کسی درجے کا نفلی شعبہ زیادہ بہتر ہے۔ یہی وہ بات ہے جو ہم تبلیغی جماعت والوں کو سمجھاتے ہیں کہ یہ مختلف شعبے اللہ پاک نے بنائے ہیں، تو کسی کو کسی شعبے میں اللہ پاک زیادہ آگے بڑھا دیتے ہیں، کسی کو دوسرے شعبے میں بڑھا دیتے ہیں، کسی کو تیسرے شعبے میں بڑھا دیتے ہیں۔ کیونکہ سارے ہی شعبوں پر بہت کم لوگ چل سکتے ہیں۔ البتہ ایک یا دو شعبوں پر مختلف لوگ چلتے رہتے ہیں، اللہ پاک نے ان کو وہ نعمت عطا فرمائی ہوتی ہے۔ تو یہ چیز subject to مناسبت ہوتی ہے یعنی جس کو جس کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے وہ اسی شعبے میں کامیاب رہتا ہے۔ پھر یہ مناسبت شیخ ہی جان سکتا ہے یعنی اگر شیخ کے ساتھ رابطہ ہو تو وہ بتا سکتا ہے کہ آپ کیا کریں۔ جس طرح حضرت کو بتا دیا گیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواجہ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کو دعا کا بتایا گیا تھا تو انہوں نے باقی چیزیں چھوڑ دی ہوں گی۔ نہیں! وہ فرائض و واجبات درجے کی ساری چیزیں کر رہے ہوں گے، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انہوں باقی اعمال چھوڑ دئیے ہوں۔ قلندر کی جو تعریف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے انہوں نے فرمایا کہ قلندر قالِبی اعمال میں کثرت کی طرف نہیں جاتا بس وہ واجبی اور ضروری اعمال کرتا ہے، یعنی جو minimum ہیں، وہ کرتا ہے، لیکن قلبی اعمال میں وہ کثرت میں جاتا ہے۔ جبکہ ممکن ہے کہ باقی لوگوں کے لئے وہ reverse ہو۔ اسی وجہ سے قلندروں کے بارے میں لوگ سمجھتے ہیں شاید یہ شریعت پہ نہیں چلتے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ وہ شریعت پہ چلتے ہیں کیونکہ شریعت پہ چلنا تو ہر ایک کے لئے مقرر ہے۔ آپ ﷺ کا طریقہ تو کوئی نہیں چھوڑ سکتا۔ اس وجہ سے یہ بات تو غلط ہے کہ کوئی کسی شعبے کے فرائض و واجبات کو چھوڑ دے۔ البتہ جو نفلی درجہ ہے اس میں choice ہے، وہ کسی کے لئے کوئی ہے، کسی اور کے لئے کوئی اور ہے۔ اس وجہ سے آپ تو ما شاء اللہ علمی ذوق رکھتے ہیں۔ آپ خود اس کے اوپر سوچیں کہ میں نے کیا کہا ہے۔
سوال 19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میرا ایک مہینے کا ذکر الحمد للہ پورا ہو گیا ہے۔ 200 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘، 200 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘، 200 دفعہ ’’حَق‘‘ اور 7500 ’’اللہ‘‘۔ 5 منٹ کے لئے یہ محسوس کرنا تھا کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ کیفیت: اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا جسم ہل رہا ہے لیکن جب غور کرتا ہوں تو اصل میں دل اس طرف دھڑک رہا ہوتا ہے کہ مجھے لگتا ہے جیسے جسم پورا ہل رہا ہو۔ اکثر جب نماز میں التیحات میں بیٹھتا ہوں یا پورے دھیان سے کوئی چیز پڑھ رہا ہوتا ہوں تو اس وقت بھی محسوس ہوتا ہے کہ جسم ہل رہا ہے۔ پچھلے تین مہینوں میں ایک مہینہ معمولات کا chart صحیح بھرا تھا، لیکن اگلے دو مہینے کا chart نہیں بھر سکا۔ اس مہینے ان شاء اللہ پورا بھروں گا۔
جواب:
اللہ تعالیٰ کرے کہ توفیق ہو جائے اور اب آپ 200، 200، 200 اور 8000 مرتبہ اللہ کریں۔
سوال 20:
حضرت!
There are places in the world where any islamic activity such as تبلیغ or مدرسہ is banned to the extent that even learning Arabic is banned. Since it forms the basis for learning Islam so, in such an environment how can تصوف play a vital role for the masses.
جواب:
.Very good question میرے خیال میں اس مسئلے میں ہم Central Asia کے لوگوں سے مدد لیں گے۔ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ ان پر ساری چیزیں ban ہو گئیں، قرآن پاک نَعُوذ بِاللہ مِنْ ذَالِک جلائے گئے، دینی کتابیں جلائی گئیں، کوئی مسجد نہیں جا سکتا تھا، لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا تو وہاں کے لوگوں نے با قاعدہ اپنے basements بنائے اور حالانکہ دن کے وقت ان کو سکولوں میں جانا ہوتا تھا، لیکن رات کو چھپ کے وہ بچے قرآن پاک حفظ کرتے اور دینی کتابیں پڑھتے اور بالکل اپنی یاد سے پڑھاتے تھے۔ یوں ان میں بڑے حافظ پیدا ہو گئے اور نقشبندی طریقہ وہاں پر بہت زیادہ راسخ ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ نقشبندی سلسلے میں ظاہر میں انسان کچھ بھی نہیں ہوتا، اس کے اندر ہی اندر سارا کچھ ہو رہا ہوتا ہے اور یہ توجہ والا سلسلہ جو کہ یہاں پر تو نقصان پہنچا رہا ہے لیکن وہاں فائدہ پہنچا رہا تھا کیونکہ وہاں کے لئے مفید تھا۔ مثال کے طور پر ایک foreman ہے اور ایک labour ہے اور شیخ labour میں ہے اور foreman مرید ہے، یوں با قاعدہ وہ کام کر رہے ہوتے تھے اور کام کے دوران وہ توجہ دے رہے ہوتے تھے، وہاں پر یہ ساری چیزیں چلتی تھیں۔ کیونکہ تصوف کا تو role ایسی جگہوں پہ اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف کی مثال پانی کی سی ہے کہ جیسے پانی اپنے لئے راستہ خود بناتا ہے اگر اس کو روکو گے تو اِدھر اُدھر سے رستہ بنا لے گا چنانچہ کوئی نہ کوئی رستہ بن جائے گا۔ لہذا تصوف ایسی جگہوں کے لئے تو انتہائی درجے کی مفید چیز ہے۔ اسی وجہ سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا نام اور نقشبندی سلسلہ، یہ ان لوگوں کے لئے اسلام کے ساتھ جڑے رہنے کا ذریعہ بن گیا۔ تو یوں ایمانوں کی حفاظت ہو گئی۔ اس وجہ سے ایسی جگہوں پر اس قسم کے طریقوں کو فروغ دینا چاہیے، ہاں طریقہ کار اپنا اپنا ہو گا۔ ایک صاحب تھے ان کو کسی وقت میں ایک بزرگ نے خط دیا کہ ہندوستان کے فلاں شہر میں چلے جاؤ، وہاں پر آپ کو ایک قلعہ نما عمارت مل جائے گی، وہاں فلاں صاحب کا پوچھنا تو وہ لوگ آپ کو وہاں تک پہنچا دیں گے، تو میرا خط ان کو پہنچا دینا، وہ جب وہاں پر گئے تو قلعہ نما عمارت میں ہر طرف بر آمدے تھے اور بر آمدوں میں بت پرست بتوں کی پوجا کر رہے تھے، وہ بڑے حیران ہو گئے کہ میں ادھر کیسے آیا ہوں، یہاں بزرگ کیسے ملیں گے؟ خیر انہوں نے بت پرستوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ہمارے گرو ہیں اور ہم ان سے مل نہیں سکتے، ہم آپ کو اگلے session میں لے جاتے ہیں وہاں سے آپ پوچھ لیں تو وہ ان کو آگے session میں لے گئے تو وہاں لوگ صرف گیان دھیان میں بیٹھے تھے، بتوں کو سجدہ نہیں کر رہے تھے، بس گیان دھیان میں چپ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ تو ہمارے گرو ہیں ہماری ان سے ملاقات نہیں ہوتی البتہ ہم آپ کو اگلے session میں اپنے لے جاتے ہیں، وہ ان کے ساتھ گئے تو وہاں دیکھا کہ لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں، انہوں کہا کمال ہے یہ کیا ہو گیا! باہر یہ اور اندر یہ۔ خیر ان سے انہوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے شیخ ہیں آپ اندر چلے جائیں، اندر ایک ہال تھا جس میں تخت پڑا ہوا تھا اور تخت کے اوپر وہ شیخ بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ چار پانچ آدمی بیٹھے قرآن پاک کا درس سن رہے تھے۔ اب تو وہ اور بھی حیران ہو گئے، جا کر ان کو خط پہنچا دیا اور انہوں نے خط کا جواب بھی دے دیا۔ انہوں نے کہا: حضرت جواب تو مل گیا، لیکن ایک سوال میرے ذہن میں آیا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ باہر بت پرست تھے اور آگے آپ قرآن پاک پڑھا رہے ہیں، یہ کس طرح ہے؟ کہا بیٹا جب میری تشکیل ادھر ہوئی تو یہاں کوئی بھی توحید کی بات کے لئے تیار نہیں تھا، یہاں سب بت پرستی تھی جیسے آپ نے باہر دیکھا ہے۔ تو میں نے پھر یہ technique شروع کر دی کہ آؤ میں آپ کو طریقہ سکھا دوں امر ہونے کا۔ یوں ان کو بلا لیتا ہوں تو پھر یہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، پھر ان کا ہم امتحان لیتے ہیں جو ذرا ہمارے قریب نظر آتے ہیں تو ہم ان کو پاس کر لیتے ہیں باقیوں کو کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے آپ چلے جائیں جو آپ کو ملنا تھا وہ مل گیا ہے۔ پھر ہم ان کو گیان دھیان پہ کراتے ہیں کہ اب تمہارا کام اس طرح سے ہو گا پھر جب ان کا امتحان لیتے ہیں تو ان میں جو ہمارے مقصد کے ہوتے ہیں ان کو ہم لے لیتے ہیں باقیوں کو کہتے ہیں بس ٹھیک ہے آپ چلے جائیں اور ان کو ہم مسلمان کر لیتے ہیں۔ ان کو پھر نماز پڑھاتے ہیں۔ ان کو جب دیکھتے ہیں تو پھر چونکہ وہ عام مسلمان بن جاتے ہیں لیکن ان میں پھر ہم امتحان کرتے ہیں کہ کون عالم بن سکتا ہے تو پھر ان میں سے کچھ کو چن لیتے ہیں ان کو اپنے پاس بٹھا لیتا ہوں، ان کو قرآن سناتا ہوں اور انہیں میں دین پڑھاتا ہوں۔ یہ میرے ساتھ جو چار پانچ لوگ بیٹھے ہیں وہ یہی ہیں، ہم لوگوں کے لئے بظاہر یہ ایک عجوبہ نظر آتا ہے لیکن آپ میری اس بات سے بھی زیادہ حیران ہوں گے کہ Freemasons کا طریقہ یہی ہے کہ وہ اسی طریقے سے دوسری direction میں کام کر رہے ہیں، وہ مختلف شعبوں کے لوگوں کو لے لیتے ہیں، ان کی کانفرنسیں اور دیگر تمام چیزیں کروا کے پھر ان میں سے کچھ افراد کا select کرتے ہیں، با قاعدہ ان کے نمبر ہوتے ہیں تو وہ آگے نمبر دے دیتے ہیں اور وہ جو آگے نمبر پہ چلے جاتے ہیں تو وہ ان کو کچھ چیزوں میں share کر لیتے ہیں، ان کو اس کے کچھ benefits ملتے ہیں، یوں وہ آگے نمبر پہ بڑھتے رہتے ہیں آخری نمبر پہ پہنچ کر بالکل ایمان سے فارغ ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے tool بن جاتے ہیں۔ لہذا وہ اس طریقے پر چل رہے ہیں اور پوری دنیا میں اپنا نظام قائم کئے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے کوئی اتنی صلاحیت والا نہیں ہے کہ اس طرح کر لے۔ تصوف مستقل ایک Dynamic system ہے جو اپنا راستہ خود بناتا ہے۔
Why should not one follow?
سوال 21:
I hope حضرت is well and the family! I wanted to ask حضرت these questions. No 1: what is meant by نسبت اتحادی when a سالک becomes one with the شیخ and is it possible in today’s time.
جواب:
نسبت اتحادی is very rare, and we don’t know whether it will be possible nowadays or not because it is in the hand of اللہ سبحانہ تعالیٰ.
اللہ knows better. But it is very very rare نسبت. But it can be because اللہ سبحانہ تعالیٰ is قادر. He can do anything he wants at any time.
سوال 22:
حضرت مجدد has started in one of his مکتوبات that an incomplete شیخ is harmful for a سالک that there is the possibility for the سالک not to regain purity from the position of the شیخ. What does حضرت مجدد mean and how can it affect the سالک?
جواب:
Yes. because he has told about مجذوب متمکن۔ مجذوب متمکن is that person who gets جذب but he does not perform or complete سلوک. So, without that he is incomplete because actually تزکیہ نفس is best on سلوک and تصفیہ قلب is best on جذب and تصفیہ قلب cannot be maintained if تزکیہ نفس is not achieved because it is again and again disturbed by نفس because خواہشات are generated in نفس and it’s effect is accumulated in the heart so therefore if خواہشات are present in the نفس and one has not made it مہذب so that will not allow قلب to remain better or pure. So therefore, one has to control his نفس and suppress its رذائل for this purpose. Otherwise his heart will never be cleaned دائمی. So therefore it is essential. So, a person who is مجذوب متمکن, he is not complete شیخ.
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ said he is not reached his position and cannot make other reach that position.
سوال 23:
We see many people getting خلیفہ and becoming مشائخ but later on they become involved in دنیا using people for material gains. How is it possible for his شیخ to give such a person خلافت and to train others in سلوک while the person is not truly reformed?
جواب:
Actually this also happens in such people who are not complete مشائخ. So they do not know the actual people. So therefore they grant خلافت to those people who are not capable of this. So, we should practice ourselves in order to reach that position where سیر الی اللہ is complete and then سیر فی اللہ should be continued till the extent that اللہ سبحانہ تعالیٰ accepts us and uses us for correction of other people. So this is from اللہ سبحانہ تعالیٰ because فنا is from our side we should make our self فنا and بقا is from the side of اللہ .اللہ accept it, and then he make it بقا باللہ. So therefore, we should do that much effort that اللہ سبحانہ تعالیٰ accepts us and uses us for the betterment of the other people. May اللہ سبحانہ تعالیٰ grant us this توفیق !
سوال 24:
السلام علیکم
Sir, is this contact number belongs to Syed Shabbir Ahmad Kakakhail?
جواب:
Yes, it belongs to Syed Shabbir Ahmad Kakakhail.
سوال 25:
Sir, I am a maternity student from Lahore. In June 2020, I contacted a person in Australia who is running a page with the name of impact therapy. I was depressed and at that time I asked him to help me. He guided me well and told me to do وظیفہ of third کلمہ طیبہ for 500 times and break down half 300 times and half 200 times in a fixed time for 40 days. In my fourth attempt I completed my وظیفہ last night and I told them that I have completed the task you had given to me six months ago. they asked me to contact you Sir, for next guidance. Kindly guide me about the next step. Regards Dr. فلاں.
جواب:
ما شاء اللہ, you have completed that وظیفہ and I think I should tell you the next and that is, you should just understand complete thirdکلمہ
100 times,
‘‘ صلوۃ علی النبی یعنی درود ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ this is 100 times,
and استغفار, it means ‘‘اَسْتَغفِرُ اللهَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ’’ this is 100 times. It will be forever ان شاء اللہ daily and besides this, you have to complete daily 100 times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ’’. This should be for 100 times with the same sound I am repeating ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو’’ hundred times, ‘‘حَقْ، حَقْ، حَقْ’’ hundred times, ‘‘اَللہ اَللہ، اَللہ’’ hundred times and can you please tell me the name of the person who gave you that ذکر? It is for one month and after one month you will ان شاء اللہ contact me again.
سوال 26:
حضرت یہ جو ذکر جہری کروایا جاتا ہے، اس میں کیا کیا نیت ہونی چاہیے مثلاً پہلے دوسرے تیسرے چوتھے step میں؟
جواب:
ما شاء اللہ! میں سوال دوبارہ repeat کرتا ہوں کیونکہ اہم سوال ہے۔ جو ذکرِ جہر ہم کرتے ہیں اس کے ساتھ کیا سوچیں تاکہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے، گویا وہ ایک مراقبہ بن جائے۔ در اصل مختلف حضرات نے مختلف طریقے بتائیں ہیں، لیکن تقریباً چیز ایک ہی بنتی ہے ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ کے ساتھ یہ تصور کرنا کہ دنیا کی محبت دل سے نکل رہی ہے اور ’’اِلَّا اللہ‘‘ کے ساتھ یہ تصور کہ اللہ پاک کی محبت دل میں آ رہی ہے، یہ پہلے ذکر کا مطلب ہے۔ دوسرا جو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘ ہے کہ کوئی نہیں مگر وہ، اس ذکر میں ’’ھُو‘‘ میں اس کی طرف توجہ کرنا ہے کہ ھُو کون ہے۔ اس میں انسان کی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس میں اسم بھی شامل نہیں ہے۔ پھر ’’حَق‘‘ ہے، تو اس میں یوں کریں کہ پہلے ایک دفعہ پڑھ لیں: ﴿وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ (الإسراء: 81) جیسے آپ ﷺ یہ آیت پڑھتے تھے اور بت گراتے تھے تو یہ ہمارا دل بھی کعبہ ہے، تو یہ تصور کریں کہ اس میں دنیا کی محبت کے جو بت پڑے ہوئے ہیں وہ سب ’’حَقْ حَقْ‘‘ کے ساتھ گر رہے ہیں۔ اور پھر ’’اللہ اللہ‘‘ کے ذکر کے ساتھ یہ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا دل بھی محبت کے ساتھ ’’اللہ اللہ‘‘ کر رہا ہے۔ یہ ابتدائی طور پر ہے پھر بعد میں جب آگے بڑھتا ہے تو مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
سوال 27:
حضرت جی یہ مسلمین اور مومنین کا ذکر قرآن میں آتا ہے۔ ان کے درمیان کیا فرق ہے؟
جواب:
ایمان اور اسلام میں جو فرق ہے بس ان میں بھی یہی فورق ہے۔ ’’مَا الإِيْمَانُ؟ مَا الإسْلَامُ؟‘‘ یہ سوال آپ ﷺ سے کیا گیا تھا اور آپ ﷺ نے اس کا جواب بھی دیا تھا۔ لہذا جو ایمان والے ہیں وہ مومنین ہیں اور جو اسلام پر عمل کر رہے ہیں وہ مسلمین ہیں۔
سوال 28:
حضرت جی رابطہ شیخ کی ضرورت کب تک پڑتی ہے؟
جواب:
سبحان اللہ! جس وقت تک فنا حاصل نہیں ہوتی اس وقت تک تو کم از کم لازمی ہے اور جب فنا حاصل ہو جائے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے پھر بقا باللہ کے ساتھ اللہ پاک اس کے محافظ ہوتے ہیں اور پھر اللہ پاک کی طرف رہنمائی ایسی ہوتی ہے لیکن پھر بھی شیخ کے ذریعے سے مختلف حالات میں اس کی help کی جاتی ہے جیسے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے خلفاء کو بتایا کرتے تھے اور وہ بھی contact کرتے رہتے تھے، حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ان کے خلفاء پوچھتے رہتے تھے اور وہ ان کو بتاتے رہتے تھے، تو یہ اس پر depend کرتا ہے کہ بعض دفعہ خلیفہ اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ان میں صلاحیت ہوتی ہے، اگرچہ ابھی تکمیل نہیں ہو چکی ہوتی، لہذا ایسی صورت میں تو ان کو یقیناً ضرورت ہوتی ہے، لیکن چونکہ ان کی position ایسی ہوتی ہے کہ ان کو خلافت اگر دی جائے تو دوسرے لوگوں کو اس سے فائدہ ہو گا تو ان کو گویا کہ کام پہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب کام پہ لگا دیا جاتا ہے تو پھر ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق ان کو سمجھایا جاتا ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ آج کل کے خلفاء تقریباً اسی stage پر ہی ہوتے ہیں کہ ان کو ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حد تک purity ہونا آج کل ذرا مشکل میں ہے۔ اس وجہ سے ان کو ضرورت پڑتی رہتی ہے اور مشائخ کو ان کو guide کرنا ہوتا ہے اِلَّا مَا شَاءَ اللہُ یعنی اللہ تعالیٰ اگر کسی کے لئے special حالات بھیج دے تو علیحدہ بات ہے وہ پھر مشائخ کو بھی پتا چل جاتا ہے کہ اب اس کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آج کل اکثر و بیشتر صورتِ حال ایسی ہے کہ صلاحیت بھی ہوتی ہے اور حالات میں کام بھی کر سکتے ہیں لہٰذا ان کو اس اصول پر خلافت دے دی جاتی ہے، لیکن ان کو چلانا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہونا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تک شیخ زندہ ہے تو یہ ایک opportunity ہے، اس opportunity سے فائدہ اٹھانے میں پختگی آتی ہے۔ لیکن جب اپنا شیخ نہ ہو تو پھر اللہ پاک بند و بست فرما دیتے ہیں۔ جیسے اکثر ہمارے حضرات مشائخ اور علماء بھی کہتے ہیں کہ: ’’کَبَّرَنِیْ مَوتُ الْکُبَرَاءِ‘‘ ’’بڑوں کی موت نے مجھے بڑا بنا دیا‘‘ یعنی جب بڑے نہیں رہتے تو بعد والے بڑے بن جاتے ہیں۔ جیسے بچوں کا معاملہ ہے کہ وہ بے پروا ہوتے ہیں لیکن جب والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے تو پھر ان کو پروا کرنی پڑتی ہے، پھر وہی کام جو باپ کرتا ہے وہ خود کرنے ہوتے ہیں، پھر سیکھ بھی لیتے ہیں، سمجھ بھی جاتے ہیں اور پھر کرتے بھی ہیں۔ لیکن اگر باپ کی زندگی میں باپ کے مشورے سے کام کرتا رہے تو وہ ساری چیزیں properly ان کو منتقل ہو جاتی ہیں اور بعد میں اگر وہ سہتا ہے تو اس کے اوپر خود سیکھنے میں load زیادہ ہوتا ہے۔
سوال 29:
حضرت جی میں یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ شیخ کی ضرورت جو آج کے دور میں جیسے ہم سمجھتے ہیں کہ بہت زیادہ ہے، کیونکہ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اس لئے ہر چیز کے لئے ایک guidance کی ضرورت ہوتی ہے، بندہ کسی بھی profession کے اندر ان سے contact کرتا ہے اور اپنے اندر وہ اس چیز میں excel کرتا ہے۔ تو یہ جو شیخ کی ضرورت ہے میں اس Point of view سے آپ کی guidance لینا چاہ رہا تھا کہ اس کے لئے کبھی کوئی احکامات بھی تھے یا کوئی ایسی چیز ہے کہ جیسے کہا گیا ہو کہ نبی پاک ﷺ کے بعد آپ کو ضرور ایک preacher کی ضرورت ہے، ایک teacher کی ضرورت ہے یا یہ بعد میں ایک requirement بنی کہ چونکہ نبی ﷺ سے جتنا زمانہ دوور ہوتا گیا لوگوں کے بے راہ روی کا شکار ہونے کے زیادہ chances ہوتے گئے اور پھر شیخ کی ضرورت پڑی کہ شیخ کے ساتھ رابطہ رکھا جائے۔
جواب:
یہ سوال تو بالکل صحیح ہے لیکن یہ theoratical سے زیادہ practical سوال ہے کیونکہ اس کی practical اہمیت ہے، theoretical اس کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ اس کو theoretical سمجھتے ہیں unnecessary بہت details میں چلے جاتے ہیں اور اگر کوئی اس کو practical سمجھے تو دو باتوں میں معاملہ clear ہو جاتا ہے۔ ایک بات یہ کہ عملی طور پر انسان میں confidence اس وقت تک نہیں آتا جب تک practically اس کو کوئی چیز سکھائی نہ جائے۔ دوسری بات جیسے driving ہے یا دوسری چیزیں ہیں ان سب میں ہم لوگ guidance لیتے ہیں حتیٰ کہ Medical profession میں 5 سال پڑھتے ہیں، 5 سال پڑھنے کے با وجود ان کو اس وقت تک practice کی اجازت نہیں ہوتی جب تک وہ ایک سال کی House job نہ کر لیں۔ تاکہ وہ بڑے ڈاکٹروں کے ساتھ، ان کے سامنے practice کر کے qualify کر دیں کہ اب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ اب خود independently علاج کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آگے دوسروں کی زندگی ہے، آپ دوسروں کی زندگی اس کے اوپر کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ اور پھر یہ جسمانی زندگی ہے یہ important ہے، لیکن روحانی زندگی جس میں ایمان کا مسئلہ ہے وہ تو اس سے بھی زیادہ important ہے۔ تو آپ کسی کو اختیار کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کے ایمان اور ان تمام چیزوں کو چھیڑے جب تک وہ خود اپنی اصلاح نہ کروا لے، جیسے ابھی بات ہو رہی تھی۔ جہاں تک اپنی اصلاح ہے تو بے شک medical کی تمام کتابیں آپ کے پاس library میں موجود ہوں، بلکہ آج کل تو mobile پر سب کچھ ہوتا ہے، اس لئے وہ ساری کتابیں جو medical میں پڑھی جاتی ہیں mobile پر موجود ہیں، لیکن کیا اپنا علاج کوئی خود کرتا ہے؟ اپنا علاج کوئی خود نہیں کرتا، بلکہ علاج کے لئے دوسرے کے پاس جانا پڑتا ہے، حتی کہ جب ڈاکٹر بیمار ہوتا ہے تو وہ بھی دوسرے ڈاکٹر کو consult کرتا ہے۔ میں نے خود ڈاکٹروں سے سنا ہے کہ ہم بیمار ہو گئے اور ہم اپنے علاج سے ٹھیک نہیں ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں جب ہم نے ارادہ کیا کہ اب ہم خود اپنا علاج نہیں کریں گے تو اپنے دوست ڈاکٹر، برابر کے ڈاکٹر، class fellow ڈاکٹر کو telephone پر سارا کچھ بتایا اور ان سے کہا کہ اب اگر آپ پانی بھی بند کریں گے تو میں پانی بھی نہیں پیوں گا۔ لہذا انہوں نے جب علاج شروع کیا تو میں ٹھیک ہو گیا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے شیخ گزرے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ایک حکیم کے پاس گیا، اس وقت حکیموں کا دور تھا، ان کو جاڑے کا بخار آتا تھا۔ انہوں نے نسخہ لکھ دیا میں نے وہ پنساری سے بنوا لیا، استعمال کیا تو ٹھیک ہو گیا، میں نے سوچا یہ تو بڑا اچھا نسخہ ہے لہذا میں نے اپنے پاس محفوظ رکھ لیا کیونکہ یہ بیماری تو اسی موسم میں بار بار آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگلی دفعہ جب بیمار ہوا تو میں نے وہ نسخہ بنوا لیا اور کھا لیا لیکن ٹھیک نہیں ہوا، تو میں اسی حکیم کے پاس چلا گیا اور میں نے اسے کہا کہ حضرت یہ دوا آپ نے پچھلی دفعہ دی تھی تو اس کو میں نے استعمال کیا تھا تو ٹھیک ہو گیا تھا، لیکن اس دفعہ استعمال کیا تو ٹھیک نہیں ہوا۔ اس حکیم صاحب نے کہا اچھا دیکھ لیتے ہیں، جب نبض دیکھی تو کہتے ہیں اچھا اس دفعہ صفرا کچھ زیادہ آیا ہوا ہے، چلو ٹھیک ہے اس کو ٹھیک کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اس نے صرف نسخے کی ایک چیز میں تھوڑی سی تبدیلی کی، اس کا ایک جزو کم یا زیادہ کر دیا اور فرمایا اب بنا لو۔ کہتے ہیں اس سے میں ٹھیک ہو گیا۔ اب یہاں سے اس کی افادیت سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی خود اپنے آپ کو judge کرنا It is very very difficult کیونکہ Faulty meter کے ساتھ کسی چیز کو آپ measure نہیں کر سکتے کیونکہ میرا meter اگر faulty ہو تو میں کیسے judge کر سکتا ہوں کہ مجھے کیا ہے، confirm بات ہے کہ جو متکبرین ہیں ان کو اپنا تکبر نظر نہیں آتا۔ جب کہ دوسروں کو کھلی آنکھوں سے نظر آتا ہے، دوسرا آدمی اس پہ قسم بھی کھا سکتا ہے کہ یہ متکبر ہے اور وہ کبھی بھی نہیں مانتا اور جب اس کی اصلاح ہو جاتی ہے تو پھر کہتا ہے کہ میں متکبر ہوں۔ حالانکہ اس وقت وہ متکبر نہیں ہوتا، لیکن اس وقت وہ اپنے آپ کو متکبر سمجھنے لگتا ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ اب اس کی آنکھیں بدل گئیں، meter بدل گیا، نظام بدل گیا۔ لہٰذا وہ مانتا ہے۔ اب بتائیے اگر کوئی آدمی شیخ کے پاس نہیں جاتا، کتابیں بے شک اس کے پاس ہیں، وہ اپنے Faulty meter کے ساتھ کیسے علامات صحیح دیکھے گا اور سمجھے گا اور کیسے اس کے مطابق صحیح علاج کرے گا؟ یہ نا ممکن ہے۔ تو یہ عملی چیز ہے اور عملی طور پہ develop ہوئی ہے، صحابۂ کرام کو اس چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ صحابۂ کرام کی اصلاح آپ ﷺ کے قلبِ اطہر کی روشنی سے ہو گئی تھی، لیکن ان کو احساس اتنا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ بیت المال کی بوریاں خود اٹھانے لگے تو ساتھیوں نے کہا کہ حضرت کیا کر رہے ہیں، بیت المال کے حضرات موجود ہیں۔ فرمایا کچھ وفد کے لوگ آئے تھے ان کے ساتھ بحیثیتِ امیر المومنین میں نے بات چیت کی ہے تو اس کا نفس پہ اثر پڑا ہے، میں اس کو دور کرنا چاہتا ہوں۔ اب دیکھیے کسی نے ان کو بتایا نہیں، لیکن ان کا خود اپنا نفس اس حد تک sensitive تھا کہ فوراً guess کر لیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا کہ حضرت آپ بیت المقدس جا رہے ہیں مہربانی کر کے ایک جوڑا ایسا زیب تن کر لیں جس سے کم از کم آپ کو وہ حقیر نہ سمجھیں۔ فرمایا ہاں عقلمندی کی بات ہے، پھر فرمایا: میرے پاس ایسے جوڑے نہیں ہیں، انہوں نے کہا حضرت اگر میں پیش کر دوں؟ انہوں نے کہا اچھا لے آئیں۔ جب وہ لے کر آئے تو وہ جوڑا پہن لیا، لیکن تھوڑی دیر گزری تھی کہ کہنے لگے اوہ! معاویہ یہ لے لو واپس۔ اس نے تو میرے دل کو اپنے آپ میں مبتلا کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے دل کا اتنا خیال رکھتے تھے۔ اب ایسے حضرات کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن پھر تابعین میں کچھ ضرورت پڑ گئی تو تابعین ہی کے دور میں خانقاہیں شروع ہو گئیں، یعنی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں ہی خانقاہی نظام شروع ہو گیا تھا۔ پھر ان کے ایک خلیفہ شیخ عبد الواحد، جو تبع تابعی ہیں، ان کے دور میں 12000 خانقاہیں تھیں۔ اس طریقے سے پھر خانقاہیں بڑھتی رہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ ہمارے چاروں کے چاروں امام صوفی ہیں اکثر لوگوں کو پتا نہیں ہے، تو ان کو ضرورت تھی، وہ محسوس ضرورت کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا تھا کہ وہ دو سال جو میں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ لگائے ہیں اگر نہ لگاتا تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔ امام صاحبؒ نے 4000 استادوں میں کسی ایک کا بھی نام نہیں لیا، لیکن ایک شیخ تھا اور انہی کا نام لے لیا کہ اگر وہ نہ ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا۔ گویا یہ چیز اتنی important ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، جتنے بھی مشہور حضرات ہیں، جن سے دین کا کام ہوا ہے، تاریخ پہ نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے، میں آپ کو بتا دوں گا کہ وہ کس سے بیعت تھے اور کس کے خلیفہ تھے اور کس نے کس طرح کام کیا ہے، یہ سب موجود ہے، recorded ہے۔ یہ تو آج کل کا دور ایسا آ گیا ہے کہ ہم ذرا دوبارہ نئے سرے سے اس پہ سوچنا شروع کر چکے ہیں، اس وقت یہ بالکل pure plaint قسم کی بات تھی جس میں کوئی سوچتا بھی نہیں تھا، جس طرح بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اس طرح تربیت بھی ایک لازمی امر تھا اور اس کے لئے لوگ چلتے تھے اور با قاعدہ قافلے میں جاتے تھے۔ اس لئے اگر ہم لوگ ذرا تھوڑا سا دیکھیں تو یہ practical چیز ہے اور practically سمجھا جا سکتا ہے۔
سوال 30:
حضرت ﴿کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن﴾ (التوبۃ: 119) کا مفہوم کیا ہے؟
جواب:
یہ تو قرآن پاک کا حکم ہے لیکن اس کو لوگ صحبتِ صالحین پر بھی محمول کر سکتے ہیں۔
سوال 31:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اور آخرت میں خیر و عافیت نصیب فرمائے۔ مندرجہ ذیل طالبات نے علاجی اذکار ایک ماہ کے لئے مکمل کئے۔ براہِ کرم آئندہ کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
نمبر 1:
چونکہ ان کے نام درج ہیں تو ان کا نام میں نہیں لیتا، اس لئے نمبروں کے حساب سے ان کو بتاتا ہوں۔
تمام لطائف پر ذکر 5 منٹ اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ 15 منٹ۔
جواب:
اب اسی طرح آپ تمام لطائف پر ذکر 5 منٹ جاری رکھیں اور اگلا (چوتھا) مراقبہ تنزیہ یعنی صفاتِ سلبیہ والا مراقبہ شروع کر لیں۔
نمبر 2:
ذکر کے دوران کچھ نہیں، لیکن روحانیت اور عقیدے میں بہتری محسوس ہوتی ہے۔ اکثر دوران گفتگو زبان سے بے اختیار نکل جاتا ہے کہ اللہ کی شان ہے۔
جواب:
سبحان اللہ بڑی بات ہے ما شاء اللہ! تاہم اگر اس دوران ہو تو وہ ایک limited چیز ہو گئی، لیکن اگر اس کا آپ کی پوری زندگی پہ اثر پڑ رہا ہے تو یہ بڑی بات ہے۔
نمبر 3:
تمام لطائف پر ذکر 10 منٹ اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ 15 منٹ۔ ان کو بھی مندرجہ بالا تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔
جواب:
سبحان اللہ! بڑی اچھی بات ہے ان کو بھی بتا دیں کہ تمام لطائف پر ذکر اسی طرح جاری رکھیں اور مراقبہ تنزیہ شروع کر لیں۔
نمبر 4:
تمام لطائف پر ذکر 10 منٹ اور مراقبہ تجیلیاتِ افعالیہ 15 منٹ۔
جواب:
ان کا ذکر تو وہی رکھیں اور مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ کا 15 منٹ کا دے دیں۔
نمبر 5:
لطیفۂ قلب پر ذکر 20 منٹ کے لئے، محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب لطیفۂ قلب پر 10 منٹ رکھیں اور 15 منٹ لطیفۂ روح پر رکھیں۔
نمبر 6:
لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ احدیت 15 منٹ۔
جواب:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر رکھیں اور مراقبہ تجیلیاتِ افعالیہ دل پر 15 منٹ کا کریں۔
نمبر 7:
لطیفۂ قلب 15 منٹ اور ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
لطیفۂ قلب پر 10 منٹ کر لیں اور لطیفۂ روح پر 15 منٹ۔
نمبر 8:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ 15 منٹ۔
جواب:
تمام لطائف پر ذکر اتنا ہی رکھیں اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ کا 15 منٹ کریں۔
نمبر 9:
ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا ہے۔
جواب:
الحمد للہ! اب ان کو 10 منٹ کا لطیفۂ قلب والا مراقبہ بتا دیجیے گا۔
نمبر 10:
ان طالبات نے ابتدائی وظیفہ بہت پہلے پورا کیا تھا لیکن پھر corona کی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے اگلا وظیفہ نہیں لیا تھا اب اگلا وظیفہ لینا چاہتی ہیں۔
جواب:
یہ طالبہ مجھ سے خود فون پر بات کر لے کیونکہ میں اس کی condition دیکھ کر ہی میں کچھ کہہ سکوں گا۔ کیونکہ ابھی مجھے بات نا مکمل محسوس ہو رہی ہے۔ ورنہ مجھے پوری تفصیلات سے آگاہ کر دیں۔
نمبر 11:
اس بچی نے ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا تھا تاہم اس کے بعد آپ نے 300 مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ العَظِیم‘‘ پڑھنے کا دیا تھا، پھر لا علمی کی وجہ سے بچی نے وظیفہ تبدیل نہیں کیا تھا۔ جب پتا چلا کہ ان کو وظیفہ پورا ہونے کے بعد دوسرا وظیفہ لینا تھا تو اب وہ دوسرا ذکر مانگ رہی ہیں۔
جواب:
اب ان کو 5 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب والا مراقبہ بتا دیں اور تینوں اذکار بھی۔
نمبر 12:
بہت سی بچیاں عمر میں دس سال سے بڑھ گئی ہیں اور پابندی کے ساتھ 100 مرتبہ درود شریف پڑھ رہی ہیں۔
جواب:
اب ان کو 1500 مرتبہ درود شریف بتا دیں۔
نمبر 13:
کھانے کی پندرویں سنت کا اجراء مکمل ہو گیا ہے۔ الحمد للہ سولہویں سنت سکھا دی گئی ہے۔
جواب:
بہت اچھا ما شاء اللہ۔
نمبر 14:
نزولِ رحمت کا تصور 30 منٹ، اس سے اوپر کے 15 منٹ تصور، پھر تھوڑی دیر کے بعد 15 منٹ محسوس ہونا شروع ہوتا ہے۔
جواب:
الحمد للہ! اب اس کو اگلا لطیفہ یعنی لطیفۂ قلب 15 منٹ کا دے دیں۔
نمبر 15:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور 15 منٹ مراقبۂ احدیت۔
جواب:
اس کو مراقبۂ تجیلیاتِ افعالیہ دے دیں اور باقی ذکر وہی رہے گا۔
نمبر 16:
لطیفۂ قلب 15 منٹ۔
جواب:
اب لطیفۂ قلب 10 منٹ رکھیں اور لطیفۂ روح 15 منٹ۔
نمبر 17:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ اور لطیفۂ خفی 15 منٹ۔
جواب:
اب ان کو 10، 10 منٹ کے سارے لطائف اور مراقبۂ احدیت دے دیجیے گا۔
(نوٹ) نمبر 9 میں آپ نے جو بتایا ہے تو جو دماغی کمزوری والی ہیں وہ تو بات کر لیں اور جو normal ہیں ان کو اگلا وظیفہ دے دیجیے گا یعنی جنہوں نے ابتدائی وظیفہ پورا کیا ہے تو اب ان کو 10 منٹ دل والا بتا دیجیے گا۔
سوال نمبر 32:
السلام علیکم! حضرت اصلاح کی نیت سے مزارات پر جانا کیسا ہے؟
جواب:
نفس کی اصلاح کے لئے مزار پہ نہیں جانا ہوتا، اس کے لئے شیخ کے پاس جانا ہوتا ہے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين۔